دوسری ٹوپی ’’ارطغرل غازی‘‘ کے مزار سوگوت میں تھی، جو قائی قبیلے کا مخصوص شعار اور چرمی فوجی لباس کا حصہ تھا۔ یہ ٹوپی برائون اور بلیک کلرز اور محراب نما شکل میں، کئی اسٹائل و اضافوں کے ساتھ، کئی اقسام کی برائے فروخت موجود تھی۔ یہ ٹوپی شدید سردی اور برف باری میں ہی پہنی جاسکتی تھی۔ شوق کے سامنے مول کا بھی مسئلہ نہ تھا، قیمت مناسب تھی، مگر ہمارے ماحول میں شاید یہ استعمال نہ کی جاسکتی تھی۔ معروف اینکر پرسن اقرار الحسن سمیت کئی لوگوں نے اسے خریدا، تصاویر بنوائیں۔ میں نے گاڑی میں بیٹھ کر سفر کے دوران وہاڑی کے نوجوان عرفان سے اُدھار لے کر تصویر بنواکر خود کو ’’ترک غازی‘‘ سمجھا۔
تیسری ٹوپی تو وہی تھی، خالص ریشم پر ہاتھ کی کڑھائی کی، جو ’’نیلی مسجد‘‘ کے پاس قدیم استنبول کے چھ یادگاروں والے احاطے یا علاقے میں داخل ہوتے وقت میں نے دیکھی اور اپنے اندازے سے بڑھ کر قیمت کے باعث خرید نہ سکا۔ یہ بھی اس قابل تھی کہ تصویر بنوائی جاتی، مگر اس کی قیمت کے رُعب اور دکان دار کی خفگی کے پیش نظر اس کی جرأت نہ ہوسکی۔
چوتھی روایتی سرخ ترکی ٹوپی، جسے خلافتِ عثمانیہ کے امراء و سلاطین بالخصوص سلطان عبدالحمید نے اپنی پہچان بنایا۔ یہ سرخ ترکی ٹوپی، کالے پھندنے والی… قریباً پچاس سال پہلے برصغیر پاک و ہند میں عثمانیوں اور خلافت سے محبت کرنے والے پاکستانیوں اور ہندوستانی علماء و شرفاء میں اس ٹوپی کا استعمال بہت عام تھا۔ نواب آف بہاولپور، سرسید احمد خان، علی برادران محمد علی جوہر و شوکت علی، نواب سلیم الملک اور خود جناب علامہ اقبالؒ اس ٹوپی کے چلتے پھرتے شاہ کار تھے۔ میں نے اپنے بچپن میں اپنے نانا مرحوم حکیم محمد اجمل کے شاگرد اور طبیہ کالج لاہور کے استاد، مصنف طبی کتب، طویل قدوقامت، رعب دار آواز اور سرخ و سفید چہرے کے ساتھ مکمل مردانہ وجاہت کے حامل حکیم قاضی عظیم اللہ گوجرانوالہ والے کو یہ ٹوپی استعمال کرتے دیکھا۔
اس سرخ ٹوپی کا نقش دل و دماغ پر اتنا گہرا تھا جیسے عربی کے اس محاورے کا مصداق کہ ’’العلم فی الصغر کالنقش فی الحجر‘‘۔ چھوٹی عمر کا علم (اور مشاہدہ و مطالعہ اور یاد) پتھر پر (پختہ اور نہ مٹنے والے) نقش کی مانند ہے۔ تاریخِ اسلام اور تاریخِ پاکستان کے ذہن و قلب پر پختہ نقوش کو میرے نانا کی یاد اور سراپے نے کبھی محونہ ہونے دیا۔ استنبول ایئرپورٹ پر اترنے سے پہلے میرا یقین کی حد تک گمان تھا کہ بے شمار ترک یہ ٹوپی پہنے اور پھندنے لہراتے ملیں گے۔ مگر نہ انطالیہ، نہ سوگوت، نہ قونیہ، نہ بورصا اور نہ استنبول… کہیں بھی یہ آرزو پوری نہ ہوئی۔ البتہ توپ قاپی محل کے تھکا دینے والے طویل ٹور کے بعد آیا صوفیہ کی دیوار کے سائے میں ایک بزرگ ترک یہ ٹوپیاں بیچتا ملا۔ اس ٹوپی کی زیارتِ قریبہ سے ہماری تھکاوٹ نے ہمیں محروم کردیا۔ ترکی اور بالخصوص سلطان احمد کے اس علاقے کی ان چھ یادگاروں کو دیکھنے کا ارادہ کرنے والوں کو ہمارا مشورہ ہے کہ وہ یہاں کم از کم دو دن ضرور صَرف کریں، ورنہ ایک مکمل دن۔ رات گئے تک توپ کاپی، آیا صوفیہ اور نیلی مسجد کو دن کے اجالوں میں دیکھنے کے بعد شام ڈھلنے سے پہلے ’’سلطان احمد پارک‘‘ کے فواروں، مرغزاروں اور دلفریب ہوائوں کے بیچ پارک میں موجود سیکڑوں سَنگی (پتھر کی) بینچوں پر بیٹھ کر کافی یا ترکی چائے کا مزا لیتے ہوئے ڈوبتے سورج اور روشنیوں سے بھرے ماحول کے ساتھ توپ قاپی، آیا صوفیہ اور نیلی مسجد کے رنگین نظاروں کا لطف ضرور اُٹھا لیتے۔ یقیناً دن کی روح پرور یادوں کے ساتھ شام کی سحر انگیزیاں اور روشنیوں کا جادو بھی سر چڑھ کر بولے گا۔ رات کے کسی بھی لمحے میٹرو، ٹرام، یا ٹیکسی کے ذریعے اسی علاقے میں اپنے ہوٹل واپس آجایئے، یا ہمت ہو تو اپنے قدموں سے کام لیجیے اور ترکی کے کچھ دیگر مناظر و مشاہدات کو اس سفر کا حاصل بنائیے۔ یہ مشورہ مفت بھی ہے اور صائب بھی، اور تجربے کی چھلنی سے گزرا ہوا بھی۔
توپ قاپی سے خروج
توپ قاپی محل کے خارجی دروازے کے ساتھ ایک خوبصورت ’’گفٹ اور سووینیرز شاپ‘‘ موجود تھی، بلاشبہ جہاں بہت خوبصورت سووینیرز برائے فروخت موجود تھے۔ یہاں اگرچہ قیمتیں قابلِ برداشت تھیں مگر شیشے اور سرامکس کی اشیاء دورانِ سفر ٹوٹنے کا اندیشہ نہ ہوتا تو ہم کچھ ضرور خرید لیتے۔ اس سے بھی اعلیٰ درجے کی ایک دکان محل کے اندر موجود تھی، مگر اس کی قیمتیں ہماری استطاعت سے باہر بلکہ لیرا کے بجائے ڈالرز میں تھیں۔
توپ قاپی محل میں داخلہ مشکل یعنی کئی مراحل کی چیکنگ پر مشتمل تھا، جبکہ ’’خارجہ‘‘ یعنی EXIT بہت آسان تھا۔ محل کے دوسرے داخلے کی ڈیوڑھی کے بغلی دروازے سے بآسانی نکل آئے۔ اپنے گائیڈ مسٹر والکن کے ساتھ تصویر بنوائی اور ذاتی معلومات حاصل کیں۔ وہ ایک پیشہ ور اور ٹورازم ڈپارٹمنٹ کا سند یافتہ بین الاقوامی اہلیت کا حامل پروفیشنل گائیڈ تھا، جو اپنے والدین اور دیگر بھائی بہنوں سے علیحدہ رہتا اور مجرد زندگی بسر کررہا تھا، اور خوش تھا کہ اپنے ماں باپ پر مالی و معاشی بوجھ نہیں ڈالتا، اور دل گرفتہ اس لیے کہ ترک معاشرت اور رسوم و رواج کے مطابق ابھی اتنا نہیں کما سکا کہ اپنا گھر بسا سکے۔ اس لیے کہ شادی کے دونوں اطراف کے اخراجات اُسی کو اُٹھانے تھے، شادی سے پہلے آراستہ و پیراستہ اور تمام سہولیات سے مزین (Fully Furnished) گھر بھی اُسی کی ذمہ داری ہے۔ لہٰذا وہ اپنے تجردّ پر سمجھوتا کیے وقت گزار رہا تھا۔
سلطان اہمت (احمد) پارک
توپ قاپی، آیا صوفیہ اور نیلی مسجد کی مثلث کے بیچوں بیچ سلطان احمد کے نام سے موسوم پارک ترک معاشرت و معیشت کے کئی رنگ لیے ہوئے تھا۔ شاپنگ سینٹرز، چھوٹی دکانیں، ہر قسم کی خوراک کے مراکز، مشروبات، چائے، کافی کے پاکستانی پارکوں والے انداز، یعنی ’’اسپاٹ ڈلیوری‘‘، ٹھیلے والے، بھنے چنے، بھٹے اور شوارما وغیرہ سب کچھ موجود تھا… اور زیر زمین نہایت صاف ستھرے واش رومز… مگر پانچ لیرا میں پانچ منٹ کی تنبیہہ و تحذیر کے ساتھ۔
تصورِ شایاں
