قرآن کا سیاق و سباق اپنے مفہوم میں اس قدر واضح ہے کہ ابن عباس اور ابن زید سے لے کر پچھلی صدی کے شو کافی اور آلوسی تک تمام مفسرین نے اس کا یہی مطلب لیا ہے۔ اس پوری مدت میں کوئی ایک مفسر بھی ایسا نہیں پایا جاتا جس نے قرآن سے صرف ظلم کا لفظ حرمتِ ربوٰ کی علّت کے طور پر نکال لیا ہو اور پھر ظلم کے معنی باہر کہیں سے لینے کی کوشش کی ہو۔ یہ بات اصولاً بالکل غلط ہے کہ ایک عبارت کے اپنے سیاق و سباق سے اس کے کسی لفظ کا جو مفہوم ظاہر ہوتا ہو‘ اسے نظر انداز کرکے ہم اپنی طرف سے کوئی معنی اس کے اندر داخل کریں
اس دال کے سلسلے میں یہ دعویٰ جو کیا گیا ہے کہ کمرشل انٹرسٹ میں کسی پارٹی پر بھی ظلم نہیں ہوتا‘ یہ بھی ہمیں تسلیم نہیں ہے۔ کیا یہ ظلم کچھ کم ہے کہ ایک شخص قرض پر سرمایہ دے کر تو ایک خاص منافع کی ضمانت حاصل کر لے مگر جو لوگ کاروبار کو پروان چڑھانے کے لیے وقت‘ محنت اور ذہانت صرف کریں ان کے لیے سرے سے کسی منافع کی کوئی ضمانت نہ ہو بلکہ نقصان ہونے کی صورت میں بھی وہ دائن کو اصل مع سود دینے کے ذمہ دار ہیں؟ تمام خطرہ (Risk) محنت اور کام کرنے والے فریق کے حصے میں‘ اور خالص منافع روپیہ دینے والے فریق کے حصہ میں‘ یہ آخر انصاف کیسے ہو سکتا ہے۔ اس لیے سود بہرحال ظلم ہے‘ خواہ وہ شخصی حاجات کے قرضوں میں ہو یا کاروباری اغراض کے قرضوں میں۔ انصاف چاہتاہے کہ اگر آپ قرض دیتے ہیں تو صرف اپنا راس المال واپس ملنے کی ضمانت حاصل ہو اور اگر آپ کاروبار میں روپیہ لگانا چاہتے ہیں تو پھر شریک کی حیثیت سے روپیہ لگائیں۔
آٹھواں سوال:
اس سوال کا تفصیلی جواب میں اپنی کتاب ’’سود ‘‘ میں دے چکا ہوں۔ یہاں مختصر جواب عرض کرتا ہوں۔
(الف): صنعتی اداروں کے معمولی حصے بالکل جائز ہیں بشرطیکہ ان کا کاروبار بجائے خود حرام نوعیت کا نہ ہو۔
(ب): ترجیحی حصص‘ جن میں ایک خاص منافع کی ضمانت ہو‘ سود کی تعریف میں آتے ہیں اور ناجائز ہیں۔
(ج) : بینکوں کے فکسڈ ڈپارٹمنٹ کے متعلق دو صورتیں اختیار کیا جاسکتی ہیں جو لوگ صرف اپنے روپے کی حفاظت چاہتے ہوں اور اپنا روپیہ کسی کاروبار میں لگانے کے خواہش مند نہ ہوں‘ ان کے روپے کو بینک ’’امانت‘‘ رکھنے کے بجائے ’’قرض‘‘لیں اسے کاروبار میںلگا کر منافع حاصل کریں اور ان کا راس المال مدت مقررہ پر ادا کر دینے کی ضمانت دیں۔
اور جو لوگ اپنے روپے کو بینک کی معرفت کاروبار میں لگوانا چاہیں‘ ان کا روپیہ ’’امانت‘‘ رکھنے کے بجائے بینک ان سے ایک عام شراکت نامہ طے کے‘ ایسے تمام اموال کو مختلف قسم کے تجارتی‘ صنعتی‘ زراعتی یا دوسرے کاموں میں‘ جو بینک کے دائرۂ عمل میں آتے ہوں‘ لگائے اور مجموعی کاروبار سے جو منافع حاصل ہو‘ اسے ایک طے شدہ نسبت کے ساتھ ان لوگوں میں اسی طرح تقسیم کر دے جس طرح خود بینک کے حصہ داروں میں منافع تقسیم ہوتا ہے۔
