(آخری حصہ)
۱۸ ویں اور ۱۹ ویں صدی میں آزاد خیالی کے علم برداروں نے مسلم ہند کے ساتھ جو ظلم و ستم روا رکھا وہ تو ایک کھلی حقیقت ہے اسی طرح ۲۰ ویں صدی کے اوائل میں آزاد خیالی کے حامل بائیں بازو کے گروہوں نے وسطی ایشیاء اور آج کے بوسنیا اور کوسسو میں جو کچھ کیا ہے اس کی تو وضاحت کی ضرورت ہی نہیں۔ انڈین نیشنل کانگریس کے آزاد خیال (جن میں نہرو خاندان بھی شامل ہے) افراد بھی یہی کچھ کرتے رہے ہیں۔ عراق، ایران، لیبیا اور الجزائر کے ساتھ آزاد خیال مغرب جو کچھ کررہا ہے اس پر تو تبصرہ کی ضرورت ہی نہیں۔
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ مسلمانوں کو ایسے عناصر کی دلجوئی کے لیے اپنی بنیادی اقدار اور اپنی قومی شناخت کی بنیاد سے ہی صرف نظر کرنے کے لیے کہا جارہا ہے جنہوں نے ہمارے ساتھ کبھی رواداری کا سلوک روا نہیں رکھا۔
بعض لوگ قانون توہین رسالت پر اس لیے اعتراض کرتے ہیں کہ ان کے خیال کے مطابق یہ قانون لادینی نظریات سے ہم آہنگ نہیں۔ مگر وہ یہ بنیادی بات فراموش کردیتے ہیں کہ پاکستان کبھی بھی ایک لادین (سیکولر) ملک نہیں رہا، نہ یہ مملکت لادینیت کی بنیاد پر معرض وجود میں آئی ہے بلکہ یہ ملک تو اس وقت وجود میں آیا جب متحدہ ہندوستانی قومیت کے نظریہ کو، جس کی انڈین نیشنل کانگریس موید اور حامی تھی، مسلمانوں نے بطور ایک قوم کے مسترد کردیا اور کہا کہ ان کی شناخت تو صرف اور صرف اسلام ہی ہے۔ چنانچہ پاکستان سے یہ توقع رکھنا عبث ہوگا کہ وہ دوسری لادینی مملکتوں کی طرح کا رویہ اور پالیسیاں اختیار کرے گا۔ قطع نظر اس کے کہ دوسری لادینی ریاستیں، خواہ وہاں اقتدار میں مسلمان ہی کیوں نہ شامل ہوں، ایسے معاملات میں ایسا طرز عمل اختیار کرتی ہیں۔
نبوت سے انکار اور توہین رسالت کا فرق
بعض لوگ حضرت محمدؐ کی نبوت سے انکار کو ان کی شخصیت سے خلط ملک کردیتے ہیں جبکہ یہ دونوں باتیں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ کسی بھی غیر مسلم کو اس امر کی آزادی ہے کہ وہ حضور اکرمؐ کو اللہ تعالیٰ کا پیغمبر تسلیم نہ کرے یا ان کی نبوت سے انکار کرے لیکن کسی کو پیغمبر اسلامؐ کی توہین کی اجازت نہٰں دی جاسکتی اور نہ ہی ان کے خلاف توہین آمیز کلمات کو برداشت کیا جاسکتا ہے۔
اعلیٰ مناصب پر یا معاشرے میں اعلیی مقام پر فائز بعض افراد تو اس قانون کے خلاف بڑے عجیب دلائل لائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قانون کی تنقید اور عدلیہ میں انحطاط کے پیش نظر کسی شخص کو توہین رسالت کے جرم میں سزا دینا بے معنی بات ہے اگر یہ دلیل تسلیم کرلی جائے تو صرف پاکستان میں نہیں، دنیا کے تمام ممالک میں قوانین کو ختم کردینا چاہیے کیونکہ جدید دنیا میں تو امن وامان کی صورت حال کبھی تسلی بخش نہیں رہی۔
بدقسمتی سے ہمارے بعض فیصلہ ساز حضرات بھی انہی غلط فہمیوں کا شکار رہے ہیں اور وہ اکثر اوقات اس قانون کے بارے میں اپنے ذہنی تحفظات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ ماضی میں حکومت نے چار مسلمانوں اور چار اقلیتی ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی تھی اس کمیٹی کے مسلم ارکان میں نہ تو کوئی عالم دین شامل تھا اور نہ کسی ماہر قانون کو شامل کیا گیا تھا۔