لوگ بالعموم سیروتفریح کے مواقع پر ’’تصورِ جاناں‘‘ کرتے ہیں، مگر ہماری ’’جاناں‘‘ تصور سے کہیں آگے گزشتہ 39 سال سے تصور کو حقیقت میں بدل کر ’’پہلے جاں، پھر جانِ جاں اور اب جانِ جاناں (پانچ بچوں کی ماں) ہوچکی تھیں، اور ”آپ“ سے شروع ہونے والا سفر ”تُو“ سے ”تم“ اور کچھ آگے تک بڑھ چکا تھا، لہٰذا ہم نے ’’تصورِ شاہاں‘‘ کو اپنی سوچوں کا موضوع بنایا۔ عثمانی سلاطین کے شکوہ و سطوت، شان و شوکت، حسنِ انتظام اور تدبیر مملکت، فلاحِ عامہ، بہبودِ انسانی، اور سب سے بڑھ کر سلطنت کے استحکام اور اسلامی تشخص کی بحالی اور ترویج کے لیے کیے جانے والے اقدامات کا تحلیل و تجزیہ کرتے ہوئے، بے اختیار سلامِ عقیدت و محبت پیش کیے بنا نہ رہ سکے۔ ایک طرف بچپن کی یادوں کے پختہ و ناپختہ نقوش تھے، تو دوسری طرف مطالعے اور تحصیلِ علم کے ادنیٰ سے خوگر کا مبلغِ علم، تو تیسری جانب بڑھاپے کے اس سفر کے مشاہدات و تاثرات کے انمٹ نقوش۔ یقیناً یہی فکری ارتقاء کے مراحل اور حکمِ الٰہی سیروا فی الارض کی ہدایت کے مختلف درجے اور نتائج۔
اسی حاصلِ سفر کو سمیٹتے اور محفوظ کرتے ہوئے ہم اس تکون کے دوسرے کونے، دوسری منزل آیا صوفیہ کی جانب بڑھ گئے جو توپ قاپی محل کے پہلے صدر دروازے سے متصل دیواروں کی صورت اپنی جانب کھینچ رہی تھی۔
حاجیہ صوفیہ
اس نام کے دونوں لفظ سُن کر ذہن میں یہی تاثر اُبھرتا ہے کہ غالباً یہ بھی مصری مغنیہ اُم کلثوم جنہوں نے شاعرِ نیل احمد شوقی کے نغمے اور علامہ اقبالؒ کے ’’شکوہ، جوابِ شکوہ‘‘ کا عربی ایڈیشن گایا اور شہرتِ دوام حاصل کی، یا ملائشیا کی قاریہ شریفہ کاشف کی طرح ترکی کی کوئی مغنیہ، رقاصہ، اداکارہ یا ارطغرل کی ’’حلیمہ‘‘، یا ’’میرا سلطان‘‘ کی ’’حورم‘‘ کے قبیل کی کوئی مشہور خاتون شخصیت ہوگی، یا پھر کوئی مادرِ ملّت نما سیاست دان۔ مگر جیسے ’’پرنسس آئی لینڈ‘‘ کا تعلق کسی شہزادی سے نہ نکلا، اسی طرح ’’حاجیہ صوفیہ‘‘ کا تعلق بھی صنفِ نازک سے ثابت نہیں ہوسکا۔
یہ لفظ ’’HAGIA SOPHIA‘‘ لکھا جاتا ہے، جسے ’’آیا صوفیہ‘‘ یا ’’ایا صوفیہ‘‘ پڑھا جاسکتا ہے۔ اس کے معنی FATH اور مقدس فہم و فراست یا عقیدہ ہے۔ بلاشبہ اس کا تعلق مولانا جلال الدین رومی اور ابن عربی کے تصوف اور اُن کی متصوفانہ فکر سے ہے، نہ ہی یہ ترکی کی اُن خواتین کے لیے مخصوص مرکز ہے، جو ’’حرمین شریفین‘‘ کے سیکورٹی اہلکاروں سے ’’حاجّہ‘‘ کا لقب پاکر واپس لوٹتی ہیں۔ بلکہ یہ دنیا کی عظیم عمارات میں شامل اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے معبد کے طور پر صدیوں استعمال کی جانے والی مسجد و کلیسا ہے۔
آیا صوفیہ کی تعمیر 532ء میں ہوئی جسے بازنطینی بادشاہ جسٹینین کے کہنے پر بطور گرجا تعمیر کیا گیا، جو 1204ء تک عیسائیوں کے فرقے آرتھوڈکس کا گرجا رہا۔ بعدازاں کچھ سال کے لیے دوسرے فرقے کیتھولک کی عبادت گاہ قرار پایا۔ ایک ہزار سال تک یہ دنیا کا دوسرا بڑا چرچ شمار ہوا، اور دنیا کے نصف مسیحیوں کا مذہبی و روحانی مرکز رہا۔
