قانون انسداد توہین رسالت ایک تاریخی اور تجزیاتی مطالعہ

379

(تیسرا حصہ)
یہ کہنا تو مشکل ہے کہ آیا آگسٹائن الہیات کے موضوع پر مسلم ماہرین کی تصانیف سے متاثر تھے یا نہیں؟ لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ آگسٹائن کا نظریہ اسی منطق کی نمائندگی کرتا ہے جو علم ماہرین الہیات نے پیش کیا ہے۔ ان کے نزدیک (توہین رسالت کے مرتکب کے لیے) عفو یا معافی کا معاملہ، نتائج کے اعتبار سے کہیں زیادہ سنگین ہے جتنا کہ اسے سمجھا جاتا ہے۔ وہ فرد جس کا ایمان ہے کہ حضرت محمدؐ کی تعلیمات وحی الٰہی ہیں اور یہ قطعی صداقت پر مبنی ہیں، (حضورؐ) کی توہین منطقی اعتبار سے اس کے ایمان کے منافی ہوگی۔
غالباً مسلم ماہرین فقہ کی اسی منطق کے باعث ان کا رویہ دوسروں کے رویے سے مطابقت نہیں رکھتا، جو کسی مذہبی پیغام کو وہ حیثیت نہیں دیتے کہ جو حیثیت مسلمان اپنے دین (وحی الٰہی) کو دیتے ہیں۔ مغربی مسیحی دنیا کے نزدیک یہ رویہ تعصب یا عدمرواداری قرار پاسکتا ہے لیکن مسلمانوں کے لیے نہیں کیوں کہ مسلمانوں کے لیے ایسے معاملات میں مدابعت برتنا صرف اور صرف منافقت ہے جس کا مقصد دوسروں کو بھی ایسی ہی منافقت کی ترغیب دینا ہے جو حق پر شکوک و شبہات کے سائے ڈالنے کے مترادف ہے۔
سزائے موت کی قرآنی بنیاد
نبی پاکؐ کی توہین یا ان اسم مبارک کی بے حرمتی کے جرم کی سزائے موت کے جواز میں مسلم ماہرین فقہ نے قرآن حکیم کی ان آیات کریمہ پر انحصار کیا ہے۔
۱۔ قرآن حکیم میں پیغمبر اسلامؐ کے اس انتباہ کا ذکر ہے جو آپؐ نے مکہ مکرمہ کے بت پرستوں کو کیا تھا۔ حضور اکرمؐ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اسلام قبول کرلیں یا پھر مکہ مکرمہ سے نکل جائیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ رسول مقبولؐ نے ۸ ہجری میں مکہ فتح کیا تھا اور اسی شہر کو اسلام کا روحانی مرکز قرار دیا تھا، جو اہم ترین دینی عبادت حج کا مقام تھا۔ بت پرستوں کو عام شہریوں کی طرح رہنے کی اجازت دی گئی۔ ایک سال بعد سورۃ التوبہ کی چند پہلی آیات مبارک کا نزول ہوا جن میں بت پرستوں کو ۴ ماہ کا نوٹس دیا گیا کہ وہ اسلام قبول کرلیں یا شہر چھوڑ کر چلے جائیں۔
ان آیات مبارکہ میں کہا گیا:
(ترجمہ) پھر اگر یہ (بت پرست) توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو (ان کو معاف کردو) یہ دین میں تمہارے بھائی ہیں اور ہم اپنی آیات کو سمجھنے والوں کے لیے کھول کھول کر بیان کرتے ہیں اور اگر وہ عہد کرنے کے بعد اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں اور تمہارے دین پر طعن (تشنیع) کریں تو ان کافروں کے سرداروں سے لڑو، بے شک ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں، تا کہ وہ لوگ اپنی حرکتوں سے باز آجائیں۔ (۵)
ان آیات کریمہ میں قرآن حکیم نے دو جرائم کا ذکر کیا ہے، جن کا ارتکاب کرنے والوں سے جنگ کا جواز پیدا ہوتا ہے۔ اول، توبہ کرنے، نماز ادا کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کا عہد کرکے عہد شکنی کرنا اور دوسرے مسلمانوں کے دین پر طعن و تشنیع کا ارتکاب۔ چنانچہ مسلمان علمائے دین نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ کوئی شخص جو حضور نبی کریمؐ اور ان کی بنیادی تعلیمات کے بارے میں توہین آمیز اور ہتک آمیز بات کرے تو وہ ان عمومی ہدایات کے تحت سزا کا مستوجب ہوگا۔ (۶)
