علامہ اقبال
فطرت کے مقاصد کي کرتا ہے نگہباني
يا بندہ صحرائي يا مرد کہستاني
دنيا ميں محاسب ہے تہذيب فسوں گر کا
ہے اس کي فقيري ميں سرمايہ سلطاني
يہ حسن و لطافت کيوں؟ وہ قوت و شوکت کيوں
بلبل چمنستاني، شہباز بياباني!
اے شيخ ! بہت اچھي مکتب کي فضا، ليکن
بنتي ہے بياباں ميں فاروقي و سلماني
صديوں ميں کہيں پيدا ہوتا ہے حريف اس کا
تلوار ہے تيزي ميں صہبائے مسلماني
…٭…
مجید لاہوری
زہے قسمت ہلال عید کی صورت نظر آئی
جو تھے رمضان کے بیمار ان سب نے شفا پائی
پہاڑوں سے وہ اترے قافلے روزہ گزاروں کے
گیا گرمی کا موسم، اور آئے دن بہاروں کے
اٹھا ہوٹل کا پردہ، سامنے پردہ نشیں آئے
جو چھپ کر کر رہے تھے احترام حکم دیں آئے
ہوئی انگور کی بیٹی سے ’’مستی خان‘‘ کی شادی
کھلے در مے کدوں کے اور ملی رندوں کو آزادی
نوید کامرانی لا رہے ہیں ریس کے گھوڑے
مسرت کے ترانے گا رہے ہیں ریس کے گھوڑے
مبارک ہو کہ پھر سے ہو گیا ’’ڈانس‘‘ اور ’ڈنر‘‘ چالو
خلاص اہل نظر ہوں گے ہوا درد جگر چالو
نماز عید پڑھنے کے لیے سرکار آئے ہیں
اور ان کے ساتھ سارے طالب دیدار آئے ہیں
یہی دن اہل دل کے واسطے امید کا دن ہے
تمہاری دید کا دن ہے ہماری عید کا دن ہے
…٭…
شیخ ظہور الدین حاتم
آئی عید و دل میں نہیں کچھ ہوائے عید
اے کاش میرے پاس تو آتا بجائے عید
قربان سو طرح سے کیا تجھ پر آپ کو
تو بھی کبھو تو جان نہ آیا بجائے عید
جتنے ہیں جامہ زیب جہاں میں سبھوں کے بیچ
سجتی ہے تیرے بر میں سراپا قبائے عید
…٭…
جشن عید/شکیب جلالی
سبھی نے عید منائی مرے گلستاں میں
کسی نے پھول پروئے کسی نے خار چنے
بنام اذن تکلم بنام جبر سکوت
کسی نے ہونٹ چبائے کسی نے گیت بنے
بڑے غضب کا گلستاں میں جشن عید ہوا
کہیں تو بجلیاں کوندیں کہیں چنار جلے
کہیں کہیں کوئی فانوس بھی نظر آیا
بطور خاص مگر قلب داغ دار جلے
عجب تھی عید خمستاں عجب تھا رنگ نشاط
کسی نے بادہ و ساغر کسی نے اشک پئے
کسی نے اطلس و کمخواب کی قبا پہنی
کسی نے چاک گریباں کسی نے زخم سیے
ہمارے ذوق نظارہ کو عید دن بھی
کہیں پہ سایۂ ظلمت کہیں پہ نور ملا
کسی نے دیدہ و دل کے کنول کھلے پائے
کسی کو ساغر احساس چکنا چور ملا
بہ فیض عید بھی پیدا ہوئی نہ یک رنگی
کوئی ملول کوئی غم سے بے نیاز رہا
بڑا غضب ہے خدا وند کوثر و تسنیم
کہ روز عید بھی طبقوں کا امتیاز رہا
نذیر بنارسی
بچھڑے ہوؤں کو بچھڑے ہوؤں سے ملائے ہے
ہر سمت عید جشن محبت منائے ہے
انسانیت کی پینگ محبت بڑھائے ہے
موسم ہر اک امید کو جھولا جھلائے ہے
بارش میں کھیت ایسی طرح سے نہائے ہے
رونق ہر اک کسان کے چہرے پہ آئے ہے
ہم سب کو اپنے گھیرے میں لینے کے واسطے
چاروں طرف سے گھر کے گھٹا آج آئے ہے
حیوانیت نے خون کے دھبے جنم دیے
برسات آ کے خون کے دھبے چھڑائے ہے
شہزادئ بہار کی آمد ہے باغ میں
ہر ایک پھول راہ میں آنکھیں بچھائے ہے
ہے کتنی پیاری پیار بھری عید کی ادا
اپنا سمجھ کے سب کو گلے سے لگائے ہے
سچ پوچھیے تو یہ بھی محبت کا ہے ثبوت
جو رائے آپ کی ہے وہی میری رائے ہے
بوچھاریں آ کے دیتی ہیں اس کو سلامیاں
بنسی بجا بجا کے جو میلہ لگائے ہے
میں جاؤں گا تو پھر کبھی واپس نہ آؤں گا
کالی گھٹا تو ہر برس آئے ہے جائے ہے
عید الفطر کی وجہ شرافت تو دیکھیے
ہر سال آ کے سب کو گلے سے لگائے ہے
دیجے دعائیں عید کی تیوہار کو نذیرؔ
اک بھیڑ آج آپ سے ملنے کو آئے ہے
…٭…
عید کا دن ہے گلے آج تو مل لے ظالم
رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے
قمر بدایونی
…٭…
