ایک ہنستے مسکراتے خوب صورت گھر کا خواب اُسی وقت حقیقت کی شکل اختیار کرتا ہے جب شوہر اور بیوی کے مابین محبت، ایثار اور عزت کے ساتھ معاملات طے پاتے ہوں، بلکہ بحیثیت والدین دونوں مل کر ان اسلوب پر اولاد کی پرورش کرنے والے ہوں۔ دونوں کی ذمہ داریاں مختلف… مزاج، عادات و اطوار مختلف… میدانِ کار مختلف… لیکن اولاد کی تربیت اور پرورش وہ مشترکہ محاذ ہے جس کو اوّلین ترجیح میں رکھ کر بلا امتیاز کوشش سے ہی تربیت کے مطلوبہ نتائج ملتے ہیں۔
انفرادی طور پر بات کریں تو بچوں کی زندگیوں میں ان کی پرورش، نشوونما اور پروان چڑھانے میں مائوں کی کوششیں، ان کا کردار اور قربانیاں روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں۔ ماں کی گود بچے کے لیے ذہنی، جسمانی، جذباتی ہر لحاظ سے پہلی درس گاہ قرار پاتی ہے۔ اسی طرح والد کی شخصیت ایک سایہ دار درخت کی مانند تصور کی جاتی ہے جس کے نیچے بیٹھنے والے کو جسمانی اور ذہنی طور پر ٹھنڈک ہی ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے، جو ہر موسم کی سختی، گرمی سے اپنے سائے میں بیٹھنے والے کو محفوظ بناتا ہے۔ یہ صرف لکھی اور پڑھی جانے والی مثال ہی نہیں بلکہ حقیقت میں اللہ رب العزت نے والد کی شخصیت کو ایسا ہی بنایا۔
جہاں ماں کا وجود سراپا محبت ہے، وہاں والد کی شخصیت حفاظت اور نگہبانی کا سائبان ہے۔ اللہ نے گھر کو انسان کی افزائش اور بقا کے لیے مضبوط بنیاد بنایا، اور اسے مستحکم بنیادوں پر قائم کرنے کے لیے ہر ایک کو مختلف ذمے داریاں سونپیں۔ اس ضمن میں نبیِ محترم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ہے کہ ’’تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ مرد اپنے گھر والوں پر حاکم ہے۔ عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں پر حاکم ہے۔‘‘ (بحوالہ صحیح بخاری 5200)
یعنی اللہ نے مرد کو گھر کے نگراں کی حیثیت دی تو اس کی ذمے داریوں میں اپنے اہل و عیال کی نہ صرف جسمانی ضروریات کو پورا کرنا ہے بلکہ اپنے گھر والوں کی ذہنی، روحانی اور جذباتی افزائش کا سامان پہنچانا بھی اسی کے سپرد ہے۔ اسی ذمے داری کے پیش نظر اللہ نے مرد کو گھر کے نگراں کی حیثیت دی جسے قرآن میں ’’قوّام‘‘ بھی فرمایا گیا، پھر نگران اور نگہبان کی ذمے داری بھی دوچند ہے کہ نہ صرف اپنی رعیت جس میں اولاد شامل ہے، اُن کی مادّی ظاہری ضروریات کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت اور نشوونما بھی اللہ رب العزت نے والد کے سپرد فرمائی۔ سورہ تحریم آیت نمبر 6 میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں ’’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو! بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔‘‘
رفتہ رفتہ بے اعتدالی کی یہ سوچ ہمارے معاشرے میں رواج پاتی جارہی ہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کلی طور پر ماں کے ذمے ہے اور باپ صرف مالی ضروریات کا ذمے دار ہے۔ حالانکہ قرآن اور حدیث کے تمام حوالوں سے یہ بات واضح ہے کہ کامیاب نسل کو پروان چڑھانے میں والدین کا مجموعی کردار کتنا ضروری ہے۔ دو انتہائوں کے رویّے اکثر ہماری نظروں کے سامنے گردش کرتے نظر آتے ہیں جن میں سے ایک رویہ یہ ہے کہ والد دن بھر محنت مشقت کرکے اپنے گھر والوں کو زندگی کی سہولیات فراہم کرکے یہ سمجھتا ہے کہ اس نے اپنی ذمے داریاں کماحقہٗ ادا کردیں، اور وہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے بے بہرا نظر آتا ہے۔ جب کہ ماں شکوہ کناں ہوتی ہے کہ بچہ باپ کے حصے کی تربیت سے محروم ہے۔ دوسری طرف افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ بحیثیت والد کے شخصی اوصاف میں اخلاق کی بے حد کمی پائی جاتی ہے جس کا اثر نہ صرف بچوں پر بلکہ خانگی زندگی پر بالواسطہ یا بلا واسطہ نظر آتا ہے۔ اس کی عمومی مثال ہم ایسے سُن اور دیکھ سکتے ہیں کہ اکثر گھرانوں میں اہلِ خانہ اور بچے یہ کہتے ہیں کہ والد صاحب کے اخلاق اور معاملات گھر سے باہر بہت اچھے ہیں اور گھر میں بہت مختلف۔ والد کی شخصیت کا یہ دہرا معیار بچوں کی شخصیت پر منفی اثر ڈالتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بچے والدین کا عکس ہوتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ابوکبشہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا: تمہارے بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنے گھر والوں کے لیے بہترین ہیں۔‘‘ (صحیح 195)
یعنی اخلاق اور معاملہ فہمی کا بہترین پیمانہ تو وہ ہے جس کی گواہی اور مثال اہلِ خانہ اور بچے دیں۔ اس وقت ہمارے معاشرے کے لیے بہت ضروری ہے کہ والدین بالخصوص باپ بچوں کی تربیت کے لیے فکر مند ہو، بلکہ خوداولاد کی زندگیوں میں ان کے لیے رول ماڈل بنے۔ یہ واحد راستہ ہے جس سے ہماری اولادیں اور آنے والی نسلیں دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوں گی، ورنہ صرف ضروریاتِ زندگی مہیا کر دینے سے اچھی نسلیں تیار کرنا ناممکنات میں سے ہوگا۔