۲۔ اسی باب میں مدینہ منورہ کے منافقین کی ریشہ دوانیوں کو بھی پیغمبر اسلامؐ کو ایذا دینے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ ان کی تضحیک، تمسخر آمیز اور فضول باتوں کو بھی کفر قرار دیا گیا جو قابل سزا ہے۔ سورئہ توبہ کی آیت ۶۹ میں انہیں (کفارکو) بتادیا گیا ہے کہ ان کے اعمال نہ صرف اس دنیا میں بلکہ موت کے بعد کی زندگی میں بھی اکارت ہوگئے، کیوں کہ وہ حضور پاکؐ کا تمسخر اُڑاتے ہیں۔ قرآن حکیم نے ان لوگوں کو ’’خسارے‘‘ میں رہنے والے قرار دیا۔ مسلم ماہرین فقہ نے بجا طور پر اس آیات سے یہ مطلب اخذ کیا ہے کہ اگر ان لوگوں کو ان کے کیے کی سزا نہ دی جائے، ان کے تمام اچھے کاموں کو اس دنیا اور آخرت میں اکارت قرار دینا بالکل بے مقصد ہوگا، جو شخص اس جرم کی پاداش میں زندگی سے محروم نہیں ہوسکتا، جس سے اس آیت کے مطابق اسے بہرحال محروم ہونا ہے۔ سورئہ احزاب میں تو یہی بات مزید وضاحت سے فرمائی گئی ہے۔
(ترجمہ) بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسولؐ کو ایذا پہنچاتے ہیں ان پر اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں لعنت کرتا ہے اور ان کے لیے (اس نے) ذلت آمیز عذاب تیار کر رکھا ہے۔ (۷)
قرآن حکیم کے شارحین و مفسرین کے مطابق اللہ اور اس کے رسول پاکؐ کو ایذا پہنچانے والوں کے لیے آخرت کی زندگی میں اللہ کی لعنت والی بات آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے۔ ایسے لوگوں کو دوزخ میں ڈالا جائے گا، لیکن اس دنیا میں اللہ کی لعنت اس وقت تک سمجھ میں نہیں آسکتی جب تک اس گھنائونے جرم کی اس دنیا میں سزا نہ دی جائے۔ (۸)
۳۔ سورۃ الحشر میں مدینہ منورہ سے یہود کے ایک قبیلہ (بنونضیرض کو جلاوطن کرنے کا ذکر ہے۔ یہ واقعہ ۴ ہجری میں پیش آیا۔ اس قبیلہ کے لوگوں نے مسلمانوں سے شہریت کا معاہدہ کیا تھا اور میثاق مدینہ پر دستخط کیے تھے لیکن انہوں نے میثاق مدینہ کی خلاف ورزی کی اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں شریک ہوئے۔ چنانچہ رسول پاکؐ نے انہیں سزا دی اور آخر کار انہیں شہر سے نکال دیا گیا۔ ان لوگوں کے جرائم پر تبصرہ کرتے ہوئے قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے۔
(ترجمہ) اور اگر اللہ نے ان (یہود) کے حق میں جلاوطنی نہ لکھ دی ہوتی تو دنیا میں ان کو (سخت) عذاب دیتا اور آخرت میں (تو) ان کے لیے آگ کا عذاب تیار ہی ہے۔ یہ (عذاب ان کو) اس لیے (ہوگا) کہ وہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی مخالفت کرتے رہے اور جو اللہ کی مخالفت کرتا ہے، تو اللہ کا عذاب (ایسے لوگوں کے لیے) بڑا سخت ہے۔ (۹)
ان آیات میں پیغمبر اسلامؐ کی مخالفت کو اللہ تعالیٰ کے شدید عذاب کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔ یہ بات بھی واضح کردی گئی ہے کہ ان کو یہ سزا صرف اس دنیا میں ہی نہیں دی گئی کیوں کہ اس دنیا میں تو انہیں شہر سے نکالنے کی سزا دی گئی تھی۔
۴۔ چنانچہ سورۃ المجادلہ میں اسی جرم کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے۔
(ترجمہ) بے شک جو لوگ اللہ ار اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں، وہ ایسے ہی ذلیل (وخوار) ہوں گے جس طرح ان سے قبل کے لوگ ذلیل ہوئے اور ہم نے تو (پہلے ہی) صاف صاف آیت اتاری ہیں اور (واضح رہے کہ) کافروں کے لیے (نہایت) رسوا کن عذاب ہے۔ (۱۰)