1453ء میں جب سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ کو فتح کیا، تو غالباً اس کا معاوضہ ادا کرکے اِسے مسجد میں تبدیل کردیا۔ 481 سال بعد 1935ء میں جدید ترکی کے بانی اور لادینیت کے علَم بردار مصطفیٰ کمال پاشا(اتاترک) نے اسے مسجد سے عجائب گھر میں تبدیل کردیا۔ گرجے سے مسجد، اور مسجد سے میوزیم کے بعد 86 برس بعد جولائی 2020ء میں ترکی کی ایک عدالت نے اسے بطور مسجد بحال کرنے کا حکم دیا۔ موجودہ صدر طیب ایردوان نے 1994ء میں استنبول کے میئر کا الیکشن لڑتے ہوئے اسے کھولنے اور دوبارہ مسجد میں تبدیل کرنے کا جو وعدہ کیا تھا اس کی جانب پہلا قدم 2018ء میں یہاں قرآنِ عظیم کی تلاوت کی صورت میں اُٹھاکر اپنے وعدے کے ایفاء کا جو سفر شروع کیا تھا اُس کی تکمیل 24 جولائی 2020ء کو ہوئی اور جس کا مشاہدہ دنیا کے اربوں مسلم و غیر مسلم لوگوں نے اپنی ٹیلی ویژن اسکرین پر لائیو مناظر دیکھنے اور ہزاروں لوگوں کی نمازِ جمعہ میں شمولیت کے ذریعے کیا۔ بلاشبہ یہ جدید زمانے کا سب سے بڑا، حیرت انگیز اور انقلاب افروز منظر تھا، جس نے دنیا بھر میں اسلامی شان و شوکت کا سکہ جمایا۔ خوش قسمتی سے ہم نے بھی ان مناظر کو لائیو دیکھا۔ ہزاروں لوگوں کی مسجد کے اندر، باہر، گلیوں اور بازاروں میں موجودگی، طیب ایردان کی فاتحانہ اور عاجزانہ آمد اور مسجد میں داخلہ، وزیر مذہبی امور کا مخصوص طرز کے بلند و بالا اور منبرِ رسولؐ سے مشابہ منبرِ خاص پر چڑھ کر ہاتھ میں تلوار تھام کر اللہ کی کبیریائی اور غلبۂ اسلام کا پیغام دینا، بلاشبہ امت ِمسلمہ کے جسدِبے روح میں روحِ ایمان پھونکنے اور اس کے متفرق ومنتشر اجزاء کو باہم یکجا کرنے کی جانب مضبوط و مؤثر قدم تھا۔
میں کھٹکتا ہوں دلِ یزداں میں
جمعہ 24 جولائی 2020ء کا دن دنیائے کفر کے لیے بہت بھاری تھا۔ ایک تو عیسائیت کے بڑے مرکز کا سقوطِ ثانی، دوسرا سلطانِ فاتحِ عصرِ جدید طیب ایردوان کی جرأتِ رندانہ، اور تیسرا مسلمانوں کے شکوہ و غلبے کی علامت تلوار کو ہاتھ میں لے کر اللہ کی کبریائی کا اعلان… اظہار تھا اس حقیقت کا کہ الا ان حزب اللہ ہم الغالبون۔ اور کلمتہ اللہ ھی العلیاء۔ اسلام متقاضی ہے کہ اس کے ہر انداز، اعلان اور صورتِ اظہار سے بندئہ مومن، اسلام اور اللہ کا دین دلِ یزداں میں کھٹکے بھی اور کانٹے کی صورت چبھے بھی، اور تلوار کی نوک بن کر شر و فسادِ عقیدہ و عمل کے حلقوم کو بھی خبر کرے کہ اُس کے غلبے کے دن ختم ہورہے ہیں۔ بلاشبہ یہ دن اہلِ ایمان کے لیے امیدوں کے کتنے ہی چراغ روشن کر گیا، جن کی آرزو میں اُن کی ماتھے سربسجود رہے اور ہاتھ دعا و مناجات جات کے لیے اٹھتے اور لب تڑپتے رہے۔ کتنے اہلِ ایمان غلبہ اسلام کی امیدیں اپنی روحوں کی نذر کرکے اپنے رب کے پاس چلے گئے۔ یقیناً ہم بھی سعادت کے ان لمحوں کے امین ہیں جنہوں نے غلبہ اسلام کی منزل تو ابھی نہیں دیکھی، البتہ ’’الکفر ملتہ واحدہ‘‘ کی چیخیں، نوحے اور بین ضرور سنے جو آیا صوفیہ کے مسجد میں تبدیل ہونے پر اُن کے جسدِ باطل سے نکل رہے اور تھمنے میں نہیں آرہے۔
(جاری ہے)