(د): بینکوں سے لیٹر آف کریڈٹ کھولنے کی مختلف صورتیں ہیں جن کی شرعی پوزیشن جداگانہ ہے۔ جہاں بینک کو محض ایک اعتماد نامہ دینا ہو کہ یہ شخص بھروسے کے قابل ہے‘ وہاں بینک جائز طور پر صرف اپنے دفتری اخراجات کی فیس لے سکتا ہے اور جہاں بینک دوسرے فریق کو رقم ادا کرنے کی ذمہ داری لے وہاں اسے سود نہیں لگانا چاہیے۔ اس کے بجائے مختلف جائز طریقے اختیار کیے جاسکتے ہیں مثلاً بینکوں کے کرنٹ اکائونٹ میں کاروباری لوگوں کی جو رقمیں رہتی ہیں ان پر کوئی سود نہ دیا جائے بلکہ حساب کتاب رکھنے کی اجرت لی جائے اور ان رقموں کو قلیل المیعاد قرضوں کی صورت میں کاروباری لوگوںکوبلاسود دیا جائے۔ ایسے قرض داروں سے بینک اس رقم کا سود تو نہ لیں البتہ وہ اپنے دفتری اخراجات کی فیس ان سے لے سکتے ہیں۔
(ھ) حکومت خود‘ یا اپنی زیر اثر جتنے ادارے بھی قائم کرے ان سے سود کے عنصر کو خارج ہونا چاہیے۔ اس کے بجائے دوسرے طریقے تھوڑی توجہ اور قوتِ اجتہاد سے کام لے کر نکالے جاسکتے ہیں جو جائز بھی ہوں اور نفع بخش بھی۔ اس طرح کے تمام اداروں کے بارے میں کوئی ایک جامع گفتگو چند الفاظ میں یہاں نہیں کی جاسکتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پہلے حرام چیزکو حرام مان لیا جائے۔ پھر اس سے بچنے کا ارادہ ہو۔ اس کے بعد ہر کارپوریشن کے لیے ایک ایسی کمیٹی بنائی جائے جو اس کارپوریشن کے تمام کاموں کو نگاہ میں رکھ کر یہ دیکھے کہ اس کے مختلف کام کہاں کہاں حرام طریقوں سے ملوث ہوتے ہیں اور ان کا بدل کیا ہے جو اسلامی احکام کی رُو سے جائز بھی ہو اور قابلِ عمل اور نفع بخش بھی اوّلیں چیز ہماری اس ذہنیت کی تبدیلی ہے کہ اہلِ مغرب کے جن پٹے ہوئے راستوں پر چلنے کے ہم پہلے سے عادی چلے آرہے ہیں انہی پر ہم آنکھیں بند کرکے چلتے رہنا چاہتے ہیں اور سارازور اس بات پر صرف کر ڈالتے ہیں کہ کسی طرح انہی راستوں کو ہمارے لیے جائز کر دیا جائے۔ ہماری سہولت پسندی ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ہم کچھ دماغ سوزی اور کچھ محنت کرکے کوئی نیا راستہ نکالیں۔ تقلید جامد کی بیماری بدقسمتی سے ساری قوم کو لگی ہوئی ہے۔ نہ جبہ پوش اس سے شفا پاتے ہیں نہ سوٹ پوش۔
(و): گورنمنٹ کے قرضے جہاں تک اپنے ملک سے حاصل کیے جائیں‘ ان پر سود نہ دیا جائے۔ اس کے بجائے حکومت اپنی ایسے منصوبوں کو جن میں قرض کا روپیہ لگایا جاتا ہے‘ کاروباری اصول پر منظم کرے اور ان سے جو نفع حاصل ہو اس سے ایک طے شدہ تناسب کے ساتھ ان لوگوںکو حصہ دیتی رہے جن کا روپیہ وہ استعمال کرتی ہے۔ پھر جب وہ مدت ختم ہو جائے جس کے لیے ان سے روپیہ مانگا گیا تھا اور ان لوگوںکا راس المال واپس کردیا جائے تو آپ سے آپ منافع میں ان کی حصہ داری بھی ختم ہو جائے گی۔ اس صورت میں درحقیقت کوئی بہت بڑا تگیر کرنا نہیں ہوگا۔ متعین شرح سود پر جو قرض لیے جاتے ہیں ان کو تبدیل کرکے بس متناسب منافع پر حصہ داری کی صورت دینی ہوگی۔
