شکوہِ شایاں کی علامت
9 نومبر کو ہماری دوسری منزل 1459 میں سلطان محمد فاتح کا تعمیر کردہ ’’توب تاپی محل‘‘ تھا، جو پچھتر لاکھ پینتیس ہزار مربع فٹ رقبے پر پھیلا ہوا اور بیسیوں کمروں، دربار ہال، بارہ دری اور کئی باغات اور قطعات پر مشتمل تھا۔ تقریباً تمام عثمانی سلاطین نے اسے اپنا مستقر بنایا اور یہیں ریاستی و سفارتی امور سرانجام دیے۔
قدیم استنبول کے اس علاقے میں ہم دوپہر کو پہنچے۔ قدیم شہر کی قدیم آبادی کے قدیم ماحول اور روایات کے حامل ہوٹل میں دوپہر کا کھانا کھایا، جہاں پہلی بار نان نما روٹی دیکھی، جسے ہم نے بصد شوق کھایا۔ چھوٹی، تنگ مگر پختہ اور صاف ستھری گلی یا سڑک کے کنارے کئی طعام گاہیں، دکانیں اور چھوٹے قدیم طرز کے شوروم موجود تھے۔ پہاڑی اونچائی پر گھومتی بل کھاتی اس گلی میں اصحاب ذوق کے لیے بالخصوص دستکاری، سلک اور سوویٹرز کا بڑا ذخیرہ موجود تھا۔ گزرتے ہوئے سلک کی ایک دکان پر شوکیس میں موجود خالص ریشم پر ہاتھ کی کڑھائی کی ٹوپیاں میرے دل میں اُتر گئیں۔ یہ واحد چیز تھی جو مجھے بطور یادگار اپنے لیے پسند آئی۔ ہوٹل میں کھانے سے فارغ ہو کر میں اکیلا اس دکان پر گیا، ٹوپی دیکھی، میں بالعموم ٹوپی استعمال نہیں کرتا، تاہم ترکی کی یادگار کے طور اسے لینے کا ارادہ کیا۔ خالص ریشم کی انتہائی ہلکی پھلکی ٹوپی کی قیمت ایک سو ڈالر مجھے زیادہ لگی، دکاندار بھی کم قیمت کے موڈ میں نہیں تھا اور قدرے خفا بھی کہ میری وجہ سے اسے دوپہر کے کھانے سے اُٹھنا پڑا تھا، لہٰذا ٹوپی کی زیارت ہی کی اور بے نیل و رام واپس آگیا۔
سلطان اہمت
یہ ترکی لفظ ہے، جس کی مجھے سمجھ نہ آئی تو مختلف ذرائع سے کھوج لگائی۔ معلوم ہوا کہ یہ لفظ ’’سلطان احمد‘‘ تھے۔ اور اس سے مراد معروف سلجھوتی حکمران ’’سلطان احمد سنجر‘‘ ہیں جن کا ذکر علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے ’’شکوہِ سنجر و فقر جنید و بسطانی‘‘ کے الفاظ کے ساتھ اس شعر میں بھی کیا۔
شوکتِ سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود
فقیر جنید و بایذید تیرا جمالِ بے نقاب
اسی ’’سلطان احمد‘‘ کے نام سے استنبول شہر کے 39 اضلاع میں سے ایک ضلع کا نام ’’سلطان اہمت‘‘ ہے۔ ترکی میں ’’د‘‘ کو ’’ت‘‘ سے لکھا جاتا ہے۔ احمد کو ’’اہمت‘‘ اور ’’محمد‘‘ کو ’’مہمت‘‘۔ سلطان احمد کے نام سے منسوب دنیا کی مشہور ’’نیلی مسجد‘‘ BLUE MOSQUE اسی علاقے میں ہے۔ ساحل سمندر پر واقع اس علاقے میں استنبول کے ماضی کی چھ سات یادگاریں دنیا بھر کے سیاحوں کی نگاہوں کا مرکز ہیں۔ ہماری مختصر زندگی کا یہ تاریخ ساز لمحہ تھا، جب ہم نے ’’نیلی مسجد‘‘ کی بیرونی دیواروں سے متصل قدیم شہر استنبول کے ایک قدیم ریسٹورنٹ میں ترکی کھانے کھائے۔ سچی بات ہے دوپہر کے اس کھانے کا لطف اس لیے نہ آیا کہ عظیم یادگاریں، توپ کاہی محل، نیلی مسجد، آیا صوفیہ، ہارس اسکوائر، اوبلسک (مصری مینار) ذہن میں سمائے ہوئے تھے۔ اور بچپن سے سنتے مشہور ’’مقدس تبرکات‘‘ جو توپ تاپی محل میں موجود تھے، نظریں اُن کے دیدار کی مشتاق تھیں۔ بلاشبہ ترکی کھانے اپنی لذت، تنوع اور ترکیب و اجزائے ترکیبی اور اس سے بڑھ کر پیشکش کے انداز کے سبب بہت مشہور اور سیاحوں کے نزدیک مرغوب و پسندیدہ ہیں، مگر ہم مانندِ شعر۔
اسی روز و شب میں اُلجھ کر نہ رہ جا
کہ ترے زاں و مکاں اور بھی ہیں
اس کھانے کی اب کوئی یاد باقی نہیں، سوائے روٹی نما نان، سعودی عرب کے معروف ’’لَبَن‘‘ یعنی ’’لَسّی‘‘ لسی کی بوتل، ملتان کے ڈاکٹر سلطان کی خرابی طبیعت اور پھر ہوٹل کے دروازے پر ایک تصویر کے جس کی قیمت ایک لیرا مقرر تھی اور ریشمی ترکی کڑھائی کی ناقابل دسترس ٹوپی کی حسرت کے۔
ہماری آئندہ تمام منازلِ سیاحت اسی علاقے میں ایک دوسرے سے متصل اور آمنے سامنے تھیں۔ کھانے میں خاصا وقت ضائع کرنے کے بعد اپنے قدموں پر ’’منازل مقصود‘‘ کی جانب بڑھے، تو پہلا منظر ’’ہارس اسکوائر‘‘ تھا۔ ایک وسیع خوبصورت اور دلکش عمارتوں اور پختہ فرش سے آراستہ علاقہ، یہاں رومن اور بازنطینی حکمران اپنے جنگی اور سفری گھوڑوں کو ورزش کراتے، ان کے درمیان دوڑیں کراتے اور انہیں سفر اور جنگ کے لیے تیار رکھتے۔
اسی احاطے میں ایک ہیکل نما ستون تھا۔ جسے ’’مصری اوبلیسک‘‘ ’’OBELISK‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس پر مصری امراہوں کی طرز، رنگ اور انداز کی تصویریں کندہ ہیں اور اس کی بنیاد میں جو زمین کے اوپر ہے گرے کلر کے بڑے پتھر پر عبارتیں اور تصویریں ہیں۔ اس ستون کی اونچائی 32 میٹر ہے جو چوتھی صدی عیسویں میں رومی بادشاہ قسطنطین نے مصر سے لا کر یہاں نصب کیا۔ یہ خوبصورت مینار بڑی مہارت سے زمانے کی دست برو سے محفوظ اس طرح رکھا گیا ہے کہ لگتا ہے ایسے حال ہی میں تعمیر کیا گیا ہے۔
گھومتے گھامتے اور نظریں دوڑاتے آگے بڑھے تو ’’توپ تاپی محل‘‘ ہماری نظروں کے سامنے تھا اور یہی ہماری آج کی تیسری منزل۔
توپ تاپی محل
