مشتاق آم والا

358

”واہ بھئی مشتاق آج تو آم اچھے بیچ رہے ہو۔“
”لے جاؤ بھائی صاحب! مصری کی ڈلیاں ہیں، وی آئی پی مال ہے۔“
”کیا کلو لگاؤ گے؟“
”ارے گھر کی بات ہے، پوچھو مت، لے جاؤ ۔ 160روپے کلو بیچا ہے، تم ڈیڑھ سو روپے دے دینا۔ سوچو مت، بسم اللہ کرو۔“
”نہیں بھئی اتنی گنجائش نہیں، بہت مہنگے دے رہے ہو۔“
”ڈیڑھ سو روپے کلو بھی مہنگے ہیں؟سو اور ایک سو بیس میں تو کچرا بک رہا ہے، یہ ایک نمبر سندھڑی ہے۔“
”نہیں یار ابھی نہیں، ایک دو روز میں لوں گا، ابھی واقعی گنجائش نہیں۔“
”تمہاری مرضی… اب اس سے کم تو نہیں مل سکتے۔“
”یار مشتاق! تجھ سے بھاؤ تاؤ کرتے ہوئے مجھے اپنے بچپن کا وہ زمانہ یاد آگیا جب زیادہ تر گھروں میں فریج نہ تھے۔ آنگن کے کسی کونے میں رکھے مٹکے کا پانی پی کر ہی تازگی محسوس ہوتی۔ اُس زمانے میں والد صاحب جب دفتر سے گھر آتے تو کوئی نہ کوئی پھل ضرور لاتے۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ ابو جب آم لاتے تو کسی بالٹی یا کھلے برتن میں پانی بھر کر اُس میں آم ڈال دیا کرتے، اور آموں کو دو سے تین گھنٹے پانی میں ہی رہنے دیا جاتا۔ پھر رات سونے سے قبل ہم سارے بہن بھائی مزیدار آموں پر حملہ کردیا کرتے۔ بعدازاں آم کی گرم تاثیر کو مارنے کے لیے کچی لسی کا استمعال کیا جاتا، جس سے جسم میں ٹھنڈک اور تازگی محسوس ہوتی۔ چونکہ ہم متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اس لیے بچپن سے پھل کھانے کا یہی طریقہ دیکھا۔ رفتہ رفتہ خوشحالی آنے لگی اور لوگوں کا معیارِ زندگی بہتر ہوتے ہی بازاروں میں الیکٹرونکس اشیاء کی بھرمار ہونے لگی۔ یوں برف خریدنے والے بھی فریج کے مالک بن گئے۔ جیسے جیسے معاشی بہتری آئی، الیکڑونکس اشیاء ایک عام شہری کی دسترس میں آگئیں۔
مشتاق تم یقین کرو مجھے بچپن سے ہی پھلوں کا بادشاہ آم پسند ہے، خاص طور پر سندھڑی کی تو بات ہی نرالی ہے۔ اس لیے مَیں گھر میں آنے والے فریج کو آم کے گودام کی صورت میں دیکھتا۔ اُس وقت چند روپوں کے عوض آم سے بھری پیٹی مل جاتی، بلکہ سو روپے میں چار سے پانچ کلو درجہ اوّل کا کوئی بھی پھل بآسانی مل جاتا تھا۔ لیکن اب وقت بدل گیا ہے، مہنگائی نے لوگوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، اس لیے کوئی پھل کھانا تو درکنار، پاکستان میں بڑے پیمانے پر کاشت ہونے والا میٹھا اور خوش ذائقہ آم بھی عوام کی پہنچ سے دور ہوتا چلا گیا ہے۔ اب سندھڑی ختم ہونے کو ہے اور چونسا آنے والا ہے، سوچتا ہوں جب سندھڑی نہیں کھا سکا تو چونسا کیسے چکھ پاؤں گا! جس تیزی سے آم غریبوں کی پہنچ سے دور ہورہا ہے ان حالات کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ آنے والی نسلوں کو آموں کی مشہور اقسام سندھڑی، نیلم، چونسا، انور رٹول، دوسہری، بیگن پھلی، انفانسو، گلاب خاصہ، زعفران، لنگڑا، سرولی، اور دیسی کی تاریخ پڑھ کر ہی گزارا کرنا ہوگا۔
