ایک وقت تھا جب لوگوں کو عید کے چاند کا شدت سے انتظار ہوا کرتا تھا۔ بچے، بوڑھے اور جوان چھتوں پر جاتے اور بڑے ذوق و شوق سے عید کا چاند دیکھا کرتے تھے۔ چاند دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کرتے اور ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے۔ گھروں میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی۔ بچیاں اور خواتین نت نئے مہندی کے ڈیزائن ہاتھوں پر سجاتیں اور رنگی برنگی چوڑیوں سے کھنکھن کرتیں ایک سُر پیدا کرتیں۔
یہ چاند رات کا سماں تھا۔ گھر کے صحن میں کہیں گوٹا کناری لگ رہی ہوتی، تو کہیں کچن میں شیرخرما بنانے کا اہتمام چل رہا ہوتا، گھر کی بڑی عمر کی خاتون اپنی ایک آواز سے گھر بھر کوکنٹرول کر لیتی تھیں۔ عید کے دن کی دعوتوں کے اہتمام وانتظامات کی تیاریاں اپنے عروج پر پہنچ جاتی تھی۔ غرض وہ سماں اس قدر حسین ہوتا کہ سال بھر یاد رہتا تھا۔ ہاں، وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جب رمضان میں ہی ذوق و شوق سے دوستوں کے لیے عید کارڈ خریدے جاتے اور اس پر اپنی محبت بھری دوستی کا اظہار اشعار کی صورت میں کیا جاتا۔ اس عید کارڈ کو خریدنے سے لے کر دینے اور لینے کی خوشی کا اندازہ وہی کر سکتا ہے جو اس دور سے گزرا ہو۔
معلوم نہ تھا کہ بدلتے وقت کے ساتھ یہ ساری رونقیں ماند پڑ جائیں گی۔ بڑی بڑی بلڈنگوں کی اوٹ میں چاند چھپ جائے گا اور ہمیں ٹی وی، موبائل، انٹرنیٹ کے ذریعہ یہ نوید سننی پڑے گی کہ چاند نظر آگیا۔ عید کارڈ کی جگہ سوشل میڈیا پر مبارک باد کے پیغامات لے لیں گے۔ ہاتھ ملانے اور گلے ملنے کی رسم ایموجیز کے ذریعہ پورے ہونے لگے گی‘ مٹھائیوں اور سویوں کی تصاویر دل بہلائیں گے۔ مہندی اب بھی لگتی ہے، چوڑیاں اب بھی خریدی جاتی ہیں لیکن اب وہ پہلے جیسے رونق نظر آتی ہے اور نہ ہی وہ منظر۔
حقیقی خوشی تو جیسے غائب ہی ہو گئی ہو۔ عید کی حقیقی خوشی حاصل کرنی ہے تو سب سے پہلے تو سوشل میڈیا کا سوئچ آف کر دیں۔ اپنے شہر میں بسنے والے رشتے داروں کے یہاں خود جائیں، ان سے ملیں خواہ بغل گیر نہ ہوں۔ احتیا ط کے سارے تقاضوں کے ساتھ سلام کریں اور سلامتی لیں۔ دعائیں دیں اور دعائیں لیں۔ اس سے اندر کی کدورتیں، اجنبیت دور ہوں گی۔ اپنائیت پھر سے اپنا رنگ جمائے گی اور آپ کو اپنے پر ناز ہونے لگے گا۔ اپنے شہر سے باہر جہاں جانا مشکل ہے، انہیں فون کریں اور مبارک باد دیں اور لیں۔ عید جیسی خوشی کے موقع پر میسیجز بخل کی ایک شاخ معلوم ہوتے ہیں۔ اس سے بچیں، دور بیٹھا بھی پاس دکھائی دینے لگے گا۔ ٹی وی پروگراموں سے بھی دور رہیں، یہ آپ کو مصنوعی خوشی تو دے سکتے ہیں، لیکن حقیقت سے بہت دور کر دیں گے۔ غریب طبقے کا مان رکھیں، اللہ تعالیٰ حقیقی خوشی عطا فرمائیں گے ان شاء اللہ۔