غیر ملکوں سے جو قرض لیے جاتے ہیں ان کا مسئلہ اچھا خاصا پیچیدہ ہے جب تک پوری تفصیل کے ساتھ ایسے تمام قرضوں کا جائزہ نہ لیا جائے‘ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان کی نوعیتیں کیا کیا ہیں اور ان کے معاملے میں حرمت سے بچنے کے لیے کس حد تک کیا کچھ کہا جاسکتا ہے۔ البتہ اصولی طور پر جو بات میں کہہ سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہمیں پہلے اپنی تمام توجہ اندرون ملک سے سود کو ختم کرنے پر کرنی چاہیے اور بیرون ملک میں جہاں سودی لین دین سے بچائو کی کوئی صورت نہ ہو وہاں اس وقت تک اس آفت کو برداشت کرنا چاہیے جب تک اس سے بچنے کی صورتیں نہ نکل آئیں۔ ہم اپنے اختیار کی حد تک خدا کے سامنے جواب دہ ہیں۔ اس حد تک اگر ہم گناہ سے بچیں تو مجبوری کے معاملے میں ہم معافی کی امید رکھ سکتے ہیں۔ (ترجمان القرآن: مئی و جون 1960ء)
مسئلہ سود اور دارالحرب
(از جناب مولانا مناظر احسن صاحب گیلانی مرحوم)
(سود کی بحث میں علما کے ایک گروہ نے یہ پہلو بھی اختیار کیا ہے کہ ہندوستان دارالحرب ہے اور دارالحرب میں حربی کافروں سے سود لینا جائزہ ہے۔ جناب مولانا مناظر احسن صاحب نے ذیل کے مضمون میں اس پہلو کو پوری قوت کے ساتھ پیش فرمایا ہے اور ہم یہاں اسے اس لیے نقل کر رہے ہیں کہ یہ پہلو بھی ناظرین کے سامنے آجائے۔ اس مضمون پر مفصل تنقید ہم نے بعد کے باب میں کی ہے لیکن بعض امور کا جواب برسر موقع حواشی میں بھی دے دیا ہے۔ اس بحث کا مطالعہ کرتے وقت یہ بات ملحوظ خاطر رکھنی چاہیے کہ یہ بحث 1936-37ء میں ہوئی تھی۔)
غیر اسلامی مقبوضات کے متعلق اسلامی نقطۂ نظر:
غیر اسلامی مقبوضات کی دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں یا تو اس ملک میں اسلامی حکومت کبھی قائم نہیں ہوئی‘ یا ہوئی‘ لیکن بین الاقوامی کش مکش کے سلسلے میں اس ملک پر غیر اسلامی قوتوں کا قبضہ ہو گیا۔ پہلی صورت میں تو ایسے ملک کے غیر اسلامی مقبوضہ اور غیر مسلم مملکت ہونے میں کیا شبہ ہے۔ غیر اسلامی حکومت کو اسلامی حکومت کون کہہ سکتا ہے؟ لیکن بحث ذرا دوسری صورت میں پیدا ہو جاتی ہے۔ قاضی القضاۃ للدولۃ العباسیہ امام ابو یوسف اور مدوِنِ فقہ امام محمد شیبانی کا اس کے متعلق فتویٰ یہ ہے:
’’دارالاسلام (اسلامی ملک) اس وقت دارالکفر (غیر اسلامی ملک) ہو جاتا ہے جب کہ غیر اسلامی (کفر کے) قوانین کا وہاں ظہور (نفاذ) ہو جائے۔ (برائع الصنائع کاسانی ج 7‘ ص13)
فتاویٰ عالمگیریہ میں غیر اسلامی احکام کے ظہور کی شرح یہ کی گئی ہے ’’اعلانیہ ظہور اور اس ملک میں اہلِ اسلام کے قوانین سے فیصلے نہ کیے جائیں۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ جس ملک میں اللہ کے کلام اور خاتم النبینؐ کے ارشادات گرامی سے اخذ کردہ قانون نافذ نہ رہے وہی ملک غیر اسلامی ملک اور وہی حکومت غیر اسلامی حکومت سمجھی جائے گی۔ خواہ وہاں کوئی قانون نافذ نہ ہو‘ یا ہو تو غیر اسلامی دماغوں یا غیر اسلامی مستندات سے ماخوذ ہو۔ بہرحال جس ملک سے اسلامی حکومت کا قانون زائل ہو گیا اور اس میں غیر اسلامی قانون نافذ ہو گیا نہ وہ اسلامی ملک باقی رہتا ہے اور نہ وہ حکومت اسلامی حکومت سمجھی جا سکتی ہے اور یہ تو پھر بھی ایک اجمالی تعبیر ہے‘ امام الائمہ ابو حنیفہ رحمتہ اللہ نے زیادہ وضاحت سے کام لے کر غیر اسلامی ملک کی حقیقی تنقیح ان لفظوں میں فرمائی:
ترجمہ: ’’دارالاسلام (اسلامی ملک) دارالکفر (غیر اسلامی ملک) تین شرطوں سے ہوتا ہے۔ ایک تو یہ کہ کفر کے احکام (غیر اسلامی قوانین) کا وہاں ظہور (نفاذ) ہو جائے۔ دوسرے یہ کہ کسی دارالکفر (غیر اسلامی ملک) سے متصل ہو۔ تیسرے یہ کہ اس ملک میں کوئی مسلمان یا ذمی اس امان کے ساتھ نہ ہو جو اسے پہلے حاصل تھی۔‘‘ (بدائع الصنائع کاسی۔ ج:7‘ ص:13)
یوں تودنیا میں اس وقت زیادہ تر غیر اسلامی حکومتیں ہیں‘لیکن نہ ان کے واقعی حالات میرے سامنے ہیں اور نہ ان کی تمام خصوصیات کے متعلق میرے پاس کوئی شرعی شہادت موجود ہے۔ لیکن ہندوستان ہمارے سامنے موجود ہے۔ بطور مثال اسی ملک کو لینا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ نے غیر اسلامی ملک کی جو قانونی تنقیح فرمائی ہے وہ اس پر کس حد تک منطبق ہے۔
یہ ظاہر ہے کہ اس ملک میںشریعت کی نہیں بلکہ انگریزی قانون کی حکومت ہے۔ کلام اللہ اور احادیث نبویہ سے جو اسلامی قانون پیدا ہوتا ہے وہ یہاں قطعاً نافذ نہیں ہے بلکہ غیر اسلامی دماغوں (خواہ وہ ایک ہوں یا چند‘ ہندی ہوں یا غیر ہندی) کے تجویز کردہ قوانین اس ملک میں نافذ ہیں۔ اس لحاظ سے تو اس میں شک کی گنجائش نہیں ہے کہ غیر اسلامی احکام کا ظہور ’’نفاذ‘‘ جو امام رحمتہ اللہ علیہ کی تنقیح کی پہلی شرط تھی وہ اس پر بالکلیہ منطبق ہے۔
اسی طرح دوسری شرط کے انطباق پر بھی کون شبہ کر سکتا ہے‘ جغرافیائی طور پر کس کو معلوم نہیں ہے کہ ہندوستان کے اکثر حدود غیر اسلامی ممالک اور حکومتوں سے متصل ہیں اور اس طرح متصل ہیں کہ بیچ میں کوئی اسلامی ملک واقع نہیں ہوتا۔ عالمگیری میں ہے ’’عدم اتصال کا مطلب یہ ہے کہ دارالکفر اور دارالاسلام کے درمیان کوئی اسلامی شہر واقع نہ ہو۔‘‘ (منقول از شامی ص 277)
شمال اور مشرق تو خشکی کے حدود سے محدود ہیں۔ رہے دریائی حدود تو اولاًبالبداہۃ ان دریائوں پر غیر اسلامی قوتوں کا کامل اقتدار موجود ہے حتیٰ کہ بغیر ان کی اجازت کے ان سمندروں میں کوئی دوسرا اپنا کوئی جہاز بھی چلا نہیں سکتا اور بالفرض اگر ایسا نہ بھی ہو تو صرف خشکی کا اتصال ہی تکمیل شرط کے لیے کافی ہے۔ نیز فقہائے اسلام کی عام تصریح سمندروں کے متعلق یہ ہے ’’دریائے شور کا شمار غیر اسلامی مقبوضات میں ہے۔‘‘ (شاہی : 277)
بہرحال جس طرح بھی سوچو‘ اس شرط کی تحقیق میں بھی کوی دغدغہ باقی نہیں ہے۔ امام رحمتہ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ اگر کسی ایسے ملک پر غیر اسلامی حکومت قابض ہو جائے جو چاروں طرف سے اسلامی حکومت و اقتدارسے محصور ہو تو یہ قبضہ دیرپا اورایسا نہیں سمجھا سکتا کہ اب اسلامی حکومت کا قیام وہاں مشکل ہے۔ فقہا نے اس کی تصریح بھی کی ہے اور آگے ایک مسئلہ کے ذیل میں اس کا کچھ حصہ آئے گا۔