ترکی کا سب سے قدیم، بڑا اور شاندار محل۔ عثمانی سلاطین کا ریاستی امور اور رہائشی ضروریات کا کفیل یہ عظیم الشان محل 75 لاکھ 35 ہزار مربع فٹ، چار مرکزی احاطوں، سیکڑوں چھوٹے بڑے کمروں اور عمارات پر مشتمل ہے۔ بارہ دری، باغات صدیوں پرانے سربفلک درخت، کئی دروازے، قدرتی حسن، سمندر کا کنارہ، ایسے حسین مناظر ہیں کہ زائر دَم بخود ہو کر رہ جاتا ہے۔ چار ہزار افراد کی گنجائش والے اس محل کا ایک خاص حصہ اس کا مہمان خانہ اور مطبخ ہے جہاں آٹھ سو افراد کا عملہ چار ہزار افراد کے کھانوں کا اہتمام کرتا، اشیائے خوردونوش کے گودام، مخصوص راستے، مہمانوں کی آمد کے دروازے اور بہترین شاہی ظروف/ برتنوں کا ذخیرہ آج بھی سیاحوں کے لیے کشش اور عثمانیوں کی شان و شوکت کے مظہر کے طور پر موجود ہیں۔
اس عظیم الشان محل کی تعمیر کا آغاز سلطان محمد فاتح کے حکم پر 1459 میں ہوا۔ اور کئی برسوں کی فنی مہارتوں کے نتیجے میں مکمل ہوا۔ یہاں کے دیوانِ خاص میں امراء، امیان سلطنت، سفرائِ کرام اور سرکاری عمال پیش ہوتے۔ بادشاہ سے شرفِ ملاقات پاتے اور مختلف سرکاری امور پر فیصلے صادر کیے جاتے۔ سلطان کا وزیراعظم اپنے دن کا آغاز محل کے قریب ’’ٓآیا صوفیہ‘‘ کی مسجد میں نماز فجر کی ادائیگی سے کرکے سلطانِ معظم کی خدمت میں حاضری و سلام سے کرتا۔ بعدازاں اسی محل کے دیوانِ عام میں امورِ سلطنت سرانجام دیتا۔ بادشاہ اپنے کمرئہ خاص کی ایک جالی سے اس ساری کارروائی کا معائنہ کرتا رہتا، اور حسب ضرورت وہیں سے مداخلت کرکے احکام جاری کرتا۔ اس عظیم الشان محل کو 1924 میں ترکی کے عظیم الشان میوزیم کا درجہ دے دیا گیا۔
عثمانی میوزیم
تو یہ تاپی محل، میں آج بھی عثمانی حکمرانوں کا دبدبہ، جاہ و جلال، شان و شوکت کو محسوس کیا جاسکتا ہے بلکہ کھلی آنکھوں اور عروج و سطوتِ مسلماناں کی بصیرت سے مالا مال اور فخر کے جذبوں سے سرشار لوگوں کو چھ سو سال قدیم زریں عہد اسلامی کا ہر منظر بڑی صراحت و وضاحت سے دکھائی دے گا۔ یہاں آج بھی خوبصورت گھوڑوں پر وجیہہ و شکیل ترکوں کے چکر لگاتے دستے، عہد سلاطین ترک کا منظر دکھاتے ہیں۔
اس شکوہ خیرہ نظر کا ایک عظیم الشان منظر عثمانیوں کی شاہانہ باقیات کے ذخیروں پر مشتمل عثمانی میوزیم ہے۔ جہاں چھ صدیوں کے حکمرانوں کے ملبوسات، ہتھیار، فن پارے، زیورات، خطاطی کے نمونے، دیگر فن پارے زائر کو چھ سو سال کے عہد شکوہ میں لے جاتے ہیں۔ کئی منزلہ یہ میوزیم اس محل کا ایک خاص مرکز ہے۔
تبرکاتِ مقدسہ
