یہ سچ ہے کہ ’’ربوٰ‘‘ کا قانون سخت ہے‘ لیکن کیا قتل سے بھی زیادہ سخت؟ قرآن نے ایک شخص کا قتل عام بنی آدم کے قتل کے مترادف قرار دیا ہے جس کی سزا میں جہنم کے عذاب‘ خلود ابدی کی دھمکی دی گئی ہے لیکن کون نہیں جانتا کہ اسلام نے اس سخت قانون کے ایک رُخ کو (اسی رُخ کو جو امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک ’’اموال‘‘ کے متعلق ہے) ثواب اور بڑا ثواب قرر دیا ہے۔ آخر امام صاحبؒ کیا کرتے؟ قرآن مجید میں کہا گیا ہے’’اللہ تم سے مغانم کا وعدہ کرتاہے جنہیں تم لو گے۔‘‘
کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اموال مسلمان خریدیں گے؟ یا وراثت میں پائینگے یا ان کو کوئی ہبہ کرے گا؟ پھر بزور ہی نہیں بغیر زور قوت کے بھی جو مال ملے‘ اس کے متعلق تصریح ہے کہ یہ وہ چیز ہے کہ ’’جو پلٹایا خدا نے اپنے رسول کے پاس تو تم نے نہ اس پر اُونٹ دوڑائے نہ گھوڑے لیکن اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے مسلط کر دیتا ہے۔‘‘ (الحشر:1)
صرف جنگ کے موقع پر اس کا وعدہ نہیں کیا گیا بلکہ سب کو معلوم ہے ’’جب اللہ نے تم سے دو گروہوں میں سے ایک گروہ کے متعلق یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ تمہارے لیے ہے۔‘‘
ان طائفوں میں کون نہیں جانتا کہ خدا نے اس طائفہ کا بھی وعدہ کیا تھا جو ’’عیر‘‘ یعنی قافلۂ تجارت تھا؟ اور کیا وعدہ کیا تھا ’’انھالکم‘‘ (وہ تمہارے لیے ہیں) مسلمانوںکے لیے وہ بذریعہ بیع و فروخت‘ تجارت‘ ہبہ‘ وراثت‘ ہدیہ‘ صدقہ‘ خیرات آخر کس طور پر وعدہ کیے گئے تھے؟ یہی ذریعہ اگر مسلمانوںکے لیے اموال کے حصوں کا قرار دیا جائے تو کیا وہ ذریعہ باطل ار لاتاکلو اموالکم بینکم بالباطل کے نیچے داخل ہوگا؟ بخاری میں ہے کہ حضرت ابو بصیر صحابیؓ کو صلح حدیبیہ کی رو سے جب مدینہ میں رہنے کی اجازت نہ ملی تو وہ سمندر کے کنارے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ جم گئے اور ان کا مشغلہ کیا تھا؟ امام بخاری راوی ہیں۔
’’بخدا قریش کے جس قافلے کے متعلق وہ سنتے کہ شام کی طرف نکلا ہے اس سے وہ تعرض کرتے اور اہل قافلہ کو قتل کرکے ان کے اموال چھین لیتے۔‘‘
کیا اس سے بھی زیادہ تشریح کی ضرورت ہے؟ قرآن میں تو صرف ’’عیر‘‘ کا وعدہ تھا‘ لیکن یہاں تو وقوع ہوا۔ کیا یہ قانون فقہ حنفی کا ہے یا نصوص بینہ کا مقتضیٰ ہے؟ عجیب بات ہے کہ جس قانون کے ذیل میں امام صاحب نے اس جزیہ یا دفعہ کو پیدا فرمایا ہے (یعنی قانون غنیمت) وہ توصرف امت محمدیہ کے لیے بروئے دوایات صحیحہ مخصوص مانا جاتا ہی‘ لیکن پھر بھی لوگ کہے جاتے ہیں کہ اگر ’’ربوٰ‘‘ کا کاروبار غیر اقوام کے ساتھ جائز ہوتا تو اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کے متعلق قرآن مجید میں کیوں فرمایا ’’اور یہودیوں کے سود لینے کی وجہ سے وہ روکے گئے اور لوگوں کے اموال کو باطل و ناجائز ذرائع سے کھانے پر۔‘‘
