مسجد اقصیٰ کے زخمیوں کی تصاویر، وڈیوز اور اشرف صحرائی کی شہادت ضمیر جھنجھوڑ رہی تھیں۔ ماہِ مبارک میں کی جانے والی تمام جانی، مالی، روحانی عبادات کی توفیق ملنے اور قبولیت پر اس عیدالفطر کی مبارک باد۔ ہر گزرتے سال آپ بھی شاید نوٹ کر رہے ہوں گے کہ کراچی میں انفاق فی سبیل اللہ کی بہاریں ہیں۔ کورونا ایام سے قبل بھی اور کورونا لاک ڈاون میں بھی اور اس کے سال بھر بعد بھی۔
کراچی کی کون سی چورنگی تھی جہاں افطار کے وقت کھانے کی تقسیم ہوتی نظر نہیں آئی۔ فیڈرل بی ایریا میں
شاپنگ مال کے سامنے تو مزید آگے بڑھ کر بار بی کیو بھی تقسیم ہوتا نظر آیا۔ عصر کے بعد مختلف علاقوں میں چوک، چورنگیوں پر گاڑیاں رک جاتیں، چند نوجوان نکلتے دریاں بچھاتے اور بس نماز مغرب کے پندرہ منٹ بعد ہی سب صاف ہو جاتا- مطلب دیگ نہیں دیگیں۔ کہیں بریانی تو کہیں پلاو- کوئی پانچ سال قبل یہ ایک نایاب آئٹم ہوتا تھا، افطار پہلے بھی تقسیم ہوتی تھی مگر وہ ایک تھال ہوتا جس میں پھل، سموسے اور پکوڑے ہوتے ساتھ میں شربت، کھجور، پانی اور بس۔ مگر بتدریج ان پانچ سال میں حیرت انگیز طور پر تقسیمِ افطار کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔
ہمارے ایک دوست کے باس نے کہا کہ روزانہ 500 کھانے (بریانی) کے ڈبے- مطلب پورا رمضان کوئی 15000 ڈبے تقسیم کرنے کو دیے، اُنہی کے چھوٹے بھائی نے اپنی کوئی پیزا کی دکان بہادرآباد پر شروع کی تو انہوں نے بھائی کی دیکھا دیکھی روزانہ 500 پیزا کے ڈبے بھیجنا شروع کر دیے۔ سوشل میڈیا تو ان سارے فلاحی کاموں سے بھرا نظر آیا۔ اس بار یہ بات بھی باور کرائی جاتی رہی کہ افطار و سحری کھلانے کے ساتھ پارسل دینے کا بھی مکمل اہتمام تھا۔
سوشل میڈیا پر افطار و سحر کی تقسیم متعارف کرانے میں کراچی کا ایک گیارہ سالہ لڑکا حسن عدیل بھی خاصا مقبول رہا، سوشل یوتھ والے، کرکٹر رومان رئیس سمیت کئی نئے نام سوشل میڈیا پر دیکھنے میں آئے۔ کراچی کے اس گیارہ سالہ بچے حسن عدیل نے ’کورونا لاک ڈاون کے دنوں میں گھر سے دال روٹی بنوا کر اس کی تقسیم سے آغاز کیا۔ یہ سفر آگے چلتا ہوا ’بھوکے نہیں سوئیں گے‘ کے نام سے ایک ادارہ تک لے گیا۔ بتدریج عدیل بھی سوشل میڈیا پر خاصا مقبول ہو گئے کہ وہ اس عمر میں سانس کے مرض کا بھی شکار ہیں۔ کہنے کو تو یہ کام اچھا ہے مگر مجموعی طور پر منظم نہیں ہے جس کی وجہ سے اس سارے کارِ خیر کا معاشرے کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا ۔
کورونا حالات کو وجہ قرار دے کر لوگ ازخود حالات کو سنگین قرار دے رہے ہوتے ہیں اور خوب انفاق کرتے ہیں۔ ایسی مثالیں بہرحال کراچی کے علاوہ کسی اور شہر سے نمایاں نہیں ہوئیں۔ اگر سماجی تنظیموں کی جانب سے تقسیم کار کا جائزہ لیا جائے تو یہ تعداد لاکھوں تک جاتی ہے۔ انفرادی تقسیم والے پورے شہر میں الگ ہیں جو خود ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔
