(گزشتہ سے پیوستہ)
مشرقی پاکستان میں حالات خراب ہوئے تو بنگالیوں نے نقل مکانی کرکے بھارت جانے کا سلسلہ شروع کیا ، ابتد ا میں یہ شرح کم تھی، لیکن اپریل ۱۹۷۱ء کے آخری ہفتے سے اس میں ڈرامائی انداز میں اضافہ ہونے لگا اور مئی میں اس میں ڈرامائی انداز میں اضافہ ہونے لگا۔ اس میں بنیادی کردار بھارت نے ادا کیا اور عوامی لیگ یا علیحدگی پسندوں کی صورت میں اس کے گماشتوں نے۔ کیونکہ اس سے پاکستان کو دولخت کرنے کی اس کی سازش کو عملی جامہ پہنایا جاسکے۔
سفارتی محاذ پر بھارتنے اس انخلاء سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ چنانچہ اس انخلا کے معاملے پر عالمی سطح پر تشویش کا اظہار کیا جانے للگا۔ پاکستان کے خلاف اور بھارت کے حق میں فضا ہموار ہونے لگی۔ انخلا کے تسلسل کی وجہ سے بھارت کے اس دعوی کو بہت تقویت ملی کہ خواہ مشرقی پاکستان کا بحران پاکستان کا اندرونی معاملہ کیوں نہ ہو ، انخلا سے بھارت کے اندرونی معاملات پر گہر ا اثر پڑا ہے۔
اسی دوران پاکستان پر دباؤ ڈالا جانے لگا کہ مشرقی پاکستان میں امدادی کاموں کی نگرانی اقوام متحدہ کے حوالے کی جائے۔ امریکی حکومت نے اعلان کیا کہ پاکستان میں مستقبل کی ترقیاتی امداد کا دارومدار عالمی ادارے کے ذریعہ مشرقی پاکستان میں امدادی کاموں کی نگرانی پر پاکستان کی رضامندی پر ہوگا۔ امریکیوں سے صلاح مشورے کے بعد ۱۱؍مئی کو برطانیہ نے بھی کچھ اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا اور کہا کہ امدادی کاموں کی نگرانی کے لئے اقوام متحدہ ہی مناسب ترین ادارہ ہے۔ ڈھاکہ میں امریکی قونضل جنرل مسٹر آرچی بالڈ بلڈ اور برطانوی ڈپٹی ہائی کمشنر مشرقی پاکستان میں پاکستان کی پالیسی پر کھلم کھلا تنقید کیا کرتے تھے۔
پاکستان نے مئی میں مشرقی پاکستان میں اقوام متحدہ کے امدادی عملے کی موجودگی قبول کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ ساتھ ہی یہ فیصلہ کیا کہ بھارت میں مقیم مشرقی پاکستانیوں کی واپسی کے لئے مناسب اقدامات کئے جائیںاور بین الاقوامی تعلقات میں کشیدگی کو ختم کرکے صورتحال کو معمول پر لایا جائے۔
یہ پالیسی امریکی خواہش کے عین مطابق تھی چنانچہ صدر نکسن نے جنرل یحییٰ خان کو ایک خط لکھا ، جس میں مشرقی پاکستان میں سیاسی سمجھوتے کی فضا پیدا کرنے کے سلسلے میں اس کی نئی پالیسی کی حوصلہ افزائی کی گئی تھی۔ اسی روز صدر نکسن نے مسز گاندھی کو لکھا کہ ہم حکومت پاکستان سے پرامن سیاسی سمجھوتے پر گفت و شنید کررہے ہیں تاکہ نہ صرف بھارت کی طرف لوگوں کی نقل مکانی روکی جاسکے، بلکہ بھارت کی سرزمین پر موجود پاکستانی اپنے گھر وں کو واپس چلے جائیں ۔ ایشیا میں ایک بڑی طاقت کی حیثیت سے بھارت پر اس علاقے میں امن و استحکام قائم رکھنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