ہماری آنکھیں مسلسل اس ’’نور‘‘ کی تلاش میں تھیں۔ جس کے لیے ہماری آنکھیں ہوش کے لیے کھلنے کے بعد سے بے قرار تھیں۔ دل ان کے دیدار کے انتظار میں تڑپتے اور دھڑکتے تھے۔ لہٰذا بلا بالغہ ہم بادشاہوں کی خواب گاہوں، سونے کے برتن، سونے کے پانی کے نل اور ٹونٹیاں، عمارات کی دلکش زخرف کاری، خوبصورت سنہری دروازوں اور اُن پر روشن مرقع عبارتوں اور خطاطی کے یکتائے روزگار فن پاروں کو سرسری انداز میں دیکھتے، بلکہ نظر انداز کرتے ہوئے اپنی ’’منزل مراد‘‘ کی طرف کشاں کشاں بڑھتے چلے گئے۔ اس عظیم الشان محل کے خوبصورت ترین مناظر میں یہ آخری منظر تھا جو ہماری آنکھوں نے اپنے اندر سمویا۔ حضور عالی مقام صلی اللہ علیہ وسلم، اُن کے اصحاب پاک، انبیائے سابقہ اور کعبہ مشرفہ کی کچھ متبرک اشیاء۔ افسوس کہ ان سب چیزوں کی نسبت تو ان عالی مقام ہستیوں کی جانب تھی مگر ہمارے گائیڈ مسٹر والکن کے مطابق یہ شائد اصلی نہ تھیں، انہیں کسی اندیشے اور خدشے کے تحت کسی محفوظ جگہ منتقل کردیا گیا تھا۔ یہ جان کر بھی دل کی بے قراری کو قرار تب ہی آیا، جب انہیں گناہ گار آنکھوں سے دیکھ اور ہاتھ کے اشاروں سے چوم نہ لیا۔ شائد ہم جیسے کمزور ایمان و عقیدت و محبت والے نقلی مسلمانوں کا یہی اور اتنا ہی استحقاق تھا، اگرنہ ہماری آنکھوں اور دل میں اتنا دم کہاں اور حوصلہ کہ اصل متبرکات کی زیارت کے متحمل ہوسکتے۔ بالکل ویسے ہی جیسا موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کوہ طور پر ہوا، جو خدا کے جلیل القدر پیغمبر اور اپوالغرم نبی ہونے کے باوجود تجلی رب کے متحمل نہ ہوسکے۔ ہم گناہ گاروں کی نہ ایسی قسمت، نہ نسبت، نہ ہمت کہ آقائے عرب و عجم، سید کائنات اور ان کے اصحاب پاک کی نسبتوں کا جلوہ و دیدار سہہ سکتے۔
ادب، خاموشی اور دھڑکتے دلوں کے ساتھ مختلف کمروں میں سجائے گئے ان تبرکات کی زیارت حاصل زندگی قرار پایا۔ آنحضور علیہ السلام کی بعثت سے پہلے کی کچھ اشیاء، یوسفؑ کا عمامہ، یحییٰ علیہ السلام کا بازو، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عمامہ، تلوار، داڑھی مبارک کا بال، جبہ مبارک، تیرکمان، مہر، قدم مبارک کے نشان، خلفائے راشدین اور صحابہ کرام رضوان الاعلیہم اجمعین کی تلواریں، رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا پانی پینے کا پیالہ، سیدنا امام حسین اور سیدہ فاطمہ الزہراہ علیہما السلام کے کرتے، قیمتی تصاویر، نادر خطاطی اور پینٹنگ کے علاوہ میراب رحمت اور در کعبہ کے ٹکڑے۔
