ؒسید علی گیلانی کے دست راست،تحریکی و تنظیمی ہمراز ،محمد اشرف صحرائی

348

بڑے لوگ دنیا سے اٹھتے جارہے ہیں، بھارتی جبر اور ظلم کا شکار اشرف صحرائی بھی اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ پروفیسر غفور احمد کے پوتے حسن حماد نے فیس بک پر محمد اشرف صحرائی شہیدؒ اور سید علی گیلانی کی ایک بغل گیر ہوتی ویڈیو شیئر کی تو دل حلق میں آگیا۔ اس میں سید علی گیلانی اشرف صحرائی کے ماتھے کو چوم رہے ہیں اور درد اُن کے چہرے سے عیاں ہے۔ شاید یہ ویڈیو اُس وقت کی ہے جب ان کے مجاہد بیٹے جنید صحرائی کی شہادت ہوئی تھی۔ جنید اشرف صحرائی 19 مئی 2020ء کو بھارتی فوج سے جھڑپ میں شہید ہوگئے تھے۔ جنید اشرف صحرائی حزب المجاہدین کے ڈویژنل کمانڈر تھے۔ بڑا آدمی اور بلند نصب العین رکھنے والا کچھ الگ ہی ہوتا ہے، جب بیٹے کی شہادت کی خبر ملی تو اسی موقع پر علامہ شبلی نعمانی کے مندرجہ ذیل اشعار پڑھ رہے تھے:
عجم کی مدح کی، عباسیوں کی داستاں لکھی
مجھے چندے مقیم آستانِ غیر ہونا تھا
مگر اب لکھ رہا ہوں سیرت پیغمبر خاتمﷺ
خدا کا شکر ہے یوں خاتمہ بالخیر ہونا تھا
یہ اشعار وہ جس درد کے ساتھ پڑھ رہے تھے وہ ناقابلِ بیان ہے، اور اس بات کا اظہار ہے کہ سید علی گیلانی کے دستِ راست، دوست اشرف صحرائی کا بھی سب کچھ سید علی گیلانی کی طرح کشمیر اور کشمیریوں کے لیے تھا۔ آپ کمال کا حوصلہ و ہمت رکھنے والے عزم کے پیکر تھے۔ دو سال پہلے آپ کے بیٹے کی جعلی مقابلے میں شہادت ہوئی، بیٹے کا آخری دیدار نہ ہوا، سیکورٹی فورسز نے جنگل میں دفن کردیا۔ ایک پولیس آفیسر آپ کے پاس آیا، اور پیشکش کی کہ اگر آپ درخواست دے دیں تو آپ کو بیٹے کی لاش مل سکتی ہے۔ آپ نے یہ پیشکش قبول نہ کی اور اس موقع پر یہ تاریخی الفاظ ادا کیے: ”وادی میں شہید ہونے والا ہر بچہ میرا بیٹا ہے۔“
کہا گیا: کیا آپ کو افسوس نہیں ہے کہ آپ کو اپنے بیٹے کا چہرہ بھی انہوں نے دیکھنے نہیں دیا؟
آپ نے کہا: نہیں مجھے افسوس نہیں ہے۔ میں اس کا چہرہ دیکھنے کے لیے خدا کے پاس جاؤں گا- ادھر ہی دیکھ لوں گا ان شاء اللہ۔
تحریک آزادیِ کشمیر کا ایک اور رہنما کشمیر کی جہدوجہدِ آزادی اور پاکستان پر قربان ہوگیا۔ بلاشبہ آپ استقامت کا پہاڑ تھے، پوری زندگی پاکستان سے محبت اور کشمیریوں کو ان کا حق دلانے میں صرف ہوئی۔ محمد اشرف صحرائی جموں کی اودھم پور جیل میں کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت قید تھے، گزشتہ روز طبیعت زیادہ خراب ہونے پر انہیں گورنمنٹ میڈیکل کالج و اسپتال جموں (جی ایم سی) منتقل کیا گیا۔ بدھ کے روز آکسیجن لیول کم ہونے کی وجہ سے خالق حقیقی سے جا ملے۔ وہ جیل میں بیمار تھے تاہم انہیں علاج معالجے کی سہولت حاصل نہیں تھی۔ چنانچہ بیماری کے باعث وزن 13کلو کم ہوگیا تھا، جبکہ ایک آنکھ کی بینائی سے بھی محروم ہوچکے تھے۔ ان کا کووڈ 19 ٹیسٹ منفی آیا تھا۔ محمد اشرف صحرائی کی تدفین ضلع کپواڑہ کے گاؤں ٹیکی پورہ میں کی گئی۔ غاصب فوج نے چند لوگوں کو ہی تدفین میں شرکت کی اجازت دی، اس کے باوجود کشمیریوں نے آزادی اور پاکستان کے حق میں نعرے لگا کر بھارتی تسلط کو ناقابلِ قبول قرار دے دیا۔ محمد اشرف صحرائی کو قابض بھارتی فوج نے 5 اگست 2019ء سے جیل میں قید کررکھا تھا، ضعیفی کے سبب وہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت نہ کرسکے اور سانس کی تکلیف کا شکار ہوگئے۔