سوشل میڈیا پر ایک بار پھر وزیراعظم چھائے رہے، یہ اعزاز ان کے حصہ میں آیا کہ جب وہ اپنی اہلیہ، قریبی دوستوں، اور حکومتی عہدیداران کے ہمراہ سعودی عرب کے دورے پر گئے۔ اس دورے میں الگ سے آرمی چیف جنرل باجوہ بھی پہنچے ہوئے تھے۔ یہ تو واضح تھا کہ عمران خان ’خاص پروٹوکول والے عمرہ‘ کی ادائیگی کے لیے گئے تھے۔ جب سوشل میڈیا پر ’تقسیم زکوة برائے پاکستان ‘ کی تقریب کے بینر والی تصویر شیئر ہوئی۔ اس دورے کو خوب آڑے ہاتھوں میں لیا گیا۔ اسی دوران وزیر اعظم کو اعزاز ملا کہ مشہور سماجی میڈیا پلیٹ فارم انسٹا گرام پر اُن کے فالوورز کی تعداد 50 لاکھ سے زائد ہو گئی۔ وزیر اعظم اور ان کی جماعت کو سوشل میڈیا پر شروع سے کافی متحرک قرار دیا جاتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ اب وہ پاکستان کے پہلے سیاست دان بن چکے ہیں جن کے انسٹا گرام پر فالوورز کی تعداد 50 لاکھ سے زائد ہو گئی ہے۔
برطانیہ سے حسین اصغر نے اس دورے پر عربی صحافیوں کی جانب سے تنقید پر بات کرتے ہوئے لکھا کہ ’قومی بھیک مانگنے کا جو عمل نواز شریف سے شروع ہو کر زرداری تک پہنچا تھا اب عمران نیازی نے اس عمل کو Professionalism کا درجہ دے دیا ہے۔ عمران نیازی کے موجودہ سعودی دورے پر اس بار سعودی عرب نے اُن کے ساتھ بھی وہی کیا جو امریکا سعودی عرب کے ساتھ کرتا رہا ہے۔ اور اتفاق کہہ لیں دونوں طرف کی بھکاری قیادت کا ماضی لندن میں ایک جیسا گزرا ہے۔ جتنا یہ مغرب کو اچھی طرح جانتے ہیں مغرب بھی ان کی ہر حرکتوں سے اچھی طرح واقف ہے۔
سعودی عرب نے عمران نیازی کو Purple کارپیٹیڈ استقبال کے بعد فطرانہ پکڑنے والی میز پر بیٹھا دیا۔ جب کہ سعودیہ میں تجزیہ نگار عمران نیازی کو اپنی ہی دم سے کھیلنے والا کہہ رہے ہیں۔ بالکل یہی سلوک ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی بادشاہ کے کارپیٹیڈ استقبال کے بعد کیا تھا اور یہ کہہ کر دستار اتار دی تھی کہ ’ہم نے سعودی بادشاہ کو بتا دیا ہے کہ تمہاری بادشاہت ہماری وجہ سے قائم ہے‘۔ ہمیں شدید دکھ یہ ہے کہ جو مراد سعید 200 ارب ڈالر دشمن کے منہ پر مارنے کے لیے بے تاب تھا اب اسی کے ہاتھوں سے عمران نیازی فطرانہ وصولی کی رسیدوں پر دستخط کر وا رہا ہے۔ عمران نیازی کی حکومت میں اب تک ایک کام بڑی خوبی سے انجام دیا جا رہا ہے یعنی اردو لغت کی تبدیلی جو امداد نواز اور زرداری دنیا سے جمع کر کے لاتے تھے وہ کل تک بھیک کہلاتی تھی اور اب عمران نیازی کے دن رات کی شدید محنت کے بعد حاصل ہونے والا بھیک فنڈ کہلاتا ہے۔ کل تک نواز اور زرداری کی فیملی کا سرکاری دوروں پر جانا قوم کے خزانے پر ڈاکا کہلاتا تھا اور اب عمران نیازی کا اپنی”فیملی“ کے ساتھ دورہ اُن کا سیاسی وژن کہلاتا ہے۔
