عصر کی نمازکے بعد ایک گروپ کی شکل میں کچھ نمازی بلال ٹائون کی بلال مسجد سے باہر آرہے تھے، ان میں ایک صاحب،لامبا قد، نورانی چہرہ، سفیدکپڑوں اورسفید ٹوپی میں ملبوس پروقار چال کے ساتھ سب میں نمایاں تھے۔ ان کے چہرے پر سنجیدگی اورمتانت دیکھ کرایسامحسوس ہورہاتھا کہ شاید وہ نہ ہی وہ خود کسی سے بات کرتے ہیں اور نہ ہی کسی اور کو اپنے آپ سے بات کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے مجھے غور سے دیکھا اور سلام کا جواب دیااور پھر خاموشی سے سامنے دیکھتے ہوئے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ساتھ چلنے لگے۔میرا خیال تھا کہ شاید ان صاحب نے مجھے پہچانا نہیں ہے ۔اب مجھے اس بات کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا تھاکہ ان سے مذیدکوئی بات کی جاسکتی ہے۔تاہم مجھے بھی اسی طرف جانا تھا، میں بھی اس گروپ کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ اچانک انہوں نے مجھ سے پوچھاکیا آپ شفٹ ہوگئے ہیں ۔ مجھے خوشی ہوئی کہ ایک تو انہوں نے مجھے پہچان لیا تھااورپھران کومیرا کیس بھی یاد تھا۔
یہ سید عقیل احمد صاحب تھے۔نارتھ ناظم آباد زون میں ان کی تربیت مدرسین کی ذمہ داری تھی۔ دراصل ان کے گھر کے برابر والا گھر کرائے پر خالی تھا۔ اسی سلسلے میں میرے ایک دوست شاہد نسیم بھائی مجھے کچھ دن پہلے ان کے گھر لے کر گئے تھے ۔یہ ان سے پہلی اوربہت مختصر ملاقات تھی ۔ پھر میں تقریباً ۲سال ان کے پڑوس میں رہا۔ اس نئے محلے میں یہ ہی واحد میرے جاننے والے تھے۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ان سے بات چیت کیسے بڑھائی جائے۔ ایک دن نماز سے واپسی پرمیں نے ان سے کہا کہ آپ روزانہ میرے ساتھ کم از کم آدھا گھنٹہ چہل قدمی کیا کریں۔مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کہ وہ فوراً راضی ہو گے۔ اس طرح عشاء کے بعدہماری چہل قدمی کا آغاز ہوگیا اوریہ سلسلہ تقریباً۳ سال تک چلتارہا۔ پھر مجھے اندازہ ہوا کہ یہ چٹان کی طرح سخت صاحب بیک وقت سخت بھی ہیں اور نہایت ہی نرم دل اور نرم مزاج انسان بھی ہیں۔ان کی شخصیت کے یہ دونوں پہلوہر وقت ان کے ساتھ ہی رہتے ہیں اور دونوںاپنی اپنی درست جگہ پر ہیں۔ ان کایہ سخت پہلو ہر اس شخص کے لیے ہے جو کسی بھی قسم کی فضول ، لغواور غیر ضروری بات ان سے کرنے کی کوشش کرے۔ لیکن اگر کوئی شخص ان سے کوئی اچھی بات ،کوئی کام کی بات یا کوئی علمی گفتگو کرے یا ان سے کسی مسلے سے متعلق کچھ پوچھے تو شاید ان سے زیادہ نرم مزاج اور نرم دل شخص آپ کو آسانی سے نہیں ملے۔انتہائی سکون سے دوسرے کی بات سننا۔ بیچ میں بات نہ کاٹنا ۔پھر بات مکمل ہونے کے بعد اس میں سے صرف کام کی اور ضروری باتوں کا نوٹس لینا اور صرف ان ہی کا جواب دینا ان کے مزاج کامستقل حصہ ہے۔
