یہ عید مظلوم فلسطینی عورتوں اور اور بچوں کی لہو میں ڈوبی ہوئی عید تھی ارض فلسطین میں ہر طرف خون خون ہے ۔نہتےفلسطینیوں پرہٹ دھرمی کے ساتھ امریکا کی سرپرستی اور عالم اسلام کی خاموشی کی وجہ سے اسرائیلی دہشت گردی جاری ہیں اور اقوام متحدہ سمیت مسلم حکمراں خاموش ہے ۔فلسطین ،وہ مقام ہے جہاں خاتم الانبیا ء حضرت محمد صلوسلم عل نے تمام انبیائے کرامؑ کی امامت فرمائی،جو قبلہ اول دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے عزت و تقدس کا مرکز ہے وہ قبلہ او ل اور مسجد اقصیٰ دونوں صیہونیت کے قبضے میں ہے۔ وہاں مسلمانوں کے بچے اور عورتیں قتل ہورہے ہیں۔
اسرائیل کی جانب سے غزہ پر فضائی حملوں کا سلسلہ مسلسل جاری ہے متعدد رہائشی عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں ہیں ۔ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق غزہ کے صحت حکام کے حوالے سے بتایا گیا کہ اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں اب تک 250سے زاید فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں 75 بچے بھی شامل ہیں۔ تقریباً 2000 فلسطینی اسرائیلی حملوں میں زخمی ہوئے جبکہ حماس کے راکٹ حملوں کے نتیجے میں اسرائیل میں 12 افراد ہلاک اور 300 زخمی ہوئے۔اقوامِ متحدہ کی ہومین یٹیرن ایجنسی کے مطابق اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں گنجان آبادی والے غزہ کی محصور پٹی میں اب تک 450 عمارتیں تباہ یا بری طرح متاثر ہوچکی ہیں۔تباہ شدہ عمارتوں میں 6 ہسپتال، 9 بنیادی صحت کے مراکز شامل ہیں جبکہ اب تک 52 ہزار فلسطینی دربدر ہوچکے ہیں۔تباہی سے اس ساحلی پٹی میں جگہ جگہ ملبے کے ڈھیر لگ چکے ہیں اور غزہ میں رہائشی صورتحال کے حوالے سے خدشات طول پکڑ گئے ہیں۔ٹائمز آف اسرائیل کی رپورٹ کے مطابق منگل کی رات صرف 25 منٹ کے عرصے میں اسرائیلی فوج نے غزہ پر 122 بم گرائے۔سیو دی چلڈرن نامی تنظیم کے مطابق گزشتہ ہفتے سے جاری اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں غزہ میں اب تک 50 اسکولز تباہ ہوچکے ہیں جس سے 41 ہزار 897 بچے متاثر ہوں گے۔ ہفتے کے روز غزہ میں ایک کثیر المنزلہ عمارت کو فضائی حملے میں تباہ کر دیاگیا۔ اس عمارت میں میڈیا کے دفاتر کے علاوہ کئی رہائشی اپارٹمنٹس بھی تھے۔
فلسطین میں جاری صیہونی سفاکیت کی صورت اتنی خراب ہے کہ مسلم امریکن خواتین اراکین کانگریس رشیدہ طلیب اور الہان عمر بھی چیخ پڑی ہیں اور رشیدہ طلیب نے کانگریس میں اظہار خیال کرتے ہوئے دوستوں کو یاد دلا دوں کہ فلسطینی بھی وجود رکھتے ہیں، وہ بھی انسان ہیں، انہیں بھی خواب دیکھنے کی اجازت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم بھی مائیں ہیں، بیٹیاں ہیں، پوتیاں ہیں، ہم انصاف کے طالب ہیں، ہر قسم کے ظلم کے خلاف لڑتے ہوئے معذرت خواہ نہیں ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ آپ اسرائیل کی نسلی حکومت کو خواہ جتنے پیسے بھیجیں، فلسطینی کہیں نہیں جا رہے۔رشیدہ طلیب کا کہنا تھا غزہ کی ایک ماں کی تحریر آپ کو پڑھ کر سنانا چاہتی ہوں، غزہ کی ماں کہتی ہے وہ بچوں کو اپنے بیڈروم میں سلاتی ہے تاکہ مریں تو ساتھ مریں، وہ نہیں چاہتی ہےکہ کوئی زندہ رہے اور دوسرےکی موت کا غم سہے۔