ان سب تبرکات سے آنکھیں منور کرنے کے دوران ہمیں اُس نسخہ قرآن کی جستجو رہی جو سیدنا عثمانؓ کی شہادت کے وقت اُن کے زیر تلاوت تھا، اور اس پر اُن کے مقدس لہو کے نشانات بھی موجود تھے، مگر افسوس کہ نہ اصل، نہ نقل یہ شہ پارہ نظر نواز ہوسکا، البتہ آٹھویں صدی ہجری کا ایک قدیم ترین نسخہ قرآن یہاں ضرور موجود پایا۔
محل میں دو تین ایسے چھوٹے قطعات بھی موجود تھے، جنہیں باڑیں لگا کر محفوظ کیا گیا تھا، اور وہ عثمانی عہد سے تاحال اپنی اصل حالت میں موجود ہیں۔ غالباً ایک جگہ جہاں لشکر کے لیے روشنی یا نقارے کا اہتمام ہوتا، اور دوسرا راہ گزر میں پندرہ بیس مربع فٹ کا اصلی فرش۔ مگر یہ سب تفصیل ہم نہ سن سکے، نہ جان سکے، نہ ذہن میں سمو سکے کہ اس میں ’’تبرکاتِ مقدسہ‘‘ کی کشش کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور وہی ہماری اس عظیم الشان اور وسیع و عریض محل میں ہدفِ نگاہ تھیں۔ اس محل، علاقے اور ماحول کو ان کی نسبتوں کے حوالے سے عثمانیوں اور ان سے پہلے بازنطینی حکمرانوں کا ’’دل‘‘ کہا جاتا ہے۔ بلاشبہ یہ مقام ’’دلِ‘‘ کی ’’جلاء‘‘ کا مرکز بھی ہے۔ اور ’’دل‘‘ کی ’’فناء‘‘ کا مقام بھی۔ اب ہر کسی کی ہمت کہ وہ دل کو جلاء بخشے اسے فناء کر ڈالے یا دل جلا کر راکھ کرلے۔
ترکی کی ایک یاد۔ چار ٹوپیاں
ترکی کی بہت سی یادوں اور حسرتوں میں جہاں ’’شاطی عرفہ‘‘ کا شہر ہے جو استنبول سے تیرہ سو کلو میٹر کی مسافت پر ایک انتہائی خوبصورت اور قدیم ترین تاریخی شہر ہے، اور اس مقام کی وجہ سے زیادہ اہم اور محل نظر ہے، جہاں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو بادشاہِ وقت نے آگ میں ڈالا تھا، اور اللہ کے حکم سے یہ آگ۔ ’’یانارُکونی بردا و سلاماً‘‘۔ کے تحت گل و گلزار بن گئی تھی۔ اس سفر کے لیے بلاشبہ کم از کم تین چار دن مزید درکار تھے جو ایک ہفتے کے مسافروں کے پاس نہ تھے۔ اس کے علاوہ کئی دیگر مقامات ’’دید‘‘ کے قابل تھے، مگر ہم نے ’’شنید‘‘ پر ہی اکتفا کیا۔ البتہ ترکی کی چار ٹوپیاں ہماری رودادِ سفر کا حصہ قرار پائیں۔
پہلی صوفی یا رومی ٹوپی تونیہ کی تھی جسے مولانا رومؒ کے مرید اور متوسلین پہنتے تھے، گرم اُون یعنی ’’صوف‘‘ (عرب کا لفظ، اونٹ یا دیگر جانوروں کے سخت بال) بھورے رنگ کی اُون کی بنی ہوئی ایک فٹ سے زیادہ اُونچی مخصوص مواقع بالخصوص ’’رومی رقص‘‘ کے دوران پہنی جانے والی۔ یہ ٹوپی نہ خریدی جاسکتی تھی، نہ استعمال کی جاسکتی تھی، اور نہ ہی برائے فروخت موجود تھیں۔ ایک دو جگہ غالباً زیارت کے لیے لٹکی ہوئی۔ میں نے اس میں تصویر بنوانے پر ہی اکتفاء کیا۔ تصویر دیکھ کر لاہور سے زوالوجسٹ ڈاکٹر سعادت علی، جو خود ایک اچھے صاحب دیوان شاعر ہیں اور اسلامی علوم کے دلدادہ بھی، نے فرمائش کی کہ میرے لیے یہ ٹوپی لیتے آئیں مگر جب تک ہمیں پیغام پہنچا ہم ترکی کے کئی ’’پلوں‘‘ کے نیچے سے گزر چکے تھے۔