کوئی بھی شخص اپنے اصل چہرے اور اپنے باطن کو کتنے ہی خول میں لپیٹ کر رکھے ہوئے ہو۔ چند ملاقاتوں میں اور اگر وہ ملاقاتیں تواتر کے ساتھ ہوں تووہ خول اترنے لگتے ہیں۔اور انسان کی ایسی چھپی ہوئی خوبیاں اور خامیاں عیاں ہونے لگتی ہیں جن کاوہ ابتدائی ملاقاتوں میں اندازہ نہیں کر پایا تھا۔پھر چند ہی ملاقاتوں میں دونوں افراد کو ایک دوسرے کوایک مستقل دوست اور دیرپا تعلق کے حوالے سے ایک خاموش فیصلہ کرکے یا تو ایک دوسرے سے جڑ جاتے ہیں یا پھرغیر محسوس انداز میںکوئی اعلان کیے بغیر اپنی راہیں جدا کرکے یا تو لا تعلق ہو جاتے ہیں یا پھر محض سلام دعا تک محدود ہو جاتے ہیں۔ ۔ چند ہی ملاقاتوں کے بعد میںمیری ان کے ساتھ خاصی مفاہمت اور ذہنی ہم آہنگی ہو گئی۔ میں ان سے سوالات پوچھتا تھا اور وہ ان کے دلائل کے ساتھ جوابات دیتے تھے۔اس طرح میں اپنی چہل قدمی کے دوران ان سے بہت کچھ سیکھتا رہا۔ پھر ایسا بھی ہوا کہ وہ اپنی اپنی طبیعت کے خلاف چند کام کی باتوں کے ساتھ میری بہت ساری فضول باتیں بہت تحمل سے سننے لگے تھے۔پھر رفتہ رفتہ وہ اس کے عادی ہوگئے تھے۔عقیل احمد صاحب وقت کے بہت پابند تھے ۔ ہماری چہل قدمی کا جو وقت تھا اس میں ایک منٹ کی تاخیر نہ خود کرتے تھے اور نہ ہی مجھے کرنے دیتے تھے۔
وہ ایک بہترین مدرس تھے۔ ان کے تمام دروس انتہائی علمی اور اہم موضوعات پر مشتمل ہوتے تھے۔ کسی لگی لپٹی کے بغیر اتنا کھراسچ بولتے کہ بعض اوقات قارئین کے لیے اسے برداشت کرنا مشکل ہو جاتاتو فرماتے کہ یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا ہوں، احادیث اور تاریخ کی کتابوں میں یہی لکھا ہو ا ہے، کیا میں اسے بدل دوں۔ دروس کے دوران ان کے لہجے کے اتار چڑھائو میں کوئی بہت زیادہ فرق نہیں ہوتا تھا۔سارے لیکچرایک ہی پچ پرہوتے ۔ جو لہجہ کسی اہم بات کے لیے ہے ،یا جس بات کو وہ زیادہ واضح کرنا چاہتے ہوں، تقریباً وہی لہجہ ایک تواتر کے ساتھ ان کے پورے لیکچر میںپایا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے دروس میں کم اہم بات کوئی ہوتی ہی نہیں ہے۔ بہت ہی نپی تلی بات، کسی بات کو سمجھانے کے لیے انتہائی مناسب الفاظوں کا استعمال اس طرح کرتے تھے کہ جس کے بعداس کے لیے مذید وضاحت کی ضرورت نہیںباقی رہتی تھی۔اپنی گفتگو میں کسی جملے کو شاید ہی کبھی دہرایاہو۔ ان کی آواز اتنی گونجتی ہوئی ہوتی کی اس بات کا بھی کوئی امکان نہیں ہوتاتھا کہ شاید سننے والے تک صحیح آواز نہیں پہنچی ہے لہٰذا ان کو وہی جملہ دوبارہ بولنے کی ضرورت پڑے۔ ان کے جملے کبھی بھی اپنے درس کے موضوع اور اغراض و مقاصد سے ہٹے ہوئے نہیں ہوتے تھے۔پوری گفتگو میں کوئی سطحی عامیانہ اورغیر ضروری جملہ نہیں ملے گا۔ اپنی بات کو دہرائے اور جملوں کی تکرار کے بغیرتلخیص کے ساتھ بالکل عام فہم انداز میں اپنی بات اس طرح سمجھاتے چلے جاتے جیسے کہ ایک مُدلّل اور نپی تلی ایک مختصر شرح ان کے ساتھ ساتھ چل رہی ہو۔ جہاںجتنی توضیح کی ضرورت ہوتی وہاں اتنی ہی وضاحت کرتے۔ جہاں تلخیص سے کام چل جاتا توپھر کبھی بات کو غیر ضروری طور پرنہیں پھیلاتے ۔ ان کے جملوں کے سمجھانے میں یا سامعین کے سمجھنے میں کبھی کوئی پیچیدگی نظر نہیںآئی۔مشکل سے مشکل گتھیوں کو مناسب ترین الفاظ کے چنائو سے بہت آسانی سے سمجھا دیتے۔
