استنبول… مساجد کا شہر
استنبول کا محلِ وقوع بہت حیرت ناک ہے، جو اس کی شہرت کا باعث بھی ہے۔ اس شہرت میں ’’ایا صوفیہ‘‘ نے دنیا کی پُرکشش عمارت کی حیثیت میں دوام بخشا ہے۔ ایا صوفیہ کئی صدیوں سے قدامت، تاریخ، مذہب اور سیاست و عمارت کے حوالوں سے دنیا بھر میں معروف و مقبول ہے۔ سال 2019ء میں اسے دنیا بھر کے 38 لاکھ سیاحوں نے دیکھا۔ ’’ایا صوفیہ‘‘ کو مسجد میں دوبارہ تبدیل کیے جانے کے بعد ترکی کی سیاحت اور ’’ایا صوفیہ‘‘ کی زیارت میں حیران کن حد تک اضافہ ہوا ہے، جن میں پاکستان سے جانے والے وہ زائرین بھی شامل ہیں جن میں ہم بھی موجود تھے۔
استنبول کا طائرانہ جائزہ لیں تو بالخصوص قدیم استنبول میں مساجد کے طویل اور پتلے سبز رنگ والے مینار نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ ایا صوفیہ اور اس کے بالکل سامنے ’’نیلی مسجد‘‘ (BLUE MOSQUE) یا ’’المسجد الازرق‘‘ بھی موجود ہے۔ مؤرخین کے مطابق سلطان احمد کے نام سے موسوم یہ مسجد آخر کیوں بنوائی گئی، حالانکہ اُس وقت کے علماء نے اس پر ناراضی کا اظہار بھی کیا، یہ معمّا تاریخ دان ابھی تک حل نہیں کرسکے۔
کہتے ہیں کہ جہاں استنبول شہر خود ہزاروں سال قدیم اور بہت سے سیاسی، مذہبی، ثقافتی اور معاشرتی انقلابات اور کئی حکمرانوں کی حکومتوں کا شاہد اور تاریخ کا طویل اور دلکش و زرّیں باب ہے، وہیں مسجد ’’ایا صوفیہ‘‘ تاریخ کی سب سے بڑی گواہ اور پختہ ورق ہے، جسے مذہبی حوالوں نے مسلمانان و مسیحینِ عالم کے لیے امر اور زندۂ جاوید بنادیا ہے۔ اس مضبوط، دلکش اور کئی طرز تعمیر کے مظہر عمارتی ڈھانچے نے دنیا کے دو بڑے مذاہب اسلام اور مسیحیت کا لباس بھی پہنا ہے اور لادینیت کا عذاب بھی جھیلا ہے۔ 82 میٹر لمبی، 73 میٹر چوڑی اور 55 میٹر اونچی بیرونی طور پر سرخ اور اندرونی طور پر سبز رنگوں والی یہ عمارت باہر سے اپنے طرزِ تعمیر کے لحاظ سے اب بھی کلیسا اور اندر سے مسجد لگتی ہے۔ مسجد کے صدر دروازے پر مقدس تصاویر اور اندر بھی اسی نوع کی پینٹنگز موجود ہیں جنہیں سرکاری پالیسی کے تحت ہٹایا نہیں گیا، بلکہ مختلف اسلامی طغروں، اور خطاطی بالخصوص اللہ، محمد اور چاروں خلفائے راشدین کے علاوہ سیدنا حسنؓ و حسینؓ کے اسمائے گرامی سے مزین کرکے ڈھانپ دیا گیا ہے۔ نجانے مسیحیوں کی ناراضی کے تناظر میں یہ سیاسی مجبوری کا شاخسانہ ہے یا مذہبی رواداری کا مظہر!
