’’گروپ اَپ پبلک اسکول‘‘ میں آج ٹیچر اور والدین کی میٹنگ ہے۔ متعلقہ کلاس رومز کے باہر کورونا کے باعث فاصلے سے دیوار کے ساتھ والدین کے لیے ترتیب سے کرسیاں رکھی ہوئی تھیں۔ تمام مائیں ایک ایک کرکے اپنی باری پر کلاس ٹیچر سے بات چیت کرنے اندر چلی جاتیں۔ ثنا بہت دیر سے پہلو بدل رہی تھی۔ وہ اپنی دس سالہ بیٹی کنزہ جو کہ پانچویں کلاس میں پڑھتی تھی‘ کے لیے بات کرنے کا انتظار کر رہی تھی۔
’’نہ جانے یہ صاحبہ کتنی دیر تک بات کریں گی۔ ویسے ہی دیر ہو رہی ہے۔ واپس گھر جا کر روزے کی تیاری کرنی ہے۔‘‘ ثنا نے غصے سے سوچا۔ اتنے میں کسی بچے کی امی مسکراتے چہرے سے والہانہ باہر نکلیں۔
’’لگتا ہے بڑی ہونہار بچی ہے ان کی۔ بڑی خوش نظر آرہی ہیں اسی لیے اتنی دیر بھی لگا دی۔‘‘ ثنا پیچ و تاب کھاتے ہوئے کرسی سے اٹھی اور کلاس روم میں داخل ہوگئی۔ مس تو لگتا تھا بھری بیٹھی تھیں۔
’’بے حد باتونی ہے۔ کلاس میں کبھی کام مکمل نہیں کرتی۔ ہوم ورک تو ہوتا نہیں ہے‘ پھر اس پر لڑائی جھگڑے میں اتنی تیز کہ ہم پریشان ہوجاتے ہیں۔‘‘ سب شکایتیں سن کر ثنا نے اپنے طور پر ٹیچر کو مطمئن کرنے کی کوشش کی اور کلاس سے باہر نکل آئی۔ اس کا پارہ چڑھا ہوا تھا۔ ’نہ جانے کس قسم کی اولاد ہے‘آج تو اس کی خبر لیتی ہوں۔‘‘ ثنا غصے سے تلملاتے ہوئے اسکول سے باہر نکلی اور احمر پر برس پڑی۔
’’کبھی اولاد کی خبر بھی رکھاکریں‘ بیٹی صاحبہ کیا گُل کھلا رہی ہیں۔‘‘
’’بیچ روڈ پر کھڑی لڑتی رہو گی یا گھر بھی چلو گی۔‘‘ جواباً احمر نے بھی ڈانٹ دیا۔
گھر کی طرف جاتے ہوئے چند جلے کٹے جملوں کے علاوہ دونوں میں کوئی بات نہ ہوئی۔ گھر پہنچتے ہی ثنا نے آئو دکھا نہ تائو اٹھا کر دو تھپڑ کنزہ کے منہ پر جڑ دیے۔
’’اتنی فیس اس لیے بھرتے ہیں کہ تم یہ حرکتیں کرو‘ آخر تم پڑھائی کیوں نہیں کرتیں۔‘‘ کنزہ اس اچانک افتاد پر بوکھلا کر جو رونا شروع ہوئی تو دادی کے پاس سویا ہوا ایک سالہ فہد اٹھ بیٹھا اور کنزہ کی آواز میں آواز ملا کر اس نے بھی رونا دھونا شروع کردیا۔ اس شور شرابے سے تنگ آکر احمر نے غضب ناک ہو کر جو ڈانٹ ڈپٹ شروع کی تو سب ہی خاموش ہو گئے۔ لیکن ماحول اس قدر بوجھل ہو چکا تھا کہ احمر غصے میں بغیر کوئی بات کیے کام پر روانہ ہوگیا اور ثنا افسوس کرتی رہ گئی۔ وہ احمر کو روک بھی نہ پائی۔ کچھ ثانیے تو یوں ہی کوفت اور ندامت میں کھڑی رہی پھر دل اور دماغ کی کیفیت کو سنبھالتے ہوئے اس نے پلٹ کر بچوں کو دیکھا تو کنزہ کمرے میں روتے روتے سو گئی تھی اور فہد کنزہ کے کھلونوں سے کھیلنے میں مصروف تھا۔ اسے یکلخت کنزہ سے اپنے رویے پر بہت افسوس ہوا۔ ’’بچی ہی تو ہی‘ آخر اسے میں نے توجہ سے پڑھایا ہی کب ہے؟ توجہ جو نہیں دے پا رہی۔ مسائل تو ہوں گے۔‘‘ اس نے پیار سے کنزہ کو چادر اوڑھاتے ہوئے سوچا۔ فہد کو کھانا کھلا کر جب نماز کی لیے کھڑی ہوئی تو ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔
’’کیوں احمر ہر وقت مجھے ڈانٹتے رہتے ہیں؟‘‘ اس نے کرب سے سوچا۔ دو چار دن کچھ امن سے گزرے اور پھر کوئی واقع ایسا ہو جاتا جس پر کوئی زوردار لڑائی پھر احمر اور ثنا کو دور کر دیتی گوکہ ان کی شادی کو گیارہ سال ہو چکے تھے لیکن بات بے بات بحث‘ الزام تراشی ماحول کو خراب اور تلخ بنا دیتی۔
احمر کو آفس میں صبح کے جھگڑے پر افسوس ہو رہا تھا۔ جب ثنا نے فہد کی طبعیت کی خرابی کا ذکر کیا تو احمر پھٹ پڑا ’’کیوں بچہ بار بار بیمار ہو رہا ہے‘ خیال کیوں نہیں رکھتی ہو۔ میں فارغ ہوں بار بار ڈاکٹر کے چکر لگانے کے لیے؟‘‘ احمر پرسوچ نظروں سے اپنی فائل کی روق گردانی کررہا تھا۔ ذہن بری طرح الجھا ہوا تھا۔
’’کیوں پریشان ہو اس قدر؟ چہرہ کیوں اترا ہوا ہے؟‘‘ اچانک شاہد کی آمد اور سوالوں کی یلغار نے اسے چونکا دیا۔ پہلے تو احمر نے ٹالنا چاہا مگر شاہد کے اصرار پر اسے بتانا ہی پڑا۔
’’یار! میں روز روز کی پریشانیوں اور جھگڑوں سے تنگ آگیا ہوں۔ اب میری برداشت جواب دے رہی ہے۔‘‘
’’کس سے بھائی؟‘‘ شاہد نے سوال کیا۔
’’گھر میں…‘‘ احمر نے مختصر جواب دیا۔
’’گھر میں کس سے؟ وائف سے؟‘‘ شاہد نے سوال کیا۔ ’’اوہ وہی خانگی مسائل‘ ازدواجی جھگڑے‘… اُف اللہ۔‘ شاہد نے مزید کہا۔
’’یار اتنے سال ہو گئے ہیں تمہاری شادی کو‘ دو بچوں کے باپ ہو‘ اب تک ایک دوسرے کو نہیں سمجھے۔ اتنے عرصے سے ساتھ ہو تو ظاہر ہے نبھانے کا ارادہ ہے ناں۔ وہی گھر جو تمہارے لیے راحت کے ٹھکانے ہونے چاہئیں تھے مسائل کی آماج گاہ بنے ہوئے ہیں۔ میری مانو گے میرے بھائی! آج عصر کے لیے مسجد میں آدھے گھنٹے پہلے جائو۔ دو رکعت پڑھ کر سکون سے دعا مانگو اور اللہ سے مدد طلب کرو اور پھرگھر جانے لگو تو گھر کے لیے پھل وغیرہ کے ساتھ بھابھی کے لیے کوئی چھوٹا سا گفٹ لے لینا۔ چاہے وہ پھول ہی ہوں اور بچوں کے ساتھ اچھا وقت گزارو اور کل آفس آنے تک کوئی تلخ کلامی نہ کرنا… پھر کل ملیں گے۔‘‘
’’لیکن شاہد…!‘‘
’’لیکن کچھ نہیں‘ بس اب کل ہی بات ہوگی۔‘‘