اس کمیٹی نے سفارش کی تھی کہ دفعہ ۲۹۵ سی کے تحت مقدمات میں ایک مختلف طریق کار اپنایا جانا چاہیے اس طریق کار کے مطابق پولیس کو یہ اختیار دینے کی تجویز دی گئی تھی کہ وہ توہین رسالت کے الزام کے پہلے تحقیقات کرے اور میرٹ پر مقدمہ (ایف آئی آر) کے اندراج یا الزام مسترد کرنے کا فیصلہ کرے۔
یہ تجویز بے حد سنگین مضمرات کی حامل تھی۔ اس تجویز پر عمل کرنے سے ایک طرف تو مقدمہ کے اندراج اور ملزم کے خلاف کارروائی میں تاخیر سے امن وامان کا مسئلہ پیدا ہوسکتا تھا جو ملزم اور دوسرے مشتبہ افراد کے قتل پر بھی منتج ہوسکتا تھا جب کہ دوسری طرف یہ تجویز لمزم کو قانونی دفاع کے حق سے محروم کرنے کے مترادف تھی۔ علاوہ ازیں رپورٹ کے اندراج میں تاخیر سے مقدمے کے قانونی جواز کے بارے میں بھی شکوک و شبہات پیدا ہوسکتے تھے۔ مزید برآں پولیس کی کارکردگی کے بارے میں مضبوط تحفظات کے باعث توہین رسالت کی شکایت کے قانونی جواز کے بارے میں پولیس کے کردار میں اضافہ اور پھر ایسی شکایت کو مسترد کرنے کے اختیار سے تو یہ قانون ہی کالعدم ہو کر رہ جاتا جو عدلیہ کے تحفظ پر بھی ایک حملے کے مترادف تھا۔
بعض لوگوں نے یہ بھی تجویز کیا ہے کہ توہین رسالت کی شکایت (یا الزام) عدالت میں ثابت نہ ہوسکے تو الزام عائد کرنے والے کو سزا دینے کا خاص قانون بنایا جانا چاہیے۔ یہ تجویز قانون اور انصاف کے تمام اصولوں کے منافی ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں عدالتی نظام تیزی سے روبہ انحطاط محسوس ہوتا ہے، جہاں مدعی اور شکایت کنندگان کو کوئی تحفظ حاصل نہیں، جہاں کمرہ عدالت میں گواہوں کو دھمکیاں دی جاتی ہیں، جہاں عدالتوں کے احاطہ میں فریق مقدمہ کو قتل کردیا جاتا ہے اور مخالفوں کو موت کے سپرد کرنا معمول بن چکا ہے، وہاں پر ایسی ترمیم سے اس قانون کے تحت توہین رسالت کے مجرموں کو سزا دینے کے تمام دروازے بند ہوجائیں گے بلکہ یہ جانتے ہوئے کہ اگر اس کی شکایت مسترد کردی گئی تو خود اسے بھی سزا کا مستوجب گردانا جاسکتا ہے، کون شکایت درج کرانے کے لیے آگے آئے گا۔ مزید برآں جب نہ صرف قانون سازوں اور اعلیٰ سرکاری حکام بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ہمدردیاں بھی کروڑوں مسلمانوں کے بجائے جن کے محبوب پیغمبرؐ کی توہین ہوگی، توہین کے مرتکب افراد کے ساتھ ہوں گی تو مسلمانوں کے لیے کوئی قابل عمل قانونی مداواہی نہ ہوگا۔
پھر مجوزہ ترمیم، جس کے تحت غلط شکایت کرنے والے کے لیے سزا تجویز کی گئی ہے بلاضرورت اور بلاجواز ہے کیونکہ پاکستان کے ’’ضابطہ تعزیرات‘‘ اور ضابطہ فوجداری‘‘ میں جھوٹی اطلاع، جس کا مقصد کسی دوسرے شخص کو نقصان پہنچانا ہو، دینے والے کو سزا کی دفعات پہلے ہی موجود ہیں، پاکستان کے ’’ضابطہ فوجداری‘‘ کی باب ۱۰ اور ۱۱ میں اس نوع کے مختلف مقدمات جن میں جھوٹی گواہی دینا اور انصاف کے منافی جرائم شامل ہیں، سے نمٹنے کے لیے دفعات واضح طور پر شامل ہیں۔ چنانچہ توہین رسالت کا ارتکاب کرنے والوں کے حق میں امتیازی قوانین کے بجائے ’’ضابطہ فوجداری‘‘ کے باب ۱۱ میں شامل دفعات کو مزید سادہ، آسان اور موثر بنایا جانا چاہیے۔