نظم اردو شاعری کا مستقبل ہے

478

کورونا وائرس کے پھیلائو کے سبب زندگی کے تمام شعبے متاثر ہیں‘ اسی سبب ادبی تقریبات بھی نہیں ہو پا رہی ہیں۔ گزشتہ ہفتے سلمان صدیقی نے راقم الحروف نثار احمد‘ رانا خالد محمود‘ شاعر علی شاعر اور نظر فاطمی کے ساتھ ایک ادبی نشست کی۔ اس موقع پر سلمان صدیقی نے کہا کہ نئی نظم اردو شاعری کا مستقبل ہے۔ ہیئت اور بُنت کے تجرباتی تناظر میں تخلیقی توانائی کی شدتوں کا جوہری حسن اپنے اظہار کے لیے نئی نظم کا مرہون منت ہے زندگی کو محسوس کرنا اور اس کے رنگوں کو اپنے اظہار میں تصویر کرنا ادب کہلاتا ہے۔ ہم اپنے شاعرانہ جذبات کے اظہار کو کسی بھی صنفِ شاعری میں سپرد قلم کر سکتے ہیں۔
غزل‘ نظم‘ آزاد نظم‘ نثری نظم وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح ہمارے شاعرانہ اظہار کو تسکین تو مل جاتی ہے مگر تسکین کی اس منزل پر پہنچ کر ایک مشکل بھی جنم لیتی ہے اور وہ یہ کہ ہم نے شاعری میں جو کچھ پیش کیا ہے اس کی اہمیت کیا ہے؟ اس میں ابلاغ کی سطح کیا ہے؟ اس میں تخلیقی توانائی کس درجے کی ہے۔ جس طرح غزل کو نظرانداز کرکے اردو شاعری کا ماضی بیان نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ نئی نظم کی وکالت یا اس کی پاسداری اور فروغ کی ضرورت کا مطلب غزل کو رد کرنا یا اس کی اہمیت کو کم کرنا یا کم سمجھنا نہیں ہے مگریہ حقیقت غزل کے منصب میں کوئی کمی نہیں کرتی کہ غزل ایک محدود لسانی صنف سخن ہے اور نظم کثیر اللسانی عالمی صنفِ سخن ہے۔
غزل اردو شاعری میں ثقافت کا درجہ اختیار کر گئی ہے اس کی لطافت‘ اس کی چاشنی اور اس کے ساتھ ہماری روایتی وابستگی کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا لیکن کسی بھی ادبی سماجیات میں کسی مخصوص صنفِ سخن کا راستہ اختیار کرتے ہوئے بھی ہم ایک دائرۂ کار میں مقید رہتے ہیں۔ غزل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک ظالم صنفِ سخن ہے مگر اس کے ظلم میں ایک رحم دلی بھی ہے اور وہ یہ کہ اگر اس میں ایک بھی شعر اچھا آجائے تو یہ شاعر کو رعایت دے دیتی ہے مگر نظم ایک ایسی سفاک صنفِ سخن ہے کہ جب تک وہ اپنے موضوعاتی سیاق و سباق اور جامع تاثر کے ساتھ پوری طرح محسوس نہ ہو‘ نظم اپنے سامع کی سماعت اور قاری کی نظر کو نہیں تھام سکتی۔
نظم اپنے کینوس پر نئی لفظیات اور تازہ تلازمات سجائے اپنی عروج کی منزلوں پر نظر جمائے آگے بڑھ رہی ہے۔ اردو شاعری کے عالمی ادب میں نظم کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ میرا خیال ہے کہ نثری نظم معدوم نہیں ہوئی ہے بلکہ اردو کی شعری تہذیب میں گھل گئی ہے اور آزاد نظم اور نثری نظم کی آمیزش سے جو نظم لکھی جارہی ہے ہم اسے ’’آزاد نظم‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ رانا خالد محمود نے کہا کہ نظم کے مقابلے میں غزل کے مشاعروں کا رواج ہے‘ نظم کے شعرا بہت کم ہوتے جارہے ہیں۔ نثری نظم کا معاملہ یہ ہے کہ چند شعرا کے علاوہ نثری نظم کہیں نظر آرہی ہوسکتا ہے کہ آنے والے زمانے میں نثری نظم زندہ ہو جائے۔ شاعر علی شاعر نے کہا کہ آج کا موضوع طویل بحث کا متقاضی ہے غزل کی شاعری عوام الناس میں مقبول ٹھہری لیکن جان دار نظم اپنے قارئین و سامعین کے دل میں اتر جاتی ہے۔

حصہ