آج کے حالات دیکھ کر سوچتا ہوں کہ پہلے کا زمانہ ہی کچھ اور تھا، مجھے یاد ہے جب آم کے درختوں پر پھول آنے شروع ہوتے تو گھر کے بچے کچے آموں کی تلاش میں لگ جاتے اور کچی کیریاں توڑ کر نمک لگا کر کھاتے، جبکہ امی لکڑی کی ایک موٹی سی پٹی پر جڑے سروتے نما بڑے سے اوزار کی مدد سے کیری کو چار حصوں میں کاٹتیں، اور جب ڈھیر ساری کیریاں کٹ جاتیں، تو انہیں گھر کی چھت پر پھیلی دھوپ میں سُکھانے کے لیے ایک چارپائی پر چادر ڈال کر صبح سے شام تک کے لیے رکھ دیا جاتا۔ کچھ دن گزرنے کے بعد چینی مٹی کے بنے سفید اور زرد رنگ کے مرتبانوں میں ان کا اچار ڈال کر رکھ دیا جاتا۔ اس اچار کا کچھ حصہ عزیز واقارب کے گھروں میں بھی بھیجا جاتا۔ یوں سال چھ مہینے تک یہ اچار مزے لے لے کر ہر کھانے کے ساتھ کھایا جاتا۔ جب سے گھروں میں لگے آم کے درخت کاٹ دیے گئے، تب سے گھر میں اچار ڈالنے کا رواج بھی ختم ہوگیا ہے۔ ظاہر ہے جب کیریاں بازار سے خریدنا پڑیں اور مسالوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہوں ایسے میں بھلا کون اچار ڈال سکتا ہے!“
”آپ مضامین لکھتے ہیں، میں آم والا ہوں کوئی کہانی نویس نہیں۔ آپ نے تو پوری تاریخ بیان کردی ہے۔ پہلے ایسا ہوتا تھا، اب زمانہ بدل گیا ہے۔ اِس دور میں ایسا نہیں ہوتا لیکن گاہک تو یہی سمجھتا ہے کہ یہ مہنگائی ہم نے کی ہے۔ بھائی صاحب! مال پیچھے سے ہی مہنگا آرہا ہے، آم ہی نہیں ہر چیز کے دام بڑھ چکے ہیں۔ آپ کراچی شہر کے رہنے والے ہیں اس لیے حقیقت سے لاعلم ہیں کہ گندم، چاول اور مختلف اقسام کے پھلوں کی قیمتوں میں اضافے کا سبب کیا ہے؟ یہ ہم ہی جانتے ہیں کہ اس کے پیچھے آڑھتی سمیت مختلف ہاؤسنگ اسکیموں کا عمل دخل ہے۔
پھل فروخت کرنے کے ساتھ ساتھ میں چونکہ خود بھی کاشت کاری کے پیشے سے وابستہ ہوں، اس لیے بہتر جانتا ہوں۔ یہ تو آپ نے بھی سنا ہوگا کہ ابھی پچھلے دنوں ملتان اور شجاع آباد کے مختلف علاقوں میں ڈی ایچ اے کے تحت بنائی جانے والی رہائشی اسکیم کے سلسلے میں ہزاروں ایکڑ اراضی پر لگے آم کے درختوں کو کاٹ دیا گیا، اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے اسے سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ اس کو چھوڑیے، میرے آبائی علاقے کو ہی لے لیجیے۔ کسی دور میں ہمارا علاقہ بہت زرخیز اور سرسبز و شاداب تھا، جہاں کبھی لہلہاتے کھیت ہوا کرتے تھے وہاں بھی اب ہر طرف مکانات دکھائی دیتے ہیں۔
یہ 15 برس پہلے کی بات ہے کہ ہمارے گاؤں میں ہزاروں ایکڑ رقبے پر گندم اور چاول سمیت مختلف فصلیں کاشت کی جاتی تھیں، لیکن اب یہ زرعی زمین ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں تبدیل ہوتی جارہی ہے۔ شہر کے قریب ہونے کے سبب ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے مالکان نے اس زمین کی اہمیت کو بھانپتے ہوئے اسے مہنگے داموں خریدنا شروع کردیا تھا۔ فصلوں میں کمی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے گاؤں میں گزشتہ برس تک 1800 ایکڑ زرعی رقبے پر گندم کاشت ہوئی تھی، لیکن رواں برس یہ سکڑ کر 1600 ایکڑ رہ گئی ہے، کیوں کہ 200 ایکڑ زمین مزید ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی نے خرید لی ہے۔ یہ مسئلہ محض ہمارے گاؤں کا نہیں بلکہ یہی صورتِ حال کم و بیش پنجاب کے دیگر دیہات اور شہروں میں بھی دکھائی دیتی ہے۔