اس کا گنبد بیرونی طور پر سُرخ ہے۔ اندر دبیز قالین اور ایک شاندار منبر کے سامنے مخصوص کردہ جگہ بھی ہے، جو ترکی کی قدیم اور عظیم مساجد میں ہر جگہ موجود ہیں۔ اس کی چھت میں اسلامی طرزِ آرائش اور عمارت میں بازنطینی طرزِ تعمیر نمایاں ہے، جس پر عثمانی طرز غالب آچکا ہے۔ یہ مسجد کئی بار زلزلے کا شکار ہوئی۔ ایک زلزلے میں اس کا مرکزی گنبد بھی گر گیا، جسے دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ اس کے مینار بھی پہلی بار مسجد بنائے جانے پر تعمیر کیے گئے۔ اب اس میں قدیم گرجے کے نہ تو کوئی آثار باقی ہیں، نہ طرزِ تعمیر۔ بلاشبہ یہ دنیا کی عظیم ترین اور زمانے کی دست برد کا شکار ہونے کے باوجود اُسی شان و شوکت اور جاذبیت کے علاوہ تقدس کا پیرہن پہنے موجود عمارت ہے، اور یقیناً اگلی کئی صدیاں اپنی عظمت کے نشان کے طور پر پہچانی جاتی رہے گی۔
دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ یہ مسلمانوں اور مسیحیوں سب کے لیے کھلی ہے۔ اس کے سبز دبیز قالین اور باہر سے (میری رائے میں) روکھی پھیکی اور نحوست کا نشان، جبکہ اندر سے ایمان افروز اور خدائے یکتا کی وحدانیت کی گواہ، ’’ایا صوفیہ‘‘ دل اور نظر دونوں کی جِلا کا سامان لیے ہوئے ہے۔
24 جولائی 2020ء کو اسے مسجد کے طور پر کھولے جانے اور نماز جمعہ کی ادائیگی کے منظر کو آنکھوں میں بسائے، ہم اس میں داخل ہوئے۔ داخلی دروازے پر سنہری جالیوں والے وضو خانے پر میری اہلیہ وضو کرنے لگیں تو ایک شخص نے عربی میں بتایا کہ خواتین کے وضو کی جگہ ساتھ ہی پردے کے پیچھے ہے۔ یہ پہلا جملہ تھا عربی زبان کا، جو ’’ایا صوفیہ‘‘ کی حدود میں اور سارے ترکی میں پہلی اور آخری بار ہمیں سننے کو ملا۔ ہائے! اتاترک کا جبر کہ امتِ مسلمہ کے اس گلِ سرسبد اور خلافتِ اسلامیہ کے داعی اور مرکز ترکی کو اپنے دین، اپنے حسب نسبِ ملّی اور تشخصِ اسلامی کی ’’زبان‘‘ اور وحدتِ امت کے واحد عالمی مظہر… عربیِ مبین… سے بزور قوت روک دیا۔ مگر شاید لوٹ کے بدھو گھر کو آرہے ہیں اور عربی، دینِ اسلام اور صاحبِ لسانِ عربی سے دوبارہ مربوط ہونے جارہے ہیں۔
ہماری شدید خواہش تھی کہ نماز جمعہ ’’ایا صوفیہ‘‘ میں ادا کرنے کا شرف حاصل ہو، جو یادگارِ حیات بن جائے۔ مگر اے بسا آرزو کہ خاک شد… البتہ ہم نے اُن گلیوں، پارکوں اور احاطوں میں خوب چہل قدمی کی، فضائوں میں سانس لیے جہاں لاکھوں فرزندانِ توحید اس عظیم تاریخی لمحے کے شاہد و راوی بنے تھے۔
ہم نے شدتِ شوق اور وفورِ محبت سے اُس دروازے کو دیکھا، اور اُس سے باہر نکلے، جہاں سے فاتحِ دوراں طیب ایردوان، فتح قسطنطینہ جدید اور تحویل ’’ایا صوفیہ‘‘ کے شاندار لمحوں میں داخل ہوئے تھے۔ خدا کرے عروج و استحکام اور غلبہ و تسلط کے دن، مہینے، سال اور صدیاں ایک بار پھر استنبول کے راستے امتِ مسلمہ کو نصیب ہوں۔ آمین! آپ ’’ایا صوفیہ‘‘ دیکھنے کے لیے کم از کم دو گھنٹے ضرور نکالیے۔
نیلی مسجد
سلطان احمد کے علاقے میں ’’ایا صوفیہ‘‘ اور ’’توپ قاپی محل‘‘ کے بالکل سامنے 72 میٹر طویل اور 64 میٹر عریض ایک بڑے اور آٹھ چھوٹے گنبدوں کے ساتھ چھ بنیادی اور ایک اضافی 64 میٹر بلند و بالا میناروں والی مسجد، سولہویں صدی کے آغاز میں سلطان احمد اوّل نے بنوائی۔
