مسلمانوں کا قبلہ اول نشانے پر ہے۔ فلسطین میں ایک بار پھر خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے- مسجد اقصیٰ کے احاطے میں آگ لگا کر آسمان میں بلند ہوتے شعلے دیکھ کر یہودی جشن منا رہے ہیں- مسجد اقصیٰ سے شروع ہونے والی اسرائیلی دہشت گردی کا سلسلہ اب غزہ کی پٹی تک پھیل گیا ہے- اسرائیلی فوج کے حملے کے نتیجے میں اب تک بچوں سمیت 26 فلسطینی شہید ہو گئے ہیں۔ شہدا میں10 سال کی ایک بچی بھی شامل ہے۔700 سے زائد فلسطینی زخمی ہوئے ہیں-
اسرائیلی فوج نے مقبوضہ بیت المقدس میں کشیدگی کے بعد آنے والے نمازیوں پر نظر رکھنے کے لیے قبلہ اول کے اطراف نفری بڑھا دی ہے۔ مسجد اقصٰی کے قریب بلند عمارتوں پر ماہر نشانہ باز تعینات کیے ہیں۔ اس وقت مسجد اقصیٰ کی چھت اور اطراف کی عمارتوں پر بھی اسرائیلی پولیس اور فوج کے اہلکار تعینات ہیں۔ گزشتہ روز اسرائیلی فوج نے مسجد اقصیٰ کے انتظامی دفتر پر چھاپہ مار کر اسے بند کر دیا اور مسجد اقصیٰ کے قریب عمارتیں خالی کرالی گئی ہیں۔ اسرائیلی فوج نے ایک بیان میں کہا ہے کہ غزہ سے فلسطینیوں نے ایک ٹینک شکن میزائل بھی داغا ہے، وہ ایک عام گاڑی پر لگنے سے ایک اسرائیلی زخمی ہو گیا ہے۔ حماس اور غزہ سے تعلق رکھنے والے ایک اور مزاحمتی گروپ جہاد اسلامی نے راکٹ حملوں کی ذمے داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اسلامی تحریک مزاحمت ‘حماس کے القسام بریگیڈ کے ترجمان ابو عبیدہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’یہ ایک پیغام ہے اور دشمن کو اس کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی مجاہدین دشمن کی ہر طرح کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔
اسلامی تحریک مزاحمت ‘حماس کے نائب صدرالشیخ صالح العاروری نے کہا ہے کہ بیت المقدس میں تشدد، توڑ پھوڑ اور تخریب کاری کی صہیونی کارروائیاں اسے مہنگی پڑیں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ القدس میں تشدد کی آگ خود قابض دشمن کو بھی جلا کر رکھ کردے گی۔ الاقصیٰ ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں الشیخ صالح العاروری نے کہا کہ بیت المقدس پر حملے قابض دشمن کے زوال کا نقطہ آغاز ہے۔ انہوں نے فلسطینی عوام اور عالم اسلام پر زور دیا کہ وہ القدس کے دفاع کے لیے تمام وسائل استعمال کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ قابض دشمن آگ سے کھیل رہا ہے۔ القدس میں تخریب کاری اور مسجد اقصیٰ میں مداخلت سرخ لکیر عبور کرنے کے مترادف ہے۔ ایک سوال کے جواب میں حماس رہ نما نے کہا کہ ان کی جماعت فلسطین کا حصہ اور فلسطینی سماج کا جزو ہے جسے فلسطینی قوم سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ ایک سوال کے جواب میں الشیخ العاروری نے کہا کہ القدس ہمارے وجود کا پتھر ہے اور ہم سب القدس کی اہمیت کا ادراک رکھتے ہیں۔ دشمن کو معلوم نہیں کہ ہمارےلیے القدس کی کتنی اہمیت ہے۔ القدس وہ مقام ہے جس کے دفاع کے لیے پوری دنیا سے مجاہدین جہاد کے لیے تیار ہیں۔
مشرقی یروشلم میں شیخ جراح کے علاقے میں تازہ اسرائیلی دہشت گرد کارروائیاں 2017 کے بعد بدترین ہیں، اس علاقے سے متعدد فلسطینی خاندانوں کو بے دخل کرنے کی طویل عرصے سے جاری کوششوں نے مزید کشیدگی پیدا کی ہے- شیخ جرہ محلہ دمشق دروازے کے قریب پرانے یروشلم کی دیواروں کے بالکل باہر واقع ہے۔ اس علاقے میں ہوٹلوں، ریستوران اور قونصل خانے کے علاوہ فلسطینیوں کے بہت سے مکانات اور رہائشی عمارتیں بھی شامل ہیں۔
