افسوس صد افسوس

268

غیر ملکی میڈیا گروپ کے سینئر تجزیہ نگار کے مطابق ”اسرائیل کی بنیاد رکھنے والوں کے درمیان یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ فلسطینی اپنے گھروں کو واپس آئیں گے، انہیں اپنی جگہوں پر لوٹنے کا حق ہوگا۔ لیکن اس کے تناظر میں فلسطینی اپنی سرزمین پر واپس نہیں آسکے۔ عرب ممالک عالمی جنگ میں سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف برطانوی اتحاد کی حمایت میں اس شرط پر شامل ہوئے کہ جنگ میں جیت کی صورت میں انہیں آزادی دے دی جائے گی۔ مگر جنگ کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں تیل کے ذخائر پر نظر رکھنے والی طاقتوں نے خطے کو اپنی مرضی کے مطابق بانٹنا شروع کردیا، اور نئی سرحدی تقسیم کی۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد فلسطین کے علاقے کو تقسیم کرکے یہاں یہودی مملکت کی بنیاد رکھی گئی اور کئی وعدوں کے سائے میں فلسطینیوں کو وہاں سے بے دخل کردیا گیا۔ مشرقی یروشلم جو جھگڑے کی بنیاد تھا اُس پر طے ہوا تھا کہ مسجد اقصیٰ مشرقی یروشلم میں ہی رہے گی اور طے کیا جائے گا کہ یہ علاقہ اسرائیلی کنٹرول میں رہے گا یا آزاد رہے گا؟ اس دوران کئی تبدیلیاں ہوئیں جس سے فلسطینیوں کو ان کا حق نہیں دیا گیا، جبکہ امریکی وساطت سے ”معاہدئہ اوسلو“ میں یہ طے پایا تھا کہ یہ جھگڑا ختم کیا جائے گا جس کے بعد فلسطینی انتظامیہ اپنا کام خود کرے گی اور اسرائیل سے کوئی بھی جنگ نہیں ہوگی۔“
اخبار میں چھپی یہ خبر پڑھتے ہی صابر بھائی کے صبر کا پیمانہ کچھ ایسا لبریز ہوا کہ وہ آپے سے ہی باہر ہونے لگے، اور اس قدر جذباتی ہوئے کہ ہمارے زمانے میں ہونے والی ساری جنگوں کا ایسا آپریشن کیا جیسے بین الاقوامی دفاعی تجزیہ کار ہوں۔ فرمانے لگے: ”فلسطین پر جنگ مسلط ہونا نئی بات نہیں، اسرائیل گزشتہ سات دہائیوں سے یہی کچھ کرتا چلا آرہا ہے، اُن کی وہ جانیں، ہمیں اپنے گھر کی فکر کرنی چاہیے، ہم کوئی زیادہ بڑے مسلمان نہیں، ہمارے اپنے بھی مسائل ہیں، کشمیریوں پر بھارت نے ایک غیر اعلانیہ جنگ مسلط کررکھی ہے، ماؤں، بہنوں کی عزتیں پامال کی جارہی ہیں، نوجوان نسل کا قتلِ عام کیا جارہا ہے، آئے دن ہماری سرحدوں کی خلاف ورزی کی جاتی ہے، اور اس پر آواز اٹھانے کے بجائے دنیا کے سب سے بڑے مندر کی تعمیر کی جاتی ہے، معاشی فائدے حاصل کرنے کے لیے مودی کے مجسمے تک بنائے جاتے ہیں، ایک مسلم عرب ملک کی جانب سے اسرائیل کو نہ صرف تسلیم کیا جاتا ہے بلکہ اسرائیل کے خلاف پالیسی پر نظرثانی کرنے کے لیے ہم پر بھی دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ جب عرب ممالک کا یہ حال ہے تو ہمارے پیٹ میں کیوں درد اٹھ رہا ہے! بس بہت ہوگیا، ہم نے ہمیشہ دوسروں کی جنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے، ہماری قوم کے 70ہزار سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں اور دہشت گردی کی جنگ آج بھی ہم پر مسلط ہے، سانحہ اے پی ایس کی یاد آتی ہے تو روح کانپ جاتی ہے جہاں چھوٹے چھوٹے بچوں کا قتلِ عام کیا گیا۔ افغانستان میں بیٹھ کر بھارت اور امریکہ ہماری سالمیت کے خلاف کام کررہے ہیں، مستقبل قریب میں امریکی افواج کا انخلا ہونے کو ہے، خطے کی صورت حال انتہائی خرابی کی جانب گامزن ہے، شدت پسند ایک مرتبہ پھر اکٹھے ہوتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ بڑا نازک دور آنے والا ہے۔ وقت کا تقاضا یہی ہے کہ کسی کی جنگ میں کودنے کے بجائے اپنے گھر پر نظر رکھی جائے۔“