اس آیت مبارکہ میں رسول کریمؐ کی مخالفت اور مزاحمت بھی ایک جرم قرار دی گئی ہے جس پر رسوا کن سزا دی جائے گی۔
قرآن حکیم میں کئی مزید آیات بھی ہیں جنہیں ماہرین فقہ، توہین رسالتؐ کی سزا کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ یہاں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ سورۃ التوبہ کی آیت ۶۴ تا ۶۶ ایسی صورت حال سے متعلق ہیں جن میں کفار کا ایک گروہ اپنی مجالس میں جو ظاہر ہے ان کے نجی مقامات پر ہوں گے، حضور نبی کریمؐ کا تمسخر اڑایا کرتے تھے ایسا کوئی موقع نہ تھا کہ ان لوگوں کے عمل کے باعث مسلمانوں کے جذبات میں اشتعال پیدا ہوتا لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ توہین رسالتؐ یا حضور نبی کریمؐ کے اسم مبارک کی بے حرمتی کے جرم کے تعین کے لیے یہ ضروری نہیں کہ اس کے جرم کے مرتکب شخص نے یہ جرم مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کرنے، غصہ دلانے یا برانگیختہ کرنے کے ارادے سے ہی کیا ہو، جب توہین رسالتؐ ثابت ہوجائے تو اس جرم کے مرتکب کو، اس کے مقصد سے قطع نظر سزا ضرور دی جائے گی۔ (۱۱)
تاہم کسی عمل کے متعلق یہ تعین کرنے کے لیے یہ عمل توہین کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں، متعلقہ شخص کے عزائم کو بھی زیر غور لایا جائے گا۔ خصوصاً ایسی صورت میں جب اس موقع پر استعمال کیے جانے والے الفاظ واضح نہ ہوں۔ یوں پیغمبر اسلامؐ کے پاک نام کی توہین کا تعین کرتے وقت ارادہ یا نیت ایک اہم عنصر بن جاتے ہیں۔ اس جرم کے بنیادی عناصر سے بحث کرتے ہوئے امام ابن تیمیہؒ نے اس حقیقت پر انحصار کیا ہے کہ حضور نبی کریمؐ کے تین ساتھیوں حسان بن ثابت، مستاہ اور حمناہ کو حضور اکرمؐ کی زوجہ مطہرہ پر غلط الزام تراشی (قذف) کے جرم میں سزا دی گئی تھی۔ ان میں سے کسی کے بارے میں یہ نہیں کہا گیا تھا کہ اس نے توہین رسالتؐ کے جرم کا ارتکاب کیا ہے، لہٰذا انہیں موت کی سزا نہیں دی گئی تھی۔ (۱۲)
امام ابن تیمیہؒ نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ واقعہ قرآن حکیم کی سورۃ الاحزاب کی آیت ۶ کے نزول سے قبل پیش آیا تھا۔ جس میں پیغمبرؐ کی ازواج مطہراتؓ کو اہل ایمان کی مائیں (امہات المومنین) قرار دیا گیا ہے۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل میں امہات المومنینؓ سے کسی کے خلاف بھی غلط الزام توہین رسالتؐ ہی تصور کیا جائے گا۔ (۱۳)
ان قرآنی آیات کے علاوہ حضور نبی کریمؐ کی حیات طیبہ کے دوران متعدد ایسے واقعات رونما ہوئے، جب صحابہ کرامؓ نے ایسے لوگوں کو قتل کردیا جو توہین رسالتؐ کے مرتکب پائے گئے تھے اور بعد میں خود آنحضورؐ نے صحابہ کرامؓ کے اس عمل کو درست قرار دیا۔ ایسے چار یا پانچ واقعات تو حضور نبی کریمؐ کی حیات طیبہ کے آخری دس سالوں کے دوران رونما ہوئے۔ امام ابن تیمیہؒ نے اپنی شاہکار تصنیف ’’الصادم المسلمول‘‘ میں ایسے واقعات پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ ان تمام واقعات کا ماحصل یہ ہے کہ ایک شخص توہین رسالت کا ارتکاب کیا کرتا تھا۔ مسلمانوں نے پہلے تو اسے برداشت کیا لیکن جب انہوں نے محسوس کیا کہ یہ کام تو شرارت سے کیا جارہا ہے، انہوں نے توہین رسالت کے مرتکب کو قتل کردیا۔ ان تمام واقعات میں حضور نبی کریمؐ نے ان صحابہ کے خلاف کسی نوع کی کارروائی نہیں کی جو توہین رسالتؐ کے مرتکب افراد کے قتل میں ملوث تھے۔
