دو بھائی تھے، ایک امیر تھا ایک غریب تھا۔ امیر کا نام امیروف اور غریب کا نام سلیموف۔ دونوں میں بنتی نہیں تھی۔ بات یہ تھی کہ امروف سلیموف کو پسند نہیں کرتا تھا۔ ایک دن سلیموف کو ضرورت پڑی تو اس نے کچھ دیر کے لیے بڑے بھائی سے گھوڑا مانگا۔ سردیاں آنے والی تھیں اور جنگل سے لکڑیاں لانی تھیں۔ امیروف چاہتا تو نہ تھا پھر بھی اس نے گھوڑا دے دیا۔
سلیموف جنگل سے لکڑیاں لے آیا۔ رات ہو گئی تھی۔ اس کے پاس رسّی نہیں تھی اس لیے اس نے دروازے سی اس کی دم باندھ دی۔ رات کو گھوڑا بھاگ گیا۔ دم ٹوٹ گئی۔ سلیموف بڑی مشکل سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر گھوڑا واپس لایا، مگر امیروف نے بے دم کا گھوڑا لینے سے انکار کر دیا۔ اس نے کہا کہ میں تو کچہری میں مقدمہ کروں گا۔
دونوں بھائی شہر روانہ ہو گئے۔ شہر بہت دور تھا۔ راستے میں رات ہو گئی، امیروف کے ایک دوست کا گھر قریب تھا۔ وہ دونوں اس دوست کے گھر ٹھہر گئے، امیروف اور اس کا دوست گھر کے اندر آرام کرنے لگے۔ سلیموف کو گھر میں جگہ نہ ملی تو وہ چھجے پر لیٹ گیا، سلیموف کی آنکھ لگ گئی، سوتے میں اس نے کروٹ لی تو وہ نیچے گر گیا، نیچے دوست کا بچہ بیٹھا تھا۔ وہ دب کر مر گیا۔ دوست بہت غصے ہوا۔ اس نے کہا۔ ’’میں بھی مقدمہ کروں گا۔‘‘
اب تینوں شہر کی طرف چل پڑے۔ نیچے ایک نوجوان اپنے بوڑھے بیمار باپ کو لے کر جا رہا تھا۔ سلیموف بڈھے پر جا پڑا۔ بڈھا مر گیا۔ نوجوان بھی مقدمہ کرنے کے لیے ان کے ساتھ ہو گیا۔
چلتے چلتے شہر آگیا تو وہ سب کچہری پہنچے۔ جج آیا اور کچہری لگی، سلیموف نے راستے سے ایک پتھر اٹھا کر رومال میں لپیٹ لیا تھا۔ امیروف نے اپنا دعویٰ پیش کیا۔ سلیموف نے ڈرانے کے لیے رومال میں بندھا ہوا پتھر جج کو دکھایا۔ جج سمجھا کہ رومال میں رشوت کا سونا ہے۔ اس نے خوش ہو کر سلیموف کے حق میں فیصلہ کر دیا اور کہا کہ جب تک گھوڑے کی دم نہ نکل آئے گھوڑا سلیموف کے پاس رہے گا۔
اب دوسرا مقدمہ پیش ہوا، امیروف کے دوست نے کہا کہ سلیموف نے میرے بچے کو کچل کر مار دیا۔ سلیموف نے پھر رومال دکھایا اور جج پھر دھوکا کھا گیا۔ اس نے فیصلہ دیا کہ جب تک سلیموف دوست کا بچہ نہ لا کر دے۔ دوست سلیموف کو اپنے گھر رکھے اور کہیں جانے نہ دے۔ دوست نے سوچا کہ ایک تو میرا بچہ مرا دوسرے میں سلیموف کو اپنے گھر رکھوں اور کھلائوں، پلائوں۔ اس کا کیا بھروسا، یہ دوسرے بچے کو بھی مار دے۔
تیسرا مقدمہ کچہری میں پیش ہوا کہ سلیموف نے پل پر سے کود کر بوڑھے کو مار دیا، سلیموف کا رومال دیکھ کر جج پھر لالچ میں آگیا۔ اس نے سوچا کہ تیسری سونے کی ڈلی بھی مجھے دینے کا اشارہ کر رہا ہے۔ اس نے فیصلہ دیا کہ بوڑھے کا نوجوان بیٹا اور سلیموف اسی جگہ جائیں۔ نوجوان پل پر جائے اور سلیموف پل کے نیچے کھڑا ہو جائے۔ نوجوان سلیموف پر کودے اور اس کی جان لے لے۔
کچہری ختم ہوئی۔ چاروں باہر آئے۔ امیروف نے پریشان ہو کر کہا کہ میں دم نکلنے کا انتظار نہیں کرسکتا۔ مجھے گھوڑے کی ضرورت ہے۔ تم تو مجھے میرا گھوڑا اسی حالت میں دے دو۔ سلیموف نے کہا کہ نہیں ٹھہرو اور اس وقت کا انتظار کرو۔ جب گھوڑے کی دم نکل آئے۔
امیروف بہت پریشان ہوا اس نے سلیموف کی منت سماجت کرکے اور پانچ روبل (روسی سکہ) 17 بوری اناج اور ایک بکری دے کر اپنا گھوڑا واپس حاصل کر لیا۔
اب سلیموف نے دوست سے کہا کہ بھوک لگ رہی ہے، کھانا کھلائو۔ دوست گھبرایا۔ اس نے کہا کہ بھائی میں تمہارا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔ سلیموف نے کہا کہ جج نے یہی فیصلہ دیا ہے۔ جب تک میں تمہیں بچہ لا کر نہ دوں تمہارے ساتھ رہوں گا۔ دوست نے پچاس روبل، 23 بوری اناج اور ایک دودھ دینے والی گائے دے کر سلیموف سے اپنی جان چھڑائی۔
آخر سلیموف نوجوان کے پاس گیا اور کہا کہ آئو پل پر چلو اور وہاں سے چھلانگ لگائو۔ نوجوان نے سوچا کہ اگر میں اتنے اوپر سے کودا تو خود ہی مرجائوں گا۔ اس نے بھی سلیموف کو دو سو روبل، 29 بوری اناج اور ایک بیل دے کر راضی کر لیا۔
حج نے اپنا آدمی سلیموف کے پاس بھیجا کہ سونے کی تین ڈلیاں دے دو۔ سلیموف نے رومال میں سے پتھر نکال کر دکھایا اور کہا کہ میں غریب آدمی ہوں، میرے پاس سونا کہاں، میں نے تو جج کو رومال اس لیے دکھایا تھا کہ اگر تم نے فیصلہ میرے خلاف دیا تو میں تمہیں اس پتھر سے ماردوں گا۔ جب اس آدمی نے جج کو جا کر یہ بات سنائی تو جج نے اطمینان کا سانس لیا کہ میں بچ گیا، ورنہ سلیموف مجھے مار ڈالتا۔
سلیموف خوش خوش گھر واپس آگیا۔