انہوں نے کہا کہ غزہ کی ایک ماں کا یہ بیان مجھے اور بھی توڑ دیتا ہے جب میں اپنے ملک کی پالیسیاں دیکھتی ہوں، اسرائیل کو فنڈنگ اس ماں کے اپنے بچوں کو زندہ دیکھنے کے حق سے انکاری ہے۔طلیب امریکا کو ہم سے بہتر جانتی ہیں اسی لیے ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اسرائیل کے لیے امداد عالمی انسانی حقوق کی پاسداری سے مشروط کرنا ہو گی، اسرائیلی کی غیر مشروط حمایت سے فلسطینیوں کی زندگیاں مٹ رہی ہیں، ہماری غیرمشروط حمایت لاکھوں پناہ گزینوں کے حقوق سے انکاری ہے۔الہان عمر نے اپنے بیان میں کہا کہ اسرائیل فلسطین تصادم میں ہر موت ایک سانحہ ہے، عام شہریوں کو نشانہ بنانے والا ہر راکٹ اور ہر بم جنگی جرم ہے۔ان کا کہنا تھا مجھے ہر اس بچے کے درد کا احساس ہے جو خوف کے مارے بستر میں چھپ جاتا ہے، کاش ہم بطور قوم اس درد سے مساوی طور پر نمٹیں، لیکن اس وقت ہم ایسا نہیں کر رہے۔امریکی حکومت اسرائیل کی واضح سرپرستی کی صرف مسلمان نشاندہی نہیں کررہے بلکہ خود امریکی بھی کہہ رہے ہیں کہ امریکا غلط کررہا ہے، الہان عمر کا کہنا تھا مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ انسانیت کے خلاف سنگین جرائم اور انسانی حقوق کی پامالیوں کی مذمت کرنے کے بجائے ہمارے بہت سے کانگریس اراکین سیلف ڈیفنس کے نام پر اسرائیل کے فضائی حملوں کی حمایت کر رہے ہیں۔فلسطین میں اسرائیلی دہشت گردی کے بعدسے اسرائیل کی صورت حال بھی اچھی نہیں ہے جب سے حماس نے رد عمل دکھایا ہے اسرائیل کی پریشانی میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق غزہ میں جاری لڑائی کے دوران اسرائیل کے اندر بھی پرتشدد ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں، اب تک اسرائیل کے اندر12 افراد مارے گئے ہیں. فلسطینیوں اور اسرائیلی عربوں نے عام ہڑتال کا اعلان کر رکھا ہے۔وہاں کی پولیس کےمطا بق ملک کے مختلف شہروں میں جس قسم کا نسلی تشدد دیکھنے میں آیا ہے یہ کئی دہائیوں سے دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔اسرائیل کا شہر لُداور عکا میں خانہ جنگی والی صورت حال میڈیا رپورٹ کررہاہے .اسرائیل کے متعدد شہروں میں ایمرجنسی کا نفاذہے،اسرائیل کے اپوزیشن لیڈر یائر لیپڈ نے بھی ان پرتشدد واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ معاملات ہاتھ سے نکل گئے ہیں۔امریکی سیکریٹری خارجہ انتھونی بلنکن نے کہا ہے کہ واشنگٹن کو اسرائیل کی گلیوں میں ہونے والے تشدد پر سخت تشویش ہےجبکہ محکمہ خارجہ نے اپنے شہریوں پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیل کا سفر نہ کریں۔امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ مسلح تصادم اور خانہ جنگی کی وجہ سے اسرائیل کے سفر پر نظر ثانی کریں۔بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پورے اسرائیل میں مظاہروں اور تشدد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور یروشلم سمیت غزہ کے اطراف اور جنوبی اور مرکزی اسرائیل میں راکٹس گرتے رہے ہیں۔