جب یہودیوں پر غنیمت ہی حرام تھی تو پھر کس بنا پر ان کے لیے سود جائز ہوتا اور یہ بھی اسی وقت کہا جائے گا جب یہ ثابت ہو لے کہ وہ صرف غیر یہودیوں سے اس کا کاروبار کرتے تھے۔ مولانا شبلی نے اپنی سیرت میں ابو دائود کی روایت کو متعدد بار نقل فرمایا ہے۔ اس غلط فہمی میں نہ پڑ جانا چاہیے کیوں کہ اس تشدد کی بنیاد مسئلہ غلول (یعنی قبل تقسیم کی اموال، غنیمت میں تصرف کرنے) پر ہے جیسا کہ خود حضرت سمرہ بن جندب نے ’’کابل‘‘ کی جنگ میں کی توضیح فرما دی۔ ابولبید راوی ہیں کہ ہم لوگ کابل میں سمرہ بن جندب کے ساتھ تھے۔ لوگوں کو مالِ غنیمت میں ہاتھ آیا تو لگے لوٹنے۔ حضرت سمرہؓ اس پر تقریر کرنے کے لیے کھڑے ہو گئے اور فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپؐ نے ’’نہبیٰ‘‘ سے منع فرمایا۔ لوگوں نے سب مال واپس کر دیا۔ پھر حسب، تقسیم شرعی انہوں نے بانٹ دیا۔ (مجمع الفوائد) اس میں یہ نہیں ہے کہ اصل مالکوں کو واپس دے دیا بلکہ قبل تقسیم کے لوٹ مار کرنے سے ممانعت کی گئی تھی جو غلول تھا۔
’’ربوٰ‘‘ کا قانون کب سے نازل ہوا یہ مسئلہ فیہ ہے ’’لاتا کلو الربا اضعافاً مضاعفۃ‘‘ تو بہت پہلے نازل ہوا۔ لیکن اس کو شراب کی طرح تدریجی غیر قطعی حکم قرار دیا جاسکتا ہے لیکن ’’ربوٰ‘‘ کی جزئی فروع کی حرمت پر عمل درآمد مسلمانوںمیں 7ھ سے شروع ہو گیا تھا۔ ’’موطا امام مالک میںہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر میں چاندی کے ایک برتن کی فروخت کے معاملے میں فرمایا ’’تم دونوں نے ربوٰ کا معاملہ کیا‘ پس انہوں نے واپس کر دیا۔‘‘
اس سے ثابت ہوا کہ ’’دارالاسلام‘‘ میں یہ قانون 7ھ سے نافذ ہو چکا تھا۔ لیکن سارے عرب میں کب نافذ ہوا؟ سب کو معلوم ہے کہ عام فتح میں بھی نہیں بلکہ حجۃ الوداع میں ربا الجاہلیہ کے سقوط کا اعلان حکومت نبویہ کی جانب سے کیا گیا۔ اس سے کیا یہ نہیں معلوم ہوتا ہے کہ جس ملک میں اسلامی اقتدار قائم نہ ہو وہاں ان معاملات کی نوعیت وہ نہیں رہ سکتی جو اسلامی اقتدار کے بعد ہو جاتی ہے۔ ورنہ کم از کم حضرت عباسؓ جو حجۃ الوداع سے بہت مسلمان ہو چکے تھے‘ اُن کے ربوٰ کو قطعاً 7 ھ سے پہلے ساقط ہوجانا چاہیے تھا نہ کہ حجۃ الوداع میں۔ تعجب یہ ہے کہ بعض اکابر کو اسی حجۃ الوداع کی روایت سے شبہ ہوا کہ اگر غیر مسلموں سے ربوٰ جائز ہوتا تو قبل اسلام کا جو سودی بقایا تھا اس کو شارع علیہ السلام نے کیوں ساقط کیا؟
بلاشبہ اگر مسئلہ یہ ہوتا کہ نفس عقد ربوٰ سے سود کا مستحق سود خوار ہو جاتا ہے تو یہ اعتراض ہو سکتا تھا کہ حقوق ثابِۃ کے اسقاط کے کیا معنی ہو سکتی ہیں۔ لیکن مسئلے کی بنیاد استحقاق بواسطہ الربوٰ پر نہیں ہے اباحت کا حکم باقی رہے گا۔ جب ملک اسلامی ہو جائے گا تو غیر معصوم‘ معصوم ہو جائے گا۔ پھر اس معصوم کو غیر معصوم کس طرح قرار دیا جاتا اور یہی وجہ ہے کہ جب بحران کے لوگوں نے اسلامی حکومت کی ذمہ داری قبول کرلی تو ان کو حکم دیا گیا کہ اب اس کاروبار کو ترک کردیں کیوں کہ عہد ذمہ کی وجہ سے ان کے اموال معصوم ہو چکے تھے۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا صحابہؓ کے طرز، عمل میں بھی ایسا کوئی خصوصی اثر ہے جس سے معلوم ہو کہ انہوں نے غیر مسلموں سے ربوٰ کا خالص کرکے معاملہ کیا ہو؟ امام محمد نے اس کے جواب میں ’’سیر کبیر‘‘ میں حضرت عباسؓ کا عمل پیش کیا ہے کہ وہ فتح مکہ سے پیشتر اسی کاروبار کے لیے مدینہ سے مکہ جاتے تھے جو اس وقت تک دارالاسلام نہ تھا۔ اسی طرح ربوٰ تو نہیں‘ لیکن یہ تو حدیثوں سے ثابت ہے کہ قمار کا معاملہ ابو بکر صدیقؓ نے کیا اور بدر کے بعد اس کی آمدنی انہوں نے لی۔ یہ کہنا کہ یہ فعل حکم ’’میسر و قمار‘‘ کے نزول سے پہلے کا ہے‘ بہت مشکل ہے کیوں کہ ظاہر ہے کہ ایران نے روم سے شکست انہی ایام میں کھائی جب کفار قریش کو مسلمانوں سے ہزیمت ہوئی۔ حضرت صدیقؓ کا اس معاملہ میں فریق ثانی امیہ ابن خلف تھا جو بدر میں مارا گیا۔ شرط سو اونٹوں کی تھی۔ حضرت صدیقؓ نے اس کے ورثہ پر دعویٰ کیا اور وہ دعویٰ مسموع ہوا۔ سو اونٹ ان کو ملے۔ مدینہ آئے‘ یہ صحیح ہے کہ ٹھیک طور پر یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ اونٹ بدر سے کتنے سال بعد وصول کیے گئے لیکن بعید از قیاس ہے کہ غم و غصہ کے بھرے ہوئے قریش نے ٹھیک بدر کے بعد انصاف کو اتنی راہ دی ہوگی کہ سو اونٹ اصل شرط لگانے والے سے نہیں بلکہ اس کے ورثہ سے حضرت صدیقؓ کو دلوائے ہوں گے بلکہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات اگر طے ہوئی ہوگی تو صلح حدیبیہ کے بعد طے ہوئی ہوگی اور یہ مسلم ہے کہ خمرد (شراب) اور میسر (قمار) کی تذحریم کا حکم اُحد کے قریب قریب نازل ہوا تھا۔ بخاری کی روایتوں سے یہ ثابت ہے۔ پس غالب قرینہ یہی ہے کہ واقعہ حرمت قمار کے نزو ل کے بعد کا ہے۔ تاریخی طور پر اگر ان واقعات کی جستجو کسی مد، نظر ہو تو سیرۃ النبی‘ مولانا شبلی مرحوم سے میرے بیان کی توثیق کر سکتے ہیں‘ خصوصاً جن لو گوں کو عربی تک رسائی نہیں ہے۔ بہر حال سیر وآثار نہ بھی ہوں تو کیا اثر سے زیادہ وزن دار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل نہیں بلکہ قانونی قول نہ ہوگا جس کے راوی خود امام ابو حنیفہؒ ہیں؟ امام شافعیؒ نے قاصی ابو یوسفؒ کے حوالے سے براویت ابو حنیفہؒ اس روایت کو نقل کیا ہے:
’’کمحول سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ مسلمان اور حربی کی درمیان ربوٰ نہیں۔‘‘
میں مانتا ہوںکہ یہ رویت مرسل ہے لیکن کیا اثر صحابہ کے ڈھونڈنے والوں کے لیے ایک مرسل حدیث میں تسلی نہیں ہے؟ عجیب بات ہے کہ ابن سد یا اصابہ سے اگر کوئی اثر نقل کر دیا جائے تو لو اس کی وقعت کرتے ہیں لیکن امام ابو حنیفہؓ اپنے اعتماد پر ایک مرفوع مرسل قولی حدیث پیش کرتے ہیں تو اس کو صرف مرسل کہہ کر ٹالنا چاہتے ہیں۔ اس روایت سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خبر واحد ہی سے نص کی تخصیص جائز نہیں لیکن کیا نص کی تائید بھی اس سے نہیں ہو سکتی؟ کیا اس کی وقعت آثار صحابہ کے برابر بھی نہیں؟ غالباً اس تفصیل کے بعد یہ مسئلہ صرف فقہ حنفی کا نہیں رہ جاتا۔ بہرحال میں اور بھی تفصیل کرتا لیکن ابھی اس کا وقت نہیں آیا ہے۔ ذرا ان لوگوںکا انتظار ہے جو امام ابو حنیفہؒ کے فتویٰ کو اس مسئلے میں مضمحل بنانا چاہتے ہیں۔