پاکستانی عوام کے لیے اہم خبر یہ ہے کہ ادارہ شماریات کے مطابق پاکستان میں مہنگائی کی شرح 17.05 فیصد ہوگئی ہے۔‘ اس دورے کے دوران ہی اسرائیل نے بیت المقدس مسجد اقصیٰ پر تراویح کے دوران حملہ کیا اور کئی افراد شہید و زخمی ہوئے اور عالمی سطح پر موضوع بن گیا۔ یاد رہے کہ کورونا کے سائے اس وقت بھی برقرار ہیں۔ پاکستان کے اندر این سی او سی کا راج چل رہا تھا، 10تا16 مئی لاک ڈاون احکامات تھے۔ کورونا کے بڑھتے سائے میں مارکیٹیں بند کر دی گئی تھیں- بہرحال نمازیں جاری تھیں۔ اسی طرح بھارت، فرانس ، برطانیہ میں بھی سخت لاک ڈاون جاری تھا۔ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں مشرقی یروشلم میں فلسطینیوں کے محلے شیخ جراح میں 1865سے آباد مسلمانوں کو بے دخل کر کے غرب اردن کے مہاجر کیمپوں کی طرف دھکیلنے نکل پڑے۔ اس مقام پر اسرائیلیوں کے لیے 530 مکانات اور شاپنگ سینٹر تعمیر ہوں گے۔ شیخ جراح، سلطان صلاح الدین کے دور میں جراح (سرجن جنرل) تھے جن کے نام پر 1865میں یہ محلہ آباد ہوا، یعنی اسرائیل کے قیام سے 83 سال پہلے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ یہاں آباد لوگوں کے پاس قبضے (لیز) کی قانونی دستاویزات نہیں لہٰذا جائداد بحقِ سرکار ضبط کر کے شفاف نیلامی کے ذریعے اسرائیلیوں کو فروخت کردی گئی۔ اس بے دخلی کے خلاف فلسطینی مظاہرے کر رہے ہیں جنھیں منتشر کرنے کےلیے طاقت کے بے رحمانہ استعمال سے بہت سے فلسطینی اپنی جانوں سے گئے۔ پولیس مظاہرین کاتعاقب کرتے ہوئے مسجد اقصیٰ میں داخل ہوگئی اور تراویح میں مصروف لوگوں پر آنسو گیس برسائی- ہجوم کی وجہ سے صفیں مسجد کے باہر تک ہوتی ہیں اس لیے پولیس حکا م نے لاوڈ اسپیکر کے تار کاٹ کر باہر نماز پڑھنے والوں کو مسجد کے اندر جانے یا منتشر ہونے کا حکم دیا۔ پولیس کا کہنا ہے عبادت مسجد تک محدود ہونی چاہیے اور یہ فلسطینی اوقاف کی ذمہ داری ہے کہ جب مسجد بھر جائے تو وہ بعد میں آنے والوں کو واپس گھر بھیجیں۔ طاق رات کے سبب مسجد گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی تھی۔ آنسو گیس کی وجہ سے سینکڑوں نمازی زخمی ہوئے اور 53 افراد ڈنڈوں اور ربر کی گولیوں کا نشانہ بنے۔
اس ظالمانہ اقدام پر ہمیشہ کی طرح سب سے سخت رد عمل ترکی سے آیا، باقی سب نے تشویش اور دکھ کا اظہار کیا۔ اب ایک جانب سوشل میڈیا پر وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کی مسجد نبوی میں روضہ رسولﷺ کے سامنے تصاویر شیئر ہو رہی تھیں تو دوسری جانب مسجد اقصیٰ کے زخمیوں کی تصاویر اور ویڈیوز ضمیر جھنجھوڑ رہی تھیں۔ ایسے میں یہ بات سب کے سامنے لائی جا رہی تھی کہ پاکستان نے کشمیر کے ساتھ غداری کی اور آلِ سعود و دیگر عربوں نے فلسطینیوں کے ساتھ غداری کی۔
بھارت میں کورونا کی تباہ کاری ، بارڈر کی صورت حال، اشرف صحرائی کی شہادت سمیت کئی عوامل پر پاکستان کی خاموشی سوشل میڈیا پر زیر بحث رہی۔ ٹوئٹر پر ایک طنزیہ ٹرینڈ ’سلمان ایک بات کروں‘ بھی خوب موقع دیتا رہا گو کہ پی ٹی آئی نے Pakistan with Palestine اور ویک اَپ مسلم اُمہ کا ٹرینڈ 2-3 دن تک چلایا مگر اپوزیشن کو تو اس سے زیادہ موقع ملا ہوا تھا، ایک اور تصویر جس میں وزیر اعظم کی اہلیہ پانی کی بوتل ہاتھ میں لیے ہوئے ہیں وہ بھی زبردستی اندھی نفرت میں تنقید کا نشانہ بنیں کہ رمضان کا مہینہ تھا۔ اسی طرح بائیکاٹ اسرائیل، خلیفہ لبریٹس اقصیٰ، الاقصیٰ انڈر اٹیک ، اسرائیل اٹیک آن اقصیٰ، فلسطینی لائیو میٹر کے ٹرینڈ بھی چلے۔
