ڈھائی سال کے بچے کو اسکول بھیجنا ظلم یا ضرورت ؟

498

سوال: ڈھائی سال کے بچے کو اسکول بھیجنا ظلم ہے یا ضرورت؟
سوال: نفسیاتی، جسمانی اور معاشرتی لحاظ سے بچے پر کس قسم کے اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
سوال: کیا گھر پر والدین زیادہ اچھی تعلیم و تربیت کرسکتے ہیں؟
سوال: بچے کو اسکول میں داخل کروانے کی صحیح عمر کیا ہونی چاہیے؟
سوال: ایک ماہرِ نفسیات، ماہرِ تعلیم، ماہرِسماجیات اور ماںکی حیثیت سے آپ کا تجربہ وتجزیہ۔
بچوں کے ابتدائی سال جب لفظوں کو جوڑ کر جملے بنانے کی جستجو، اور وہ بھی ایسی کہ یہ زبان صرف ماں ہی سمجھ سکتی ہے، جاننے کے تجسس کو پورے کرتے سوالات، اور ہرکام کو خود سے کرنے کی کوشش، مگر جب رات کو سوئے تو ماں کی آغوش کی گرماہٹ، ایک پل بھی جدا ہونے کی کوشش کرے تو معصوم نیند میں بھی محسوس کرلیتا ہے اور مزید مضبوطی سے اپنے ننھے ہاتھوں کی گرفت میں سمو لیتا ہے۔
اتنے چھوٹے بچے کو… جو صبح دیر تک سونا چاہتا ہے، ہر وقت ماں کے ساتھ رہنا چاہتا ہے، اپنی مرضی سے کھیلنا کودنا چاہتا ہے… سویرے جگا کر خود سے جدا کرکے اسکول بھیج دینا بچے پر ظلم ہے یا ضرورت؟
ایک رائے یہ موجود ہے کہ ایسے بچے تہذیب تو سیکھ جاتے ہیں لیکن معصومیت سے عاری ہوجاتے ہیں۔ پھر بڑی حسرت سے انسان اپنے بچپن کو یاد کرتا ہے اور چاہتا ہے یہ پھل پک کر دوبارہ خام ہوجائے، اور دل کہتا ہے:
اڑنے دو پرندوں کو ابھی شوخ ہوا میں
پھر لوٹ کے بچپن کے زمانے نہیں آتے
بچوں کے چھوٹے ہاتھوں کو چاند ستارے چھونے دو
چار کتابیں پڑھ کر یہ بھی ہم جیسے ہوجائیں گے
کم عمری میں بچوں کو اسکول جاتا دیکھ کر
کتابوں سے نکل کر تتلیاں غزلیں سناتی ہیں
ٹفن رکھتی ہے ماں تو بستہ مسکراتا ہے
اور بچے خود سے کہتے ہوں گے
میرے رونے کا جس میں قصہ ہے
عمر کا بہترین حصہ ہے
دین کی تعلیمات سامنے رکھیں تو پہلے سات سال تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ماں کی گود کو پہلی تربیت گاہ کہا ہے، اور نماز بھی سات سال کے بچے پر فرض کی گئی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’تم میں سے ہر کوئی نگران ہے، اور اپنی رعایا اور ماتحتوں کے بارے میں تم سے جواب طلبی کی جائے گی۔‘‘ (بخاری الصحیح، 1 : 304، رقم : 853)
والدین کم عمری میں ہی بچے کو اسکول بھیج کر تعلیم و تربیت سے غافل ہوجاتے ہیں۔
طفل میں تُو آئے کیا ماں باپ کے اطوار کی
دودھ تو ڈبے کا ہے تعلیم ہے سرکار کی
’’اگر معمار پہلی اینٹ غلط اور ٹیڑھی رکھ دے تو دیوار کو بلندی تک ٹیڑھا ہونے سے کیسے روکا جا سکے گا!‘‘
اپنے بچوں کی ابتدائی عمر میں ہوم اسکولنگ کرنے والی ماں اور ایک ماہر تعلیم مونٹیسوری زبیدہ عمیر کہتی ہیں:
’’بچوں کی اچھی پرورش دنیا کا اہم ترین کام ہے، جو والدین یہ فرض ذمہ داری سے ادا کرتے ہیں وہ اپنی اولاد پر نہیں خود اپنی ذات پر بہت بڑا احسان کررہے ہوتے ہیں، وہ اپنی دنیا اور آخرت دونوں ہی سنوار لیتے ہیں۔