اسی کے ساتھ شاہ عبدالعزیز صاحب اپنے فتاویٰ میں ایک سے زائد مقامات پر اس کے متعلق صریح فتویٰ صادر فرما چکے تھے۔ اگر ان کے فتویٰ میں کلام ہے تو کیا ہندوستان میں کسی کے پاس حدیث کی سند محفوظ رہ سکتی ہے؟ جمعیت العلما کے اخبار ’’الجمعیۃ‘‘ میں بھی اس کا فتویٰ شائع ہوچکا تھا۔ دارالعلوم دیو بند کے مفتی صاحبؒ نے خواہ کسی وجہ سے ہولیکن بینک کے سود لینے کا فتویٰ دیا تھا۔ حرام مال لے کر صدقہ کرنے کی اجازت کون دے سکتا ہے؟ جہاں تک میرا خیال ہے ان کے سامنے مسئلہ کی و سعت موجود تھے ورنہ کم از کم میں ان کے اس فتویٰ کی توجیہہ سے عاجز ہوں۔ مولانا عبدالحیٔ صاحب مرحوم نے اپنے فتاویٰ میں گو ہندوستان کی تصریح نہیں کی لیکن مطلقاً دارالکفر میں انہوں نے جواز کا فتویٰ دیا ہے اور متعدد بار دیا ہے۔ بریلی اور بدایوں کے علما کو بھی اس سے کم از کم میرے علم میں اختلاف نہیں باایں ہمہ میں نے اپنے مضمون میں افتاء کا رنگ نہیں اختیار کیا ہے بلکہ مسئلہ کی تشریح کرنے کے بعد اسفتاء کیا ہے۔ علماء سے پوچھا ہے کہ کیا ہندوستان میں اس مسئلے کا نفاذ کا وقت آگیا ہے؟
مگر سچ پوچھتے ہیں تو ذاتی طور پر اسی شبہ کی وجہ سے جسے آپ نے نقل فرمایا ہے‘ میں اس کے لکھنے میں متردد تھا۔ پھر کیا کہوں کن مظالم بے جا نے آخر میرے ہاتھ سے صبر کرکے دامن کو چھڑا لیا۔ مسلمان جلائے گئے‘ لوٹے گئے‘ بربادکیے گئے اور کیے جا رہے ہیں۔ میں ان حالات کو دیکھ کر بے اختیار ہو گیا۔ کوئی اور صورت نظر کے سامنے نہ تھی۔ مالی مدافعت یا مالی حملہ کی صورت سامنے تھی‘ پیش کر دی گئی اور اسی وجہ سے اس کا نام میں نے فے رکھا‘ کیوں کہ شامی جزیہ موجود تھا۔
’’اور ان سے جو کچھ بغیر جنگ اور قہر کے لیا جائے مثلاً مال صلح تو وہ غنیمت ہے اور نہ فے البہ اس کا حکم فے کا حکم ہے۔‘‘ (ص:250‘ ج: 3)
پس جو حکم فے میں ہو اگر مجازاً اسے ’’فے‘‘ کہا جائے تو کیا حرج ہے؟ اور اگر اجازت ہو تو کیا اتنا عرض کر سکتا ہوں کہ ’’زنا‘‘کے خطرے سے کیا ترک، نکاح کا فتویٰ دیا جاسکتا ہے؟ واقعی مسلمان جو بعد میں باہم لڑ پڑے کیا وہ قانون قتال کا نتیجہ تھا؟ کیا یہ خطرات بھی واقعی ہیں؟
لیکن اس کے ساتھ مجھے ان مولویوں سے ضرور خطرہ ہے جو زوال حکومت کے بعد معمولی معمولی باتوں پر تکفیر کا فتویٰ صادر کرکے فسخ نکاح و ناحوازی اولاد کا حکم لگا رہے ہیں۔ اس صورت میں بالکل ممکن ہے کہ ہر مسلمان دوسرے کے کفر کا فتویٰ لے کر آپس ہی میں اس فعل کو شرح کر دے گا جو اس کے لیے قطعاً مورث عذابِ جہنم ہے۔ لیکن کاش اس فتویٰ کو عملی شکل دینے کیلیے یہ علما ان مکروہ طریقوںسے باز آئیں ورنہ ہر شخص اپنی نیتوں کا خود ذمہ دار ہے۔
’’ہر شخص کے لیے وہی ہے جس کی وہ نیت کرے‘ چنانچہ جس کی ہجرت خدا اور رسول کی طرف سے ہو اور جس کی ہجرت دنیا کے فائدے کی خاطر ہو اور جس کی ہجرت کسی عورت کی خاطر ہو ان میں سے ہر ایک کی ہجرت اسی چیز کی طرف ہے جس کی اس نے نیت کی ہے۔‘‘