سلطان احمد نے اس کے سنہری مینار بنانے کا حکم دیا تھا، مگر سنہری کے بجائے اس کے چھ سوئیوں کی طرح پتلے اور لمبے مینار بنادیے گئے۔ حرم کعبہ کے چھ میناروں سے مشابہت کے باعث سلطان کو اچھا نہ لگا، تو اضافی طور پر ایک اور مینار تعمیر کردیا گیا۔ اس کے معمار صدف کار محمد آغا تھے، جبکہ مسجد کو سید قاسم غباری کی خطاطی کے فن پاروں سے مزین کیا گیا ہے۔
اس مسجد کی وجۂ تسمیہ اس کا نیلا رنگ ہے۔ اسی مناسبت سے اسے بیرونِ ترکی ’’المسجد الازرق‘‘ اور ’’BLUE MOSQUE‘‘ کے ناموں سے پہچانا جاتا ہے۔ جبکہ ترک ’’SULTANAHMET CAMII‘‘ یعنی ’’مسجد سلطان احمد‘‘ کے طور پر جانتے ہیں۔ اسے ہاتھ سے تیار کردہ بیس ہزار نیلی ٹائلوں سے مزین کیا گیا ہے۔ اس ٹائل کا نام بھی اس مسجد کے ’’مارکہ‘‘ کے طور پر ہی معروف ہے۔ اس میں قدرتی ہوا اور روشنی کے لیے شیشے کی دو سو ساٹھ کے قریب کھڑکیاں لگائی گئی ہیں، جبکہ آواز کے لیے ایسا شاندار اور جاندار نظام قائم کیا گیا کہ اس کی آواز سارے شہر میں سنائی دیتی ہے۔ یہ مسجد دس ہزار افراد کی بیک وقت ادائیگیِ صلوٰۃ کی گنجائش رکھتی ہے۔ یہ غالباً واحد مسجد ہے جہاں دورانِ نماز تصویر بنانے کی ہرگز اجازت نہیں۔
2009ء میں امریکا کے صدر اوباما نے جناب طیب ایردوان کے ہمراہ اس مسجد کو دیکھا، اور اس کی تعمیر، شان و شوکت اور منفرد حیثیت کو سراہا۔
رات گئے ہم ایک ہی جگہ موجود ان تین عظیم مقامات اور آباو اجداد کے آثار و نشانات کی زیارت سے فارغ ہوئے، سلطان احمد پارک کے پُرلطف مناظر کو نظروں میں سمویا، اور شدید تھکاوٹ لیے اپنے ہوٹل واپس ہوگئے، استنبول اور ترکی میں اپنی آخری رات گزارنے۔
استنبول میں تیسرا اور ترکی میں آخری روز
آج 10 نومبر 2020ء ترکی میں ہمارا آٹھواں اور استنبول میں تیسرا اور آخری دن تھا۔ اس دن کو بھرپور بنانے کے لیے صبح جلد بیدار ہوگئے، پیکنگ مکمل کی۔ دوبارہ وہی مرحلہ تھا ’’اُٹھ کہ سامانِ سفر تازہ کریں‘‘۔ مگر اب سامانِ سفر تازہ نہیں بلکہ سات آٹھ دن کا مستعمل سامان تھا، شام و سحر بھی وہی تھے، البتہ ’’نفسِ سوختہ‘‘ لیے اپنے پرانے زمان و مکاں کی طرف آج واپسی تھی۔ دل واقعتاً صبح سے ہی بے چین تھا۔ آج ناشتا بھی ڈھنگ سے نہ ہوسکا۔ پنیر کے چند ٹکڑے اور ترکی چائے کا ایک کپ۔ پھرتیاں دکھاتے ہوئے سامان لیے لابی میں آبیٹھے۔ ہم سارے قافلے والوں میں سب سے پہلے تھے جو وہاں پائے گئے۔ میری اضطرابی کیفیت اور دل کی حالت بقول میری اہلیہ میرے چہرے سے عیاں تھی۔ بلاشبہ آج کا دن حاصلِ سفر تھا۔ آج اپنی محبوب شخصیت اور قلب و روح پر گہری چھاپ اور اثر رکھنے والے سیدنا ابوایوب انصاریؓ کے حضور حاضری تھی۔ یہی جواب میں نے بیگم صاحبہ کو بھی دیا، تو انہوں نے بھی اسی کیفیت کا اظہار کیا۔ لابی میں بیٹھے دو ایک سیلفیاں لے کر فیس بک پر اپ لوڈ کیں تو راولپنڈی کے نوجوان دوست جہانگیر جدون نے سنجیدہ اور منہ بسورے منظر کی تصویر کو ناپسند کرتے ہوئے مسکراتے چہرے کی تصویر کی فرمائش کردی، جو مصنوعی تاثرات کے ساتھ فوراً ہی پوری کردی گئی، البتہ دل و دماغ سے ’’بارگاہِ ایوبیؓ‘‘ میں حاضری کا تصور اور تصوراتی منظر محو نہ ہوسکا۔
سیدنا ابوایوب انصاریؓ سے محبت