بچوں کو جتنا وقت دے سکتے ہیں، دیں۔ وقت کبھی لوٹ کر نہیں آتا، اور جب وقت گزر جائے تو پھر کچھ بھی نہیں بچتا۔ احساسِ کمتری بچوں میں نہیں ہونا چاہیے، اور ایسے بچے جن کو وقت نہیں دیا جاتا اُن میں پھر یہ چیز محرومی کی صورت میں آگے بڑھتی چلی جاتی ہے، وہ ذہنی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہیں، ایک مکمل شخصیت ان کی نہیں بنتی۔ آپ اپنے بچوں کو بہت زیادہ وقت دیجیے جو اُن کا حق ہے۔ اگر ہم اپنا وقت آج لگا دیں گے تو یہی وقت کل سامنے آئے گا ایک اچھے انسان کی صورت میں، ایک اچھی پُراعتماد شخصیت کی صورت میں… اور معاشرتی لحاظ سے فائدہ مند ہوگا۔ وہ لوگوں کے کام آئے گا، یا کم از کم اپنے لحاظ سے یہ اپنی فیملی کے لیے اسٹرانگ ہوگا۔ میں سمجھتی ہوں کہ ماں کے ساتھ والد کا بھی بہت اہم کردار ہے۔
اگر ہم اپنے اردگرد دیکھیں تو جن گھروں میں بچوں کی تربیت میں خاص دل چسپی لی جاتی ہے وہ گھر مثال بن جاتے ہیں، بچوں کی شخصیت میں نکھار آتا ہے، بچے ادب سے بولتے ہیں، بیٹھتے ہیں۔ ایسے بچے مہذب ہوتے ہیں، فرماں بردار ہوتے ہیں، اور اس کے ساتھ ہی خوش اخلاق ہوتے ہیں، کیوں کہ اُن کے والدین میں یہ ساری چیزیں موجود ہوتی ہیں جو وہ اپنے بچوں میں منتقل کرتے ہیں۔ آج معاشرتی لحاظ سے اپنے ملک کی بات کروں گی۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ ظلم ہے اور سم ٹائم جاب کرنے والی خواتین کے لیے ضرورت بھی ہے، لیکن اکارڈنگ ٹو ریسرچ اور جتنی بھی چھوٹے بچے کی ہم نے ریسرچ دیکھی ہے اس میں پانچ سال صحیح عمر ہے، کیوں کہ اس عمر میں بچوں کو اسکول بھیجنے سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ پانچ سے سات سال کی عمر کے بچوں کے جو فلٹرز ہوتے ہیں وہ اتنے مضبوط ہوجاتے ہیں کہ دوسرے بچوں کے ساتھ آزادی سے میل جول رکھ سکتے ہیں، اور اگر اس سے کم عمر کا بچہ ہوگا یعنی ڈھائی سال کا بچہ ہے تو اس میں یہ ہوتا ہے کہ اس کے فلٹرز مضبوط نہیں ہوتے، نہیں معلوم کہ کون سا بچہ کس فیملی سے آ رہا ہے، تو اس میں اچھی اور بری دونوں باتیں سیکھنے کے مواقع بہت زیادہ ہوتے ہیں، اور پانچ سال کا بچہ اگر ماں کے پاس ہے یا آپ کے فیملی بیک گراؤنڈ میں اٹھ رہا ہے، بیٹھ رہا ہے، اور اس کے ساتھ اور لوگ بھی اس ماحول میں اس کی تربیت کررہے ہیں تو یہ ہوتا ہے کہ اس کے فلٹرز مضبوط ہوتے ہیں۔ اس کے بعد اس کا اثر نہیں ہوتا، وہ اچھی چیزوں کو یا اس کے گھر میں جو سکھائی گئیں ان کو بہت اچھی طرح سے اپنے اندر جذب کررہا ہوتا ہے۔
جرمنی میں تقریباً 3000 بچوں پر تجربہ ہوتا ہے، اور اس میں ان کی ریسرچ بھی یہی کہتی ہے کہ بچوں کو اسکول بھیجنے کے لیے صحیح عمر پانچ سے سات سال ہے۔ میموری کے لحاظ سے ایسے بچے تھوڑے سے پیچھے رہ جاتے ہیں جن کا ہم جلدی داخلہ کروا دیتے ہیں۔ سائنس نے یہ ثابت کیا ہے کہ پڑھائی کے لیے جو بہتر عمر ہے وہ سات سال ہے، تاہم پانچ سال سے شروع کردیں تو بھی ٹھیک ہے۔
