جسارت میگزین: اپنے حالاتِ زندگی کے بارے میں کچھ بتایئے گا۔
طاہر سلطانی: میں 3 فروری 1953ء کو بھارت کے ضلع یوپی کے ایک شہر اٹاوہ میں پیدا ہوا تھا اور اپنے والدین کے ساتھ بھارت سے ہجرت کرکے لیاقت آباد کراچی میں آباد ہوا۔ 1981ء میں میری شادی ہوئی۔ میرے پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ میں محسن اعظم ملیح آبادی سے اصلاح سخن لیتا ہوں۔ اب تک بے شمار حمد و نعت کے مشاعرے ترتیب دیے ہیں۔ میری زندگی کا مقصد حمد و نعت کی ترویج و اشاعت ہے۔
جسارت میگزین: آپ کے نزدیک علمِ عروض کی کیا اہمیت ہے؟
طاہر سلطانی: علم عروض اشعار تولنے کی ترازو ہے‘ اس علم کو جاننے کے فوائد اور نہ جاننے کے نقصانات پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے جس کا اعادہ بے کار ہے۔ علم عروض سیکھے بغیر شاعری کی جاسکتی ہے اس علم کے موجود خلیل ابن احمد تھے جن کا کہنا ہے کہ علم عروض سے مراد وہ علم ہے جس کے ذریعے کسی شعر کے موزوں یا ناموزوں ہونے کا پتا چلتا ہے۔ خلیل احمد نے یہ علم شہر مکہ‘ عرب میں ایجاد کیا تھا جس کا نام انہوں نے علم عروض رکھا۔ اس وقت مستند بحور کی تعداد 20 ہے جن میں سے سات مفرد بحور اور تیرہ مرکب بحور ہیں۔ بہت سے اساتذہ نے اپنی بحریں خود بنائیں اور ان میں اشعار بھی کہے۔ عربی عروض کے زحافات کی تعداد 36 ہے فی زمانہ علم عروض کے ماہرین کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔
جسارت میگزین: آپ کا نظریۂ ادب کیا ہے؟
طاہر سلطانی: شاعری اور زندگی کا چولی دامن کا ساتھ ہے شعرا ایک حساس طبقہ ہے وہ اپنے اردگرد کا ادراک رکھتے ہیں اور زندگی کے تمام مسائل پر لکھنا شاعر کی ذمہ داری ہے۔ ہر شاعر ظلم و استحصال کے خلاف آواز بلند کرتا ہے بہت سے شعرا صرف مزاحمتی شاعری کرتے ہیں زمینی حقائق کو شاعری میں بیان کرنا بہت ضروری ہے۔ وہ ادب جس میں اخلاقی اقدار ہوں‘ جس میں فکری بالادستی موجود ہو‘ جس میں انسان اور انسان دوستی کو موضوع بنایا گیا ہو‘ جو اپنے دور کے تقاضے پورے کرتا ہو‘ ان خصوصیات کا حاملِ ادب میرے نزدیک آفاقی ہے اور آفاقی ادب سچائی کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ادب میں نظریات کو بڑی اہمیت حاصل ہیٔ لیکن بڑا ادب صرف نظریات کے تحت ہی تخلیق نہیں کیا جاسکتا‘ دنیا کا سب سے قدیم ادب‘ جو نظریات کے تحت تخلیق نہیں ہوا تھا۔ ادب اپنے معاشرے اور ماحول کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ شاعر صرف حقیقت نگار نہیں ہوتا میرے نزدیک قلم کاروں کو معاشی ناہمواریوں‘ سماجی برائیوں‘ ظلم و استحصال کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے۔ اگر شاعر معاشرے کی اصلاح اور صحت مند ماحول کی تشکیل کے لیے اپنی صلاحیتیں استعمال نہیں کرتا تو وہ سماجی فریضہ انجام نہیں دیتا جب کہ ہر فرد پر لازم ہے وہ معاشرے کی فلاح و بہبود کے کام کرے خود بھی اچھے کام کرے اور دوسروں کو بھی نیک عمل کی تلقین کرے۔
جسارت میگزین: کیا اردو زبان و ادب کی ترویج واشاعت کے لیے مشاعرے ضروری ہیں؟