(جاری ہے)
دوسری ٹوپی ’’ارطغرل غازی‘‘ کے مزار سوگوت میں تھی، جو کائی قبیلہ کا مخصوص شعار اور چرمی فوجی لباس کا حصہ تھا۔ یہ ٹوپی برائون اور بلیک کلرز اور محراب نما شکل میں، کئی اسٹائل و اضافوں کے ساتھ، کئی اقسام کی برائے فروخت موجود تھی، یہ ٹوپی شدید سردی اور برفباری میں ہی پہنی جاسکتی تھی۔ شوق کے سامنے مول کا بھی مسئلہ نہ تھا قیمت مناسب تھی، مگر ہمارے ماحول میں شاید یہ استعمال نہ کی جاسکتی تھی۔ معروف اینکر پرسن اقرار الحسن سمیت کئی لوگوں نے اسے خریدا، تصاویر بنوائیں۔ میں نے گاڑی میں بیٹھ کر دوران وہاڑی کے نوجوان عرفان سے اُدھار لے کر تصویر بنوا کر خود کو ’’ترک غازی‘‘ سمجھا۔
تیسری ٹوپی تو وہی تھی۔ خالص ریشم پر ہاتھ کی کڑھائی کی، جو ’’نیلی مسجد‘‘ کے پاس قدیم استنبول کے چھ یادگاروں والے احاطے یا علاقے میں داخل ہوتے وقت میں نے دیکھی اور اپنے اندازے سے بڑھ کر قیمت کے باعث خرید نہ سکا۔ یہ بھی اس قابل تھی کہ تصویر بنوائی جاتی، مگر اس کی قیمت کے رُسب اور دکاندار کی خفگی کے پیش نظر اس کی جرأت نہ ہوسکی۔
چوتھی روایتی سرخ ترکی ٹوپی، جسے خلافتِ عثمانیہ کے امراء و سلاطین بالخصوص سلطان عبدالحمید نے اپنی پہچان بنایا۔ یہ سرخ ترکی ٹوپی، کالے پھندنے والی، قریباً پچاس سال پہلے برصغیر پاک و ہند میں عثمانیوں اور خلافت سے محبت کرنے والے پاکستانیوں اور ہندوستانی علماء و شرفاء میں اس ٹوپی کا استعمال بہت عام تھا۔ نواب آف بہاولپور، سرسید احمد خان، علی برادران، محمد علی جوہر و شوکت علی، نواب سلیم الملک اور خود جناب علامہ اقبالؒ اس ٹوپی کے چلتے پھرتے شاہ کار تھے۔ میں نے اپنے بچپن میں اپنے نانا مرحوم حکیم محمد اجمل کے شاگرد اور طبیہ کالج لاہور کے استاد، مصنف طبی کتب، طویل قدوقامت، رعب دار آواز اور سرخ و سفید چہرے کے ساتھ تو مکمل مردانہ وجاہت کے حامل حکیم قاضی عظیم اللہ۔ گوجرانوالہ والے کو یہ ٹوپی استعمال کرتے دیکھا۔