اگر ابتدائی برسوں میں ماں خود گھر میں پڑھاتی ہے اور تعلیم دیتی ہے تو یہ کئی گنا زیادہ بہتر ہے اسکول بھیجنے سے۔ آج کل ہوم اسکولنگ کا نظریہ دوبارہ اجاگر ہونا شروع ہوا ہے، اور ہوم اسکولنگ بیسٹ ہے۔ اس میں ہمیں ایک بچہ ملا ہے، وہ را میٹریل ہے، اس کو ہم اپنے پاس رکھیں تو اس کو اچھا اور برا سکھانے میں ماں باپ کا ہی ہاتھ ہوگا تو وہ جو ایک پیورٹی نکلے گی بچے کی، وہ مکمل طور پروالدین پر ہی انحصار کرے گی۔کسی بھی چیز پر وقت لگائیں تو وہ رزلٹ دیتی ہے۔میں تو یہی کہوں گی کہ والدین گھر میں زیادہ اچھی تعلیم دے سکتے ہیں، ابتدائی عمر تک ماں سب سے زیادہ رول ماڈل ہے۔ ماں کی مامتا وہ سمندر ہے جس کی گہرائیوں کی کوئی پیمائش نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ تمام مائوں کو اس فریضے کوانجام دینے کی توفیق دے۔ میں یہ کہوں گی ہوم اسکولنگ از دی بیسٹ۔‘‘
علینہ ارشد بچوں کی ماہرِ نفسیات ہیں۔ وہ کہتی ہیں:
’’ڈھائی سال کے بچے کو اسکول بھیجنا وقت کی ضرورت ہے مگر بچے پر نفسیاتی ظلم ہے۔ معاشرتی ضروریات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے غور کیا جائے تو یہ ظلم ہے۔ چوں کہ یہ بچے کی گروتھ کی عمر ہوتی ہے، بچہ اس عمر میں مختلف اخلاقی باتیں گھر کے بزرگوں سے سیکھتا ہے۔ اگر اس عمر میں وہ اسکول جانا شروع کردے تو سب سے پہلے تو وہ اسٹریس کا شکار ہوجاتا ہے۔ کھیلنے کودنے کی عمر میں اس پر نئی ذمے داری ڈال دی جاتی ہے جسے وہ ہینڈل نہیں کرپاتا۔ کام کا بوجھ محسوس کرنا جیسے عوامل اس کو کمزور بنادیتے ہیں۔ وہ نمبروں کی اس دوڑ میں شامل کردیا جاتا ہے جہاں ابھی اسے تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ماں کی گود پہلی درس گاہ ہے مگر بچہ ماں کی شاگردی سے محروم ہوجاتا ہے۔
ماہرِ نفسیات ہونے کے ناتے میں یہی کہوں گی کہ بچہ جس طرح جسمانی نشوونما کے لیے والدین کا محتاج ہوتا ہے، اسی طرح اپنے کردار کی پہچان، شر اور خیر میں فرق، اور کردار سازی کے لیے بھی وہ والدین کا محتاج ہوتا ہے۔ انسانی شخصیت کی خامی وخوبی کی جڑ بچپن میں ہی پیوست ہوتی ہے، اور اس جڑ کو بڑھوتری دینے والے والدین ہوتے ہیں۔ وہ جیسا بیج بوئیں گے ویسا کاٹیں گے۔ اگر وہ یہ بیج کسی اور کے حوالے کردیں گے تو وہ اسے پانی تو دے گا مگر خلوص اور محبت کی کمی رہ جائے گی جو جوانی میں بچے کی شخصیت میں واضح طور پر نظر آئے گی۔‘‘
تطہیر فاطمہ جو ماہرِ نفسیات برائے اطفال ہونے کے ساتھ ساتھ ماہرِ تعلیم اور مونٹیسوری اسکول پرنسپل بھی ہیں، کہتی ہیں:
’’ڈھائی سال کے بچے کو مونٹیسوری بھیجنا ظلم تو میں نہیں کہوں گی، کیوں کہ آج کل کا ہمارا جو سیٹ اَپ چل رہا ہے اس میں یہ ایک ضرورت بن چکی ہے کہ ڈھائی سے تین سال کے بچے جو ہیں ان کو کسی اچھی مونٹیسوری میں ضرور لے کر جایا جائے۔ لیکن یہ ضرور کہوں گی کہ مونٹیسوری یا ڈے کیئر کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کریں کہ وہ ایک رئیل مونٹیسوری ہو۔ اس کے لیے آپ کو جاننے کی ضرورت ہے کہ مونٹیسوری کیا ہوتی ہے؟ اس کو اچھی طرح سے جانیں اور پھر اپنے بچے کو وہاں بھیجیں، اور اگر ہمیں ڈھائی سال کے بچے کو مونٹیسوری بھیجنا ظلم لگ رہا ہے تو پھر گھر میں ویسا ماحول فراہم کرنا ہوگا۔ بچے کو مونٹیسوری بھیجنے سے اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ وہاں پر بچے کو سوشلائز کرنا آتا ہے، اپنی چیزوں کو شیئر کرتا ہے، گِو اینڈ ٹیک کا پتا چلتا ہے۔ مونٹیسوری سیٹ اَپ میں بچے مختلف ایج گروپ کے بچوں کے ساتھ مل کر کھیلتے ہیں، تعلیمی سرگرمیاں بھی کرتے ہیں۔ یہ ایک مثبت انداز میں سیکھنے کا طریقہ ہوتا ہے۔