اب رہ گئی تیسری شرط‘ تو ظاہر ہے کہ مختلف قوانین و تعزیرات کے ذیل میں قوموں کے ساتھ مسلمانوںکو بھی یہاں آئے دن پھانسی دی جاتیہے اور اس کی بالکل پروا نہیں کی جاتی کہ آیا اسلامی قانون کی رو سے بھی یہ شخص جانی امان کے دائرے سے نکل چکا ہے یا نہیں۔ اسی طرح یہاں کی عدالتں عام طور پر موجودہ قوانین کی رو سے مسلمانوں کا مال دوسروں کو دلا رہی ہیں اور اس امر کا کوئی لحاظ نہیں کیا جاتا کہ اس شخص کا مال اسلامی قانون کی رو سے بھی دوسرے کو دلانا جائز ہے یا نہیں۔ روز مرہ لاکھوں اور کروڑوں روپے کی سود کی ڈگریاں عدالتوں سے جاری ہو رہی ہیں اور ایک سود کیا ایسی بے شمار صورتیں ہیں جن میں اسلامی شریعت کے لحاظ سے ایک شخص کا مال مامون اور محفوظ سمجھا جاتا ہے لیکن ملکی قانون اس کا حق دار دوسروں کو سمجھتا ہے۔
یہ تو جانی اور مالی امان کا حال ہوا‘ اب عزت کی امان کا حال دیکھو! مسلمانوں کوقید کی‘ عبور دریائے شور کی‘ جرمانہ کی‘ تازیانے کی اور مختلف قسم کی سزائیں مختلف قانونی دفعات کے ذیل میں دی جاتی ہیں۔ لیکن کیا اس وقت اس کا بھی خیال کیا جاتا ہے کہ اس سزا پانے والے کی عزت اسلامی قانون کی رو سے بھی اس سلوک کی مستحق ہو چکی تھی؟ میں نہیں کہنا چاہتا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو امن نصیب نہیں ہے بلکہ میری مراد یہ ہے کہ انہیں اسلامی امن حاصل نہیں ہے کیوں کہ امام ابو حنیفہؒ نے کود امان کی تشریح میں جو ارشاد فرمایا وہ یہ ہے’’وہ امان جو مسلمانوںکے قانون کے لحاظ سے ہو۔‘‘
عالمگیری میں اس کی توضیح اور زیادہ کھلے لفظوں میں کر دی گئی ہے ’’غیر اسلامی حکومت کے تسلط سے پیشتر مسلمانوں کو اپنے اسلام کی وجہ سے اور ذمیوں کو عقد ذمہ کی وجہ سے جو امان تھی وہ باقی نہ رہے۔‘‘ (منقول از شامی: ج3‘ ص:277)
اور واقع بھی یہی ہے کہ جس ملک میں غیر اسلامی قوتوں کی حکومت قائم ہو چکی ہے اور جس ملک میں غیر اسلامی قوانین نافذ ہو چکے ہیں اس کو اسلامی ملک کہنا یا وہاں اسلامی راج ہونے کا دعویٰ کرنا ایک عجیب بات معلوم ہوتی ہے۔ دوسروں کے ملک کو‘ دوسروں کی حکومت کو زبردستی اسلامی ملک فرض کرنے کی دنیا کی کون سی حکومت مسلمانوںکو اجازت دے سکتی ہے؟ بلکہ ممکن ہے کہ وہ اسے جرم قرار دے۔
اسلامی فقہا کبھی کبھی اس ملک کی تعبیر دارالحرب سے کرتے ہیں۔ غالباً اسی سے لوگوں کو غلط فہمی ہوئی۔ ورنہ واقعہ یہ ہے کہ متقدین علمائے اسلام زیادہ تر ایسے ممالک کے متعلق دارالاسلام مے مقابلے میں دارالکفر کی اصطلاح استعمال کرتے تھے۔ابھی بھی صاحب بدائع کی عبادت گزر چکی۔ انہوں نے اپنی کتاب میں عموماً دارالکفر کی اصطلاح لکھی ہے جس کے سیدھے اور سادے معنی یہ ہیں کہ ’’جہاں اسلامی حکومت نہ ہو۔‘‘ آخر جہاں اسلامی حکومت نہ ہوگی‘ جو ملک مسلمانوں کے قبضے میں نہ ہوگا‘ اس کو کیا مسلمان‘ مسلمانوں کی حکومت اور مسلمانوں کا ملک کہہ دیں؟ لفظوں پر چونکنے کا یہ عجیب لطیفہ ہے۔ یہ تو پہلے سوال کا جواب تھا۔ اب دوسرے سوال کی تفصیل سنیے۔