دوسری طرف مشرقی پاکستان میں حقائق اس کے برعکس تھے، بھارت وہاں بھرپور مداخلت کرارہا تھااور مکتی باہنی کی صورت میں بھرپور خانہ جنگی کا سلسلہ جاری تھا۔ وطن عزیز کے تحفظ کی خاطر البدر اور الشمس کے رضاکار بھرپور جانی ومالی قربانیاں دے رہے تھے اور پاک فوج کے شانہ بشانہ لڑرہے تھے۔ ان رضاکار تنظیموں میں بنگالی نوجوان شامل تھے اور اسلام کے نام پر حاصل کئے گئے ملک کی بقاء کی آخری جنگ لڑرہے تھے۔ ان کی قربانیوں پر نظر ڈالیں تو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ بلاشبہ ان کی قربانیاں بے مثال تھیں۔
وہ نہ صرف جہاد کررہے تھے بلکہ اس حوالے سے دیگر امور بھی انجام دے رہے تھے۔ البدر کواپنے طور پر آرمی او ر سول انتظامیہ کے ان اقدامات پر نظر رکھنا پڑتی تھی ، جن سے عوام کو بے جا تکلیف پہنچ رہی ہو۔ البدر کے بعض کمانڈروں نے بتایا کہ پاک آرمی اپنے افعال و کردار میں عام تصور سے زیادہ اچھی ثابت ہوئی لیکن بعض مقامات پر اس نے اعتماد کو ٹھیس بھی پہنچائی ۔ محتاط الفاظ میں پولیس کا مجموعی طورپر اور فوجی جوانوں کا رویہ جزوی طورپر قابل اصلاح تھا۔ یہ ’’کمزور پہلو‘‘جن کی جانب خفیف سا اشارہ کیا گیا ہے اگر نہ ہوتے تو حالات کو سنبھالنے اور سنوارنے میں بڑی مدد ملتی۔
اس موضوع پر متعلقہ کتابوں کے حوالے سے یہ حیرت انگیز حققیت بھی سامنے آئی کہ ملک دشمن لابی نے بھرپور پروپیگنڈہ کیا کہ پاک فوج نے بنگالیوں پرانسانیت سوز مظالم اور ان کی خواتین کی بڑے پیمانے پر آبروریزی کی۔ جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ بعض جگہوں پر اکا دکا واقعات ہوئے ۔ اس کے علاوہ مشرقی پاکستان میں بڑے پیمانے پر آبروریزی ، وحشیانہ قتل اور لوٹ مار کے واقعات میں بھارتی جاسوس اور پاکستانی فوج کی وردیوں میں ملبوس بھارتی فوجی تھے۔ تاکہ پاکستان کے خلاف نفر تیزی سے پھیلتی رہے۔
البدر نے فوجی افسروں میںنماز کا ذوق پیدا کرنے کے لئے بھی کام کیا جہاں اس کا موقع میسر آتا وہ نماز کے اوقات میں دفاتر اور فوجی بیرکوں میں جاتے اور اِدھر اُدھر کی گفتگو کے بعد کہتے کہ نماز کا وقت ہوگیا ہے پہلے آپ لوگ پڑھ لیں، ہم حفاظت کرتے ہیں ، پھر ہم پڑھ لیں گے۔ یہ حکمت عملی موثر ثابت ہوئی اور رفتہ رفتہ مزید فوجی افسران نماز کی جانب راغب ہونے لگے۔ البدر کے جوان گفتگو کے دوران قرآن کریم کی حسب موقع آیات کا استعمال کرتے قرآن کے الہامی اور سرمدی بول انہیں متاثر کئے بغیر نہ رہتے۔ بیشتر فوجی افسروں کا نماز اور قرآن سے ٹوٹا ہوا رشتہ جڑ جانے کے بعد عوام کی عمومی شکایات میں بھی کمی آتی چلی گئی۔
