یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کتاب سے زیادہ ہمدرد، غم خوار اور وفادار دوست کوئی نہیں ہو سکتا۔ ایک بہترین دوست میں جن خوبیوں کے ہم خواہاں ہوتے ہیں وہ صرف کتاب میں موجود ہوتی ہیں۔ حیاتِ مستعار کے مختلف ادوار میں دوست تبدیل ہوتے رہتے ہیں مگر مطالعہ ہمارا ایسا باوفا رفیق ہے جو بچپن، جوانی اور بڑھاپے میں یکساں ہماری غم گساری و ہمنوائی کرتا رہتا ہے۔ کتاب غموں کی جھلستی دھوپ میں خنک چھاؤں کی مانند ہے۔ کتاب تاریکیوں میں نور افشاں ہے۔ کتاب مایوسیوں میں امید کی کرن ہے۔ کتاب دورِ حاضر کی پُرخار وادیوں میں ہموار راستہ ہے۔ کتاب زندگی کی بھول بھلیوں میں بہترین رہنما ہے۔ کتاب جِلا بخش ہے۔ کتاب ہی انقلاب آفریں ہے۔ تاریکیوں سے روشنی، مایوسیوں سے امید، خرافات سے اخلاقیات، اور فضولیات سے تخلیقات کا سفر کتاب کے ذریعے ہی ممکن ہوسکتا ہے۔
انسانی جسم کو زندہ رہنے کے لیے خوراک، اور روحانی تربیت کے لیے کتاب دوستی کی ضرورت ہے۔ کتاب کے ساتھ انسان کا تعلق اتنا ہی پرانا ہے جتنا انسان کا شعور اور آگاہی کے ساتھ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں صرف 19 فیصد لوگ کتاب دوست ہیں، جب کہ 73 فیصد کتاب سے نابلد ہیں۔ کتب بینی کے اس دم توڑتے رجحان کے ذمے دار حکومت سے لے کر عام شہری تک سب ہیں۔
ہمارے معاشرے میں کتاب کو جس طرح فروغ دینا چاہیے تھا، اس طرح نہیں دیا گیا۔ ہماری حکومتوں کی ترجیحات میں کتاب کبھی بھی نہیں رہی۔ دیگر ممالک میں کتاب کلچر کو فروغ دینے کے لیے لائبریریاں ہوتی ہیں۔ بچپن سے ہی کتابوں کا شوق پیدا کیا جاتا ہے۔ جب کہ ہمارے ہاں بیسیوں لائبریریاں ایسی ہیں جو ویران ہیں۔ حکومت یا تو فنڈ جاری نہیں کرتی، اور کرے بھی تو بدعنوانی کی نذر ہوجاتے ہیں۔ جس طرح کتاب کلچر کو فروغ نہیں دیا گیا، اسی طرح ہمارا نظام تعلیم بھی کتاب سے محبت نہیں سکھاتا۔ طلبہ میں کتاب کی اہمیت اجاگر کرنے کے بجائے انہیں یہ سکھایا جاتا ہے کہ محض نوکری کے لیے ڈگری لینا مقصد ہے۔ رٹا سسٹم کو فروغ دے کر طلبہ کو محض نمبر بنانے والی مشین بنادیا گیا ہے۔ قاری کے حوالے سے بھی وہ ماحول پیدا نہیں کیا گیا جو کتب بینی کی ترغیب دے۔ اسے ذاتی سطح پر معاشی اعتبار سے اس طرح الجھا دیا گیا ہے کہ کتاب اس کی ترجیح نہیں رہی۔ حکومتی سطح پر پبلشرز کی بھی سرپرستی نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے کتاب چھاپنا اور خریدنا دونوں مشکل ہیں۔
نوجوان نسل میں کتب بینی کا شوق پیدا کرنے کے لیے ہر سطح پر اقدامات کرنے ہوں گے، تاکہ انفرادی رویوں میں تبدیلی لائی جا سکے۔ عالمی یومِ کتاب کے موقع پر کتب بینی کے حوالے سے تعلیمی اداروں میں تقریبات منعقد کرکے طلبہ میں کتب بینی کی اہمیت اُجاگر کرنی چاہیے۔ والدین بچوں میں چھوٹی عمر سے ہی مطالعے کا شوق پیدا کرکے، بچوں کو اچھی اور مفید کتابیں بطور تحائف دے کر، اور فارغ اوقات میں انہیں لائبریری لے جاکر بچوں کی کتاب دوستی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اس ضمن میں استاد کا کردار بھی اہمیت کا حامل ہے۔ اساتذہ کتب بینی کا شوق اجاگر کرنے کے لیے طلبہ کو کتاب کا کوئی بھی ایک موضوع پڑھنے کے لیے دے سکتے ہیں۔ نظام تعلیم کو رٹا سسٹم سے نکال کر تحقیق اور تخلیق کی طرف لایا جائے تو بھی نوجوانوں میں کتب بینی کا رجحان پیدا ہوسکتا ہے۔ حکومتی سطح پر کتب بینی کے فروغ کے لیے لائبریریاں بنائی جائیں۔
آج بھی اگر معاشرے میں کتاب پڑھنے کا کلچر رائج کیا جائے، ویران لائبریریوں کو پھر سے آباد کیا جائے، اور اچھا ادب تخلیق کیا جائے تو قاری اور کتاب کا رشتہ ایک بار پھر استوار کیا ہوسکتا ہے۔