غیر اسلامی حکومتوں میں مسلمانوں کی زندگی کا دستورالعمل:
اسلام مسلمانوںکو آزاد فرض کرتا ہے اور آزادی کو ان کا فطری اور آسمانی حق قرار دیتا ہے‘ لیکن فقہائے اسلام نے یہ فرض کرکے کہ اگر عارضی طور پر کسی مسلمان کو گیر اسلامی حکومت میں کسی وجہ سے جانے اور رہنے کی ضرورت پیش آئے تو اس وقت اس حکومت کے باشندوں سے اس کے تعلقات کی کیا نوعیت ہوگی‘ اسلامی قانون کی صراحت کر دی ہے۔ ظاہر ہے کہ قانونی طور پر اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ اس مسلمان نے اس ملک کی حکومت سیاس امرکا معاہدہ کیا ہے کہ وہ اس ملک کے قوانین نافذہ کی پابندی کرے گا‘ یعنی امن وامان میں خلل انداز نہ ہوگا۔ شریعتِ اسلامیہ کی اصطلاح میں ایسے مسلمان کو ’’مسلم مستامن‘‘ کہتے ہیں۔ قرآن پاک کے معاہدے کے متعلق عام قانون یہ ہے ’’کامیاب مسلمان وہ ہیں جو اپنے وعدوں کی نگرانی کرتے ہیں‘ معاہدوں کی پابند کرو۔‘‘
اسلام نے ’’معاہدہ‘‘ کو مسٔولیت اور ذمہ داری کے ساتھ بشدت وابستہ کر دیا ہے اوریہ تو عام معاہدوں کے متعلق تعلیم ہے خصوصیت کے ساتھ بین الاقوامی معاہدوں کے متعلق ایک واضح قانون ان لفظوں میں مسلمانوں پر عائد کیا گیا ہے:
’’جن مشرکین سے تم نے معاہدہ کیا پھر انہوں نے اس معاہدہ کے کسی حصے کو نہیں توڑا اور تمہارے مقابلے میں کسی دوسرے کی انہوں نے مدد نہیں کی تو ان کے عہد کو پورا کرو۔‘‘ (سورۂ توبہ:4)
اس وقت اس کی تفصیل کا موقع نہیں کہ ’’عدم عہد‘‘ یا غیر اقوام کے ’’نقص، عہد‘‘ پر کیا احکام مترتب ہوتے ہیں۔ یہاں ’’قانونِ معاہدہ‘‘ کی صرف اس دفعہ کو پیش کرنا ہے جس کی بنیاد پر مسلمانوں کے لیے ان کے معاہدوں کی تکمیل لازمی اور ضروری ہو جاتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بھی تفصیل فرما دی ہے کہ جو مسلمان معاہدہ کو توڑے گا مذہبی حیثیت سے اس کا کیا انجام ہوگا۔
ارشاد نبویؐ ہے ’’معاہدہ توڑنے والے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا گاڑا جائے گا کہ یہ پیمان شکنی کا نشان فلاں شخص کا ہے۔‘‘ (ابو دائود)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ پیمان شکن کے مقام مخصوص پر نشان گاڑا جائے۔ اور اسی سے وہ قیامت کے روز پہچاناجائے گا۔
جب لشکر کو رخصت فرماتے تو امرا جیوش کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ وصیت فرماتے ’’دیکھا کسی کے ساتھ خیانت نہ کرنا اور معاہدہ نہ توڑنا۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ علمائے اسلام نے ’’نقضِ عہد‘‘ کی اجماعی حرمت کا فتویٰ دیا ہے۔ ابن ہمام فرماتے ہیں ’’عہد شکنی (غدر‘‘ کے متعلق اجماع ہے کہ وہ حرام ہے۔‘‘ (فتح القدیر‘ ج: 5‘ ص: 336) (جاری ہے)