۱۹۷۱ء کا سال جمعیت (البدر) کے لئے انتہائی پر آشوب تھا البدر کے ایک کمانڈر کے مطابق ہم بدترین حالات میں گھر ے ہوئے تھے ۔ ہمارے ساتھیوں کو ایک جانب بھارتی شرپسندوں دوسری جانب بنگالی قوم پرستوں ، تیسری جانب مقامی کمیونسٹوں ، چھوتھی جانب ہندوؤں پانچویں جانب کئی مقامات پر اپنی فوج اور چھٹی جانب اُردو بولنے والوں کے تشدد کا سامنا کرنا پڑا ، جیسا کہ پہلے بتایا جاچکا ہے کہ کچھ اردو بولنے والے افراد میں بنگالیوں کے خلاف جو جوابی نفرت ابھی تھی ، اس کے نتیجے میں انہوں نے کئی جگہ بلاامتیاز بنگالیوں کو اپنا نشانہ بنایا ۔ چونکہ البدر کے تمام مجاہد بنگالی تھے اس لئے وہ بھی ان کے جنونِ انتقام کا نشانہ بنتے رہے ۔ اس چومکھی کے باوجود البدر کے پائے استقامت میں لرزش پیدا نہ ہوئی ۔ محض اس لئے کہ اسلام کے نام پر حاصل کردہ پاکستان اور اسکے عوام کو بچانے کے لئے ہتھیار اٹھائے تھے اور وہ آخرت میں اس کے اجر کا یقین ِ کامل رکھتے تھے۔
۳۱ بلوچ رجمنٹ کے میجر ریاض نے بتایا کہ یہ غالباً ۲۸؍ مئی ۱۹۷۱ء کا واقعہ ہے جب میرے ضلع میں البدر کی پہلی کمپنی نے ہفتہ بھر کی سرسری تربیت مکمل کرلی ۔ ایک دن ایک آدمی دوڑا دوڑا آیا اور کہنے لگا کہ مکتی باہنی کے لوگ ہمارے مویشی چھین کر لے جارہے ہیں ، ہم نے ان کا پیچھا کرنے کے لئے فوراً ایک فوجی دستہ روانہ کیا۔ دوسری طرف بھارتی فوج کے ایک گوریلا دستے نے پاکستان کی سرحد میں داخل ہوکر ہمارے فوجیوں پر حملہ کردیا اور حملے کے دوران ہمارے ایک ساتھی کیپٹن شہید ہوگئے ۔ میں پریشانی کے عالم میں سوچ رہاتھاکہ اس صورتحال سے کیسے نمٹا جائے اور اس کا بدلہ کیسے لیا جائے ۔
اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ البدر کے پہلے کمانڈر اور اسلامی جمعیت طلبہ کے مقامی یونٹ ناظم کامران جو سال اول کے طالبعلم تھے میرے پاس آئے اور کہا کہ سر ! شہید کیپٹن صاحب کا بدلہ ہم لیں گے۔ میں نے کہا کہ بھئی ہندوستان کا بارڈر پار کرکے وہاں جانا اور پھر تجربہ کار اور بھارتی فوج پر شب خون مارنا ایک مشکل کام ہے۔ یہ آپ سے کیسے ممکن ہوگا ؟ بھولے بھالے سانولے کامران نے معصوم سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا کہ ہم بدلہ لے کر دکھائیں گے ، ان شاء اللہ ۔ چنانچہ نماز عصر سے کچھ پہلے کامران اپنے سات ساتھیوں کے ہمراہ آیا اور کہا کہ میجر صاحب ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمارا ہدف بتائیں اور کچھ حفاظتی اسلحہ بھی دیں۔ اسلحہ کا سن کر میں تذبذب کا شکارہوگیا ، کیونکہ اس سے پہلے رضاکار فورس کو اسلحہ دینا کا ہمارا تجربہ بہت ناخوشگوار تھا۔ بہر حال ان سے کہا کہ نماز مغرب کے بعد بات کروں گا۔
نماز کے بعد پھر وہی مسکراتے مسکراتے سانولے چہرے میرے سامنے تھے۔ میں نے انہیں ایک پستول ، دو دستی بم اور دو ڈائنامیٹ دیئے ۔ ظاہر ہے کہ یہ اسلحہ ان میں سے کسی ایک کے لئے بھی کافی نہ تھا۔ کامران نے آہستگی سے کہا کہ میجر صاحب ! اور نہیں تو ہر ایک ساتھی کے ذاتی تحفظ کے لئے ہی ایک ایک ہلکا ہتھیار دے دیجئے۔
