معاشرے کی موجودہ صورتِ حال کے پیشِ نظر ہمارا سب سے اہم مسئلہ اصلاحِ معاشرہ ہے۔ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جو طرح طرح کی بدعنوانیوں کی زد میں ہے۔ لوگوں کی اخلاقی زندگی تباہ ہو چکی ہے اور انسانی رشتوں کی ساری شکلیں زہر آلود ہیں۔ یہ صورت حال صرف حساس لوگوں کے لیے اذیت اور کرب کا باعث نہیں ہے بلکہ معاشرے کے عام افراد کے لیے بھی ناقابلِ برداشت بن گئی ہے۔ خطرہ محسوس کیا جارہا ہے کہ اگر اس صورتِ حال کو تبدیل کرنے کی مؤثر کوششیں بہت جلد نہ شروع کی گئیں تو معاشرہ اخلاق اور قانون کی ہر پابندی سے آزاد ہو کر ایک ایسے فساد اور انتشار کا شکار ہو جائے گا جس کا تدارک ممکن نہ ہوگا۔
بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ یہ صورت حال صرف ہمارے معاشرے سے مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام دنیا ایک اخلاقی بحران سے گزر رہی ہے اور اس کا تجزیہ صرف اس وقت ممکن ہے جب اسے عالم گیر مسائل کے پس منظر میں دیکھا جائے۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کے نزدیک یہ مسئلہ اخلاقی نہیں بلکہ معاشی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا دو حصوں میں منقسم ہے۔ ایک حصہ وہ جو معاش کے تمام ذرائع پر قابض ہے اور زندگی کی ساری آسائشیں اور سہولتیں اس کے لیے وقف ہیں جب کہ دوسرا حصہ اس سے محروم ہے اور افلاس اور فاقہ کشی کی زندگی بسر کرتا ہے۔ یہ دونوں گروہ تنازہ للبقا کے عمل میں مبتلا ہیں اور نتیجے کے طور پر اخلاق ایک غیر متعلق سوال بن کر رہ گیا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ دولت کی منصفانہ تقسیم کی جائے اور دونوں گروہوں کے تضاد‘ تخالف اور مسابقت کی لا مختتم دوڑ کو ختم کیا جائے۔ اس گروہ کے نزدیک انفرادی اخلاق کے کوئی معنی نہیں اور معاشرتی فساد کا حل انفرادی نہیں اجتماعی ہے۔
اس کے مقابلے پر ایک دوسرا گروہ انفرادی اخلاق کو بنیادی اہمیت دیتا ہے اس کا کہنا ہے کہ بڑی اجتماعی تبدیلیاں بھی افراد کے ذریعے ہی ظہور میں آتی ہیں۔ دولت کی منصفانہ تقسیم‘ عدل عمرانی کا تصور اور اجتماعی انقلاب کا عمل بھی ایسے افراد کی موجودگی کا محتاج ہے جو ان اصولوں پر یقین رکھتے ہوں اور معاشرے کو اُن کی بنیاد پر تبدیل کرنا چاہتے ہوں۔ اب اگر یہ لوگ خود بدعنوان ہوں اور اخلاقی اعتبار سے درست نہ ہوں تو وہ معاشرے میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کر سکتے۔ اس کا مطلب یہ ہو اکہ ہر انقلاب ایک انقلابی جماعت کا مرہونِ منت ہوتا ہے اور اس انقلابی جماعت کے افراد کا اخلاقی ہونا انقلاب کی لازمی شرط ہے۔
