(گزشتہ سے پیوستہ)
مشرقی پاکستان میں آرمی ایکشن یعنی آپریشن سرچ لائیٹ جو 25 مارچ کی رات شروع ہوا، اس کے باضابطہ خاتمے کا کبھی اعلان نہیں کیا گیا، لیکن وسط مئی میں بڑے شہروں اور قصبوں کو عملاً زیر اثر لینے کے بعد یہی سمجھا گیا کہ اس کے مقاصد حاصل کرلیے گئے ہیں ۔
امن کمیٹیاں اور رضاکار فورس:
اسی دوران اسلام پسند اور محب وطن عناصر نے پاک فوج سے بھرپور تعاون کیا ، کیوں کہ یہ اُس ملک کی بقا کا معاملہ تھا، جسے اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا‘ چناں چہ عمر رسیدہ افراد پر مشتمل امن کمیٹیاں تشکیل دی گئیں اور صحت مند نوجوانوں کو رضا کار بھرتی کیا گیا۔ یہ کمیٹیاں ڈھاکہ کے علاوہ دیہی علاقوں میں بھی قائم کی گئیں اور ہر جگہ فوج اور مقامی لوگوں کے درمیان رابطے کا مفید ذریعہ ثابت ہوئیں ۔ ان کمیٹیوں کے چیئرمین اور ارکان شرپسندوں کا مسلسل ہدف بنتے رہے۔
رضا کاروں کی تنطیم کے دو مقاصد تھے ایک یہ کہ پاک فوج کی افرادی قوت میں اضافہ ہوا اور دوسرے مقامی لوگوں میں دفاع وطن میں شرکت کا احساس پیدا ہو۔ اس تنظیم کی مطلوبہ نفری ایک لاکھ تھی مگر اُن میں سے بہ مشکل پچاس ہزار افراد کو ہی فوجی تربیت جاسکی۔
ویسے تو امن کمیٹیوں میں محب وطن پارٹیوں کے ارکان شامل تھے لیکن اُن میں ایسے عناصر بھی شامل ہوگئے تھے جنہوں نے آرمی ایکشن سے قبل اپنے گھروں پر بنگلہ دیش کے پرچم تک لہرائے تھے۔ اُن عناصر نے مفرور ہندؤوں کی جائدادوں پر قبضے کرنے اور روپے پیسے کے عوض مداخلت کاروں کو تحفظ دینے کا دھندا شروع کر دیا۔
رضا کار فورس امن قائم کرنے، مداخلت کاروں کے مقابلے، اہم تنصیبات اور پلوں کی حفاظت پر مامور رہی اور ان کو ماہانہ الاؤنس بھی ملتا تھا۔ ابتدا میں اسلامی جمعیت طلبہ نے اپنے مشرقی پاکستان کے کارکنوں کو ہدایت کی کہ وہ رضا کار فورس میں شامل ہوکر عملی تعاون کریں۔ مگر امن کمیٹیوں کی طرح رضا کار فورس میں بھی مختلف الخیال گروپوں اور منفی سوچ کے حامل افراد کے سبب خرابیاں پیداہوگئیں۔
رضاکار فورس میں ایک طرف قربانی اور پاکستان کی بقا کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے جذبے سے شامل ہونے والے جانثار تھے تو وہیں پر اردو بولنے والے شہدا کے کچھ پسماندگان کا انتقامی جذبہ اور دیگر مفاد پرست بنگالی عناصر کا غیر صحت مندانہ رویہ افسوس ناک صورت حال پیدا کر رہا تھا۔ حتیٰ کہ چند ہفتوں بعد ہی یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ رضا کار فورس کے بعض افراد بھارت کے لیے جاسوسی تک کر رہے ہیں۔ کچھ عرصے بعد تو اس امر کے ثبوت تک مل گئے کہ مکتی باہنی نے رضاکار فورس میں اپنے بہت سے لوگ داخل کردیے تھے جو باغیوں کو قیمتی معلومات فراہم کرتے تھے۔
یہ صورت حال اسلامی جمعیت طلبہ ( اسلامی چھاترو شنگھو) کے کارکنوں کے لیے بہت اذیت ناک تھی، اس طرح خود ان کی حب الوطنی، خلوص اور دیانت داری مشکوک ہورہی تھی۔ چناں چہ مئی 1971ء کے وسط میں جمعیت کے قائدین نے مطالبہ کیا کہ ہمارے کارکنوں کے علیحدہ سے منظم کیا جائے تاکہ پاکستان کی بقا کی جنگ وہ زیادہ اعتماد کے ساتھ لڑسکیں۔
البدر کا قیام اور کردار:
مارچ 1971ء میں مشرقی پاکستان میں آرمی ایکشن کے بعد ہی اسلامی جمعیت طلبہ (اسلامی چھاترو شنگھو) کے ذمے داروں نے ایک اجلاس میں صورت حال پر غور کیا۔ چار دن کے غور و فکر کے بعد اس ہنگامہ خیز اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ’’اسلامی جمعیت طلبہ مشرقی پاکستان، سالمیت پاکستان اور شہریوں کی جان و مال اور آبرو کے تحفظ کے لیے آگے بڑھے گی۔ مشرقی پاکستان کے باشندے دو طاقتوں کے درمیان پس رہے ہیں، جن میں ایک جانب دشمن کے گماشتے، انتہا پسند ہندو ایجنٹ، خونی انقلاب کے علم بردار کمیونسٹ ہیں، جو ملک کی آزادی کو پارہ پارہ کرکے اسے بھارت کا زیر نگیں بنانا چاہتے ہیں۔ جب کہ دوسری جانب پاکستان کی سول اور فوجی انتظامیہ میں شامل کئی قسم کے غلط عناصر بھی ہیں۔ ان دونوں طبقوں کے خلاف بیک وقت سرگرم عمل ہونے کے لیے ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں کہ ہم ایک جانب اسلامی جذبے کے ساتھ دشمن کی طاقت سے میدانِ عمل میں ٹکر لیں اور دوسری جانب طاقت کے قریب پہنچ کر اس کی اصلاح کرنے کی اپنی سی کوشش کریں۔ ہمارا یہ فیصلہ پاکستان کے بے گناہ شہریوں کی جان و آبرو بچانے کا فیصلہ ہے‘‘۔
اس فیصلے کے اعلان کے لیے 14 مارچ کو جامع مسجد ڈھاکہ یونیورسٹی میں کارکنوں کا اجتماع ہوا۔ ڈھاکہ جمعیت کے ناظم سید شاہ جمال چودھری (شہید ) نے بڑی درد مندی اور پُر زور دلائل کی تمہید کے ساتھ پالیسی کا اعلان کیا۔ جس سے خطرات میں پھنسے ہوئے جمعیت کے کارکن یکسو ہوگئے۔ اس کے بعد جمعیت کے کارکنوں نے اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر پورے مشرقی پاکستان کے دورے کرکے اس پیغام کو پہنچایا کیوں کہ مواصلاتی رابطے منقطع تھے اور پورے مشرقی بازو میں بغاوت جاری تھی۔
اس کے بعد 15 مئی 1971ء کو ڈھاکہ میں جمعیت کی صوبائی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں جمعیت کے کارکنوں پر مشتمل ایک الگ رضا کار فورس کے قیام کی تجویز پیش کی مگر پاکستان کی ایسٹرن کمان نے اس تجویز کو لال فیتے کی نذر کر دیا۔ لیکن پاک فوج میں کچھ افراد امن کمیٹیوں اور رضا کار فورس کی مایوس کن کارکردگی کے باعث متبادل صورتوں پر غور کررہے تھے۔ 31 بلوچ رجمنٹ کے جواں سال میجر ریاض حسین ملک انہی میں ایک تھے۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں البدر کی تاسیس کا پس منظر ان الفاظ میں بیان کیا:
’’دشمن کی تعداد بہت زیادہ تھی، تخریبی عناصر بھی کچھ کم نہ تھے۔ ہمارے ذرائع معلومات نہ ہونے کے برابر اور ذرائع مواصلات غیر مربوط تھے۔ ہمارے جوان بنگلہ زبان اور بنگال کی طبعی فضا سے قطعی ناواقف تھے کیوں کہ ہماری تربیت کے دوران کبھی اس صورت حال کے امکان پر سوچا بھی نہیں گیا تھا۔ ان حالات میں دفاعِ وطن کا فریضہ انجام دینا بڑا مشکل ہوگیا تھا۔ ہمیں ایک مخلص، قابلِ اعتماد اور محب وطن بنگالی گروہ کی ضرورت تھی جو ملکی سالمیت کے لیے ہمارے شانہ بشانہ کام کرسکتا ہو۔ ابتدائی ڈیڑھ ماہ میں ہمارا رضاکار فورس کا تجربہ ناکام ہو چکا تھا۔ تاہم میں نے دیکھا کہ میرے سیکٹر (علاقے) میں اسلامی جمعیت طلبہ کے بنگالی طلبہ بڑے اخلاص کے ساتھ دفاع، رہنمائی اور حفظِ راز کی ذمے داری ادا کر رہے تھے۔ چناں چہ میں نے ہائی کمان سے کوئی باقاعدہ اجازت لیے بغیر قدرے جھجکتے ہوئے ان طلبہ سے رابطہ کیا، ابتدائی طور پر ان کی تعداد 47 تھی اور وہ سب اسلامی چھاترو شنگھو کے کارکن تھی۔ 16 مئی 1971ء کو شیرپور (ضلع میمن سنگھ) کے مقام پر انہیں مختصر فوجی تربیت دینے کا آغاز کیا گیا۔