کسی پیغام یا کسی واقع کو بات برائے بات کی طرح محض پڑھ کر آگے بڑھانے کے بجائے اس کے اسباب، اس کے نتائج اور اس کے اثرات پر ضروری حد تک وضاحت کے ساتھ روشنی ڈالتے اور خاصے اختصار کے ساتھ اس کا تجزیہ بھی کرتے چلے جاتے۔ خاص طور پر واقعات کو بیان کرتے وقت ان کواس زمانے کے حالات بالکل صحیح تاریخی اصولوں اور خیر وشر کی تفریق پر جانچ کرسمجھاتے۔
ہمیشہ دلیل سے بات کرتے ۔ اگر کوئی شخص ان کو کوئی مسلہٗ یا کوئی تاریخی واقعہ بتاتااور اگرو ہ عقیل صاحب کے علم میں نہیں ہوتا تو فوراً کہتے بھائی اس کی کوئی دلیل ہے آپ کے پاس۔
کمال کی بات یہ ہے کہ کئی سال تک ان کے دروس سننے کے بعد کبھی ایسا محسوس نہیں ہوا کہ یہ اپنا کوئی پچھلا درس یا جملے دہرا رہے ہیں۔نہ ہی کبھی ایسا محسوس ہوا کہ وہ درس کے لیے چند خاص جملے یا الفاظ تیار کرکے لائے ہیں اور اور موقع موقع سے ضرورت کے مطابق ان کو استعمال کرتے جارہے ہیں۔ ان کے جملے ان کے درس کی صنعت میں اس طرح تحلیل ہوکر روانی سے چلتے ہیں کہ کہیں بھی کوئی جملہ کسی پیوند کاری کا احساس نہیں دلاتا ۔جس کا براہِ راست اثر سامعین پر پڑتا ہے اور وہ اس کے بہائو میں اس طرح بہتے چلے جاتے ہیں کہ جب درس ختم ہوتا ہے تو ہی ان کی توجہ کا سلسلہ ٹوٹتا ہے۔
قرآن و سنت نہ صرف ان کا پسندیدہ موضوع ہے بلکہ ان کی زندگی کامقصود و محور ہی یہی ہے۔قرآن میں موجود علوم مثلاً: ایمانیات، فلسفہ، نفسیات ، جغرافیہ،کائنات، اخلاقیات،سیاسیات، جہاد،عبادات اور تواریخ وغیرہ پر غیر معمولی دسترس حاصل ہے۔ خصوصاً قرآن میں موجوداحکامات اور واقعات انہیں اسطرح ازبر ہیں کہ کسی ایک موضوع پر احکامات اور واقعات جو کہ قرآن کے مختلف حصوں میں موجود ہیں وہ ان کو موضوع کے لحاظ سے ایک تواتر کے ساتھ بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔جس کے لیے ان کو قرآن کے مختلف حصوں کو کھول کر دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔اسی طرح سیرت النبیﷺ کے موضوع سے ان کی محبت ،رغبت اور علمیت اتنی گہری ہے کہ نزول قرآن کو رسول اکرمﷺکی سیرت مبارکہ کے ساتھ کڑی در کڑی مکمل سیاق و سباق اس طرح جوڑ کر اس طرح بیان کرتے کہ اس زمانے کے حالات اور آپ ﷺ کے فیصلے ، جدوجہداور ان کے بلند اخلاق کے اثرات واضح ہو کرایک تصویر کی طرح قارئین کے سامنے آجاتے ۔ رسول اکرمﷺ کی پوری زندگی کی جدوجہد سے عقیل صاحب نے جو سب سے اہم پیغام سمجھا وہ اقامت دین کا تھا۔اسی لیے وہ اپنی باتوں اور دروس میںوہ مکمل طور پر اقامت دین کی تڑپ رکھنے والے ایک سپاہی نظر آتے ہیں۔