فلسطین سے متعلق تجزیہ نگار کی جانب سے بیان کردہ حقائق، اور اس پر صابر صاحب کی تنقیدی رائے اپنی اپنی جگہ درست ہوسکتی ہے، لیکن آج کا سچ تو یہ ہے کہ غزہ میں قیامتِ صغریٰ برپا ہے، آج پھر آگ اور خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے، آج پھر صہیونی افواج کی وحشیانہ بمباری سے سیکڑوں مسلمان شہید، جبکہ ہزاروں نہتے فلسطینی زخمی ہوچکے ہیں۔ رہائشی علاقوں پر اسرائیل کے جنگی طیارے مسلسل بم برسا رہے ہیں، درجنوں عمارتوں کو مکمل طور پر تباہ کردیا گیا ہے۔ آج پھر اسرائیلی فوج کی وحشیانہ بمباری کے باعث فلسطینیوں کے گھر ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں، جبکہ عورتیں اور بچے پناہ کی تلاش میں غزہ کی گلیوں میں دوڑتے پھر رہے ہیں اور کوئی مدد کرنے والا نہیں۔ مظلوم فلسطینیوں کی آہیں اور سسکیاں سننے والا کوئی نہیں۔ کوئی نہیں جو نہتے مسلمانوں کو یہودیوں کی دہشت گردی سے بچائے۔ اسرائیل جب چاہے بم برسائے اور جنگ بندی کا اعلان کردے اس کی مرضی۔ آگ اور خون کے اس کھیل پر مسلم امہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، او آئی سی روایتی طور پر مذمتی بیانات تک ہی محدود ہے، اسرائیلی جارحیت پر مسلم حکمران دولت اور عسکری طاقت رکھنے کے باوجود عملی اقدامات کے بجائے غیبی مدد، ابابیل بھیجنے اور ظالم اسرائیل کو تہس نہس کرنے جیسی دعائیں مانگنے کا درس دے رہے ہیں۔ ظالم کا ظلم بڑھتا جارہا ہے، مظلوم کا خون بہتا ہی چلا جارہا ہے لیکن کسی میں ہمت نہیں کہ ظالم کا ہاتھ روکے، مظلوم کی مدد کرے۔ افسوس کہ ہم نے بھلا دیا اللہ کے فرمان کو، جس کا مفہوم ہے ’’کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور اُن ناتواں مظلوم مردوں، عورتوں اور ننھے ننھے بچوں کی مدد کے لیے جہاد نہیں کرتے جو یوں دعائیں مانگ رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ان ظالموں سے ہمیں نجات دے اور ہمارے لیے خود اپنے پاس سے حامی مقرر کردے اور ہمارے لیے اپنے پاس سے مددگار بنا۔“
افسوس صد افسوس ہم نے بھلا دیا آقائے دو جہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب مسلمان جسدِ واحد کی طرح ہیں۔ اگر اس کی آنکھ دُکھے تو اس کا سارا جسم دُکھ محسوس کرتا ہے، اور اسی طرح اگر اس کے سر میں تکلیف ہو تو بھی سارا جسم تکلیف میں شریک ہوتا ہے۔“ (صحیح مسلم)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ اس لیے نہ تو خود اس پر ظلم و زیادتی کرے، نہ دوسرے کے ظلم کا نشانہ بننے کے لیے اس کو بے یار ومددگار چھوڑے۔“ (صحیح مسلم)
افسوس کہ دنیا کی محبت ہم پر غالب آچکی ہے۔ کمخواب اور مخملی بستر ہمارے حکمرانوں کی خوآب گاہوں کی زینت ہیں۔ سونا، چاندی، ہیرے جواہرات، قیمتی گاڑیاں، یہاں تک کہ ہوائی جہاز ہمارے شہنشاہوں کی وجہ شہرت ہیں، جبکہ یہود و نصارٰی اور ہندو بنیے سے دوستی باعثِ شرف بن چکی ہے۔
