محترم عزیز الحق ؒ1907 ء (ستارہ خدمت) کو مظفر نگر ’ متحدہ ہندوستان میں پیدا ہوئے ، علی گڑھ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا اور اپنی خدمات کا بیشتر حصہ حکومت پاکستان کی وزارت تعمیرات میں صرف کیا۔ 1959 ء میں و ہ(KDA) کے ممبر ایڈ منسٹریشن کے عہدے پر فائز ہوئے ، جو چیئرمین مسٹر حبیب رحیم تولہ کے بعد KDA میں دوسرا سینئر ترین عہدہ تھا۔ 1967 میں ، مالی وسائل کی شدید کمیابی کے باوجود، اپنے دوستوں اور مخیر حضرات کے تعاون کے ساتھ اپنی غیرمتنازعہ ساکھ اور پرجوش اعتماد کو استعمال کرتے ہوئے ، انہوں نے پی ای سی ایچ ایس فاؤنڈیشن کالج جیسے بلند پایہ ادارہ کے قیام کا منصوبہ شروع کیا۔ آج بھی یہ ادارہ 5000طلبا کو زیور تعلیم سے آراستہ کررہا ہے۔( 1940 ء کی دہائی کے اوائل میں ، وائسرائے لارڈ ویول نے انھیں برطانوی حکومت اور شاہی ریاستوں کے مابین ہونے والیفارسی معاہدوں کا انگریزی میں ترجمہ کرنے کے لئے خصوصی طورپہ منتخب کیا۔ جس کی کامیاب تکمیل کے بعد انہیں “خان صاحب” کے لقب سے نوازا گیا۔ تعلیم کے شعبہ سے ان کی دلچسپی جنون کی حد تک تھی ، لہذا و ہ پی ای سی ایچ ایس کالج اور کچھ دیگر تعلیمی اداروں کے گورننگ بورڈ کے ممبر بھی رہے)
‘‘کورنگی ‘‘
1958 ء میں ، جنرل ایوب خان نے ملک کا اقتدار سنبھالا۔ جنرل اعظم خان ؒان کے وزیر برائے مہاجرین اور آبادکاری تھے۔ اس وقت قائداعظم کامزارچاروں اطرف پھیلی ہوئی جھونپڑیوں سے گھرا ہوا تھا – ایک طرف تو حکومت کو مقبرہ کی تعمیر شروع کرنے کے لیے اس زمین کی ضرورت تھی دوسری طرف وہ پورے کراچی میں پھیلے جھونپڑیوں میں رہنے والے غریب مہاجر خاندانوں کی ایک بڑی تعداد کے رہائشی مسائل کا حل تلاش کرنا چاہتی تھی۔ جنرل اعظم کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ قائد کے مزار کے ارد گرد کے علاقے میں رہنے والے مہاجرین کوکراچی کے مضافات میں واقع کورنگی کی ایک نئی بستی میں آباد کریں۔ جنرل اعظم نے اس پراجیکٹ کی نگرانی کی اور 1959 ء کے اختتام تک 6 ماہ کے اندر 10000 مکانات بمع صاف پانی، بجلی اور سیوریج سسٹم کے ساتھ مکمل کرنے کا معجزہ کر دکھایا۔ قائداعظم ؒکے مزارکے اطراف میں زمین خالی ہونے اور مہاجرین کو نئی بستی میں منتقل کرنے کے بعد ، کورنگی میں ایک لاکھ سے زیادہ مکانات تعمیر ہوئے۔ اسوقت کورنگی کی واحدمشکل یہ تھی کہ یہ علاقہ کراچی شہر کے مرکز سے بہت دور ہوگیا تھا۔ چونکہ یہ منصوبہ وزارت تعمیرات اور کے ڈی اے کے زیر انتظام تھا ،چنانچہ محترم عزیز الحق ؒ نے بھی جنرل اعظم خان کے ساتھ اس منصوبے پر عمل درآمد میں اہم کردار ادا کیا۔
‘‘عزیز آبا د ‘‘
محترم عزیز الحق ؒ ان مہاجروں کی غیر معیاری رہائش اور ناقص حالات زندگی کے بارے میں ہمیشہ بہت فکر مند رہتے تھے۔ ان میں سے اکثرکراچی کے کئی علاقوں میں رہ رہے تھے جن میں لالو کھیت (حالیہ لیاقت آباد) بھی شامل ہے۔ ان کی جھگیاں یا بہت معمولی جھونپڑیاں تھیں جن میں نہ مناسب چھت تھی ،نہ پانی کی فراہمی، نہ ہی بجلی اور نہ ہی نکاسء آب کا کوئی بندوبست تھا۔ کورنگی منصوبے کی کامیابی سے متاثر ہو کر ، عزیز الحق ؒنے اسی طرح کے کم لاگت والے رہائشی منصوبے کی تعمیر، جو کراچی شہر سے دور بھی نہ ہو، کا خیال پیش کیا۔ انہوں نے لالو کھیت سے ملحقہ فیڈرل بی کے علاقے میں زمین کے ایک ٹکڑے کی نشاندہی کی اور متعدد سنگل فیملی مکانات تعمیر کرنے کا منصوبہ شروع کیا۔ اس علاقے کو “منصورہ” کا نام دیا گیاتھا ۔