عقیل صاحب کا ایمان اوراس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ان کی قوت تخیّل اتنی مضبوط ہے کہ وہ بیرونی اور خارجی اثرات اتنی آسانی سے جذب نہیں کرتے ۔ اور نہ ہی وہ ہر ایک سے بغیر کسی ٹھوس بنیاد کے متاثرہوتے ہیں۔ عقیل صاحب کے ایمان اورعلم کی بنیاد چونکہ قرآن اور سنت ہے۔ اور اسی قرآن و سنت کے علم کا ایک وسیع ذخیرہ ان کے سینے میں محفوظ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے ان سے اپنے قریبی تعلقات کے اتنے عرصے میں اسلام سے متعلق کوئی بات قرآن و سنت سے ہٹ کر نہیں سنی۔ عقیل صاحب نے جب بھی بات کی قرآن و سنت کی روشنی میں دلائل سے بات کی۔ میں نے کبھی ان کو تفسیر، سیرت، شرعیت، فقہی اور تاریخی موضوعات پر اپنا خیال ظاہر کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ موضوعات پر ان کی اتنی دسترس ہے کہ جب بھی بات کرتے تو حوالے سے بات کرتے ۔ ان کے اسلام کو سمجھنے اور سمجھانے کی ترتیب وہی ہوتی جو کہ عین حق ہے۔ پہلے قرآن ، پھر سنت ؐ ، پھر صحابہ کا اور پھرآئمہ اور علمائے کرام کے پورے پورے اور صحیح صحیح حوالے دیا کرتے۔ عقیل صاحب کا حافظہ بھی اﷲ تعالی کی خاص نعمت تھا۔ حوالے ان کو اتنی مناسبت اور ترتیب سے یاد رہتے ہیںکہ ایساشاید ہی کبھی ہوا ہو کہ وہ سوچ رہے ہوں،یا پھر یاد کرنے کی کوشش کررہے ہوںاور پھر غلط حوالہ دے کر معذرت کررہے ہوں۔ ان کو ہمیشہ پورے اعتماد کے ساتھ اس طرح بات کرتے دیکھا ہے کہ جیسے سارے متعلقہ حوالے ان کے سامنے لکھے ہوئے ہوں ۔کبھی کبھی وہ اپنے دروس میں مختلف مکتبہ فکر کے علماء کے حوالے دیتے ہوئے بھی نظرآتے ، جس سے ان کی علمی اعلیٰ ظرفی بالکل نمایاں ہو جاتی ہے کہ وہ فرقہ پرستی کی تنگ نظری سے بہت دورنہایت کھلے ذہن کے ساتھ تمام ہی مکتبہ فکر کے علمائوں کی تفاسیر اور دوسری کتابوں کو پڑھا کرتے تھے۔اور اپنے دروس میں ان کی آراء کو بھی شامل رکھتے تھے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ کسی بھی قسم کی پشیمانی ،شرمندگی ،الجھائو یا گھبراہٹ سے پاک ان کا چہرہ ہروقت پراعتماد اور پرسکون نظرآتا ہے۔
بظاہر سنجیدہ رہنے والے سید صاحب تکبّر سے بہت دوراپنی راہ میں آنے والے ہر چھوٹے بڑے شخص کو سلام کرتے ہوئے چلتے ۔ اپنے بارے میں بہت کم گفتگو کرتے ہیں۔اسی لیے ان کی زندگی کے حالات اورواقعات سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔ سید صاحب ایک عرصے تک جماعت اسلامی جدہ کے امیر بھی رہے ہیں۔ ایک دن میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کی جدہ کی امارت کے دوران جماعت کے جو بھی ذمہ داران پاکستان سے وہاںآتے ہوں گے آپ کی ان سے ملاقاتیں تو رہتی ہوں گی۔ تو آپ کی وہاں کس کس سے کس کس موقع پر ملاقاتیں ہوئی ۔ کچھ دیر تو وہ خاموش رہے نظریں نیچی کیے میرے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ پھر میرے دوبارہ پوچھنے پرانہوں نے اپنا سر اٹھایاتو ان کی آنکھیںگذرے ہوئے زمانے میں کچھ تلاش کررہی تھیں۔پھر شاید ان کی سوچ کا دھارا کسی جگہ پر رک گیافرمانے لگے:
