ایک روز دریا کے کنارے ایک کچھوا دھوپ میں لیٹا ہوا آرام کر رہا تھا۔ اچانک اس کی نظر دریا میں ایک چیز پر پڑی جو بہتی ہوئی اسی طرف آرہی تھی۔ کچھوا چپ چاپ پڑا اس کی طرف غور سے دیکھنے لگا۔ جب وہ بہتے ہوئے اس کے قریب آئی تو اس نے دیکھا کہ وہ کیلے کا ایک درخت ہے جو دریا میں بہتا ہوا چلا جا رہا ہے، کچھوا فوراً پانی میں اترا اور تیرتا ہوا اس درخت تک پہنچاپھر اسے گھسیٹ کر کسی نہ کسی طرح کنارے تک لے آیا، لیکن اسے کنارے سے اوپر لانے میں بڑی دقت پیش آئی، کیونکہ وہ اتنا طاقتور تو نہ تھا کہ اسے اٹھا کر کنارے پر لا ڈالتا۔ آخر کار اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی وہ یہ کہ کسی سے مدد لینا چاہیے۔
وہ درخت کو وہیں چھوڑ کر مدد کے لیے جنگ کی طرف چل پڑا۔ ابھی وہ زیادہ دور نہ گیا تھا کہ راستے میں ایک بندر مل گیا۔ کچھوے نے ساری بات اسے بتا دی۔ بندر اس شرط پر تیار ہوا کہ وہ بھی حصے دار بنے گا۔
’’یہ ہے وہ کیلے کا درخت جو میں نے دریا سے بہتا ہوا پکڑا ہے۔ میں اسے یہاں سے نکال کر کھیت میں لگانا چاہتا ہوں۔‘‘ دریا پر پہنچ کر کچھوے نے کہا۔ لیکن بندر تو کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔
اس نے کہا۔ ’’بے شک، لیکن پہلے ہمیں اپنا اپنا حصہ طے کر لینا چاہیے۔‘‘
کچھوے نے جواب دیا۔ ’’پہلے یہ کام کر لیں، پھر اطمینان سے بیٹھ کر حصہ بھی کر لیں گے۔‘‘
بندر نے اس کی بات مان لی۔ دونوں مل کر درخت کو کھینچتے ہوئے کھیت تک جا پہنچے۔
کچھوے نے کہا۔ ’’اب ہمیں زمین کھودنا چاہیے تاکہ درخت لگایا جاسکے۔‘‘
’’نہیں پہلے حصہ طے کر لو۔‘‘ بندر بولا۔
پھر کچھوے نے کہا۔ ’’یہ نامناسب ہے پہلے ہم درخت لگائیں گے پھر جب اس میں کیلے آنا شروع ہو ں گے تو اس کا حصہ ففٹی ففٹی کر لیں گے۔‘‘
بندر بگڑ کر بولا۔ ’’یہ ہر گز نہیں ہو گا۔ میں ابھی اور اسی وقت آدھا حصہ لوں گا۔ اس درخت کے دو حصے کرو، آدھا مجھے دو اور آدھا خود لو۔‘‘
’’یہ غصہ کرنے کا و قت نہیں۔‘‘ کچھوے نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا لیکن بندر بہت چالاک اور خود غرض تھا، نہ مانا، لہٰذا درخت کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ بڑے بڑے سبز پتوں کو دیکھ کر بندر نے اوپر کا حصہ لیا۔ کچھوے نے چپ چاپ وہ حصہ بندر کے حوالے کر دیا۔بندر اپنا حصہ لے کر چل دیا۔ بقیہ حصہ جو دراصل جڑ تھی وہ کچھوے کے حصہ میں آئی۔ اس نے بڑی محنت سے اسے کھیت میں لگا دیا۔