محلہ کورنگی ٭ تو ریاستی مالی اعانت سے بننے والا منصوبہ تھا ، لیکن حکومت کے پاس “منصورہ” منصوبہ کے لئے وسائل نہیں تھے۔ چنانچہ محترم عزیز الحق ؒنے ایک مقامی تعمیراتی کمپنی پاک کنسٹرکشن کمپنی کے ساتھ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کا منفرد آئیڈیا پیش کیا۔ محترم عزیز الحق ؒنے اس شرط کے تحت زمین کو انتہائی رعایتی قیمت پر دی کہ مکانات بننے کے بعد پہلے سے طے شدہ قیمت ہی پر فروخت ہوں گے۔ یہ مکانات کورنگی کے مکانا ت سے کچھ بڑے تھے۔120 مربع گز رقبہ جس میں 2 بیڈروم ، 1 ۔باتھ روم ، 1 ۔کچن اور ایک چھوٹا برآمدہ ، پانی ، نکاسی آب اور بجلی شامل تھی۔ KDA اور پاک کنسٹرکشن کمپنی کے معاہدے میں یہ شرط عائد کی گئی تھی کہ تمام مکانات کو 12000 روپے میں مقررہ قیمت پر فروخت کیا جائے گا ، جس میں 2000 روپے ایڈوانس ادائیگی اور 10 ہزار روپے قرض ہوگا جو اگلے 5 سے 7 سالوں میں ادا کیا جائیگا ’ یہ منصوبہ 1963 ء میں شروع ہوکر 1965 ء میں مکمل ہوا۔علاقہ کے لیے ایک مسجد تعمیر (اک مینارہ مسجد ) کی گئی تھی جس کا سنگ بنیاد محترم عزیز الحق ؒ(ستارہ خدمت)نے رکھا تھا ، آج بھی وہ سنگ بنیاد اپنی جگہ پر موجود ہے۔ 1966 ء میں محترم عزیز الحق ؒ سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوئے۔ ان کی ریٹائر منٹ کے 3 سال بعد ، KDAنے اس بستی کا نام عزیز آباد رکھنے کا فیصلہ کیا۔ عزیز آباد نے فیڈرل بی ایریا میں غریبوں کے لئے سستی رہائش گاہوں کی تعمیراتی تیزی کو بھی جنم دیا ، جہاں متعدد نجی تعمیراتی کمپنیوں نے اپنے پراجیکٹس شروع کیے جیسے دستگیر کالونی ، نصیر آباد وغیرہ۔
حفیظ الحق ابن عزیز الحق ؒ عزیز آباد سے متعلق اپنی یادادشت میں ایک واقعہ لکھتے ہیں کہ ’ 2007 ء میں ، میں عید کے موقع پر کیلیفورنیا امریکی ریاست کے شہر اورنج کاؤنٹی میں اپنے کزن صفی قریشی سے ملنے گیا ہواتھا۔ اانہوں نے مجھے لاس اینجلس کے قریب پاکستانی کمیونٹی کے زیر اہتمام ایک ہوٹل میں عید ملن پارٹی میں مدعو کیا۔ جب میں پارٹی سے لطف اندوز ہورہا تھا ، تو ایک صاحب تشریف لائے اور مجھ سے پوچھا کہ کیا میں عزیز الحق ؒ کا بیٹا ہوں؟ میں نے کہا جی ہاں. اس کے بعد انہوں نے اپنے آپ کو پاک کنسٹرکشن کمپنی (عزیز آباد کے لئے کے ڈی اے کا عمارت سازی پارٹنر) کے سی ای او کے شیخ (مرحوم )کے بیٹے کے طور پر متعارف کرایا۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ میں آپ کو ایک بات بتانا چاہتا ہوں جو میرے والد شیخ صاحب نے اپنے بستر مرگ پر ہمیں بتائی تھی۔ انہوں نے کہا کہ “جب عزیز الحق ؒنے مکانات تعمیر کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے تو انہوں نے مجھ سے (یعنی شیخ صاحب مرحوم) کوکہا کہ جیسے ہی یہ مکانات تیار ہوں گے ، ان مکانات کی قیمتوں میں 18000 روپے تک کا اضافہ ہوجائے گا ، لیکن آپ مجھ سے وعدہ کریں کہ آپ ہماری طے شدہ قیمت 12000 روپے سے زیادہ ایک روپیہ نہیں لیں گے۔ پھر شیخ صاحب نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ قیمتیں واقعی 20000 روپے تک پہنچیں ، لیکن میں نے عزیز الحق صاحب ؒکے ساتھ اپنا وعدہ پورا کیا اور تمام مکانات پہ 12000 سے ایک روپیہ زیادہ نھیں لیا۔
یہاں یہ بھی قابل ذکر بات ہےکہ 1966 ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد ، انہوں نے بے گھر لوگوں کی بحالی کے اپنے شوق کو جاری رکھا۔ انہوں نے سہارنپور ہاؤسنگ سوسائٹی اور شاہ ہارون سوسائٹی اور وزارت تعمیرات کے ملازمین کے لئے ورکس ہاؤسنگ سوسائٹی قائم کی۔ ان سب کا مقصد عام لوگوں کو اپنا پہلا مکان تعمیر کرنے اور رہائشی مہنگائی سے بچانے کے لئے پلاٹ فراہم کرنا تھا۔ جناب عزیز الحق دسمبر 1975 ء میں انتقال کر گئے اور ان کی نماز جنازہ ان کیبرادر عزیز مولانا احتشام الحق تھانوی ؒنے پڑھائی تھی ۔