اکادمی ادیبات پاکستان کا مذاکرہ اور مشاعرہ

210

حکومت پاکستان نے زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کے جو ادارے قائم کیے ہیں ان میں اکادمی ادبیات پاکستان بھی شامل ہے جو کہ چاروں صوبوںمیں مصروف عمل ہے۔ ادارہ ادبیات پاکستان کراچی کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر قادر بخش سومرو ہر ہفتے سندھی‘ اردو مشاعرے کے ساتھ ساتھ مذاکرے کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے اکادمی کے زیر اہتمام بلوچی‘ بروہی زبان کے نامور شاعر میر گل خان نصیر کی یاد میں مذاکرہ اور مشاعرہ ترتیب دیا گیا جس کی صدارت امریکا میں مقیم پاکستانی نژاد شاعر رفیع الدین راز نے کی جنہوں نے اپنے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ میر گل خان نصیر نے بلوچی زبان و ادب کو ترقی دی‘ انہیں اپنے غریب عوام کا بہت احساس تھا۔ ان کے کلام کا ترجمہ فرانسیسی‘ روسی اور انگریزی میں ہو چکا ہے انہیں اردو‘ فارسی اور انگریزی زبانوں پر دسترس تھی۔ انہوں نے عقل و شعور‘ نیکی‘ حب الوطنی اور احترامِ آدمیت کی اقدار کو اجاگر کیا۔ ڈاکٹر نوارا مختیار نے کہا کہ میر گل خان نصیر کی شاعری میں مزاحمتی رنگ نظر آتا ہے انہوں نے ظلم و استبداد کے خلاف اشعار کہے۔ قادر بخش سومرو نے کہا کہ میر گل خان نصیر کی شعری جبلت ہر لمحہ کسی نئے تجربے کا اعلان کرتی ہے ان کی غزلیں اور نظمیں خیال آفرینی اور اثر پزیری کے مراحل طے کرتے ہوئے قارئین و سامعین کے دلوں میں موجزن ہوتی ہیں۔ مذاکرے کے بعد مشاعرے میں رفیع الدین راز‘ نصیر سومرو‘ اوسط علی جعفری‘ ڈاکٹر صبیحہ اعوان‘ محمد رفیق مغل‘ وحید محسن‘ عبدالستار رستمانی‘ صدیق راز‘ آفتاب عالم قریشی‘ فرح دیبا‘ نظر فاطمی‘ دلشاد واحد دہلوی‘ ڈاکٹر نورا مختار مانا‘ ہما اعظم‘ مہر جمالی اور دیگر شعرا نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔

حصہ