چھوٹی سی کاوش

192

امی آج میں تراویح کے بعددوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنے جاؤں گا ،نائٹ میچ ہے شاید سحری کرکے ہی آؤں ۔احمد نے امی کو آج کے پروگرام سے مطلع کیا۔
کیوں بھئی ؟رمضان کی پوری رات آپ کرکٹ کی نظر کر دینگے ؟امی نے حیرت سے سوال کیا ۔
ارے امی !بہت دنوں سے دوست بلا رہے ہیں لیکن میں جاتا نہیں ، آپ جانتی ہیں سحری میں جلدی اٹھنا ہوتا ہے تہجد کے لیے لیکن آج سوچ رہا ہوں کہ ایک چکر لگا ہی لوں۔احمد نے تمہید باندھی
ٹھیک ہے بیٹا لیکن خیال رکھنا یہ وقت بہت قیمتی ہے ۔امی نے بس اتنا ہی کہا۔
احمد دو بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا ،حافظ قرآن بچپن سے ہی اپنے گھر کے دینی ماحول کے سبب نہایت نیک اور فرمانبردار تھا ۔حافظ قرآن ہونے کی وجہ سے اس سال رمضان کی تراویح پڑھانے کا شرف بھی اسے حاصل ہوا تھا ۔
تراویح پڑھا کر گھر آیا تو اس کا دوست ساجد انتظار میں کھڑا تھا ،احمد نے سوال کیا :ساجد آج تراویح کے لئے نہیں آئے ؟
ساجد :یار بس وہ میچ کے لیے لائٹننگ کرانے میں ذرا مصروف تھا ۔احمد اور ساجد میچ کے لیے نکلے تو رات کے بارہ بج رہے تھے لیکن باہر افراتفری کا سماں تھا کہیں کرکٹ چل رہا تھا تو کہیں بیڈمنٹن ،کہیں لڑکے جھنڈ کے جھنڈ بیٹھے اپنے فونز میں فیس بک اور یوٹیوب میں مشغول تھے ۔چائے کے ہوٹلوں میں تو اتنا رش تھا کہ گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی لمبی قطاریں تھیں۔ صرف ایک ہی نہیں بلکہ ہر ہوٹل کا یہی حال تھا ۔لڑکے اور ہر عمر کے مرد حضرات لغویات میں مصروف تھے ۔
احمد نے ساجد سے کہا: ساجد ! ان ہوٹلوں پے اتنا رش عام دنوں میں تو نہیں ہوتا ،آج تو ہفتے کی رات بھی نہیں ؟
ساجد : رمضان ہے نا! بس لوگ اسی طرح رمضان کی راتیں گزارتے ہیں اور دن بھر سو کر اپنا روزہ پورا کرتے ہیں ۔
گلیوں میں روشنی ہی روشنی اور میچ کی تیاریاں اپنے عروج پر تھیں۔
رمضان کی راتوں کا یہ ماحول دیکھ کر احمد کو گھٹن سی ہونے لگی ،میچ کے بعد سب لڑکوں نے ہوٹل کا رخ کیا جہاں پہلے سے کہیں زیادہ رش تھا، بیٹھنے تک کی جگہ نہیں تھی ۔احمد نے اپنے دوستوں سے معذرت چاہی اور گھر کی طرف نکل گیا ۔
گھر پہنچتے ہی احمد نے بہن سے سحری بنانے کا کہا اور تہجد پڑھنے لگا اس کا دل بہت غمزدہ تھا ،سحری کرتے ہوئے بھی وہ بالکل خاموش تھا امی نے وجہ پوچھی تو احمد نے سارا حال سنا ڈالا ۔
امی: واقعی ،اپنی نسل نو کی یہ حالت دیکھی نہیں جاتی، لیکن احمد ! کیا آپ نے اپنے دوستوں کو رمضان کی اہمیت وفضیلت نہیں بتائی ؟
احمد : امی میں کیسے بتاتا ،وہ لوگ میری بات مانتے ہیں کب۔
امی: وہ مانتے یا نا مانتے آپ کو اپنی بات کرنا چاہیے تھی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی سنایا گیا، تکالیف دی گئیں لیکن آپ نے دین کی تبلیغ نہ چھوڑی۔
لیکن وہ تو اللّه کے رسول تھے ،مجھ میں اتنی ہمّت کہاں ۔احمد نے کہا ۔
احمد سوچ میں پڑھ گیا ۔
دوسرے دن احمد نے اپنے دوستوں کو افطار پر بلایا ،افطار کے بعد اک چھوٹا سا بیان دیا ۔
احمد : دوستو!ہم تھوڑی دیر کے لیے یہ تصور کریں کہ یہ اگر ہمارا آخری رمضان ہو،پھر اک حدیث سنا ئی۔
“ہلاکت ہے ایسے شخص کے لیے جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور اپنی مغفرت نہ کروا سکا” ۔
ذرا سوچو یہ رمضان تو بہت ہی برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہے اس میں ہر نیکی کا اجر ستر گنا زیادہ ہو جاتا ہے ،دعا کی قبولیت بڑھ جاتی ہے ،جنّت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنّم بند کر دی جاتی ہے ۔یہ نیکیوں کا سیزن ہے میرے دوستو اسے ضائع نہ ہونے دینا ۔اسکا ہر لمحہ قیمتی ہے ۔
احمد کے دوست خاموشی سے اسکی بات سن رہے تھے اور دل ہی دل میں شرمندہ تھے ۔
آج تراویح کے بعد جب احمد نے پیچھے دیکھا تو اسکے دوست بھی تراویح پڑھتے نظر آئے جسے دیکھ کر احمد کادل خوشی سے جھوم اٹھا ۔

حصہ