تجھ کو میری نہ مجھے تیری خبر جائے گی
عید اب کے بھی دبے پاؤں گزر جائے گی
ظفر اقبال
…٭…
جس طرف تو ہے ادھر ہوں گی سبھی کی نظریں
عید کے چاند کا دیدار بہانہ ہی سہی
امجد اسلام امجد
…٭…
فلک پہ چاند ستارے نکلنے ہیں ہر شب
ستم یہی ہے نکلتا نہیں ہمارا چاند
پنڈت جواہر ناتھ ساقی
…٭…
عید کا دن ہے گلے مل لیجے
اختلافات ہٹا کر رکھیے
عبد السلام بنگلوری
…٭…
بھیڑ تنہائیوں کا میلا ہے
آدمی آدمی اکیلا ہے
صبا اکبرآبادی
…٭…
مل رہی ہو بڑے تپاک کے ساتھ
مجھ کو یکسر بھلا چکی ہو کیا
جون ایلیا
…٭…
شکیل بدایونی
اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا
جانے کیوں آج ترے نام پہ رونا آیا
یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی ہے
آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا
کبھی تقدیر کا ماتم کبھی دنیا کا گلہ
منزل عشق میں ہر گام پہ رونا آیا
مجھ پہ ہی ختم ہوا سلسلۂ نوحہ گری
اس قدر گردش ایام پہ رونا آیا
جب ہوا ذکر زمانے میں محبت کا شکیلؔ
مجھ کو اپنے دل ناکام پہ رونا آیا
…٭…
آفاق صدیقی
کیا زمیں کیا آسماں کچھ بھی نہیں
ہم نہ ہوں تو یہ جہاں کچھ بھی نہیں
دیدہ و دل کی رفاقت کے بغیر
فصل گل ہو یا خزاں کچھ بھی نہیں
پتھروں میں ہم بھی پتھر ہو گئے
اب غم سود و زیاں کچھ بھی نہیں
کیا قیامت ہے کہ اپنے دیس میں
اعتبار جسم و جاں کچھ بھی نہیں
کیسے کیسے سر کشیدہ لوگ تھے
جن کا اب نام و نشاں کچھ بھی نہیں
ایک احساس محبت کے سوا
حاصل عمر رواں کچھ بھی نہیں
کوئی موضوع سخن ہی جب نہ ہو
صرف انداز بیاں کچھ بھی نہیں
…٭…
عابد ادیب
سفر میں ایسے کئی مرحلے بھی آتے ہیں
ہر ایک موڑ پہ کچھ لوگ چھوٹ جاتے ہیں
یہ جان کر بھی کہ پتھر ہر ایک ہاتھ میں ہے
جیالے لوگ ہیں شیشوں کے گھر بناتے ہیں
جو رہنے والے ہیں لوگ ان کو گھر نہیں دیتے
جو رہنے والا نہیں اس کے گھر بناتے ہیں
جنہیں یہ فکر نہیں سر رہے رہے نہ رہے
وہ سچ ہی کہتے ہیں جب بولنے پہ آتے ہیں
کبھی جو بات کہی تھی ترے تعلق سے
اب اس کے بھی کئی مطلب نکالے جاتے ہیں
…٭…
نظم/عادل اسیر دہلوی
خدا کی یہ باتیں خدا جانتا ہے
نکلتا ہے مشرق سے کس طرح سورج
فلک پر چمکتا ہے یہ چاند کیوں کر
کہاں سے سمندر میں آتے ہیں طوفاں
اجالا ہے کیسا یہ شمس و قمر پر
خدا کی یہ باتیں خدا جانتا ہے
بہاروں کا گل کو پتا کس طرح ہے
ادا غنچوں کو یہ چٹکنے کی کیوں دی
کہاں سے ہے آیا خزاں کا یہ موسم
گھٹا کو یہ خوبی برسنے کی کیوں دی
خدا کی یہ باتیں خدا جانتا ہے
…٭…
عاجز ہنگن گھاٹی
زخموں کے دہن بھر دے خنجر کے نشاں لے جا
بے سمت صداؤں کی رفعت کا گماں لے جا
احساس بصیرت میں عبرت کا سماں لے جا
اجڑی ہوئی بستی سے بنیاد مکاں لے جا
شہروں کی فضاؤں میں لاشوں کا تعفن ہے
جنگل کی ہوا آ جا جسموں کا دھواں لے جا
ہے اور ابھی باقی تاریک سفر شب کا
اگنے دے نیا سورج پھر چاہے جہاں لے جا
جلتی ہوئی راتوں کا بجھتا ہوا منظر ہوں
گھر آ کے کبھی عاجزؔ مجھ سے یہ سماں لے جا
…٭…
فرازؔ ترک تعلق تو خیر کیا ہوگا
یہی بہت ہے کہ کم کم ملا کرو اس سے
احمد فراز
…٭…
نقشہ اٹھا کے کوئی نیا شہر ڈھونڈیئے
اس شہر میں تو سب سے ملاقات ہو گئی
ندا فاضلی
…٭…
آج تو مل کے بھی جیسے نہ ملے ہوں تجھ سے
چونک اٹھتے تھے کبھی تیری ملاقات سے ہم
جاں نثاراختر
…٭…
اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں
فیضان محبت عام سہی عرفان محبت عام نہیں
محمد خالد
…٭…
جانے والے سے ملاقات نہ ہونے پائی
دل کی دل میں ہی رہی بات نہ ہونے پائی
شکیل بدایونی