حسین اصغر کرب کے ساتھ لکھتے ہیں کہ ’اگر صرف مکہ اور مدینہ میں جانا اور ان کے لیے دروازوں کا کھلنا نجات کا ذریعہ ہوتا تو ابوجہل سے لے کر بڑے بڑے سرداران کفار تو نسلاً عرب تھے اور مکہ اور مدینہ ان کا اپنا گھر تھا تو اس طرح کیا وہ جنتی ہوجاتے؟ جس ملک میں مہنگائی کی شرح 17.05 فیصد ہوگئی ہو۔ جس ملک میں سانحہ ماڈل ٹاون، سانحہ بلدیہ ٹاون، سانحہ ساہیوال، سانحہ لال مسجد اور سانحہ یتیم خانہ چوک لاہور سمیت بے شمار سانحات بھرے ہوں، وہاں کے حکمران عمران نیازی، زرداری، مشرف اور نواز شریف اپنے لاو لشکر کے ساتھ مکہ اور مدینہ کے جتنے چکر اور فوٹو سیشن کر کے خوش ہیں تو یہ خوش فہمی ضرور ان کو لے ڈوبے گی۔“ اسی طرح سوشل میڈیا پر ایک اور اہم موضوع کرپٹو کرنسی کا مستقل جاری رہا ہے۔ اس مہم کو کئی مہینوں بلکہ کوئی دو سال سے لے کر چل رہے ہیں، وقار ذکا نے اس مقصد کی خاطر اس نام سے ایک تنظیم بھی قائم کر لی اور یہ سب آن لائن مطلب سوشل میڈیا کے ذریعہ انجام دیا گیا۔ وقار نے ایک بھرپور آگہی مہم چلائی۔ یہ مہم سوشل میڈیا پر باقاعدہ منظم انداز سے چلائی جاتی رہی اور اپنے تئیں وقار نے خاصی کامیابی حاصل کی، چوں کہ ان کی فیلڈ ٹیکنالوجی تھی۔ ای کامرس پر کام کرتے ہوئے جس کا مطلب الیکٹرانک کامرس ہے جو ایک بزنس ماڈل ہے جس میں مختلف فرموں اور افراد کو انٹرنیٹ کے ذریعہ ہر قسم کی اشیا خریدنے اور فروخت کیا جاتاہے۔ ان میں کتابیں، ہوائی جہاز کے ٹکٹ اور مالی خدمات جیسی اسٹاک سرمایہ کاری اور آن لائن بینکنگ شامل ہیں۔ ای کامرس دن میں 24 گھنٹے، ہفتے میں سات دن ہو سکتی ہے۔ اب اس سے بڑھ کر کیا کہا جاسکتا ہے کہ ایمزون اور علی بابا جیسے بڑے بڑے آن لائن اسٹوروں کی کامیابی کا راز ای کامرس میں مضمر ہے۔ اب ہوا یہ کہ آن لائن خرید و فرخت کے لیے دنیا کی سب سے مشہور کمپنی ایمزون کی جانب سے پاکستان کو سیلر لسٹ یعنی فروخت کنندگان کی فہرست میں شامل کرنے کی خبر سے پاکستانی تاجر اور کاروباری حضرات کے لیے ایک بڑی عالمی مارکیٹ کھلنے کی امید پیدا ہو گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ اب پاکستانی مصنوعات دنیا کی سب سے مشہور ای کامرس ویب سائٹ پر دستیاب ہوں گی۔وزیر اعظم کے مشیر برائے تجارت عبد الرزاق داود کے مطابق ایمزون کچھ ہی دنوں میں پاکستان کو اپنے فروخت کنندگان کی فہرست میں شامل کرے گا۔ پاکستانی جو اپنی مصنوعات فروخت کرنا چاہتے ہیں وہ معمول کے مطابق پاکستان میں رجسٹرڈ ہوں گے۔ اس کے بعد وہ ایمزون پر رجسٹریشن کریں گے اور رجسٹریشن سروس عید سے پہلے دستیاب ہو جائے گی۔ ان پاکستانی کمپنیوں کو رجسٹریشن کے عمل سے گزرنا ہوگا پھر جو چیز بیچنا چاہتے ہیں اس کی ایمزون کی اپنی شرائط ہیں ان کو پورا کرنا ہو گا کہ مثلا کوئی ایسی چیز جس کو جلد پر استعمال کرنا ہے یا کھانے کی چیز ہے تو اس کے معیار کے حوالے سے خاص سرٹیفیکیشن وغیرہ مانگی جائے گی تاکہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ اچھی کوالٹی کی ہے۔