بدقسمتی سے ان دونوں نقطہ ہائے نظر کو مجادلوں اور مناظروں کا موضوع بنا لیا گیا ہے اور فکری طور پر دونوں گروہ دو نظاموں کے نمائندے سمجھے جاتے ہیں۔ اخلاقی نقطہ نظر کے حامل لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کے نمائندہ ہیں جب کہ معاشی نقطۂ نظر رکھنے والے اشتراکی نظام کے ترجمان سمجھے جاتے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ دونوں گروہوں کو ایک دوسرے کی نیتوں پر کوئی بھروسہ نہیں۔ معاشی نقطۂ نظر والے اخلاقی نقطۂ نظر والوں پر الزام لگاتے ہیں کہ ان کا مقصد صرف استحصال کو تقویت پہنچانا ہے۔ ان کے نزدیک مفلوک الحال عوام کو اخلاق کا سبق پڑھانے کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ انہیں اپنی معاشی حالت کی تبدیلی سے روکا جائے اور اس کے مقابلے پر سرمایہ داروں کو ہر قسم کی لوٹ مار کی اجازت دے دی جائے جب کہ انقلاب کا تقاضا یہ ہے کہ عوام کو اپنی محرومیوں کا زیادہ سے زیادہ احساس ہو اور وہ اسے تبدیلی کرنے کے لیے کوشاں ہوں‘ چنانچہ انقلاب طبقاتی کشمکش کو شدید سے شدید تر کرنے کا متقاضی ہے نہ کہ اخلاقی درس و تدریس کا دوسرا گروہ طبقاتی کشمکش کا نام سنتے ہی کانوں پر ہاتھ رکھتا ہے اور معاشی نقطۂ نظر رکھنے والوں پر معاشرتی انتشار پیدا کرنے اور معاشرے کے امن و سکون کو غارت کرنے کا الزام لگاتا ہے۔
اب اس صورت حال میں ہمارے لیے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اسلامی نقطۂ نظر سے ہم مسئلے کا تجزیہ کن اصطلاحوں میں کرتے ہیں اور اس کے حل کے لیے کیا تجویز پیش کرتے ہیں۔سچائی سے بات کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس بات کا اعتراف کیا جائے کہ ہمارے یہاں مسئلے کے تجزیے اور وضاحت کے لیے اتنا غور نہیں کیا گیا جتنا ضروری ہے۔ عام طور پر ہم اخلاقی نقطۂ نظر کی حمایت کرتے ہیں اور معاشی نقطہ نظر کو غیر اسلامی سمجھ کر اسے چنداں اہمیت نہیں دیتے یا مناسب غوروفکر کے بغیر رد کر دیتے ہیں اور اس کے نتیجے کے طور پر جو رویہ پیدا ہوتا ہے اس کا خلاصہ صرف اتنا ہے کہ ہمیں اخلاقی اصولوں پر زور دیتے رہنا چاہیے اور ہمارا کام صرف اتنا ہے کہ ہم لوگوں کو بتا دیں کہ اخلاقی اعتبار سے کونسی چیز اچھی ہے اور کون سی بری۔ چنانچہ دن رات تبلیغ و اشاعت کے تمام مرکز کو اخلاق کا درس دینے میں لگے رہتے ہیں اور بے بسی سے یہ مشاہدہ کرنے کے باوجود کہ اس سے لوگوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا یہ خواب دیکھتے رہتے ہیں کہ کسی نہ کسی دن کچھ نہ کچھ اثر ضرور پڑے گا۔ اس سلسلے میں ہمارا استدلال جن منزلوں سے گزرتا ہے وہ یہ ہیں۔ ہم مسلمان ہیں اسلام نے ہمیں اخلاق کی تعلیم دی ہے۔ ہم مسلمان ہیں تو ہمیںاس تعلیم پر عمل کرنا چاہیے۔ اب رہا یہ سوال کہ اسلام کا دعویٰ کرنے کے باوجود ہم اسلام کی اخلاقی تعلیمات پر عمل نہ کریں تو معاشرے کی اصلاح کس طرح کی جائے اس پر ہم کوئی غور نہیں کرتے حالانکہ اصل مسئلہ یہی ہے۔ اخلاقی تعلیم پر اگر عمل کیا جائے تو اس سے بہتر کیا بات ہو سکتی ہے‘ لیکن مسئلہ تو یہ ہے کہ لوگ اس پر عمل نہیں کرتے‘ اس لیے حقیقی سوال یہ ہے کہ اس صورتِ حال میں کیا کیا جائے؟
