پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی کا اصل نام ذوالقرنین احمد ہے ‘وہ کراچی میں پیداہے۔ 1967ء میں شاداب احسانی نے پہلا مشاعرہ پڑھا۔ 1995ء میں شعبہ اردو جامعہ کراچی میں لیکچرار تعینات ہوئے‘ 2004ء میں پی ایچ ڈی کیا‘ 2011ء میں پروفیسر کے عہدے پر فائز ہوئے‘ 2013ء میں شعبہ اردو جامعہ کراچی کے صدر بنے اور 2017ء میں جامعہ کراچی سے ریٹائر ہوئے۔ اس وقت ششماہی مجلہ ’’اردو‘‘ انجمن ترقی اردو پاکستان‘ کراچی کے مدیر اعلیٰ ہونے کے علاوہ ادارۂ یادگارِ غالب کراچی کے صدر بھی ہیں۔ اس تمہید کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ شاداب احسانی کا دوسرا شعری مجموعہ ’’غبارِ گریہ‘‘ اس وقت میرے زیر مطالعہ ہے۔ شاداب احسانی کا پہلا شعری مجموعہ ’’پس گرداب‘‘ 1987ء میں پہلی بار منظر عام پر آیا جب کہ 2008ء میں اس کتاب کادوسرا ایڈیشن شائع ہوا۔ ان کا دوسرا شعری مجموعہ ’’غبارِ گریہ‘‘ ڈاکٹر وزیر آغا کے نام ہے۔ شاداب احسانی ہمہ جہت شخصیت ہیں‘ وہ شاعر ‘ ادیب‘ محقق‘ نقاد‘ ماہر علم و عروض اور ماہر تعلیم ہیں۔ انہوں نے 2018ء میں ادارہ پاکستانی بیانیہ قائم کیا جس کے تحت بہت سے قابل ستائش پروگرام منعقد ہوئے۔ سید نصیرالدین نصیر گیلانی (درگاہ گولڑ شریف اسلام آباد) نے شاداب احسانی کے لیے لکھا ہے کہ ان کی دور بینی اور مشاہدات نے ہمارے لیے بہت سی راہیں کھول دی ہیں۔ انہوں نے جھوٹی انا کو اظہار کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ حقیقت بیانی سے کام لیا ہے‘ ان کی شاعری میں زندگی رواں دواں ہے‘ وہ ہمارے اردو ادب کا اجالا ہیں۔ ڈاکٹر وزیر نے لکھا تھا کہ شاداب احسانی کی غزلیں آنکھ میں ٹھہری ہوئی بارشیںہیں۔ ان کی شاعری اعلیٰ معیار کی غماز ہے‘ ان کے اشعار میں گہری فکر و سوچ نمایاں ہے۔ ڈاکٹر محمد عظیم اقبال (لاہور) نے کہا کہ قدیم و جدید غزل گو شعرا کے جم غفیر میں شاداب احسانی نے اپنی شناخت بنائی ہے‘ ان کا شعری سفر پچاس برسوں پر محیط ہے‘ وہ اب عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں بیشتر شعرا کے تخلیقی سوتے خشک ہوتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں اور وہ اپنی آواز کی بازگشت بن کر رہ جاتے ہیں تاہم شاداب احسانی اس عمر میں بھی تازہ دم ہیں‘ ان کے ہاں موضوعات کی رنگا رنگی اور تنوع کے باوصف مضامین نو نظر آتے ہیں۔ حسین محی الدین نے کہا کہ شاداب احسانی شاعری کو محض طاقت لسانی نہیں گردانتے بلکہ اسے اسرارِ خودی کا وسیلہ سمجھتے ہیں۔ سرِ امکان یقین کا دیا روشن کرنے والا یہ شاعر یک رخی شخصیت کا حامل نہیں بلکہ اس کی سوچ کے زاویوں میں تہ در تہ علم و حکمت کے خزینے نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر فہیم شناس کاظمی نے کہا کہ ڈاکٹر شاداب احسانی کے اس مجموعے غبار گریہ کا نام اپنی علامت و استعارے میں وسعت وگہرائی کا حامل ہے۔ شاداب احسانی کے فکر و خیال کا سفر جاری ہے۔ جذبوں کی صداقت‘ فکر کی وسعت اور غزل کا منفرد اسلوب شاداب کے یہاں قدم قدم پر موجود ہے۔ وہ ذاتی اور اجتماعی کیفیتوں‘ المناکیوں‘ داستانوں کے ورثے کے امانت دار ہیں‘ ان کی شاعری میں اثر انگیزی ہے۔ ڈاکٹر ذکیہ رانی کہتی ہیں کہ شاداب احسانی کے یہاں شعری تراکیب میں قدامت‘ جدت اور نئی معنونیت کا پیراہن دکھائی دیتا ہے‘ انہوں نے چراغ شب گزیدہ‘ چادرِ بادہ‘ ورق گل‘ اسبابِ افادہ‘ نویدِ مہر‘ نقیب مہر‘ بارشناسائی‘ چراغ آشنا‘ نشانِ منزل‘ دستِ دعات‘ تبخیر دل‘ نگاہِ شوق‘دامنِ خواہشات‘ عالم ہجر وغیرہ وغیرہ کی تراکیب اس طرح استعمال کی ہیں کہ ان تراکیب کی بدولت شعر کی فکری وسعت اور بلیغ اظہار قاری کو مسحور کر دیتا ہے۔ ڈاکٹر شاداب احسانی نے دس اکتوبر 2018ء کو کراچی پریس کلب میں پاکستانی بیانیہ پر زوردار پریس کانفرنس کی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہماری تنزلی کا سبب قومی بیانیے سے محرومی ہے اس محرومی کا سلسلہ ہندوستان میں لارڈ میکالے کے زمانے سے شروع ہوا تھا اور آج بھی ہم ذہنی طور پر آزاد نہیں ہیں۔ شاداب احسانی نے پاکستانی بیانیے کو اپنی شاعری میں بھی نمایاں کیا ہے‘ ان کی شاعری میں سادگی اور آسان لفظوں کی بنت ہے جس سے ابلاغ کے مسائل پیدا نہیں ہوتے۔ یہ بڑی کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس وقت کراچی میں علم وعروض کے جو اساتذہ موجود ہیں ان میں بھی شاداب احسانی ایک اہم شخصیت ہیں مجھے امید ہے کہ ان کا یہ شعری مجموعہ بھی اردو ادب میں اہم مقام پا جائے گا۔