’’ارے یہ دروازہ کیوں کھلا ہے؟‘‘ زبیدہ بیگم گرمی میں پسینے سے شرابور اندر داخل ہوتے ہوئے بولیں۔
صالحہ صحن میں تخت پر گم صم سی بیٹھی تھیں۔صالحہ‘ زبیدہ بیگم کی پہلوٹھی کی اولاد تھی‘ اس کے بعد انھیں اللہ نے دو بیٹوں سے نوازا تھا۔
زبیدہ بیگم کا تعلق متوسط طبقے سے تھا‘ شوہر مقامی اسکول میں استاد کے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔ گزر بسر اچھی ہو رہی تھی۔ بچوں کی تربیت نہایت عمدہ طریقے سے ہو ہی تھی۔ انھیں دنیاوی رنگینیوں سے بچایا‘ سادہ کھلایا‘ سادہ پہنایا اور اچھی تعلیم دلائی۔
صالحہ نے بی اے پاس کیا تو زبیدہ بیگم کو ان کے بیاہ کی فکر لاحق ہوئی بیٹی خوب صورت بھی تھی اور خوب سیرت بھی۔ سلیقہ شعاری اور سگھڑاپا ماں سے لیا تھا اور ذہانت باپ سے گویا گوہرِ نایاب تھی۔ مگر زبیدہ بیگم نے رشتے کا معیار بڑا گھر‘ گاڑی نہ رکھا تھا۔ اُن کا معیار تھا شرافت،صوم و صلوٰۃ کا پابند اور رزق حلال رفاقت حسین اس پر پورے اترے سو رشتہ قبول کر لیا گیا۔ زبیدہ بیگم کا ایمان تھا کہ رزق عورت کے نصیب سے ہوتا ہے ان کی بیٹی کے نصیب میں اچھا گھر اور گاڑی ہو گی تو اسے مل جائے گی۔ نکاح مسجد میں ہوا اور نہایت سادگی سے صالحہ رفاقت حسین کی رفاقت میں آگئیں۔ کیا انیس‘ بیس سالہ دوشیزہ کے خواب نہ ہوں گے کہ مہندی مایوں ہوتی، شہنائیاں گونجتیں۔ مگر ماں کی تربیت تھی کہ جب پیار سے بتایا کہ فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح سادگی سے ہوا تھا تو ہم تو ان کے قدموں کی خاک کے برابر بھی نہیں‘ اُن سے بڑھ کر کیسے کریں۔
بیٹی سعادت مند تھی رضامندی دے دی۔بہت صبر شکر کے ساتھ زندگی گزار رہی تھیں شادی کے سولہ سال گزر چکے تھے اللہ نے دو پیاری بیٹیوں اور ایک بیٹے سے نوازا تھا‘ سو خوش تھی اپنی چھوٹی سی جنت میں۔ سچ ہے کہ عورت چاہے تو چھوٹی سی کٹیا کو بھی جنت بنا لے اور نہ چاہے تو بڑے سے بڑا محل بھی اسے دوزخ لگتا ہے۔
آج اپنی اتنی صابر بیٹی کو یوں گم صم بیٹھے دیکھ کر زبیدہ بیگم کا ماتھا ٹھنکا۔ ’’کیا بات ہے صالحہ؟‘‘
امی کے سوال پر صالحہ نے مسکرا کر خود بھی سوال کر ڈالا ’’آپ بھائی کے ساتھ آئی ہیں؟‘‘
’’نہیں میں رکشہ سے آئی ہوں‘ تمہارے بھائیوں کے پاس وقت نہ تھا بے چارے رمضان میں بھی صبح صبح آفس کے لیے نکل جاتے ہیں۔ خیر چھوڑو یہ بتاؤ کہ پریشان کیوں ہو؟‘‘زبیدہ بیگم اصل مسئلے کی طرف آئیں۔
’’آپ کے آنے سے پہلے بڑی بھابھی آئی تھیں‘ کہہ رہی تھیں کہ اس عید پہ نیلم (بھائی کی بیٹی) کی بات طے ہو گی۔ بڑا فنکشن کریں گے‘ تم سب بھی آنا۔ میں نے تو بچوں کی شاپنگ بھی کر لی ہے ماریہ بی کی لیٹسٹ کلکشن سے۔‘‘ صالحہ نے آہستگی سے ساری بات گوش گزار کر دی۔
اب زبیدہ بیگم کو ساری بات سمجھ میں آگئی۔ ان کی بڑی بہو اگرچہ متوسط گھرانے سے ہی تعلق رکھتی تھیں مگر ان کی دکھاوے اور شو بازی کی عادت سے وہ بھی خائف رہتی تھیں۔ اپنے بچوں کی تربیت میں بھی انھوں نے یہی چیز پروان چڑھائی تھی۔ گو کہ ان کے بیٹوں کو اللہ نے بہت نوازا تھا‘ دونوں اچھے عہدوں پر تھے مگر زبیدہ بیگم اسے اللہ کی دین سمجھتی تھیں اور اپنے بچوں کو عاجزی کا درس دیتی تھیں۔