افسوس صد افسوس ہم نے بھلا دیا 22 لاکھ مربع میل پر پھیلی مسلم سلطنت کے درویش صفت خلیفہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زہد و تقویٰ کو، کہ سونا، چاندی، ریشم اور مہنگا ترین کپڑا ہونے کے باوجود آپ نے بیت المال میں سے اپنا وظیفہ سب سے کم مقرر کیا، اور کئی مرتبہ بیت المال سے صرف دو ہی جوڑے کپڑے کے لیتے، وہ بھی کسی موٹے اور کھردرے کپڑے کے ہوتے۔ جب وہ پھٹ جاتے تو ان پر چمڑے اور ٹاٹ کے پیوند لگاتے۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لباس میں سترہ پیوند شمار کیے۔ آپ اپنی رعایا کی خبر گیری کے لیے راتوں کو اٹھ اٹھ کر گشت کیا کرتے۔ جو صحابہ کرام جہاد پر گئے ہوتے اُن کے گھروں کی ضروریات کا خیال کرتے۔ بازار سے سامان وغیرہ خود خریدتے اور ان کے گھروں میں پہنچاتے تھے۔
افسوس، آج دنیا میں مسلمانوں کی آبادی سوا ارب سے زیادہ ہے لیکن ان کی جانوں کی وقعت، غیر مسلموں کے پالتو جانوروں جتنی بھی نہیں۔ مسلمانوں کے قتلِ عام پر اقوامِ متحدہ اور عالمی عدالتِ انصاف جیسے ادارے قاتلوں کے خلاف ثبوت در ثبوت ہونے کے باوجود کسی بھی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کرتے، جبکہ کسی بھی مسلم ملک کے خلاف لشکر کشی کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ سوچیے کہ ایسا کیوں کر ہوا؟ سوچیے 22لاکھ مربع میل پر حکومت کرنے والی قوم آج کیوں ذلیل وخوار ہے؟ سوچنے پر یہی جواب ملے گا کہ ہم نے اللہ کی رسّی (قرآن) کو چھوڑ کر یہود ونصاریٰ کے دامن کو پکڑ لیا ہے، جبکہ جہاد جیسے عظیم مقصد کو بھلا کر اسلام کو محض نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ تک ہی محدود کرلیا ہے۔ یہاں تک کہ روزمرہ کے معاملات و معاملت میں بھی قرآن سے رہنمائی لینے کے بجائے خود کو غیر ملکی آقاؤں کے بنائے ہوئے قوانین کے حصار میں جکڑ لیا ہے۔ مال و دولت اکٹھا کرنے، شہرت کی بلندیوں کو چھو لینے، اور عالی شان محلات بنانے کی خواہش نے ہمارے دلوں کو مُردہ کردیا ہے۔ کاش کہ آج ہم نے اقبال کے نظریے کو ہی یاد رکھا ہوتا:
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تُو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
جو بتاتے ہیں کہ اگر ہمیں اقوامِ عالم میں عزت و احترام حاصل کرنا ہے تو پھر اپنے اسلاف کی طرح جدوجہد کرنی ہوگی، آرام اور راحت کو ترک کرکے میدانِ عمل میں آترنا ہوگا، اور ایسا مردِ مومن بننا ہوگا جس کی للکار سے یہود و ہنود کی ٹانگیں کانپنے لگیں۔ ایسے مردِ مومن کی یہ امتیازی شان ہے کہ وہ اِس دنیا میں رہتے ہوئے دنیاوی آلائشوں سے خود کو دور رکھتا ہے۔ اگر ہمیں اپنے کھوئے ہوئے مقام و مرتبے کو پھر سے پانا ہے تو خود میں فولاد کی سختی اور کردار کی مستی پیدا کرنی ہوگی، اغیار پر بھروسا کرنے کے بجائے خود میں شاہین کی جھپٹنے والی صلاحیت پیدا کرنی ہوگی، اور اپنے زورِ بازو پر بھروسا کرتے ہوئے ظلم کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہوگا۔ کیونکہ آج تحریر و تقریر کے ساتھ ساتھ عملی پروگرام اور لائحہ عمل سے ہی نہ صرف یہود و نصاریٰ کی سازشوں کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے بلکہ امتِ مسلمہ کے اندر اتحاد و اتفاق بھی قائم کیا جا سکتا ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر مسلمانوں کا کھویا ہوا وقار بھی واپس آ سکتا ہے۔

حصہ