دوسری جانب برٹش ائیرویز، ورجن اور لفتھانسا سمیت کئی بین الاقوامی ائیر لائنز نے اسرائیل کے لیے اپنی پروازیں بھی منسوخ کر دیں ہیں۔امریکا نے کشیدہ صورت حال میں جمعہ کو بلائے جانے والے اجلاس کو ملتوی کروادیا تھا ،مبصرین کاکہنا ہے کہ یہ اسرائیل کی خواہش پر ہواہے اور اس کے بعداتوار کو اجلاس ہوا جس میں تمام اراکین نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں آبادیاتی اور علاقائی تبدیلیاں نہ کرے اور اور اپنی دشمنی کو فوری طور پر ختم کرے۔لیکن امریکا کی وجہ سے کوئی مشترکہ لائحہ عمل سامنے نہیں آسکا اس پر چین نے امریکا پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سلامتی کونسل کے کاندھے پر بین الاقوامی امن و سلامتی کے تحفظ کی بنیادی ذمہ داری عائد ہوتی ہے لیکن افسوس کہ، صرف ایک ملک کی راہ میں حائل رکاوٹ کرنے کی وجہ سے کونسل ہم آواز ہو کر بات نہیں کرسکتی۔
اور اس سرپرستی کی وجہ سے اسرائیل کے وزیراعظم نے بمباری جاری رکھنے کا اعلان کیا اور وہ جاری ہیں۔اور اس کے بعد اقوام میں متحدہ کی جنرل اسمبلی کا ہنگامی اجلاس منعقد ہوا اس سے قبل پاکستان اور ترکی سفارتی سطح پر محترک بھی رہے۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں ہے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ غرور اور تکبر سے بھرے اسرائیل نے غزہ پر فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہیں، اسرائیل کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا جائے، مقبوضہ علاقوں کو خالی کروایا جائے،غزہ میں امدادی سامان کی ترسیل یقینی بنائی جائے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ غزہ میں بے گھر افراد کی تعداد 50 ہزارسے تجاوز کرگئی، غزہ میں پانی اور غذا کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ اسرائیلی جارحیت کا فوری خاتمہ عالمی برادری کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے، غزہ میں ہنگامی بنیادوں پر امدادی اشیاء بجھوانے کا انتظام کیا ہے۔اجلاس میں ترکی کے صدر نے اسرائیل مظالم کی تصاویر بھی لہرائیں اجلاس جاری ہے لیکن اس سے کوئی بڑی امید ماضی کی طرح عبث ہے۔امریکا اور مغرب اسرائیل کے سر پرست ہیں لوگ انفرادی طور پر کچھ اصول کی بات کرلیتے ہیں درحقیقت امریکا کو اسرائیل کی دہشت گردی پر تشویش نہیں ہے اسےحماس کے چند حملوں پر تشویش ہے کیونکہ امریکا اپنے ایک بیان میں کہہ چکا ہے کہ اسرائیل کو حماس کی جانب سے داغے جانے والے راکٹوں کے خلاف دفاع کرنے کا مکمل حق حاصل ہے”اس وقت حماس ہی واحد تنظیم ہے جو اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی علامت ہے اور فلسطینیوں کی اکثریت اس اصولی موقف کے ساتھ کہ فلسطین میں یہودیوں کی آبادی کاری اور اسرائیلی ریاست کا قیام ناجائز ہیں، فلسطین پر صرف فلسطینیوں کا حق ہے اور اسرائیل کی ناجائز ریاست کو باقی رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے،اسلامی تحریک مزاحمت حماس کے بیرون ملک سیاسی امور کے انچارج خالد مشعل نے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی میں فلسطینی مزاحمتی قوتوں نے قابض صہیونی فوج کی ناقابل تسخیر ہونے کے دعوؤں کی قلعی کھول دی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صہیونی فوج بوکھلاہٹ میں غزہ میں شہری آبادی کو نشانہ بنا رہی ہے اور وہ فلسطینی مزاحمتی قوتوں کا مقابلہ کرنے میں بری ناکام ہوچکی ہے۔