’’تو تم کیوں پریشان ہو؟‘‘ انھوں نے جانچتی نظروں سے بیٹی کو دیکھا۔
’’امی جان! آپ کو تو پتا ہے کہ بھائی کی تقریب میں ان کے بچے اور مہمان ایک سے بڑھ کر ایک لباس زیب تن کیے ہوتے ہیں‘ اونچے اونچے برانڈز کے جن کے مجھے نام بھی نہیں آتے۔ پہلے بچے چھوٹے تھے‘ اُنھیں اتنی سمجھ نہ تھی‘ مگر اب سارہ اور سدرہ بڑی ہو گئی ہیں‘ انھیں احساس کمتری ہونے لگتا ہے۔ اب اس عید پر تقریب ہے میرے پاس تو اتنی گنجائش نہیں کہ ان کو اتنے مہنگے لباس لے کر دوں۔‘‘ صالحہ کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔
’’ارے یہ تم نے کیسی بات کی صالحہ! میری تربیت کہاں رہ گئی بیٹا؟ تمہیں اللہ نے ہنر دیا ہے‘ اتنی اچھی سلائی جانتی ہو یہ برانڈز کے سلے کپڑے تو وہ خریدتے ہیں جنھیں خود سینا نہیں آتا پھر بھی کمی رہ جاتی ہے۔ ہر چیز اُن کی مرضی کی تو نہیں ہوتی ناں کہیں رنگوں کے امتزاج کا مسئلہ تو کہیں لمبائی چوڑائی کا… خود ڈیزائننگ کرکے نیا ڈیزائن تخلیق کرو‘ جو کسی نے بھی نہ پہنا ہوگا‘ برانڈ والے تو بہت سے ایک جیسے پہن لیتے ہیں۔ شاباش میری بچی یہی تو وقت ہے اپنا ہنر منوانے کا‘ بچیوں سے کہو انٹرنیٹ سے ڈیزائن ڈھونڈیں تھوڑے سے رد و بدل سے اپنا نیا ڈیزائن بنا لو‘ چاہو تو کپڑا بازار سے مناسب قیمت والا لو نہیں تو پہلے کے رکھے دو سلے ہوئے جوڑوں کو جوڑ توڑ کر کے ایک نیا لباس سی ڈالو۔‘‘ زبیدہ بیگم نے بیٹی کو بہترین انداز میں کار آمد مشورہ دیا۔
صالحہ کی تو جیسے مشکل ہی آسان ہو گئی پچھلے سال کے کچھ اچھے سوٹ رکھے تھے نکالے اور وہ اور بچیاں جت گئیں۔ پنک اور گرین سوٹ کاٹ کر خوب صورت کلیوں والی اے لائن شرٹ سلور پائپن کے ساتھ خوب مزا دے رہی تھی۔ کسی بھی طور ماریہ بی کلیکشن سے کم نہ لگ رہی تھی۔ یہ تو ہوا بڑی والی سارہ کا اور سدرہ کے دو سوٹ پرپل اور نیلے کے امتزاج سے نیا خوب صورت کوٹ اسٹائل تیار کیا۔
آج دعوت میں جب سب سج دھج کے پہنچے ہر طرف رنگ برنگے شوخ بھڑکیلے کپڑے زیب تن کیے لڑکیاں اٹھلاتی پھر رہی تھیں ہر کوئی سوچ رہا تھا کہ میرے جیسے کپڑے دوسرے کے نہیں ہوں گے‘ سب کزنز نے ایک دوسرے سے چھپا جو رکھے تھے۔ ہائیں مگر یہ کیا بڑی بہو کی نیلم اور چھوٹی بہو کی کشمالہ کے کپڑے بالکل ایک جیسے تھے اور تو اور بڑی بہو کی بھتیجی بھی وہی لباس پہنے خراماں خراماں تشریف لا رہی تھیں گویا ایسا لگ رہا تھا کہ سب نے یونیفارم پہن لیا ہو…خیر خجالت مٹانے کو کہہ دیا گیا کہ یہ ’’تھیم‘‘ ہے۔
کچھ دیر بعد صالحہ اور اس کی بچیاں نہایت پُر اعتماد طریقے سے لان میں داخل ہوئیں ان کے لباس دیکھ کر سب حیران رہ گئے کہ ماریہ بی کے یہ ڈیزائن انھیں کیوں نہ نظر آئے… اور صالحہ کی اتنی اوقات کیسے ہوئی سب سوچ میں پڑے تھے اور صالحہ نے مسکراتی نظروں سے اپنی شفیق ماں کا شکریہ ادا کیا۔کم خرچ بالانشیں عید کے لباس کے لیے اس کی محنت وصول ہوگئی تھی ۔