طاہر سلطانی: مشاعرہ وہ اجتماع ہوتا ہے جہاں شعرائے کرام اپنا کلام پیش کرتے ہیں اردو زبان کے فروغ میں مشاعروں کی بڑی اہمیت ہے کسی بھی زبان کی ترقی و ترویج کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ کثرت سے بولی اور سمجھی جائے اردو زبان کو عام کرنے میں دیگر سماجی اداروں کے علاوہ مشاعرے بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مشاعرے ذہنی تفریح کا ذریعہ ہونے کے علاوہ زبان و ادب کے سفیر ہیں۔
جسارت میگزین: الیکٹرانک میڈیا سے اردو زبان و ادب کو فائدہ ہوا ہے یا نقصان؟
طاہر سلطانی: یہ زمانہ سائنسی ایجادات کا زمانہ ہے جو بھی شاعر زمانے کے ساتھ نہیں چلے گا وہ رجعت پسند کہلائے گا۔ میڈیا کے پھیلائو نے ہمارے لیے آسانیاں پیدا کی ہیں لیکن اس سے کتب بینی کا ادارہ کمزور ہورہا ہے‘ دوسری بات یہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا سے اردو زبان متاثر ہو رہی ہے‘ بہت سے ٹی وی اینکر اردو زبان کے تلفظ کی ادائی میں گڑبڑ کرتے ہیں جس سے ہماری نئی نسل گمراہ ہو جاتی ہے۔ ایک زمانے میں ریڈیو اور ٹی وی پر صحیح اردو بولی جاتی تھی اب ان اداروں سے یہ روایت ختم ہو چکی ہے۔
جسارت میگزین: اس زمانے کی تنقید نگاری کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
طاہر سلطانی: تنقید نگاری ادب کا اہم ستون ہے۔ تنقید سے انسان میں شعور پیدا ہوتا ہے‘ اس دور میں تنقید کے حوالے سے جو کچھ لکھا جارہا ہے میرے نزدیک وہ تبصرے ہیں تنقید نہیں۔ تنقید کی اپنی زبان ہوتی ہے‘ اپنا پیرایۂ اظہار ہوتا ہے۔ اب تنقیدی روّیوں میں زبان و بیان کی خوبیاں ناپید ہوتی جارہی ہیں۔ ہمارے زمانے کے نقادوں نے تنقید کا حق ادا نہیں کیا۔ ایک اچھا تخلیق کار ہی ایک اچھا تنقید نگار ہوتا ہے۔ پچھلی نصف صدی میں تنقید کا معیار بہتر تھا اب زیادہ تر سفارشی تنقید یا مفاد پرست تنقید لکھی جارہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں تنقیدی شعور بغیر سچی تخلیق ممکن نہیں ہے جب کوئی فن پارہ تخلیق پاتا ہے تو اس کا سب سے پہلا ناقد خود صاحبِ تخلیق ہوتا ہے اس عمل سے ہم اپنی تخلیقی خرابیاں دور کرسکتے ہیں۔ ایک اچھے تنقید نگار کا کام یہ ہے کہ اعلیٰ تخلیقی شہ پاروں کو معنوی جہتوں میں متعارف کرائے۔ تنقید نگار کو جرأت مند اور غیر متعصب ہونا چاہیے‘ اسے ذاتی مراسم نبھانے کے بجائے اپنے زمانے کے ادبی شعور میں اضافہ کرنا چاہیے۔
جسارت میگزین: نعت نگاری کے بنیادی تقاضے کیا ہیں‘ کیا نعت نگاری میں تنقید کی گنجائش نکلتی ہے؟
طاہر سلطانی: نعت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی ہیں تعریف یا وصف بیان کرنا۔ لیکن ادبیات اور اصطلاحاتِ شاعری میں نعت کا لفظ صرف اور صرف حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح و تعریف بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ نعت کی دو اشکال ممکن ہے نمبر ایک نعتیہ شاعری‘ نمبر دو نعتیہ نثر نگاری۔ شاعری کی مختلف ہئیتوں مثلاً قصیدہ‘ مثنوی‘ غزل‘ نظم‘ رباعی‘ قطعہ‘ مسدس و مخمس وغیرہ میں کسی بھی ایک ہئیت میں نعت کہی جاسکتی ہے۔ نعت میں شمائل و فضائل حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ معمولات نبویؐ‘ غزواتِ نبویؐ‘ عباداتِ نبویؐ‘ آداب مجالس نبویؐ‘ پیغامات نبویؐ اور اخلاقِ نبویؐ کے بے شمار پہلو شامل ہیں اس کے علاوہ تمدنی زندگی کا کون سا پہلو ہے جس کی ترغیب و ترویج کا سامان نعت کے اندر موجود نہیں ہے۔ نعت ایک موضوعاتی شاعری ہے جس کا مرکز و محور آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