الاقصیٰ ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے خالد مشعل نے کہا کہ غزہ میں مزاحمت کی فتح القدس اور الاقصیٰ کی فتح اور نصرت ہے۔ دشمن اس وقت غزہ کے میدان میں شکست سے دوچار ہے اور کسی کو اس کی پرواہ کرنے کی ضرورت نہیں۔خالد مشعل نے کہا کہ فلسطینی مزاحمتی قوتوں نے سیف القدس معرکے میں صہیونی فوج کی ناقابل تسخیر ہونے کی شبیہ توڑ دی ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عالم اسلام کے حکمراں بھی مزاحمتی قوت کےساتھ کھڑے ہوتے لیکن مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ دنیا میں پونے دوارب مسلمان ہیں اور 57اسلامی ممالک مگر وہ فلسطینیوں اور مسلمانوں کے ساتھ حقیقی معنوں میں نہیں کھڑے اگر ان میں سے صرف نصف اسلامی ممالک بھی امریکا اور اسرائیل کے سامنے کھڑے ہوجائیں تو دنیا کی صور تحال مختلف ہوگی اور یہ اندر سے کمزورہیں کچھ ہی عرصہ میں مسلمانوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیں گے اور مذاکرات کی میز پر آکر تمام مسائل مسلمانوں کی شرائط کے مطابق حل کرنے پر مجبور ہوں گے۔لیکن اقبال یہ بات سمجھتے تھے کہ فلسطینی عوام کے حقوق غصب کرنے میں برطانیہ کے ساتھ ساتھ مجلس اقوامِ عالم اور عرب ملوکیت بھی برابر کی شریک ہے۔اسی لیے انہوں نے ایک شعر میں کہاتھا :
یہی شیخ حرم ہے جو چرا کے بیچ کھاتا ہے
گلیم بوذرؓ و دلق اویسؒ و چادر زہراؓ
آج بھی صورت حال یہی ہے اور یہ تاریخی غفلت اور امت سے غداری جاری ہے حالانکہ عرب سمیت مسلم حکمرانوں کے لیے بھی یہ بات سمجھنے کی ہے کہ اسرائیل صرف سرزمین فلسطین تک محدود نہیں رہے گا بلکہ یہ عظیم تر اسرائیل کا ایک گھناونا منصوبہ بنایا گیا ہے جس کی حدود میں سعودی عرب سمیت متعدد مسلم ممالک شامل ہیں .اس لیے ان کی بقا کے لیے بھی ضروری ہے کہ یہ فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہوکر اسرائیل کو آگے بڑھنے سے روکیں۔حالات کا تقاضا یہی ہے کہ مسلمان حکمران ہوش کے ناخن لے کر فلسطین اور امت مسلمہ کے ساتھ کھڑے ہوں ورنہ آنے والے وقت میں فلسطین کی آزادی تو نوشتہ دیوارہےلیکن ان کی حکمرانی کا مستقبل اچھا نہیں نظر آرہا ہے۔ اعلان ’’بالفور‘‘ کے نتیجے میں مغرب کی سازش کے تحت 1948ء میں بننے والی ناجائز ریاست ’’اسرائیل‘‘ کے قیام پر علامہ اقبالؔ نے کہا تھا کہ:
خاک فلسطیں پہ یہودی کا ہے اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا
لیکن اصل بات ا ور حل اقبال نےضرب کلیم میں شامل ایک نظم ’’فلسطینی عرب سے‘‘ میں بتادیا تھا کہ
زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ
میں جانتا ہوں وہ آتش تیرے وجود میں ہے
تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں
فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے
سُنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات
خودی کی پرورش و لذتِ نمود میں ہے