دن گزرتے گئے، کچھوے کے لگائے ہوئے درخت میں اب کیلے آنا شروع ہو گئے۔ کچھوا روز ان کی دیکھ بھال کرتا۔ پانی دیتا، آخر کیلے پک کر تیار ہوگئے۔ لیکن بیچارے کچھوے کے لیے ایک نئی مشکل آ پڑی۔ وہ یہ کہ وہ درخت پر نہیں چڑھ سکتا تھا۔ نا چار اسے پھر بندر کی مدد کی ضرورت پیش آئی۔ وہ بندر کے پاس گیا، اسے سب بات بتائی ۔ بندر دراصل اس وقت سخت غصے میں میں تھا۔ اس کے خیال کے مطابق کچھوے نے اس کے ساتھ دھوکہ کیا تھا کیونکہ بندر کے لگائے ہوئے درخت نے سوکھنا شروع کر دیا تھا۔ ظاہر ہے کہ صرف تنا لگانے سے درخت تو نہیں بن جاتا لیکن اچانک بندر مان گیا اور کہنے لگا۔ ’’بھائی، جو کچھ ہوا سو ہوا۔ اس میں میری ہی غلطی تھی۔ اب تم بھی مجھے معاف کردو۔‘‘
کچھوا اس کی چکنی چپڑی باتوں میں آگیا۔ اب بندر نے درخت پر چڑھنا شروع کر دیا۔ درخت پر چڑھنے کے بعد اس نے کیلے توڑ توڑ کر کھانا شروع کر دیے۔ کچھوا یہ صورت حال دیکھ کر پریشان ہوا اور کہنے لگا۔ ’’بھائی بندر! مجھے بھی تو کچھ دو یا خود ہی کھائے جائو گے۔‘‘ یہ سن کر بندر نے کہا۔ ’’یہ لو!‘‘ اور چند چھلکے نیچے پھینکے اور قہقہے مار کر ہنسنا شروع کر دیا۔ کچھوے نے سوچا کہ اس طرح تو یہ میرا سارا حصہ کھا جائے گا۔ اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔ وہ جلدی سے جنگل کی طرف گیا اور وہاں سے کانٹے اور جھاڑیاں اٹھا کر کیلے کے درخت کے نیچے بچھا دیے اور کھڑا ہو کر تماشا دیکھنے لگا۔ جب بندر نے کیلے کھا کر نیچے چھلانگ لگائی تو کانٹے بری طرح اسے چبھ گئے اور وہ تلملا اٹھا۔ اور کچھوے کو پکڑ کر شدید غصے میں کہا۔ ’’بتا تجھے کیا سزا دوں؟‘‘
کچھوے نے کہا۔ ’’بھائی بندر مجھے جو سزا دینا ہے دے دو لیکن خدارا! پانی میں نہ پھینکنا، ورنہ میں ڈوب کر مر جائوں گا۔‘‘
’’ہا ہاہاہا‘‘ بندر نے قہقہہ لگایا اور کہا۔ ’’اب تو نے خود اپنی سزا تجویز کر دی ہے۔‘‘
دوسرے ہی لمحے بندر نے کچھوے کو اٹھایا اور دریا کی طرف چل دیا۔ کچھوا اپنے دل میں خوش تھا۔ اور بندر بھی اپنی جگہ اپنے دل میں خوش تھا۔ دونوں کی الگ الگ وجوہات تھیں۔ کچھوا بندر کی بیوقوفی پر ہنس رہا تھا۔ جب کہ بندر سوچ رہا تھا کہ کیسا پاگل ہے کہ اپنی سزا خود ہی بتا دی۔
دریا پر پہنچنے کے بعد بندر نے نہایت ہی شان سے اور فخر سے ہنستے ہوئے کہا کہ اب تیری زندگی ختم ہونے والی ہے، اور کچھوے کو پانی میں ڈبو دیا لیکن یہ کیا؟ کچھوا تو تیرنے لگا تھا۔ تھوڑی دور پہنچ کر کچھوے نے خوش ہوتے ہوئے طنز کیا۔ ’’پانی ہی تو میرا گھر ہے۔ اب یہ بتا میں بے وقوف ہوں یا تو!‘‘