ایک دن محترم قاضی حسین احمد اورمحترم عبدالغفار عزیز اس وقت کے بادشاہ عبداللہ بن سعودکے گیسٹ ہائوس میں ٹھہرے ہوئے تھے، میں بھی انہی کے ساتھ ہی تھا۔ اس قیام کے دوران ایک روز قاضی حسین احمد صاحب نے مولانا حبیب الرحمٰن صاحب سے درخواست کی کہ یہاں کے مقامی لوگوں کی اعانت کے پیسے پاکستان بھجوا دیں تو مولانا نے انہیں بتایا کہ اس ماہ پاکستان میںالیکشن ہے، لہٰذا ابھی پیسے نہیں بھجوائے جاسکتے۔ (شاید الیکشن کے دوران پیسے بھیجنے پر پابندی ہوتی ہے)
میں نے انہیں اپنے ماضی سے واپس نہیں آنے دیااوران کو وہیں روک کر ایک اور سوال کیا : کیا کبھی آپ کی وہاں پر سراج الحق صاحب سے ملاقات ہوئی ہے۔ فرمانے لگے ؛اس وقت سراج الحق صاحب کے پی کے ، کے وزیر مالیات اور وزیر تعلیم تھے،جدّہ آئے ا ورائرپورٹ سے انہوں نے مجھے گھر پرفون کیا۔ میں ان کو لینے ائرپورٹ گیا، پھر کچھ کھجور اور مشروبات کا انتظام کرکے ان کے ساتھ ہی افطاری کی اور پھر ان کو لے کر مکّہ لے گیا۔
عقیل صاحب وہاں پر پاکستان کے علاوہ بھی اور دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کے ساتھی آتے ہونگے ، کیاکبھی آپ کی ان سے ملاقات ہوئی ہے۔ میرے سوال کرنے پر فرمایا کہ ملاقاتیں توکبھی نہ کبھی کسی نہ کسی سے ہو ہی جاتی تھیں ۔ پھر تھوڑا ٹھہر کر فرمانے لگے؛ ایک مرتبہ قاضی حسین احمد صاحب، ہندوستان کی جماعت اسلامی کے نائب امیر، مقبوضہ کشمیرکے مجاہدینکے سپریم کمانڈر جناب صلاح الدین صاحب اور میںہم چاروںایک عمارت کی سیڑھیاں اتر رہے تھے، تو اس دوران کمانڈر صلاح الدین صاحب نے نائب امیرجماعت سے شکوہ کیاکہ محترم کشمیر جہاد کے بارے میں آپ لوگوں کی خاموشی ہماری سمجھ سے بالا تر ہے۔
بھارت اور کشمیر کے علاوہ کبھی بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی کے کسی رہنما سے ملاقات ہوئی ۔ میرے استسفار پر فرمانے لگے ؛ ایک روز پروفیسر غلام اعظم صاحب ہماری شوریٰ میں تشریف لائے تو انہوں نے اپنے ہاتھ سے امرود کاٹ کر مجھے دیے اور بتایا کہ امرود کو بنگلہ زبان میں ــــ’’پیارے‘‘ کہتے ہیں۔
سید عقیل احمد صاحب اسلام کی تبلیغی دنیا کے ایک عظیم سپاہی دو سال پہلے شدید بیمار ہوئے۔کئی دن وینٹی لیٹر پر رہے۔ اب الحمدُللہ بہت بہتر ہیںلیکن ان کی یاداشت خاصی متاثر ہوئی ہے۔ درس و تدریس کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے۔گھرپر ہی رہتے ہیں، نمازیں بھی گھر پر ہی ادا کرتے ہیں۔اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان کو صحت کامل عطا فرمائیںاور ان کی زندگی بھر کے درس و تدریس ایک عظیم صدقیہ جاریہ کے طور پر قبول فرمائیں۔ آمین