ممتاز فلسطینی ماہرقانون ڈاکٹر حنا عیسیٰ نے فلسطین کے بڑے شہروں کے لغوی اور اصطلاحی معانی پر روشنی ڈالی ہے ۔ذیل میں ان مفاہیم کی اردو میں وضاحت پیش ہے۔
القدس
القدس کا لغوی معنی پاکیزگی اور طہارت کے ہیں۔بیت المقدس کا مطلب ہے’’پاک گھر‘‘بیت المقدس کو یہ نام اس کے ہرقسم کے گناہوں اور برائیوں سے پاک مقام ہونے کی بدولت دیا گیا۔القدس کو’’قودش‘‘اور’’قودس‘‘بھی کہا جاتا ہے۔سامی زبانوں میں اس کا معنی صاف ستھرا، پاکیزہ اور بلند تر ہے۔
رام اللہ
’’رام اللہ‘‘دو الفاظ کا مرکب ہے۔ رام اور لفظ ’’اللہ‘‘(جل جلالہ) اہل عرب دونوں الفاظ کو ایک ہی نام کے لیے استعمال کرتے چلے آئے ہیں۔کنعانی زبان میں’’رام‘‘بلند وبالا مقام کے معنوں میں استعمال ہوتا رہا۔عربوں نے اس کے ساتھ’’اللہ‘‘کا لفظ شامل کیا۔صلیبی بھی’’رام اللہ‘‘ہی کہتے تھے۔تاریخی مصادر وماخذ کے مطابق سولہویں صدی عیسوی کے اواخر اور سترہویں صدی کے اوائل میں ایک عرب قبیلے نے یہاں سکونت اختیارکی ۔اس وقت یہ ایک چھوٹی سی بستی تھی۔انہوں نے بھی اس کا نام رام اللہ ہی رکھا۔
البیرہ
یہ کنعانی زبان کا اسم مشتق ہے۔کنعانی میں ’’بیئرون‘‘کو عربی میں ’’ابار‘‘اور اردو میں کنواں کہا جاتا ہے۔موجودہ رام اللہ سے چند کلو میٹرکی مسافت پرواقع یہ شہر چشموں اور آبشاروں کی وجہ سے’’البیرہ‘‘مشہور ہوا۔چشمہ القصعہ ، چشمہ ام الشرایط، چشمہ جنان اور چشمہ الملک اس کے مشہور چشمے ہیں۔رامی زبان میں اس کا نام ’’بیرتا‘‘بتایا جاتا ہے جس کا معنی’’قلعہ‘‘ یا’’ فصیل بند شہر‘‘ ہے۔
الخلیل
کنعانی العناقیین قبیلے کی نسبت سے اس شہرکو’’اربع‘‘کے نام سے جانتے تھے۔بعد میں اس کا نام’’حبرون‘‘اور’’حبری‘‘بھی مشہور رہا۔جبل الراس میں بیت ابراہیم سے متصل ہونے کی بنا پر اسے الخلیل، خلیل الرحمان النبی ابراہیم علیہ السلام کا نام دیا گیا۔سنہ 1099 میں صلیبی اسے ابراہام کے نام سے پکارتے تھے۔صلیبیوں کے بعد یہ شہر الخلیل کے نام سے جانا جانے لگا۔الخلیل شہر کی نسبت حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی طرف منسوب کی جاتی ہے۔
جنین
تورات میں جنین کا لفظ پانی، سبزے اور وجیہ چہرے کے لیے استعمال ہوا ہے۔
طولکرم
طولکرم کا پرانا نام ’’بیرا زورقا‘‘ہے۔بیرات اور البیرہ پانی کے چشمہ کے لیے مستعمل ہے۔ جب کہ’’ البئر سورق‘‘ کا معنی’’چنیدہ یا پسندیدہ‘‘ ہے۔ موجودہ نام میں طول اور کرم دو الگ الگ الفاظ ہیں۔طول کا مطلب چشموں کا مقام ہے۔فرنگیوں نے اسے’’الطور‘‘کا نام بھی دیا۔بعد ازاں طور کو طول میں تبدیل کردیاگیا۔
بیت لحم
عبرانی میں اس کا نام’’ایلولاھاما‘‘ہے جس کے معنی خدا کے گھر کے ہیں۔ارامی زبان میں لحم کو ’’لاخاما‘‘کہا جاتا ہے جس کا معنی روٹی کے گھر کے ہیں۔معروف معنوں میں یہ نام اس کی زرخیزی کی وجہ سے دیا گیا۔
نابلس
نابلس حضرت سلیمان علیہ السلام کے ھد ھد کی نسبت سے شہرت رکھتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ ھد ھد حضرت سلیمان کے پاس مختلف قوموں کی خبریں لایا کرتا تھا۔ایک دفعہ پریشانی کے عالم میں ھد ھد حضرت سلیمان کے پاس پہنچا۔انہوں نے ھد ھد سے پوچھا کیا خبر لائے ہو؟ اس نے کہا کہ’’کنعان‘‘قوم کے ایک شہر(نابلس)کے لوگوں پر اللہ کے عذاب کی خبر لایا ہوں۔اللہ نے ان پر’’لس‘‘نامی ایک اژدھا مسلط کیا ہے۔اس زہریلے سانپ نے شہر کے پانی کے بڑے کنوئیں میں اپنے’’ناب‘‘یعنی منہ سے زہر ڈال دیا۔لوگوں نے وہ زہریلا پانی پیا اور سب مرگئے۔یوں ’’ناب‘‘اور’’لس‘‘کو ملا کر’’نابلس‘‘کردیا گیا۔