اردو نعت کا عصرِ جدید شروع ہو چکا ہے‘ نعت نگاری میں فکری اور فنی طور پر نئے امکانات روشن ہیں‘ نعت نگاری میں جوش کے بجائے ہوش کی ضرورت ہوتی ہے۔ نعت میں غلو یا جھوٹ کی گنجائش نہیں ہوتی۔ نعت نگاری میں عبد اور معبود کا خیال رکھنا ضروری ہے اس کے ساتھ ساتھ نعت میں تنقید نگاری جائز ہے کیوں کہ بہت سے ناسمجھ شعرائے کرام نعت میں ایسے الفاظ استعمال کر جاتے ہیں جو کہ شرک کے زمرے میں آتا ہے لہٰذا نعت کو تمام برائیوں سے پاک کرنا ایک اچھے نعت گو کے ذمہ ہے۔ عشق رسول میں ڈوبے بغیر نعت نہیں کہی جاسکتی۔
جسارت میگزین: آپ کے خیال میں اردو زبان کا مستقبل کیا ہے؟
طاہر سلطانی: اردو زبان بڑی وسیع القلب زبان ہے جو اردو ہم بول رہے ہیں یہ الفاظ نہ جانے کہاں کہاں سے آکر اردو میں شامل ہوئے ہیں اردو ہر وہ لفظ قبول کرلیتی ہے جو کہ اس کے مزاج کے مطابق ہو۔ اردو کے مقابلے میں انگریزی زبان بہت ترقی یافتہ ہو چکی ہے پوری دنیا میں انٹرنیٹ کی زبان انگریزی ہے ہمارے ملک میں انگریزی نافذ ہے جب کہ ہم چاہتے ہیں کہ اردو کو دفتری زبان بنا دیا جائے عدالتی ریمارکس کے باوجود اردو آج تک سرکاری زبان نہیں بن پائی۔ اردو کی راہ میں اسٹیبلشمنٹ حائل ہے اردو زبان اب دنیا کی چوتھی یا پانچویں بڑی زبان کے طور پر تسلیم کر لی گئی ہے۔ اب اردو سوفٹ ویئر دستیاب ہے لیکن ہم اردو کو رومن انگریزی میں لکھ کر اردود کا قتل کر رہے ہیں۔ بہت سے لوگ اردو کا رسم الخط بدلنا چاہتے ہیں تاکہ اردو مر جائے اس قسم کے تجربات سے اردو کو نقصان ہوگا۔ اردو زبان کا کسی بھی علاقائی زبان سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ صوبائی زبانوں کو ترقی ملنی چاہیے لیکن اردو زبان پاکستان کی قومی زبان ہے۔ اردو کے نفاذ کے لیے کئی ادارے‘ کئی تنظیمیں مصروف عمل ہیں ہمارا کام ہے کہ اردو کے ساتھ جڑ جائیں تاہم انگریزی بھی سیکھیں تاکہ دوسرے ممالک سے رابطوں میں آسانی رہے۔
جسارت میگزین: نوجوان نسل کے لیے آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
طاہر سلطانی: نوجوان نسل کے لیے تعلیم بہت ضروری ہے آج کا دور جدید سائنسی دور ہے لہٰذا جدید علوم حاصل کیے جائیں‘ کتب بینی شروع کی جائے‘ حکومت کا فرض ہے کہ وہ ہر علاقے میں سرکاری لائبری قائم کریں اور کتاب کلچر کو فروغ دیا جائے۔ وسیع مطالعہ کی ضرورت سے انکار ممکن نہیں‘ ہمارے بچوں میں مطالعے کی کمی ہو رہی ہے‘ وہ فیس بک‘ انٹرنیٹ پر لگے رہتے ہیں۔ دنیاوی تعلیمات کے ساتھ ہماری نسلِ نو کو اسلامی تعلیمات پر بھی دھیان دینا چاہیے۔ قرآن و حدیث کو پڑھنا چاہیے ہمارے رسول اکرم حضرت مصطفی نے ہمیں دین و دنیا کی تعلیم سے نوازا ہے‘ تمام مشکلات کا حل اسوۂ رسول کی پیروی میں مضمر ہے۔