جی ٹی روڈ کے ساتھ آباد علاقوں کی صورت حال تو اس سے بھی زیادہ خراب ہوتی جارہی ہے۔ آپ گوجرانوالہ سے لاہور یا فیصل آباد سفر کریں تو سڑک کے دونوں طرف ہاؤسنگ سوسائٹیز اور فیکڑیاں ہی دکھائی دیں گی۔ جو لوگ زراعت کے شعبے سے وابستہ ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ماضی میں جن زمینوں کی قیمت 30 سے 40 لاکھ روپے فی ایکڑ ہوا کرتی تھی وہ اب ایک سے ڈیڑھ کروڑ روپے فی ایکڑ ہے، جبکہ بعض علاقوں میں تو ریٹ دو سے تین کروڑ فی ایکڑ تک جا پہنچے ہیں۔ ایسے میں کاشت کار فصلیں لگانے کے بجائے زمینیں فروخت کرنے کے چکر میں پڑ گئے ہیں۔ پہلے کا کاشت کار زرعی زمین کو ماں کا درجہ دیا کرتا تھا، اُس دور میں زرعی زمین کی تقسیم یا فروخت کو انتہائی معیوب سمجھا جاتا تھا، لیکن آج جتنی تیزی کے ساتھ زرعی زمینیں فروخت کی جارہی ہیں اگر یہ سلسلہ جاری رہا اور حکومت کی جانب سے اس پر پابندی عائد نہ کی گئی تو خدشہ ہے کہ آنے والے وقتوں میں ہمیں ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود تمام اشیائے خور و نوش بیرونی ممالک سے منگوانا پڑیں گی۔ ظاہر ہے جب چیزیں دوسرے ممالک سے درآمد کرنا پڑیں گی تو لازمی طور پر اس کا خمیازہ مہنگائی کی صورت میں عوام کو ہی بھگتنا پڑے گا۔ میرے نزدیک یہ وہ حقائق ہیں جن کی وجہ سے غریب عوام موسمی پھل جیسی نعمت سے بھی محروم ہوتے جارہے ہیں۔“
مشتاق کی باتوں میں خاصا وزن تھا، کیوں کہ پاکستان پہلے ہی اپنے خوراک کے پیداواری وسائل پر آبادی کے شدید دباؤ اور کلائمیٹ چینج کے اثرات کا شکار ہے۔ وہ اس بات کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ مزید زرعی زمینیں (وہ بھی زرخیز) جو شہروں کی حدود کے ساتھ ہیں، انھیں کھو دے۔ اس صورت حال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ روز بروز بڑھتی ہوئی آبادی کے دباؤ کا شکار بننے والے شہروں کی فوڈ سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لیے خوراک اور غذائیت کی سیکورٹی کی حکمت عملی کے طور پر شہری زراعت/کچن گارڈننگ کو فروغ دیا جائے، اور اس کے ساتھ ساتھ شہروں کے اردگرد موجود زراعت کے نظام کی حفاظت کی جائے، اور اسے بہتر بناتے ہوئے کمرشل بنیادوں پر ترقی دی جائے، تاکہ شہری مضافاتی زراعت کسان کے لیے رئیل اسٹیٹ ڈویلپمنٹ کی نسبت زیادہ منافع بخش بن سکے اور کسی انسانی بحران کو پیدا ہونے سے پہلے روکا جا سکے۔ اس کے علاوہ زراعت کے لیے سائنسی بنیاد پر ایسے اقدامات کیے جائیں جس سے کاشت کار کی آمدن میں بھرپور اضافہ ہوسکے، تاکہ وہ پیسوں کے لالچ میں کسی بھی رئیل اسٹیٹ کو اپنی زمین فروخت کرنے جیسے انتہائی اقدام پر مجبور نہ ہوسکے۔

حصہ