قلقیلیہ
قلقیلیہ ’’جلجلا‘‘کی موجودہ شکل ہے۔کنعانی لغت میں ’’جلجل‘‘دریائوں اور سمندروں کے کناروں پر پڑے گول بھاری پتھروں کے لیے استعمال ہوتا تھا۔فلسطین کے مغربی ساحلی علاقوں کی پہاڑیوں اور بلندو بالا چوٹیوں کے لیے استعمال ہونے لگا۔بعد میں’’جیم‘‘کا حرف بول چال میں آسانی کے لیے’’ق‘‘میں تبدیل کردیا گیا۔یوں’’جلجالیا‘‘،’’قلقالیا‘‘میں تبدیل ہوا اور آج اسے’’قلقیلیہ‘‘ کہا جاتا ہے۔
بعض مورخین کا کہنا ہے کہ قلقیلیہ کا منبع قدیم یونانی زبان ہے۔رومن عہد میں یہاں کے لوگ اس شہر کو کتاب والے ’’کاف‘‘سے ’’کلکیلیا‘‘کہا کرتے تھے۔
طوباس
طوباس کا پرانا کنعانی نام’’تاباص‘‘تھا رومن عہد میں اسے ’’ثیبس‘‘کہا جاتا تھا۔اسلامی خلافت کے زیرنگیں آنے کے بعد اسے’’طوباس‘‘کہا جانے لگا۔
سلفیت
سلفیت دو الفاظ’’سل‘‘اور’’فیت‘‘کا مرکب ہے۔موجودہ عربی لغت میں ’’سل‘‘لکڑی کے بنے ایک بڑے تھال کے لیے استعمال ہوتا ہے۔حیران کن امر یہ ہے کہ انگریزی میں بھی ’’سل‘‘سے ملتا جلتا لفظ ’’وسل‘‘اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے۔’’فیت‘‘کا معنی انگورہے۔ یوں دونوں کو ملا کراس کا معنی’’انگور کا تھال‘‘بنتا ہے۔یہ سلفیت کے انگوروں کے باغات کی طرف اشارہ ہے۔
المجدل
رامی زبان میں یہ برج کے معنوں میں استعمال ہوتا رہا ہے۔کنعانی دور میں اسے مجدل اور جاد کے ناموں سے بھی جانا جاتا تھا۔کنعانی لغت میں ’’خدا‘‘کے معنی میں استعمال ہوا۔
بیسان
بیسان کنعانی کے’’بیت شان‘‘کی نئی شکل ہے اس کا مطلب اللہ کا گھر قرار دیاجاتا ہے۔
عکا
فلسطین کے موجودہ شہر’’عکا‘‘کے ماضی میں مختلف نام رکھے جاتے رہے ہیں۔کنعانی دور میں اسے ’’عکو‘‘کہا جاتا تھا۔کنعانی لغت میں عکو گرم ریت کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا۔مصریوں نے اسے’’عکا‘‘اور’’عک‘‘کے نام دیے۔ عبرانی بھی اسے ’’عکا‘‘ہی کہتے رہے۔لاطینی اور یونانی میں اسے’’عکی‘‘کہا جاتا تھا۔
حیفا
حیفا شہر کا منبع ’’حفا‘‘بتایا جاتا ہے جس کا معنی ساحل سمندر ہے۔معروف عرب ادیب اور ماہر لسانیات یاقوت عبداللہ نے معجم البلدان میں حیفا کا منبع’’الحیف‘‘بیان کیا ہے جس کا معنی ظلم وجور کے بیان کیا جاتا ہے۔
یافا
کنعانی میں یافا خوبصورت قدرنی مناظر کے لیے استعمال ہوتا تھا۔
الناصرہ
الناصرہ شہر کے بارے میں بھی مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔بعض ماہرین کا خیال ہے کہ یہ نام ظہور مسیح علیہ السلام سے قبل مشہور ہوا جس کا معنی’’غاروں کی ماں‘‘بتایا جاتا تھا۔ایک دوسرا خیال یہ ہے کہ الناصرہ النبی سعین کے اس پہاڑ کے لیے استعمال ہوتا تھا ،جس پروہ ایک محافظ کے طوپر کھڑے رہے۔
تاریخ الناصرہ کے مصنف اسعد منصور نے دوسری رائے کو ترجیح دی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ الناصرہ عربی کے الناصر کی مونث شکل ہے جس کا معنی بلندی کی طرف مائل مقام ہے۔مغربی محققین کے مطابق اس کا معنی’’خوف زدہ‘‘کرنے اور انذار کرنے والا کے ہے۔