ان کی لگن، محنت اور تکنیک کو سمجھنے میں کمال ذہانت کو دیکھ کر میں نے 21 مئی 1971ء کی صبح اُن سے خطاب کیا۔ تقریر کے دوران بے ساختہ میرے منہ سے نکل گیا کہ آپ جیسے سیرت و کردار اور مجاہدانہ جذبہ رکھنے والے فرزندانِ اسلام کو ’’البدر‘‘ کے نام سے پکارا جانا چاہیے۔ تب فوراً ہی ذہن میں برق کی مانند یہ خیال کوندا کہ کیوں نہ اس تنظیم کو ’’البدر‘‘ کا نام دے دیا جائے۔ چناں چہ یہ نام اور جمعیت کے کارکنوں کی الگ تنظیم کا یہ تجربہ اس قدر کامیاب ہوا کہ دو تین ماہ کے اندر پورے مشرقی پاکستان میں اسی نام سے جمعیت سے وابستہ نوجوانوں کو منظم کرلیا گیا۔ البدر کے پہلے کمانڈر کا نام کامران تھا اور وہ اس وقت انٹر سائنس کے طالب علم تھے۔
البدر فورس کا پانچ نکاتی پروگرام یہ تھا:
-1 پاکستانی عوام میں اعتماد بحال کرنے کے لیے عوام سے وسیع رابطہ رکھنا۔ دیہات اور دور دراز علاقوں میں پہنچنا، اجتماعات اور جلسوں کا انعقاد کرنا، دشمن کے منفی پروپیگنڈے کو زائل کرنا، حالات کو پُرسکون بنانا اور عوام کو اندرونی اور بیرونی زیادتیوں کی مدافعت پر ابھارنا۔
-2 بنگالی اور غیر بنگالی کے درمیان پیدا ہونے والی خلیج کو پاٹنا، مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان اخوت و محبت کے جذبات پروان چڑھانے کے لیے عملی وفکری اقدامات کرنا۔
-3 پاکستان دشمن عناصر، تخریب کاروں اور بھارتی مداخلت کاروں کی سرگرمیوں پر کڑی نگاہ رکھنے کے لیے اطلاعات کا مصدقہ نظام قائم کرنا۔
-4 دفاع پاکستان اور سالمیت پاکستان کے لیے عسکری نقل و حرکت میں پاک فوج اور سول انتظامیہ کے ساتھ مثبت عملی تعاون کرنا۔ نظم و نسق کی بحالی اور تنصیبات کے تحفظ کے لیے محب وطن طلبہ کو منظم کرنا اور عسکری تربیت دلوانا۔
-5 سرکاری و نیم سرکاری ملازمتوں میں موجود ملک دشمن عناصر کے بارے میں مکمل چھان بین کے بعد سول و فوجی انتظامیہ کو مصدقہ معلومات بہم پہچانا۔ (مجلہ ’’ہمقدم‘‘ کراچی، اکتوبر 1971ء)
پاک فوج البدر کو عسکری تربیت فراہم کرتی تھی، جس کا دورانیہ عموماً سات سے بارہ روز ہوتا تھا۔ تربیت کے دوران خودکار ہلکا اسلحہ استعمال کرنے، اسے کھولنے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے، بارودی سرنگوں کو ناکارہ بنانے اور وائرلیس پیغام سمجھنے کی صلاحیت پیدا کی جاتی۔ عملی صورت حال یہ تھی کہ ان رضا کاروں کوجدید اسلحہ سے لیس نہیں کیا گیا کیوں کہ خود پاک فوج کے پاس ہتھیاروں کی کمی تھی۔ جب کہ دشمن کے تمام یونٹ حتیٰ کہ پولیس اور مکتی باہنی کے پاس بھی جدید ہتھیار اور نئی ٹرانسپورٹ تھی۔ (جنرل نیازی، قومی ڈائجسٹ، جولائی 1978ء)
البدر کا تعلق چوں کہ ایک اسلامی نظریاتی تنظیم سے تھا، اس لیے جمعیت کی قیادت نے البدر کیڈٹوں کو فکری و نظریاتی تربیت دینے کا خاص طور پر اہتمام کیا۔ اُن کے تربیتی پروگرام میں یومیہ درس قرآن، درس حدیث، شب بیداریاں، مجالسِ ذکر، ایک روزہ تربیتی کیمپ، فلسفۂ جہاد (گروپ میٹنگ) فکرِ آخرت (گروپ میٹنگ)، باہمی احتسااب، دعا وغیرہ شامل ہوتی تھی۔
یہ پروگرام اس قدر توازن کے ساتھ ہوتے کہ اگر البدر مجاہدین کی رات جہاد میں گزرتی تو دن کا بیشتر حصہ فکری تربیت کے حصول میں یا اگر دن بھر میدانِ جنگ کے تھکے ماندے مجاہدین اپنی راتیں تہجد اور اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری میں گزارتے