ان تمام اسناد پر ہی ہر دور میں تمام ماہرین فقہ کا یہ متفقہ خیال رہا ہے کہ کوئی شخص جو مسلمان ہو یا غیر مسلم، حضور نبی کریمؐ کے خلاف گھٹیا زبان استعمال کرتا ہے، رسولؐ کا مضحکہ اڑاتا ہے اور توہین رسالتؐ کا مرتکب ہوتا ہے، موت کی سزا کا حق دار ہے۔ نبی پاکؐ کی توہین یا تضحیک اسلامی ریاست اور مسلمہ امہ کے خلاف غداری ہی قرار پائے گی جس کی سزا موت ہی ہوسکتی ہے۔
حنفی یا شافعی مکاتب فکر کے ماہرین فقہ کے مطابق اگر کسی مسلم ریاست کا کوئی غیر مسلم شہری، توہین رسالت کا مرتکب ہو تو وہ اس جرم کے ثابت ہونے پر شہریت کھودیتا ہے۔ اس کے تمام حقوق و مراعات ختم ہوجاتے ہیں اور وہ سزائے موت کا مستحق ہوجاتا ہے۔
بعض دوسرے فقہاء اس نظریہ سے اس حد تک اتفاق کرتے ہیں جب توہین رسالت کا مجرم کوئی مسلمان ہو، لیکن کسی غیر مسلم کی صورت میں ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ توہین رسالت کا مجرم شہری حقوق و مراعات سے محروم نہیں ہوتا، اگرچہ وہ سزائے موت کا مستوجب ٹھہرتا ہے۔ (۱۴)
چند اہم مقدمات
یہ بات پہلے ہی بیان کی جاچکی ہے کہ توہین رسالتؐ کے چار یا پانچ واقعات حضور نبی کریمؐ کی حیات طیبہ کے دوران بھی پیش آئے تھے ان تمام واقعات میں مشترکہ امر یہ ہے کہ توہین رسالت کے مرتکب افراد کو مسلمانوں نے اس واقعہ سے حضور نبی کریمؐ کو آگاہ کیے بغیر ہی قتل کردیا۔ بعد میں جب حضور انورؐ کو اس واقعہ سے آگاہ کیا گیا اور حضورؐ نے بھی واقعہ کی صحت کی جانچ کرلی تو آپؐ نے مجرموں کی سزائے موت کو درست قرار دے دیا۔ (۱۵)
مدینہ منورہ میں رونما ہونے والے ان واقعات کے علاوہ مکہ کے مختلف قبائل سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھی توہین رسالت کا ارتکاب کیا۔ یہ افراد جن میں سے اکثر شاعر تھے، وقتاً فوقتاً حضور نبی کریمؐ کے اسم مبارک کی بے حرمتی اور حضورؐ کی اہانت میں اپنی شاعرانہ جبلت کو آزماتے اور حضور پاکؐ کی ذات اقدس کے بارے میں بے بنیاد کہانیاں پھیلایا کرتے تھے۔ حضور نبی کریمؐ جب فتح مکہ کے سفر پر روانہ ہوئے تو حضورؐ نے ہدایت فرمائی کہ ان افراد کو ہرگز نہیں بخشا جانا چاہیے اور وہ خواہ کعبتہ اللہ کی دیواروں سے بھی چمٹے ہوئے پائے جائیں، انہی سزائے موت دی جانی چاہیے۔ تاہم ان افراد میں سے پیش تر کو اس وقت معاف کردیا گیا جب انہوں نے خود کو پیغمبر اسلامؐ کے روبرو پیش کردیا اور سچے دل سے اسلام قبول کرلیا۔ (۱۶)
پیغمبر اسلامؐ کی طرف سے رحم و عفو کے اس اظہار کے بعد مسلم علماء نے توہین رسالتؐ کے مرتکب افراد کے لیے عفو و درگزر کے امکانات پر غورو خوض کیا ہے۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ عفو (معاف) تو صرف اس سے ہی کیا جاسکتا ہے جو اپنے کیے پر نادم و پشیمان ہو لیکن فقہاء کی بہت بڑی تعداد کا نقطہ نظر یہ ہے کہ توہین رسالت کے مقدمہ میں عفو کا حق صرف اور صرف رسولؐ کو ہی حاصل ہے اور ان کے بعد کسی کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا۔ فقہا کے اس نقطہ نظر کے باعث اسلامی تاریخ میں توہین رسالتؐ کے مجرم کو معافی دی گئی۔ (۱۷)
(جاری ہے)

حصہ