معاشی اور اجتماعی نقطہ نظر یہیں ہمارے کام آتا ہے۔ اشتراکیت پر ہمیں جو بھی اعتراض ہو‘ لیکن معاشی اور اجتماعی تجزیے صرف اشتراکیت کی میراث نہیں ہیں۔ ہمیں اشتراکیت کی فلسفیانہ اساس یعنی جدلیاتی مادّیت پر اعتراض ہے‘ ہم اس کی تاریخی جبریت کے نظریے سے بھی اختلاف رکھتے ہیں۔ اشتراکی ریاستوں میں جبر و تشدد کا جو نظام رائج ہے وہ ہمارے نزدیک پسندیدہ نہیں ہے‘ لیکن اس کے معنی یہ کسی طرح بھی نہیں ہیں کہ اشتراکیت میں صداقت کا کوئی عنصر موجود نہیں ہے۔ اشتراکیت اور سرمایہ داری دونوں میں جزوی صداقت موجود ہے۔ جزوی صداقت کو اگر جزوی صداقت رہنے دیا جائے تو اسے اس کے حدود میں تسلیم کیا جاسکتا ہے۔ جھگڑا اس وقت پیدا ہوتا ہے جب جزوی صداقت کو بھی صداقت منوانے کی ضد کی جاتی ہے۔
دوسرے لفظوں میں ہمارا کہنا یہ ہے کہ ہمیں اشتراکیت کی معاشی ہمہ اوست تو قبول نہیں ہے‘ لیکن سرمایہ دارانہ معیشت کے جو تجزیے اشتراکیت نے کیے ہیں ان میں بہت کچھ صداقت موجود ہے۔ ان تجزیوں سے واقفیت اور ان پر مناسب غوروفکر ہمارے لیے اس سبب سے ضروری بلکہ لازمی ہے کہ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں وہ خالص اسلامی معاشرہ نہیں ہے۔ اس میں بہت سے عناصر ایسے موجود ہیں جو غیر اسلامی معیشت سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ عناصر ہماری معاشرت میں غیر ملکی حکومت کے دو سو سالہ اقتدار میں پیدا ہوئے اور اب ہماری اجتماعی زندگی کا حصہ ہیں۔ ہماری زندگی ان کے اثرات کے تحت آچکی ہے۔ ہم ان اثرات کو پوری طرح سمجھے بغیر اپنی اجتماعی زندگی کے سبھی مظہر کی تشریح نہیں کر سکتے۔ غیر ملکی حکومت سے پہلے ہم جس معاشرے میں رہتے تھے وہ ایک اخلاقی معاشرہ تھا جس کے معنی یہ ہیں کہ اس معاشرے میں فرد خاندان اور اجتماع کے لیے ایسے زندہ رشتے موجود تھے جن میں اخلاقی تربیت کا نظام مؤثر ثابت ہوتا تھا تب لوگوں کے رشتے شخصی نوعیت کے تھے‘ لوگ چھوٹی چھوٹی آبادیوں میں رہتے تھے جن میں افراد کا ایک دوسرے سے قریبی اور حقیقی تعلق ہوتا تھا۔ اس تعلق کی بنا پر پوری معاشرت میں اخلاقی روک تھام کا ایک ایسا نظام موجود تھا جو افراد کو بہت سے ایسے کاموں سے مؤثر طور پر روک سکتا تھا جو معاشرے میں ناپسندیدہ سمجھے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ اس معاشرت میں خود کفیل آبادیوں کی موجودگی ان میں معاشی مسابقت کی وہ بھاگ دوڑ بھی پید انہیں ہونے دیتی تھی جو ہماری موجودہ معاشرت میں ایک فتنہ بن گئی ہے۔ میرے لیے فی الحال یہ تو ممکن نہیں ہے کہ میں قدیم ا ور جدید معاشرت کے تمام امتیازی اختلاف کو تفصیل سے بیان کرسکوں‘ لیکن میں یہ ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ ہماری جدید معاشرت اور اس کے مسائل قدیم معاشرت کے مسائل سے مختلف ہیں اور ہمیں انہیں گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کرنا چاہیے۔