یوں تو تمام اصحابِ پاک رضوان اللہ علیہم اجمعین اہلِ ایمان کی آنکھوں کا نُور اور دل کا سُرور ہیں، مگر ذاتی طور پر میں سیّدنا ابوایوب انصاریؓ کے بارے میں کچھ نہ جانتے ہوئے بھی اُن کے ایک خاص حوالے سے محبت کے جذبات کچھ زیادہ رکھتا ہوں۔ یہ مسلمانانِ عالم میں سے فقط آپؓ کا ہی منفرد اعزاز ہے کہ ’’طلع البدر علینا‘‘کے ترانوں کی گونج میں مدینہ جو اُس وقت ’’یثرب‘‘ تھا، کی سرزمین پر قدم رنجہ فرمانے والے آقا و مولائے جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے واحد بلکہ اوّلین و آخرین میزبان قرار پائے۔ سرکارِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سواری ’’قصواء‘‘ کو اُن ہی کے گھر کے آنگن میں جا ٹھیرنے کا حکم دیا گیا۔ اُن ہی کے نصیب میں یہ شرف آیا کہ سات ماہ تک کائنات کے سب سے بہترین، عالی مرتبت و شرفِ انسان، رسول اور جانِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی شب و روز معیت، خدمت اور صحبت کا موقع ملا۔ اِسی نسبت سے یہ میرے محبوب، ان کے آنگن میں ٹھیرنے والی ’’قصواء‘‘ میری منظورِ نظر ٹھیری۔ میں نے اس ’’قصواء‘‘ کی زیارت مدینہ طیبہ کے ایک میوزیم میں سال 2019ء کے سفرِ عمرہ کے دوران کی، جس نے گیارہ سال سیدِ عرب و عجم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی۔ ہجرت، بدر، اُحد، حدیبیہ اور فتح مکہ کے پانچ انقلابی تاریخی مواقع پر سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت اختیار کی۔ اس میوزیم میں ’’قصواء‘‘ کی آنکھوں پر بندھی سیاہ پٹی نے کہ اُس نے وصالِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہجر و فراق میں جہاں کھانا پینا چھوڑ دیا، وہیں مسلسل گریہ و زاری کرکے اپنی بینائی کھودی اور جلد ہی ہجر و فراق کی اذیت سے نکل گئی۔
سیدنا ابو ایوب انصاریؓ
576ء میں یثرب میں پیدا ہوئے۔ انصار سے تعلق تھا۔ 98 سال کی عمر میں قسطنطنیہ میں لشکرِ اسلام کی معیت میں شوقِ شہادت اور جذبۂ جہاد سے سرشار ہوکر ایک وبا کا شکار ہوکر 674ء میں وفات پاگئے۔ حضور علیہ السلام سے مروی متعدد احادیث میں قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والے لشکر کو بہترین لشکر، اور امیر کو بہترین امیر قرار دے کر شریکِ جہاد ہونے والوں کو جنت کی بشارت دی گئی۔ اِسی نے سیدنا ابوایوبؓ کو طوالتِ عمر کے باوجود لشکرِ اسلام کی معیت کی مہمیز دی۔ ایک طویل عرصے تک اس شہر کا محاصرہ جاری رہا۔ متعدد لشکری وبا کا شکار ہوئے۔ آپؓ بھی بیمار ہوئے تو امیرِ لشکر کو وصیت کی کہ جہاں تک آگے جانا ممکن ہو وہاں جاکر مجھے دفن کردینا، اگر میں بھی اس مرض سے جانبر نہ ہوسکوں۔ لہٰذا آپؓ کو پوری لشکری اور فوجی سج دھج کے ساتھ، سپاہیوں نے مکمل اسلحہ زیب تن کرکے قسطنطنیہ کی فصیل کے پاس دفن کردیا۔ روایت ہے کہ ان کی قبر کو ہموار کردیا گیا، تاکہ رومی اس کی بے حرمتی نہ کرسکیں۔
حضرت ابوایوب انصاریؓ مواخات کے موقع پر حضرت مصعب بن عمرؓ کے بھائی بنائے گئے۔ روایت ہے کہ قسطنطنیہ کی فتح کے بعد شیخ شمس الدینؒ نے ان کی قبرِ مبارک کی نشاندہی کی۔ سلطان محمود دوم نے قبرِ مبارک کو سنگِ مرمر کے ذریعے پختہ کرنے کا حکم دیا، ساتھ ہی ایک مسجد کی تعمیر بھی کی جو ترکی کی قدیم تر مسجد قرار دی جاتی ہے۔ یہاں ہم نے عصر کی نماز ادا کرنے کا شرف حاصل کیا، اور یہ مزار کے احاطے میں بالکل سامنے چند گز کے فاصلے پر موجود ہے۔
(جاری ہے)