ایک ضلعی عدالت نے گزشتہ ماہ حکم صادر کیا کہ مشرقی یروشلم کے قدیم محلے شیخ جراح میں تقریباً ستر برس سے آباد چھ فلسطینی پناہ گزین کنبے یکم مئی تک گھر خالی کر دیں تاکہ ان میں یہودی آبادکاروں کو بسایا جا سکے۔ سات دیگر خاندانوں کو گھر خالی کرنے کے لیے یکم اگست تک مہلت دی گئی ہے۔ اس حکم پر عمل درآمد کے نتیجے میں سترہ بچوں سمیت اٹھاون فلسطینی چھت سے محروم ہو جائیں گے۔
اس کھیل کا آغاز 1972میں اس وقت کی اسرائیلی وزیرِ اعظم گولڈا مائر کی کابینہ کے اس فیصلے کے مطابق ہے جس کے تحت مقبوضہ یروشلم میں 90 فیصد عرب آبادی کو مرحلہ وار بے دخل کر کے شہر میں آبادی کا تناسب ستر تیس کرنا ہے۔ یعنی 70 فیصد یہودی اور 30 فیصد فلسطینی عرب ہوں گے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق فلسطینی شخص نبیل ال کرد کا کہنا ہے کہ انھیں مشرقی یروشلم چھوڑنے پر مجبور کرنا، جہاں وہ 1950 کی دہائی سے رہائش پذیر ہیں، موت سے بھی بدتر انجام کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس76 سالہ بوڑھے شخص کی اہلیہ اور بچے بھی ان درجنوں فلسطینیوں میں شامل تھے جن کے متعلق ایک اسرائیلی عدالت نے یہ فیصلہ سنایا کہ ان کے گھر یہودی آباد کاروں کی ملکیت والی اراضی پر تعمیر کیے گئے ہیں۔
اسرائیل کی غیر سرکاری تنظیم پیس ناؤ کے مطابق ٹرمپ کے چار سالہ دور اقتدار میں اسرائیل نے مقبوضہ علاقوں میں 27 ہزار نئے مکانات کی تعمیر کی منظوری دی جو اوباما انتظامیہ کی دوسری معیاد سے تقریبا ڈھائی گنا زیادہ ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے بستیاں بسانے کے ان توسیعی منصوبوں کا نتیجہ یہ ہے کہ اس وقت تقریبا ساڑھے چار لاکھ یہودی فلسطینیوں کے مغربی کنارے کی زمین پر آباد ہوچکے ہیں۔ اس علاقے میں تقریبا 28 لاکھ فلسطینی آباد ہیں۔ پیس ناؤ کا کہنا ہے کہ یہودی آباد کاروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے 2020 کے آغاز سے اسرائیلی عدالتوں نے 36 فلسطینی خاندانوں کو ان کے گھروں سے انخلا کا حکم دیا ہے، ان خاندانوں میں باتن الحوا، سلیوان اور شیخ جارح میں تقریباً 165 افراد شامل ہیں، جن میں سے بیسیوں بچے بھی ہیں۔ جب کہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں بشمول بیت المقدس میں یہودی بستیوں کی تعمیر کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اسرائیل کی برسوں سے جاری اس کھلی جارحیت کے خلاف پوری دنیا عملی طور پر خاموش تماشائی ہے اور اس نے زبانی جمع خر چ کے علاوہ کچھ نہیں کیا- امریکا اسرائیل کی سرپرستی کر رہا ہے اور اس کے تحفظ کے لیے وہ براہِ راست سالانہ بنیادوں پر کھربوں ڈالر کی امداد اور اسلحہ فراہم کرتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی عیاں ہے اور اس بات کا اعتراف سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ خود اپنی ایک تقریر میں کر چکے ہیں کہ اسرائیل کے تحفظ کے لیے خطے میں عدم استحکام پھیلانے اور خطے کی ریاستوں کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے سات ٹریلین ڈالر صرف ان کے ایک سال میں خرچ کیے گئے تھے۔ اور یہ انہی امریکی کوششوں کا تسلسل ہے کہ ایک ایک کر کے عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کر رہے ہیں۔ مصر، اُردن، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرلیے ہیں۔ یہاں تک کہ گزشتہ دنوں سی این این کے ساتھ ایک انٹرویو میں سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا تھا کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان ممکنہ طور پر تعلقات معمول پر لانے کے معاہدے کا فائدہ مشرق وسطیٰ کو ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’خطے میں اسرائیل کے اسٹیٹس کی نارملائزیشن پورے خطے کے لیے بہت زیادہ فائدے کا باعث ہوگی۔ یہ معاشی، سماجی اور سیکورٹی کے نقطہ نظر سے بہت زیادہ مددگار ہوگی‘‘۔ حالاں کہ اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے کے حوالے سے عرب ممالک کی یہ دیرینہ شرط رہی ہے کہ جب تک اسرائیل فلسطین کو علیحدہ ریاست کا درجہ نہیں دیتا وہ اُس کے ساتھ کسی طرح کا سمجھوتا نہیں کریں گے۔ لیکن گزشتہ سال نومبر میں اسرائیلی وزیر اعظم نے سعودی عرب کا دورہ کیا اور سعودی ولی عہد سے ملاقات کی اور یہ کسی اسرائیلی رہنما کا پہلا تصدیق شدہ دورہ تھا اور اب تازہ ترین صورت حال کو دیکھتے ہوئے اقوم میں متحدہ اور امریکا کی مذمت کی طرح سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بیت المقدس میں اسرائیلی فورسز کے حملوں کے بعد فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنے کے تل ابیب کے منصوبوں کی مذمت کی ہے۔
ایسے میں علیحدہ فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر ان ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کو دھوکا اور فلسطینیوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے سوا کیا قرار دیا جا سکتا ہے- پاکستان کے دفتر خارجہ نے اسرائیلی قابض فورسز کی جانب سے مسجد اقصی میں معصوم نمازیوں پر حملوں کی شدید مذمت کی ہے- پاکستان نے اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) سمیت تمام بین الاقوامی فورمز پر فلسطین کے حق میں ہر قرارداد پیش کرنے میں معاونت یا حمایت کی ہے۔ دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان 1988ء میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے والے ابتدائی ممالک میں شامل تھا اور بعد میں 2012ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد کی باہمی سرپرستی کی گئی جس نے اس کی حیثیت کو غیر رکن مبصر کی حیثیت سے بڑھایا۔ پاکستان کی فلسطین سے متعلق پالیسی پر ترجمان کا کہنا ہے کہ منصفانہ، جامع اور دیرپا امن کے لیے پاکستان اقوام متحدہ اور او آئی سی کی متعلقہ قراردادوں سمیت بین الاقوامی قوانین کے ساتھ دو ریاستی حل کا حامی ہے، جبکہ 1967ء سے پہلے کی سرحدوں اور بیت المقدس کے بطور دارالحکومت فلسطین کی حمایت کرتے ہیں۔
مسجد اقصی پر جاری اسرائیلی فوج کے مظالم پر ترکی کے صدر نے دو ٹوک رویہ اختیار کیا ہے- ترک صدر رجب طیب اردوان کا کہنا تھا کہ ظالم دہشت گرد ریاست اسرائیل بے گناہ مسلمانوں پر وحشیانہ تشدد کر رہی ہے اور اپنے دین اور گھروں کا دفاع کرنے والوں فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔ اردوان نے واضح الفاظ میں کہا کہ جو بھی اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز نہیں اٹھا رہا یا کھل کر اس پر بیان دینے سے کترا رہا ہے وہ اس جرم اور ظلم میں برابر کا شریک ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں پوری دنیا خصوصا اسلامی ممالک سے یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ فلسطینیوں، مسجد اقصی اور القدس میں جاری اسرائیلی مظالم کے خلاف نہ صرف آواز اٹھائیں بلکہ فوری کارروائی بھی کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ القدس کُل کائنات اور یہاں بسنے والے مسلمان کُل انسانیت ہیں۔ ترکی،القدس میں ظلم کا شکار اپنے مسلمان بہن بھائیوں کے ساتھ کھڑا تھا، کھڑا ہے اور کھڑا رہے گا۔ اردوان نے بتایا کہ ترکی نے تمام متعلقہ بین الاقوامی تنظیموں، اقوام متحدہ اور بالخصوص اسلامی تعاون کی تنظیم کو متحرک کرنے کے لیے اقدامات شروع کر دیے ہیں۔