اشتراکیت مذہب کو نہیں مانتی اور بحیثیت مجموعی ایک باطل نظام ہے جو انسانی فطرت اور اس کے مطالبات کے ایک سطحی اور ایک رُخے تصور پر قائم ہے‘ لیکن اشتراکی تجزیوں نے ہمیں یہ بات ضرور باتی ہے کہ ایک سرمایہ دارانہ معاشرت میں مذہب کی کیا درگت بنتی ہے۔ ان تجزیوں کی روشنی میں ہم طرزِ احساس‘ طرزِخیال اور طرزِ عمل کی ان تبدیلیوں کو سمجھ سکتے ہیں جو سرمایہ دارانہ معیشت میں مذہب کو صرف زبانی جمع خرچ کی چیز بنا دیتے ہیں۔ وہ میں سائنسی صداقت کے ساتھ بتاتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ معاشرے میں پورے معاشرے کا واحد محرک عمل زراندوزی بن جاتا ہے اور مذہب کی اصلی تعلیمات سرمایہ د اروں کی بانہوں میں صرف اپنے چاروں طرف دیکھ رہے ہیں‘ لیکن معاشی تجزیہ اس صورتِحال کی نشاندہی کے بعد اس کا حل صرف یہ تجویز کرتا ہے کہ ذرائع معاش کو افراد کے قبضے سے نکال لیا جائے اور انہیں اجتماعی قبضے میں دے دیا جائے۔ وہ ہمیں یہ تو بتاتا ہے کہ معیشت میں ساری خرابی اس وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ سرمایہ دار پیسہ جمع کرنا چاہتا ہے لیکن وہ ہمیں یہ نہیں بتاتا کہ سرمایہ دار پیسہ کیوں جمع کرنا چاہتا ہے؟ اس کے نتیجے کے طور پر وہ انسانوں کی داخلی زندگی میں کسی تبدیلی کے بغیر صرف خارجی تبدیلی کی منصوبہ بندی کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ ماحول کو بدل دینے سے آدمی خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔ یہاں پہنچ کر ہمیں انفرادی اور اخلاقی نقطہ نظر کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہمارے نزدیک انسان صرف ماحول کو درست کرنے سے ٹھیک نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ داخلی تبدیلیاںپورے ماحول کو بدلنے میں ناکام ہو جاتی ہیں۔ اس لیے اسلام کا نقطہ نظر یہ ہے کہ انسان کو اندر اور باہر دونوں طرف سے بدلا جائے۔ اس میںداخلی تبدیلیاں بھی کی جائیں اور اس کے ماحول کو بھی درست کیا جائے۔ داخلی تبدیلی کے معنی افراد میں تبدیلی کے ہیں اور ماحول میں تبدیلی اجتماعی میں تبدیلی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ مختصر لفظوں میں ہمیں انفرادی اخلاق کی ضرورت بھی ہے اور اجتماعی قانون کی بھی۔ اس لیے اسلام صرف انفرادی یا صرف اجتماعی تصورات پیش کرنے کے بجائے ایسے تصورات پیش کرتا ہے جو انفرادی اور اجتماعی دونوں پہلوئوں پر حاوی ہوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے افراد کی زندگیوں کو بھی تبدیل کیا اور اس کے بعد ایک ریاست کی بنیاد بھی رکھی جس کی اساس اسلامی قوانین پر تھی۔ یہ قوانین ا ور اخلاقی زندگی مل کر ہی انسانی فوز و فلاح کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
یہاں ایک بات کی وضاحت بہت ضروری ہے آج کل اسلامی نظام کے نفاذ کا بہت چرچا ہے اس کے لیے کوششیں بھی ہورہی ہیں‘ لیکن اس کے ساتھ ہی لوگوں کے دلوں میں یہ خوف بھی موجود ہے کہ معاشرے کی موجودہ حالت میں یہ نظام مؤثر ثابت ہوگا یا نہیں۔ ہمارے نزدیک ضروری ہے کہ نظام کی حقیقت کو سمجھ لیا جائے۔ نظام ہمیشہ قوانین سے تعلق رکھتا ہے اور خارج سے عائد کیا جاتا ہے‘ اس لیے اسلامی نظام کے معنی صرف یہ ہیں کہ قوانین کو اسلام کے تابع کر دیا جائے‘ لیکن قانون کا دائرۂ اثر ہمیشہ محدود ہوتا ہے وہ کبھی پوری زندگی کا احاطہ نہیں کرسکتے۔ مثال کے طور پر یہ قانون تو بنایا جاسکتا ہے کہ رشوت نہ ملی جائے یا سودی کاروبار نہ کیا جائے‘ لیکن یہ قانون نہیں بنایا جا سکتا کہ ہر شخص اپنے پڑوسی سے محبت کرے اور اس کے حقوق ادا کرے۔ اسلام کی بنیاد ایمان‘ تقویٰ اور اللہ کے خوف اور محبت پر ہے اور یہ داخلی متعلقات ہیں جو افراد سے تعلق رکھتے ہیں انہیں اجتماعی قوانین کے تحت نہیں لایا جاسکتا‘ اس لیے ضرور اسلامی نظام کے تصور میں وہی خرابی موجود ہے جسے ہم اشتراکیت کے ضمن میں بیان کرچکے ہیں۔ نظام ہمارے ماحول کو بدل سکتا ہے مگر خود ہمیں اندر سے نہیں بدل سکتا‘ اس لیے ہمیں ماننا چاہتے کہ ہمارے نظام میںکوئی بھی تبدیلی صرف اس وقت کارگر ثابت ہوگی جب ہم خود بھی اندر سے تبدیل ہوں۔ رشوت لینے کا قانون صرف اس وقت مؤثر ہوگا جب ہمارے ماحول سے رشوت کے محرکات ختم کر دیے جائیں گے اور ساتھ ہی ہم باطنی طور پر اخلاقی معنوں میں رشوت کو برا سمجھیں گے۔
اس مختصر سی بحث کے بعد ہم اپنے سوال کی طرف لوٹتے ہیں۔ اصلاحِ معاشرہ کس طرح ممکن ہے؟ معاشی تجزیے کی مدد سے ہم دیکھ چکے ہیں معاشرے میں معاشی ناہمواری موجود ہے ایک طرف وہ لوگ ہیں جو معاش کے تمام وسائل پر قابض ہیں۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جن کے پاس خالی باتوں کے سوا اور کچھ نہیں۔ اس کی وجہ سے دونوں طبقات میں تضاد اور تخائف پیدا ہوتا ہے اور ساتھ ہی افراد میں معاشی مسابقت کی دوڑ شروع ہو تی ہے جو مذہب اور اخلاق سب کو روندتی ہوئی آگے بڑھجاتی ہے۔
ہمارے یہاں سرمایہ دارانہ نظام کی آمد سےپہلے جو معاشرہ قائم تھا اس میں حیاتِ اخروی کو حیاتِ دینوی پر ترجیح حاصل تھی آخرت کے مذہبی عقیدے سے جو اخلاقیات پیدا ہوئی تھی اس میں اکلِ حلال‘ قناعوت اور توکل‘ حرص و ہوس سے اجتناب بنیادی قدریں تھیں اس کے علاوہ معاشرے میں عزت و ذلت کے پیمانے بھی مختلف تھے۔ شرافت‘ دیانت‘ علم‘ حسنِ اخلاق اور مروت کی اہمیت دی جاتی تھی اور دنیا پرستی کو رذائلِ اخلاق میں شمار کیا جاتا تھا۔ ان سب چیزوں سے مل کر لوگوں کا ایک طرزِ عمل بنتا تھا جو معاشرے میں زرپرستی کے رجحان کی روک تھام کرتا تھا۔ لوگوں کے پیشے موروثی ہوتے تھے اور ان کے پیچھے صدیوں کی روایات قائم تھیں کہ کس پیش کے آدمی کو کیسا ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ عوام کی اکثریت چھوٹی چھوٹی دیہی آبادیوں میں رہتی تھی جہاں لوگوں کا ایک دوسرے تعلق قریبی اور شخصی ہوتا تھا۔ یہ تعلق ہر فرد کے رویے اور طرزِ عمل پر کچھ ایسی پابندیاں عائد کرتا تھا جن کو توڑنا کسی حالت میں بھی پسندیدہ نہیں سمجھا جاتا تھا۔
سرمایہ دارانہ نظام نے معاشرے کے اس پورے نظام کو توڑ دیا۔ مذہب‘ اخلاق اور سماجی ترجیحات کے اثرات کمزور ہونے شروع ہوئے اور اُن کے بارے میں لوگوں کے وہ رویے نہیں رہے جو پورے معاشرے میں ہم آہنگی پیدا کرتے تھے۔ سب سے بڑی تبدیلی موروثی پیشوں کے نظام کے ٹوٹنے سے پیدا ہوئی۔ یہ روایات کے ایک پورے سانچے کے ٹوٹنے کا عمل تھا جس نے لوگوں کے طرزِ ادا‘ طرزِ خیال اور طرزِ عمل کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ پھر چونکہ سرمایہ دارانہ نظام کا اوّلین تقاضا یہ تھا کہ شہری آبادیوں میں اضافہ ہو اور وہ مرکز قائم ہوں جن میں سرمایہ دارانہ نظام پوری طرح بروئے کار آسکے‘ اس لیے دیہی آبادی رفتہ رفتہ شہروں میں منتقل ہونے لگی۔شہروں میں جدید تعلیم پیشے کی نئی سہولتوں اور روایات کی عدم موجودگی نے ایک ایسی زندگی کی شکل اختیار کر لی جس میں ہر فرد وہ کرنے کے لیے آزاد تھا جو اس کی خواہش کے مطابق ہو۔ پرانے بندھنوں کا ٹوٹنا اور ایک نسبتاً زیادہ آزاد اور دلیر معاشرت کا پیدا ہونا سرمایہ داری کے اہم ترین نتائج میں سے ایک ہے۔ مذہبی‘ اخلاقی‘ معاشرتی‘ موروثی اور خاندانی روایات سے آزاد شہری آبادیاں اپنے نئے مسائل پیدا کرنے لگیں۔ یہ عمل سست رفتار مگر تقدیر کی طرح اٹل اور متعین تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قدیم اور جدید رویے ایک دوسرے سے لڑتے بھڑتے رہے‘ لیکن ان کا مجموعی نتیجہ جدید روّیوں کی تقویت کی صورت میں برآمد ہوا۔
اب سرمایہ داری کے تحت جو معاشرہ پیدا ہوا ہے اس میں دنیاوی کامیابی قدرِ غالب کی حیثیت رکھتی ہے اور ان انفرادی اور اجتماعی روّیوں کی تشکیل کرتی ہے جن میں زراندوزی سب سے زیادہ اہم ہے۔ ابھی ہمارے شہروں میں ایسے لوگ کثیر تعداد میں رہتے ہیں جن کی جڑیں دیہی زندگی میں موجود ہیں۔ وہ شہروں میں روزی کمانے کے لیے آتے ہیں اور پیسہ بنا کر پھر اپنے علاقوں میں چلے جاتے ہیں یا آتے جاتے رہتے ہیں۔ آپ ان کے روّیوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا وہ شہروںمیں جو طرز عمل اختیار کرتے ہیں وہ اس طرز عمل سے بالکل مختلف ہوتا ہے جو وہ اپنے علاقوں میں اختیار کرتے ہیں۔ وہاں وہ ان آزادیوں کا تصور بھی نہیں کرسکتے جو انہیں شہروں میں حاصل ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ دیہی آبادیاں بھی رفتہ رفتہ شہری آبادیوں کے زیر اثر آرہی ہیں جس کی وجہ سے وہاں بھی پرانے رشتوں کی شکست و ریخت کا عمل اپنی جگہ بنا رہا ہے۔ گائوں کا ایک آدمی جب شہر سے واپس جا کر وہاں کے لوگوں کے سامنے اپنی ’’فتوحات‘‘ کا نمونہ پیش کرتا ہے تو اس کا اثر گائوں والوں کی نفسیات پر اتنا ہی گہرا ہوتا ہے جتنا شہری آبادی کے لوگوں پر۔ اس کے ذریعے وہ پرانے طرزِ احساس اور طرزِ عمل کو چھوڑنے اور نیا طرزِ احساس اور نیا طرزِ عمل اختیار کرنے پر راغب ہوتے ہیں۔ اخلاق اور کردار کے بجائے اب یہ خارجی فتوحات زیادہ اہم ہو جاتی ہیں اور لوگ ان کے ذریعے زندگی کا ایک نیا تصور حاصل کرنے لگتے ہیں۔
یہ داستان اتنی لمبی ہے کہ اس کی تفصیلات کو آسانی سے پیش نہیں کیا جاسکتا۔ مختصر طور پر ہم یہ صرف کہہ سکتے ہیں کہ سرمایہ داری کا فرد پرانے معاشرے کے فرد سے ایک مختلف دنیا میں رہتا ہے اور ایک بالکل نئی نفسیات کا حامل ہے۔ اس کی زندگی کی قدریں وہ نہیں ہیں جو پرانے معاشرے کی قدریں تھیں اور وہ ایک ایسی ذہنیت کا مالک ہے جو اس کے آبا و اجداد میں موجود نہیں تھی۔