احمرکے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ اس نے خود کو روبوٹ کی طرح شاہد کی بات پر عمل کرتے ہوئے پایا۔ بس مسجد میں بیٹھ کر اس نے دل سے دعائیں کیں۔ پھر پھول کی دکان سے گجرے لیتے ہوئے اسے خیال آیا کہ اس نے کتنے عرصے سے ثنا کے لیے کچھ نہیں لیا‘ چلو عید کے لیے تو ابھی خریداری کرنی ہے۔ گھر میں داخل ہو اس نے فہد کو گود میں اٹھا کر پیارکیا جو کہ داخل ہوتے ہی اس کی ٹانگوں سے لپٹ گیا تھا۔ تو اسے اندازہ ہوا کہ اس کا بخار کچھ کم ہوا ہے۔ اس نے قریب کھڑی ثنا کو پھل اور کاغذ میں لپٹے گجرے پکڑائے اور جا کر صوفے پر بیٹھ کر فہد سے کھیلنے لگا۔ کن اَنکھیوں سے اس نے ثنا کی طرف دیکھا۔ اس نے پھل میز پر رکھے اور کاغذ کا پیکٹ کھولتے ہوئے چونک کر احمر کی طرف دیکھا۔ احمر نے محسوس کیا کہ وہ آنکھوں گوشے ڈوپٹے سے خشک کر رہی ہے۔ وہ پھر فہد کی طرف متوجہ ہوگیا۔ ایک طمانیت کے احساس کے ساتھ شام سے رات اور رات سے صبح تک ثنا سے کوئی خاص بات چیت تو نہ ہوئی مگر تلخ کلامی بھی نہیں ہوئی۔ ماحول کچھ خوش گوار ہو چکا تھا اور بڑے دنوں بعد ثنا اور احمر بچوں کے ساتھ ہنس بول رہے تھے۔
آفس میں شاہد‘ احمر سے بولا ’’آج بہتر لگ رہے ہو احمر… کیوں صحیح کہہ رہا ہوں ناں۔‘‘
احمر مسکرا دیا۔
’’دیکھو احمر رویے انسانی زندگی کے اس اظہار کا نام ہے جس میں عموماً انسان کی شخصیت کا عکس ہوتا ہے۔ اس کا ’’اندر‘‘ نکل کر باہر آتا ہے۔ آپ کو اپنا اندر مطمئن اور پرسکون بنانا ہوگا۔ حالات خود بخودبہتر ہوتے جائیں گے۔ پھر آپ کا اللہ سے تعلق کیسا ہے‘ ہماری زندگی کیا‘ کائنات کا رب اللہ ہے۔ ہم کیوں مسائل اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں۔ بس ہم اپنی بہترین صلاحیتیں لگا دیں۔‘‘
شاہد سانس لینے کو رکا۔ ’’یقینا منفی سوچیں اور منفی رویے انسان کی سوچ اور عمل کو مفلوج کر دیتے ہیں۔ ہمیشہ مثبت سوچو اور حل نکالو۔ دیکھو تم روز آفس آتے ہو‘ سارا دن محنت کرتے ہو‘ بھابھی سارا دن گھر میں کام کاج کرتی ہیں۔ تو اس کا مطلب ہے دونوںگھر چلانا چاہتے ہیں۔ اگر یہی کام پیار و محبت اور ایک دوسرے کی قدر دانی سے کیا جائے تو دیکھا اللہ نے تو میاں بیوی کو ایک دوسرے کے لیے باعثِ سکون بنایا ہے۔ بیوی کے جذبات کا خیال رکھو‘ اس کی بات کو اہمیت دو‘ اسے عزت دو تو وہ خود ٹھیک ہو جائے گی۔
زندگی رحمت ہی رحمت ہوگی۔ تم دونوں کے لیے بھی اور بچوں کے لیے بھی۔ مسائل کا حل نکالو آپس میں ڈسکس کرکے۔ بچوں سے باتیں کرو‘ اُن کے ساتھ وقت گزرو اور ہاں بدگمان مت ہونا کبھی بھی۔ بدگمانی رشتوں کوکاٹ دیتی ہے۔‘‘ احمر نے دھیرے سے اپنا سر اثبات میں ہلایا اور دونوں مسکرا کر کھڑے ہو گئے۔
احمر نے پکا ارادہ کر لیا کہ اس عید کے لیے بیوی بچوں اور امی کے لیے کچھ چھوٹی موٹی خریداری کر لوںگا کورونا کے باعث زیادہ تو نہیں ہو سکتا پھر بھی کچھ تو ثنا کے لیے خاص لینا ہی چاہیے۔