ماہرِ نفسیات اور ماہرِ تعلیم ہونے کی حیثیت سے میں یہ کہوں گی کہ میرا تجربہ بہت اچھا رہا مونٹیسوری کو ایک ٹیچر اور اس کے بعد ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے ہینڈل کرنے کا۔ کیوں کہ میں جہاں ایڈمنسٹریٹر رہی وہ ایک رئیل مونٹیسوری تھا۔ اس کے ساتھ ہی میں یہ کہوں گی کہ اس ایج گروپ کے لیے بہت ہی مہربان، نرم دل رکھنے والی ٹیچر کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ صرف بچے کو پیار ہی نہ کرے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس کی پرسنالٹی کو اچھی ڈائریکشن کی طرف موڑے۔ یہاں ڈانٹ اور غصہ نہیں چلتا، بلکہ بچے کو صحیح اور غلط بتانا ہوتا ہے اور اُس سے بہت محبت کے ساتھ پیش آنا ہوتا ہے، کیوں کہ والدین بچے کو آپ پر بھروسا کرکے بھیجتے ہیں۔‘‘
صائمہ فیضان ایک ایسی والدہ ہیں جو اپنے بچوں کی کئی سال سے ہوم اسکولنگ کررہی ہیں، اُن کا کہنا ہے:
’’حضرت آدمؑ سے لے کر آج سے تقریباً چار سو سال پہلے تک والدین اور معاشرہ بچے کی تربیت کرتے تھے، پھر صنعتی انقلاب آیا، اس کے لحاظ سے خاص وضع کے انسان چاہیے تھے جو ایک ہی طرح سے کام کرنے والے ہوں، خاموشی سے بات مان کر ایک ہی طرح کے راستے پر چلتے ہوں، اپنی سوچ اور کری ایٹویٹی سے محروم لوگ۔ اس کے لیے اسکول ایجاد کیے گئے۔ ہمارے ہاں اسکول کی یہ ایجاد سو سے ڈیڑھ سو سال پرانی ہے۔
امریکی مصنف اور تعلیم دان ’جان ہالٹ‘ نے پہلی دفعہ یہ کہا کہ ہمیں سائیکالوجی کی عینک سے بچے کو نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ ہر بچہ الگ ہے۔ اس کی کتابیں بہت مشہور ہوئیں اور کئی بچے اسکول سے نکالے گئے۔اِن اسکول ہونے والے بچوں پرجسمانی اور نفسیاتی طور پر اچھے اثرات مرتب ہوئے۔ آئن اسٹائن اور تھامس ایڈیسن ایسے ہی بچوں کی مثالیں ہیں۔
یہ بات میرے اپنے ذاتی تجربے میں بھی آئی کہ جب میں نے اپنی بیٹی کواِن اسکول کرایا، اس کے بعد سے اُس کی صحت میں خاصی بہتری آئی، اس کے شوق اور ذہانتیں کھل کر میرے سامنے آئیں، یوں لگا کہ میں نے اسے بند کمرے سے نکال کر کھلی فضا میں سانس لینے کے لیے چھوڑ دیا ہو۔ اس کی کارکردگی مجھے ہر کام میں پہلے سے بہتر نظر آئی، مجھے احساس ہوا کہ میرا یہ اندازہ غلط تھا کہ کہے بغیر بچہ کچھ سیکھ ہی نہیں سکتا ،بلکہ اصل میں یہ ہوتا ہے کہ سیکھے بغیر تو بچہ رہ ہی نہیں سکتا۔ پھر آج کل تو سیکھنے کے اَن گنت مواقع بھی میسر ہیں، یہ سوچ کہ اگر ماں پڑھا نہ سکی تو بچی کیسے پڑھے گی، بالکل غلط ثابت ہوئی۔
والدین سے گزارش ہے کہ خدارا ڈگریوں کی دوڑ سے نکلیں اور تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت نہیں بلکہ تربیت کے ساتھ تعلیم پر توجہ دیں۔‘‘

حصہ