اس وقت عالمِ اسلام کی جو صورتِ حال ہے اُس کے پس منظر میں یہ کہنا زیادہ درست معلوم ہوتا ہے اور حقیقی اور صداقت پر مبنی بات بھی یہی ہے کہ خونِ مسلم کی اس ارزانی کا اصل ذمے دار کوئی اور نہیں خود مسلم ممالک کے حکمران ہیں، جو اپنے ذاتی مفادات اور وقتی عیش و عشرت میں غرق ہیں، ان میں امتِ مسلمہ اور مسلم عوام کا کوئی درد موجود نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ امت کے اجتماعی مفاد کو فراموش کیے ہوئے ہیں۔ ایک اور بدقسمتی یہ بھی ہے کہ بے حمیت مسلم حکمرانوں کو یہ باور کرا دیا گیا ہے کہ مسلم ممالک میں موجود مزاحمتی تحریکیں خود ان کے لیے خطرہ ہیں، عرب ممالک بھی حماس کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں اس لیے وہ انہیں دشمنوں کے ساتھ مل کر کچلنے میں لگے ہوئے ہیں ۔
لیکن فلسطینی عوام اور وہاں کےصبر کے ساتھ مزاحمت کرنے والے لوگ تمام مظالم اور عالمی دنیا کی بے رخی کے باوجود پُرعزم ہیں، وہاں کے بچے پُرجوش ہیں جو ٹینکوں کا مقابلہ پتھروں سے کر رہے ہیں، مزاحمتی تحریک میں وہاں کی خواتین پیش پیش ہیں جس کی تازہ مثال اسرائیلی فورسز کی حراست میں مسکرانے والی مریم عفیفی نامی ایک فلسطینی لڑکی ہے کہ جب پُر امن احتجاج پر دھاوا بولنے والی اسرائیلی پولیس نے درجنوں بے گناہ فلسطینی شہریوں کو گرفتار کیا جن میں حجاب میں ملبوس مریم افیفی نامی ایک فلسطینی لڑکی بھی شامل ہے جس کی گرفتاری کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے جس میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ اسرائیلی پولیس نے کس قدر بے رحمی سے مریم کو گرفتار کیا لیکن دھماکوں، گولیوں اور گرفتاری کا خوف نڈر فلسطینی لڑکی کے چہرے پر نظر نہیں آیا، مسکراہٹ چہرے پر سجا لی اور کہا وہ نہیں چاہتی کہ فلسطینی بچے بھی خوف کے سائے میں پرورش پائیں، ہمارےچہرے پر خوف اب نہیں ہوگا۔ نڈر مریم کی بہادری پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے ایک مثال ہے جس نے حق کی خاطر کسی خطرے کی پروا کیے بنا میدانِ جنگ کا منظر پیش کرنے والے احتجاج میں شرکت کی اور اپنے موقف پر قائم رہی۔ مریم نے پولیس حراست میں اسرائیلی فوج سے کچھ سوالات کیے، ہتھکڑی لگے مریم نے اسرائیلی فوجی سے اپنی گرفتاری کی وجہ پوچھی جس کا اُن کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ جس پر مریم نے کہا کیا ایک معصوم لڑکی کو ظلم سے بچانا میرا قصور ہے؟ یا بے گناہ فلسطینیوں کو انہی کے گھروں سے بے گھر کرنے والوں کے خلاف آواز اٹھانا میری غلطی ہے؟ مریم نے جواب نہ ملنے پر ایک اور سوال اٹھایا میں جانتی ہوں تم بھی انسان ہو، تمھاری بھی فیملی ہو گی کیا تم اپنے بچوں کو بھی ظالموں کے ساتھ دیکھنا چاہتے ہو؟ کیا یہ تمھارا خواب تھا؟ ظالموں کے لیے لڑنا؟ دنیا بھر سے مسلمان مریم کی ہمت کو داد دے رہے ہیں جن میں سے بعض کا کہنا ہے کہ مریم جیسے مسلمان جب تک زندہ ہیں اسلام اور مسجد اقصی پر انچ نہیں آ سکتی ۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلم عوام فلسطین سے کشمیر تک مزاحمت کر رہی ہے اور اس کی بدقسمتی ہے کہ دشمن ایک صف میں ہے اور مسلم ممالک بھی ان کی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ فلسطینیوں کی زمینوں پر صہیونی بستیاں آباد ہیں جبکہ اس زمین کے اصل باسی مہاجر اور پناہ گزین بن کر دنیا کے مختلف ممالک میں در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ لیکن مسلمانانِ عالم قبلۂ اوّل سے اپنی محبت اور قبلہ و کعبہ سے وابستگی کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں۔ یقینا مظلوم فلسطینیوں کا یہ عزم اور حوصلہ صہیونیوں اور اسلام دشمنوں کو شکست دے گا اور یہ بکھر جائیں گے اور حال ہی میں افغانستان میں مجاہدین نے یہ کر کے دکھایا بھی ہے۔ وقت نے ثابت کیا ہے کہ مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی دادرسی اور مسجد اقصیٰ کی بازیابی زبانی مذاکرات یا کلامی مباحثات سے نہیں جہاد کے ذریعے، مزاحمت کے راستے سے ہی ہوگی۔
عالمِ اسلام کے حکمران مغرب کی فریب کاریوں کو سمجھیں اور اسے کھلا دشمن سمجھ کر مشترکہ لائحہ عمل تیار کریں، اگر مسلم حکمرانوں کی بے حمیتی کا یہ سلسلہ جاری رہا تو کچھ عجب نہیں اسرائیلی مظالم کا دائرہ پھیلے گا اور آنے والے وقت میں کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ کیوں کہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ہی ہوا کرتی ہے-
مولانا مودودی نے برسوں پہلے یہ بات کہی تھی’’نہ صرف مسجدِ اقصیٰ؎ بلکہ مدینہ منورہ کو بھی آنے والے خطرات سے بچانے کی صرف ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ تمام دنیا کے مسلمانوں کی طاقت اس یہودی خطرے کا مقابلہ کرنے اور اسلام کے مقاماتِ مقدسہ کو مستقل طور پر محفوظ کردینے کے لیے مجتمع کی جائے۔‘‘
اقبال بھی ؔ دور اندیش آدمی تھے، انہوں نے فلسطین کا حل بتاتے ہوئے کہا تھا کہ فلسطین کا مسئلہ جنیوا میں حل ہوسکتا ہے اور نہ لندن میں اور نہ تل ابیب میں۔ اقبالؔ نے ایک سے زیادہ مقامات پر مسئلہ فلسطین کا تذکرہ کیا ہے اور اس بات کا اظہار کیا ہے کہ انگریزوں کا اصل مقصد اسرائیلی ریاست قائم کرکے عرب ملکوں کو مطیع اور زیر فرمان بنانا ہے، ورنہ اس دلیل میں کوئی وزن نہیں کہ ہزاروں سال پہلے یہاں یہودی رہا کرتے تھے۔ اس پس منظر میں آپ نے فرمایا :
ہے خاکِ فلسطین پر یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اَہلِ عرب کا
مقصد ہے ملوکیتِ افرنگ کا کچھ اور
قصہ نہیں تاریخ کایا شہد ورطب کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہائی لائٹ
ظالم دہشت گرد ریاست اسرائیل بے گناہ مسلمانوں پر وحشیانہ تشدد کر رہی ہے اور اپنے دین اور گھروں کا دفاع کرنے والوں فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔ جو بھی اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز نہیں اٹھا رہا یا کھل کر اس پر بیان دینے سے کترا رہا ہے وہ اس جرم اور ظلم میں برابر کا شریک ہے پوری دنیا خصوصا اسلامی ممالک سے یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ فلسطینیوں، مسجد اقصی اور القدس میں جاری اسرائیلی مظالم کے خلاف نہ صرف آواز اٹھائیں بلکہ فوری کاروائی بھی کریں۔
2 مریم تصویر کےساتھ
اسرائیلی پولیس نے کس قدر بے رحمی سے مریم کو گرفتار کیا لیکن دھماکوں، گولیوں اور گرفتاری کا خوف نڈر فلسطینی لڑکی کے چہرے پر نظر نہیں آیا، مسکراہٹ چہرے پر سجا لی اور کہا وہ نہیں چاہتی کہ فلسطینی بچے بھی خوف کے سائے میں پرورش پائیں، ہمارےچہرے پر خوف اب نہیں ہوگا۔ مریم نے گرفتاری کے بعد تسلی سے ہتھکڑی لگوائی اور کیمرہ کی طرف دیکھ کر مسکراتی رہی۔ نڈر مریم کی بہادری پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے ایک مثال ہے جس نے حق کی خاطر کسی خطرے کی پروا کیے بنا میدان جنگ کا منظر پیش کرنے والے احتجاج میں شرکت کی اور اپنے موقف پر قائم رہی۔