اس سرخ ٹوپی کا نقش دل و دماغ پر اتنا گہرا تھا جیسے عربی کے اس محاورے کا مصداق کہ ’’العلم فی العغر کالنقش فی الحجر‘‘۔ چھوٹی عمر کا علم (اور مشاہدہ و مطالعہ اور یاد) پتھر پر (پختہ اور نہ مٹنے والے) نقش کی مانند ہے۔ تاریخ اسلام اور تاریخ پاکستان کے ذہن و قلب پر پختہ نقوش کو مرے نانا کی یاد اور سراپے نے کبھی محفوظ نہ ہونے دیا۔ استنبول ایئرپورٹ پر اترنے سے پہلے میرا یقین کی حد تک گمان تھا کہ بے شمار ترک یہ ٹوپی پہنے اور پھندنے لہراتے ملیں گے۔ مگر نہ انطالیہ، نہ سوگوت، نہ تونیہ، نہ بورصا اور نہ استنبول میں۔ کہیں بھی یہ آرزو پوری نہ ہوئی۔ البتہ توپ تاپی محل کے تھکا دینے والے طویل ٹور کے بعد آیا صوفیہ کی دیوار کے سائے میں ایک بزرگ ترک یہ ٹوپیاں بیچتا ملا۔ اس ٹوپی کی زیارت قریبہ سے ہماری تھکاوٹ نے ہمیں محروم کردیا۔ ترکی اور بالخصوص سلطان احمد کے اس علاقے کی ان چھ یادگاروں کو دیکھنے کا ارادہ کرنے والوں کو ہمارا مشورہ ہے کہ وہ یہاں کم از کم دو دن ضرور صرف کریں، ورنہ ایک مکمل دن، رات گئے تک توپ تاپی، آیا صوفیہ اور نیلی مسجد کو دن کے اجالوں میں دیکھنے کے بعد شام ڈھلنے سے پہلے ’’سلطان احمد پارک‘‘ کے فواروں، مرغزاروں اور دلفریب ہوائوں کے بیچ پارک میں موجود سیکڑوں سَنگی (پتھر کے) بینچوں پر بیٹھ کر کافی یا ترکی چائے کا مزا لیتے ہوئے ڈوبتے سورج اور روشنیوں سے بھرے ماحول کے ساتھ توپ تاپی، آیا صوفیہ اور نیلی مسجد کے رنگین نظاروں کا لطف ضرور اُٹھا لیتے۔ یقینا دن کی روح پرور یادوں کے ساتھ شام کی سحر انگیزیاں اور روشنیوں کا جادو بھی سر چڑھ کر بولے گا۔ رات کے کسی بھی لمحے میٹرو، ٹرام، یا ٹیکسی کے ذریعے اسی علاقے میں اپنے ہوٹل واپس آجائے۔ یا ہمت ہو تو اپنے قدموں سے کام لیجیے اور ترکی کے کچھ دیگر مناظر و مشاہدات کو اس سفر کا حاصل بنائیے۔ یہ مشورہ مفت بھی ہے اور صائب بھی اور تجربے کی چھلنی سے گزرا ہوا بھی۔
توپ تاپی سے خروج
توپ تاپی محل کے خارجی دروازے کے ساتھ ایک خوبصورت ’’لفٹ اور سوویٹرز شاپ‘‘ موجود تھی۔ بلاشبہ جہاں بہت خوبصورت سوویٹرز برائے فروخت موجود تھے۔ یہاں اگر قیمتیں قابل برداشت تھیں مگر شیشے اور سراکس کی اشیاء دوران سفر ٹوٹنے کا اندیشہ نہ ہوتا تو ہم کچھ ضرور خرید لیتے۔ اس سے بھی اعلیٰ درجے کی ایک دکان محل کے اندر موجود تھی، مگر اس کی قیمتیں ہماری استطاعت سے باہر بلکہ لیرا کی بجائے ڈالرز میں تھیں۔
