مناہل کی شادی بہت دھوم دھام سے زبیدہ بیگم کے چھوٹے بیٹے احمر کے ساتھ ہوئی تھی۔ بھاری عروسی جوڑے، زیورات اور میک اَپ نے اُسے زمین پر اتری حور بنادیا تھا۔
رشتے دار احمر کی قسمت پر رشک کررہے تھے، بہنیں شاداں و فرحاں دکھائی دے رہی تھیں، جب کہ جیٹھانیاں اس کی پذیرائی دیکھ کر حیران و پریشان تھیں۔ مناہل کا کمرہ ساس کے اوپر والے پورشن میں تھا۔ رات بھر خوب ہلّاگلّا ہوتا رہا۔
مناہل ایک تعلیم یافتہ سلجھی ہوئی لڑکی تھی۔ جب ’’ہانڈی چھولائی‘‘ کی رسم ہوگئی تو اس پر ذمے داریوں کا بوجھ آن پڑا۔ اس نے خندہ پیشانی سے تمام ذمے داریوں کا خیرمقدم کیا۔ یوں ساس بہو کی اچھی گزرنے لگی۔
مناہل کی جیٹھانیاں جب بھی آتیں، طعنے ضرور کستیں، اور بیٹے امّاں کو ہوشیاری کا سبق پڑھاتے۔ کہنے سننے سے تو دیواریں بھی ہل جاتی ہیں، کچھ ایسا ہی مناہل کے ساتھ بھی ہوا۔ گزرتے وقت نے اسے ایک بیٹے کی ماں بھی بنادیا تھا جس سے اس کی ذمہ داریاں مزید بڑھ گئی تھیں۔
مناہل کا برا وقت تب شروع ہوا جب اس کی نند سیما بھی حسد کرنے والوں میں شامل ہوگئی۔ سیما آسودہ حال تھی، مگر شوہر کی بے اعتنائی نے اس کو حاسد بنادیا۔ جب بھی میکے آتی چھوٹی چھوٹی باتوں پر منہ پُھلا لیتی اور ناراض ہوجاتی۔ کبھی اس کو کھانا بد ذائقہ لگتا، اور کبھی مناہل کا رویہ۔
مناہل اب پریشان رہنے لگی تھی، وہ اکثر فون پر ماں سے گلے شکوے کرتی اور بجھی بجھی رہتی۔ جیٹھانیوں نے الگ احمر کو اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا، وہ ہر کام اُن کے الٹے سیدھے مشوروں سے کرتا، جس کی وجہ سے اسے کاروبار میں خاصا نقصان ہوا اور وہ مقروض ہوگیا۔
اب احمر چڑچڑے پن اور بے زاری کا مظاہرہ کرنے لگا تھا، اور مناہل کی نند نے بھی اسے منحوس کہنا شروع کردیا تھا۔ سیما کے کڑوے کسیلے جملے اس کا دل چیر دیتے تھے۔ وہ اپنے رب سے گھنٹوں فریاد کرتی کہ اس کی خدمت میں کہاں کمی رہ گئی گے!
جب دل غم سے بھر جاتا تو اپنی دوست سمیرا کو فون کرلیتی۔ آج بھی نند کے جانے کے بعد ان کے دیے گئے زخموں پر پھاہا رکھنے کے لیے اُس نے سمیرا کو فون کیا۔
’’السلام علیکم سمیرا!کیسی ہو؟‘‘
’’وعلیکم السلام، آہا!!! آج سورج کہاں سے نکل آیا؟‘‘ سمیرا چہکی۔
’’تمھیں تو معلوم ہے میری جان! تمھاری باتیں ہی تو میرے زخموں کا مداوا کرتی ہیں۔‘‘ مناہل پھیکی مسکراہٹ سے بولی۔
’’آج پھر میں بہت دکھی ہوں۔‘‘ وہ گویا ہوئی ’’تم بتاؤ کیا خلوص کی اِس دنیا میں اب کوئی قدر نہیں رہی؟ کیا ساس کی اور ان لوگوں کی خدمت کسی کو نظر نہیں آتی؟کیا پرایا، پرایا ہی رہتا ہے اور انسانیت کا کوئی رشتہ نہیں ہوتا؟‘‘ وہ لمحہ بھر سانس لینے کو رکی۔
سمیرا خاموشی سے اُس کی باتیں سنتی رہی اور اُسے دل کا بوجھ ہلکا کرنے دیا۔
’’کیا کسی لڑکی کو شادی کے بعد قربانی، اخلاص، دریا دلی اور خدمت گزاری جیسی بے وقوفیاں نہیں کرنی چاہئیں؟‘‘ مناہل سسکنے لگی۔
کچھ دیر بعد بڑے پیار سے سمیرا اسے سمجھا رہی تھی: ’’پیاری بہنا! تم بہت نیک اور محبت کرنے والی لڑکی ہو، اور اس کا صلہ کبھی اِس دُنیا میں بھی مل جاتا ہے، وگرنہ مومن تو کبھی مایوس نہیں ہوتا!
مومن اس چھوٹی سی زندگی کا روگ نہیں لگاتا اور یہاں اجر کا طلب گار نہیں ہوتا۔ وہ قطع رحمی بھی نہیں کرتا، صرف رضائے الٰہی کے لیے صلۂ رحمی کرتا ہے۔ ربّ کریم کسی پر اُس کی برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔‘‘
سمیرا اس کو رسان سے سمجھا رہی تھی: ’’اس طرح کرو کہ کل تمھاری پچھلی گلی میں حمیدہ خالہ کے گھر فہم القرآن کلاس شروع ہورہی ہے، تم وہاں آجایا کرو۔ جب ہم قرآن سے جُڑ جاتے ہیں تو رب کی زبانی سننے لگتے ہیں کہ ہمارا رب ہم سے کیا چاہتا ہے۔‘‘
سمیرا کی باتیں سن کر مناہل کے دل و دماغ میں بجلیاں سی کوند گئیں اور اس نے اپنے ٹوٹتے گھروندے کو بچانے کے لیے نئے سرے سے کمر کَس لی۔
اس نے درسِ قرآن میں آنے کی ہامی بھرتے ہوئے فون رکھ دیا۔ اِس دفعہ وہ اکیلی نہیں تھی بلکہ رب ذوالجلال کی مدد بھی شامل ِحال تھی۔ مناہل نے یہ سوچتے ہوئے آنکھیں موند کر سر صوفے پر ٹکا دیا۔