ا س کا مطالبہ غلط نہ تھا لیکن میں اس سے زیادہ ان پر اعتماد کرنا نہیں چاہتا تھا۔ چند لمحے پراسرار خاموشی میں گزرے۔ پھر نہ معلوم کیوں میرے ذہن میں ایک خیال آیا اور میں اپنے کمرے سے سورۂ یٰسین کا ایک نسخہ نکال لایا، جومیرے نام آنے والے ایک پرانے عید کارڈ میں لگاہواتھا اور وہ خاموشی سے کامران کے ہاتھ میں دے دیا۔ یہ دیکھ کر اس نے مزید کوئی تقاضا کئے بغیر اللہ حافظ کہا اور رات کے اندھیرے میں اپنی راہ لی۔ اور میں ساری رات احساسِ جرم میں بیٹھا رہا کہ شاید ان ساتھیوں سے دوبارہ ملاقات نہ ہوسکے۔سرحد قریب ہی تھی اس لئے وہ سورج نکلتے ہی میرے پاس واپس آگئے ، کامران نے کہا کہ میجر صاحب ! بس کمال ہوگیا، ہم اپنا شکار مارنے میں کامیاب رہے۔
تفصیلات سے معلوم ہوا کہ یہ البدری شاہین سرحد پار کرکے رینگتے رینگتے بھارتی فوج کے مورچوں تک پہنچے۔ وہاں ایک ٹرک میں دوبھارتی آفیسرز اور مکتی باہنی کے کچھ ایجنٹ اونگھ رہے تھے ۔ مزے کی بات ہے کہ اس لمحے پہرہ دار ٹیم بھی سور ہی تھی ۔ ان کے وہم وگمان میں بھی پاکستان سے کسی گوریلا حملے کاخطرہ نہ تھا اسلئے البدر نے سب سے پہلے تو ٹرک کے گرد ڈائنامیٹ لگائے۔ پھر دوالبدر کیڈٹ چھلانگ لگاکر ٹرک سے دو رائفلیں اٹھا کر تیزی سے نیچے آگئے اور بڑی تیزی سے ایک بھارتی میجر، اور تین بھارتی سپاہیوں کو جہنم واصل کیا ۔ اس دوران میں ایک البدر کیڈٹ نے ڈائنامیٹ آپریٹ کیا اور اُسی خاموشی سے یہاں پہنچ گئے اور پھر یہ آپریشن ایک لازوال حقیقت بن گیا۔ ہماری انٹلی جنس نے بھی اس آپریشن کی تصدیق کی، یہ تھا البدر کا پہلا آپریشن جو بھارت کی سرزمین پر بھارتی فوج کے خلاف ہوا۔
البدر کے پہلے کمانڈرکامران بیان کرتے ہیں کہ مئی کے چوتھے ہفتے میںشیرپور سے سولہ میل دور ایک مقام چندر نگر سے خبر آئی کہ وہاں بھارتی ایجنٹوں نے بہت تشویشناک صورتحال پیدا کررکھی ہے ۔ یہ سن کر ہم وہاں جانے کے لئے تیارہوگئے ۔ اس آپریشن کے لئے ۱۳۰ آرمی اور ۱۸ البدر کیڈٹ تھے۔ کمان میجر ریاض ملک کررہے تے۔ ہم لوگ رات کے اندھیرے میں نکلے وہاں پہنچے تو ایک گھر سے کچھ آدمیوں کے باتیں کرنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ ہم تین البدر کے ساتھی ان کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ دوست پاکستانی فوج پر حملہ کرنا چاہتے ہیں۔
یہ طریقہ ہم اس لئے اختیار کررہے تھے کہ وہ ہمیں ساتھی سمجھ کر راز کی بات بتادیں اوراس وقت ہماری یہ تدبیر سو فیصد کامیاب ثابت ہوئی ۔ وہ فوراً کھل گئے اور کہنے لگے کہ ہم خود اسی فکر میں ہیں، لیکن ابھی ذرا رکے ہوئے ہیں۔ ہم نے انہیں فوراً گرفتار کرلیا، اس مکان سے بہت سا اسلحہ اور ہندوستانی کرنسی ملی۔ قیدیوں کو ساتھ لے کر ہم نے پیدل ہی چندرنگر کی طرف کوچ کیا اور رات کے کوئی دو بجے وہاں جاپہنچے۔ اس طرح کی بہت سی کارروائیاں ہوئیں۔جن میں بہت سی خونریز اور خطرناک تھیں، ان میں البدر اور الشمس کے ساتھیوں نے اپنی جان کی بازی لگا دی، تاکہ پاکستان کی سلامتی کو محفوظ بنایا جاسکے ۔ (جاری ہے)
(حوالہ جات: البدر ، سلیم منصور خالد۔ میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا، کرنل صدیق سالک)