’’آئرلینڈ میں آئی سرجن (آنکھوں کی جراحی) کی تربیت مکمل ہونے کے بعد شاید میں وہ واحد آئی سرجن ہوں جسے میرے ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ پروفیسر کیگن نے اپنے پاس مستقل کام کرنے کی دعوت دی تھی۔ مگر مجھے پاکستان کے پسماندہ علاقوں کے لیے کام کرنا تھا، اس لیے بہت زیادہ مراعات چھوڑ کر اب گلگت بلتستان میں آغا خان ہیلتھ سروسز کے تعاون سے ادارہ چلا رہی ہوں۔‘‘ یہ کہنا ہے سرجن ڈاکٹر زبیدہ سیرنگ اسیر کا، جنھیں آنکھوں کے حوالے سے آپٹکس میڈ ایزی لاسٹ منٹ ریویو آف کلینکل آپٹکس نامی تحقیقاتی کتاب لکھنے پر عالمی شہرت ملی ہے۔ ڈاکٹر زبیدہ سیرنگ اسیر اس وقت گلگت بلتستان کے دارالحکومت گلگت میں آغا خان ہیلتھ سروسز کے تعاون سے خدمات سر انجام دے رہی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ علاقے کی پہلی خاتون ہیں جنھوں نے آئی سرجری کے لیے بیرون ملک سے اعلیٰ تربیت حاصل کی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ خود کو بہت خوش نصیب سمجھتی ہیں کہ انہیں اپنے والد اور خاوند کا قدم قدم پر تعاون ملا ہے۔
’’آپ جانتے ہیں کہ اس وقت کتنی خواتین ڈاکٹر ہیں جن کے ساتھ ان کے خاوند تعاون نہیں کرتے اور وہ اس وقت گھروں میں بیٹھی ہیں۔ ان کی تعلیم پرنہ صرف یہ کہ ملک و قوم کا قیمتی خزانہ خرچ ہوتا ہے بلکہ وہ سیٹیں بھی استعمال کرکے کسی حق دار کا حق مار رہی ہوتی ہیں، جس سے اس وقت مختلف مسائل بھی پیدا ہورہے ہیں۔‘‘
انھوں نے بتایا کہ سرجری کی تربیت کے لیے آئرلینڈ اسکالرشپ دیتا ہے جس کے لیے انھوں نے درخواست دی اور انٹرویو کے بعد انھیں منتخب کرلیا گیا۔ انھوں نے بتایا کہ ’’میں نے جب میٹر یونیورسٹی ہسپتال ڈبلن آئرلینڈ سے اپنی تربیت کامیابی کے ساتھ مکمل کرلی تو اس کے بعد میرے پروفسیر کیگن نے مجھے بلا کر کہا کہ اتنے مخلص اور اچھے ڈاکٹر کم ہی دیکھے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمارے پاس ہی خدمات انجام دیں۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ اس دعوت کو چھوڑنا بہت ہی مشکل تھا مگر میں اپنے لوگوں کی خدمت کرنے کے جذبے سے سرشار تھی۔ اس موقع پر ضمیر نے یہ گوارا نہیں کیا کہ میں آئرلینڈ میں خدمات انجام دوں اور اپنے لوگوں کو چھوڑ دوں۔