دراصل سرمایہ داری نظام کا یہی وہ فرد ہے جس کے بارے میں ہم نے یہ کہا ہے کہ اس کا واحد محرک عمل زر اندوزی کا جذبہ ہے۔ اس میں وہ دونوں طبقات شامل ہیں جنہیں سرمایہ دار اور عوام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں معاشی اعتبار سے یہ فرق ضرور ہے کہ ایک کے پاس سب کچھ ہے اور دوسرے کے پاس کچھ نہیں‘ لیکن ان کی مجموعی ذہنیت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ دونوں ہی زراندوزی کے جنون میں مبتلا ہیں چاہے کامیابی کے اعتبار سے کسی درجے پر ہوں۔ وہ طبقاتی کشمکش جس کا زکر اشتراکی اپنے معاشی تجزیوں میں کرتے ہیں انہی افراد پر مشتمل مختلف طبقات کی کشمکش ہے اس لیے اشتراکی ہمیشہ سماجی شعور پر زور دیتے ہیں جس کا مطلب ایک ایسا شعور ہوتا ہے جو ان کے افراد کے اندر پایا جاتا ہے یعنی یہ احساس کہ پیسہ ہی سب کچھ ہے اور زندگی کا واحد مقصد معاشی خوش حالی یا بالادستی حاصل کرنا ہے۔ سرمایہ داری اور اشتراکیت دونوں اسی شعو رکی پیداوار ہیں اور اپنی باہمی زور آزمائی کے باوجود ایک دوسرے کے ضمیمے کی حیثیت رکھتی ہیں۔
ہم نے اب تک جو بحث کی ہے اس کا ہماری پوری بات سے تعلق ہے کہ اسلامی نظام اور اسلامی اخلاقیات کو جو چیلنج درپیش ہے اس کے دو رخ ہیں۔ ایک طرف تو ہمیں ایسے قوانین بنانے ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کے اس فرد کی ہوس زر اندوزی کو خارجی طور پر روک سکیں دوسری طرف ہمیں ایسی اخلاقی اقدار کی تبلیغ و اشاعت کرنی ہے جو اس کی مجموعی ذہنیت کو اندر سے بدل سکے۔
قوانین خارجی پابندیاں عائد کریں گے‘ اخلاقیات داخلی تنظیم کرے گی لیکن یہ عمل ایک خطرے سے خالی نہیں ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ وضاحت کے ساتھ اس کی نشاندہی کروں‘ ہمارے پرانے معاشرے میں بڑی خوبیاں تھیں‘ لیکن اس میں ایک بہت بڑی خامی بھی تھی۔ اس کی قوتِ عمل مسلسل ضائع ہو رہی تھی اور اس کا نتیجہ اس مسلسل انحطاط کی شکل میں ظاہر ہو رہا تھا جو عہد جدید کے آغاز سے پہلے ہمارے معاشرے کو موت کی طرف لے جارہا تھا۔ بادشاہت اور جاگیرداری کا فرسودہ نظام اپنی افادیت کھو چکا تھا اور اس کے سیاسی‘ معاشی‘ تہذیبی اور تعلیمی اداروں میں اتنی جان باقی نہیں رہی تھی کہ وہ ایک صحت مند اور توانا زندگی کا بوجھ اٹھا سکیں۔ اس میں کچھ دخل اس دنیاوی احساس کا بھی تھا جو زوال پذیر اخلاقی اقدار میں پناہ لینے کی کوشش کر رہا تھا۔ اقبال نے بجا طور پر تقدیر پرستی‘ توکل اور قناعت اور عزلت گزینی اور خانقاہ نشینی کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت جو رویے ان اقدار میں ظاہر ہو رہے تھے وہ انحطاط کے پیدا کردہ تھے جب کہ ایک بہتر زمانے میں یہی قدریں قوتِ حیات سے معمور تھیں۔ ہمارے لیے سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ کہیں اسلامی نظام اور اسلامی اخلاقیات کی آڑ میں ایسے رویے فروغ نہ پا جائیں جن میں زندگی کے چیلنج کا سامنا کرنے کی سکت نہ ہو۔ ہمیں ایک مذہبی مگر فعال اور توانا دنیاوی احساس کی ضرورت ہے۔ اقبال نے انحطاط کی بہت کچھ ذمہ داری تصوف پرڈالی ہے‘ مگر یہ صوفی بزرگ ہی تھے جو زوالِ بغداد کی خاکستر سے ایک جہانِ تازہ پیدا کرنے کی دُھن میں اٹھ کھڑے ہوئے اور اللہ کے ان نیک بندوںنے دور افتادہ علاقوں میں پھیل کر اپنی قوت اور توانائی سے اسلام کی نئی شمعیں روشن کیں۔ اخلاقی اقدار زندگی کے توانا ہاتھوں میں قوت کا اظہار بن جاتی ہیں‘ لیکن زوال اور انحطاط کی حالت میں ان کی ظاہری اور باطنی معنویت کچھ سے کچھ ہو جاتی ہے۔ ہمیں ایک ایسی اخلاقیات کی ضرورت ہے جو شرافت‘ دیانت‘ استغنا‘ خود آگاہی اور خود گزراں کی قدروں سے مالا مال ہو‘ مگر قوم کی قوتِ عمل کو گھٹانے کے بجائے ترقی دے‘ صرف اسی صورت میں ہم زندگی کے نئے چیلنج کا مقابلہ کرسکیں گے‘ ہمیں اس بات کا پورا یقین ہے کہ ہوسِ زر انسان کو باطنی طور پر کمزور کرتی ہے اور حرص و آز کی قوتیں انسانوں کو مضبوط بنانے کے بجائے اندر سے توڑ کر رکھ دیتی ہیں‘ اس لیے اسلامی اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ زندگی کی قوت کو مضمحل کیے بغیر انسان ان کمزوریوں پر قابو پائے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہمیں اپنے معاشرے کو موجودہ فساد سے نکالنے کے لیے دو سطح پر جہاد کرنا پڑے گا۔ ایک داخلی جہاد جو اس کمزوری کے خلاف ہوگا جو حرص و ہوس کی شکل میں ہمیں اندر سے توڑ رہی ہے اور ایک خارجی جہاد جو ان قوتوں کے خلاف ہوگا جو ہمارے معاشرے میں اسلام کی روح سے براہِ راست متصادم ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام کی پیدا کردہ ہیں‘ ہمیں معاشرے میں انسانی رشتوں کو اُن کی صحیح شکل میں بحال کرنا ہوگا۔ عزت اور ذلت کے لیے معیار مقرر کرنے ہوں گے‘ سماجی امتیاز اور معاشرتی افتخار کے لیے پیمانے تخلیق کرنے ہوں گے اور سب سے زیادہ ایسے ادارے پیدا کرنے ہوں گے جن میں قوم کی تخلیقی روح بے ساختگی اور توانائی سے اپنا مثبت اظہار کرسکے۔ اشتراکیت نے سرمایہ داروں کے خلاف جو بغاوت کی وہ اس وجہ سے ناکام رہی کہ اس کے پیچھے انسانوں کی داخلی زندگی کو منظم اور مرتب کرنے کا کوئی اصول موجود نہیں تھا‘ اس نے خارجی حالات کو درست کرنے کے بعد یہ توقع قائم کی کہ انسان خود بہ خود اندر سے بدل جائے گا‘ لیکن یہ توقع صرف اس وجہ سے پوری نہ ہوسکی کہ انسان اندر سے بدلے بغیر صرف خارجی تبدیلی سے درست نہیں ہوسکتا ہے۔ اشتراکیت چاہتی تو مذآہب کی تاریخ سے یہ سب سیکھ سکتی تھی‘ مگر اس کے مذہب دشمنی نے اسے اس سے محروم رکھا۔ اب ہمیں سرمایہ داروں کے خارجی نظام کو اسلامی قوانین کے ذریعے شکست دینا ہے اور اس کی حریصانہ ذہنیت کو اسلامی اخلاقیات کے ذریعے تبدیل کرنا ہے اس کے معنی یہ ہوئے کہ اصلاحِ معاشرہ کا کام ہمیں دو سطحوں پر کرنا ہوگا۔ ایک کی ذمہ داری حکومت‘ عدلیہ‘ انتظامیہ اور دیگر قانونی ایجنسیوں پر ہوگی اور دوسرے کی ذمہ داری علما‘ صوفیا‘ اربابِ علم و ادب اور دانشوروں پر ہوگی‘ اوّل الذکر قوتیں اسلامی نظام کا جسم تیار کریں گی جب کہ موخر الذکر قوتیں اس کی روح کو قائم اور برقرار رکھیں گی۔