توپ تاپی محل میں داخلہ مشکل یعنی کئی مراحل کی چیکنگ پر مشتمل تھا، جبکہ ’’خارجہ‘‘ یعنی EXIT بہت آسان تھا۔ محل کے دوسرے داخلے کی ڈیوڑی کے بغلی دروازے سے باآسانی نکل آئے۔ اپنے گائیڈ مسٹر والکن کے ساتھ تصویر بنوائی اور ذاتی معلومات حاصل کیں۔ وہ ایک پیشہ ور اور ٹورازم ڈیپارٹمنٹ کا سند یافتہ بین الاقوامی اہلیت کا حامل پروفیشنل گائیڈ تھا، جو اپنے والدین اور دیگر بھائی بہنوں سے علیحدہ رہتا اور تجردّ کی زندگی بسر کررہا تھا، اور خوش تھا کہ اپنے ماں باپ پر مالی و معاشی بوجھ نہیں ڈالتا، اور دل گرفتہ اس لیے کہ ترک معاشرت اور رسوم و رواج کے مطابق ابھی اتنا نہیں کما سکا کہ اپنا گھر بسا سکے۔ اس لیے کہ شادی کے دونوں اطراف کے اخراجات اُسی کو اُٹھانے، شادی سے پہلے آراستہ و پیراستہ اور تمام سہولیات سے مزین (Fully Furmished) گھر بھی اُسی کی ذمہ داری ہے۔ لہٰذا وہ اپنے تجردّ پر سمجھوتہ کیے وقت گزر رہا تھا۔
سلطان اہمت (احمد) پارک
توپ تاپی، آیا صوفیہ اور نیلی مسجد کی مثلث کے بیچوں بیچ سلطان احمد کے نام سے موسوم پارک ترک معاشرت و معیشت کے کئی رنگ لیے ہوئے تھا۔ شاپنگ سینٹرز، چھوٹی دکانیں، ہر قسم کی خوراک کے مراکز، مشروبات چائے، کافی کے پاکستانی پارکوں والے انداز، یعنی ’’سپارٹ ڈلیوری‘‘، ٹھیلے والے، بھنے چنے، بھٹے اور دیگر شوارما وغیرہ سب کچھ موجود تھا اور زیر زمین نہایت صاف ستھرے واش رومز۔ مگر پانچ لیرا میں پانچ منٹ کی تنبیہہ و تحذیر کے ساتھ۔
تصورِ شایاں
لوگ بالعموم سیروتفریح کے مواقع پر ’’تصور جاناں‘‘ کرتے ہیں، مگر ہماری ’’جاناں‘‘ تصور سے کہیں آگے گزشتہ 39 سال سے تصور کو حقیقت میں بدل کر ’’پہلے جاں پھر جانِ جاں اور اب جانِ جاناں (پانچ بچوں کی ماں) ہوچکی تھیں اور آپ سے شروع ہونے والا سفر۔ تو سے تم اور کچھ آگے تک بڑھ چکا تھا، لہٰذا ہم نے ’’تصور شایاں‘‘ کو اپنی سوچوں کا موضوع بنایا۔ عثمانی سلاطین کے شکوہ و سطوت، شان و شوکت، حسن انتظام اور تدبیر مملکت، فلاحِ عامہ، بہبود انسانی اور سب سے بڑھ کر سلطنت کے استحکام اور اسلامی تشخص کی بحالی اور ترویج کے لیے کیے جانے والے اقدامات کا تحلیل و تجربہ کرتے ہوئے بے اختیار سلام عقیدت و محبت پیش کیے بنا نہ رہ سکے۔ ایک طرف بچپن کی یادوں کے پختہ و ناپختہ نقوش تھے، تو دوسری طرف مطالعہ اور عقلِ علم کے ادنیٰ سے خوگر کا مبلغ علم، تو تیسری جانب بڑھاپے کے اس سفر کے مشاہدات و تاثرات کے انمٹ نقوش۔ یقینا یہی فکری ارتقاء کے مراحل اور حکیم الٰہی (… فی الارض)۔ کی ہدایت کے مختلف درجے اور نتائج۔
اسی حامل سفر کو سمیٹتے اور محفوظ کرتے ہوئے ہم اس تکون کے دوسرے کونے، دوسری منزل، آیا صوفیہ کی جانب بڑھ گئے جو توپ تاپی محل کے پہلے صدر دروازے سے متصل دیواروں کی صورت اپنی جانب کھینچ رہی تھی۔
(جاری ہے)