اشرف صحرائی 1944ء میں ٹکی پورہ لولاب ضلع کپواڑہ میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجویشن مکمل کی۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد وہ 1959ء میں جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر سے وابستہ ہوگئے تھے۔ 1960ء میں جماعت کے رکن بنے۔ 1965 ء میں حریت پسندانہ سرگرمیوں کی پاداش میں پہلی بار جیل گئے۔ وہ ہفت روزہ ’’اذان‘‘ کے کالم نگار بھی رہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ مقبوضہ کشمیر کے بانی تھے۔ جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے اہم رہنمائوں میں سے تھے۔ جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے سیکرٹری جنرل بھی رہے۔ سید علی گیلانی نے جب تحریک حریت جموں وکشمیر کی بنیاد رکھی تو محمد اشرف صحرائی جماعت کی قیادت کی اجازت سے اس نئی جماعت میں شامل ہوگئے۔ سید علی گیلانی جب بیماری کے باعث تحریک حریت کی چیئرمین شپ سے سبکدوش ہوئے تو اشرف صحرائی کو تحریک حریت کشمیر کا چیئرمین منتخب کیا گیا تھا۔ اشرف صحرائی نے 3 بیٹے اور 2 بیٹیاں سوگوار چھوڑی ہیں۔ اشرف صحرائی کی وفات پر قائد تحریک آزادی کشمیر سید علی گیلانی نے گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہر زندگی کو موت کا مزا چکھنا ہے۔ ہمارا یقین ہے کہ موت ہی ایک داہمی زندگی کی شروعات ہے اس پیرانہ سالی میں جب عمر بھرکا ساتھی اور راہ وفا کا ہمراہی داغ مفارقت دے کر اس جہان فانی سے کوچ کرتا ہے تو آنکھیں آنسو بہانے کے بجائے خشک ہو جاتی ہیں‘ لب الفاظ کہنے کے بجائے سل جاتے ہیں اور قلب و ذہن یہ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتا کہ میرے دستِ راست‘ تحریک اور تنظیمی ہمراز اب ہم میں موجود نہیں رہے۔کشمیر کی سرزمین آج اپنے ایک مایہ ناز فرزند سے محروم ہوگئی۔ محترم اشرف صحرائی (میرا اشہ لالہ) اپنے رب سے جا ملا انااﷲ وانا الیہ راجعون۔یہ دل خراش خبر سنتے ہی رفاقت کے تمام مناظر آنکھوں کے سامنے آرہے ہیں۔ موصوف ایثار و قربانی اور صبر و استقامت کے پیکر مجسم تھے جنہیں نہ تو کسی بڑے سے بڑے نفع کا لالچ اور نہ ہی کسی بڑے سے بڑے نقصان کا خوف اپنے مؤقف ِ برحق سے ہٹا سکتا تھا۔ کبر سنی میں جوان جگر گوشے کی شہادت سے بڑھ کر کسی باپ کے لیے کیا صدمہ ہو سکتا ہے لیکن عزم و حوصلہ کی اس چٹان کو یہ صدمہ عظیم بھی اپنے مؤقف سے سرموانحراف تک آمادہ نہ کرسکا۔ اس الوالعزمی‘ اس استقامت اور اس حوصلے کو ہزاروں سلام۔قید و بند کی صعبوتیں صحرائی صاحب کے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی جس راستے کے وہ مسافر تھے اس پر تو عمریں اسی دشت کی سیاحی میں گزر جاتی ہیں۔ لیکن جس طرح ظالمانہ اور سفاکانہ طور پر دوران حراست انہیں علاج و معالجہ کی کی سہولیات تک رسائی سے محروم رکھا گیا اس سے اس بات میں کسی شک کی گنجائش نہیں رہتی کہ ان کی موت ایک زیر حراست قتل ہے جس کے لیے بھارتی حکام براہِ راست ذمہ دار ہیں۔ اشرف صحرائی کی شہادت پر امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے اور مرحوم کی بلندیِ درجات کے لیے دعا کرتے ہوئے ان کی شہادت کو بڑا سانحہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ غم کے اس موقع پر جب لاکھوں کشمیریوں کو دُہرے لاک ڈاون کا سامنا ہے، اشرف صحرائی بھی دنیا کو خیرباد کہہ گئے۔ انہوں نے کہا کہ اشرف صحرائی کی شہادت پر ان کے خاندان اور کشمیری قیادت کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔ سراج الحق نے کشمیر اور کشمیریوں کی جدوجہد کے پس منظر میں مزید کہا کہ کشمیریوں نے گزشتہ سات دہائیوں سے تحریک ِآزادی میں وہ قربانیاں پیش کی ہیں جس کی مثال حالیہ تاریخ میں شاید ہی کہیں ملتی ہو۔ بھارتی جارحیت کے خلاف جدوجہد کرنے والی کشمیریوں کی یہ تیسری نسل ہے۔ نوجوان کشمیریوں میں بھارت سے جلد آزادی حاصل کرنے کا جذبہ عروج پر پہنچ چکا ہے اور مودی حکومت کے تمام فاشسٹ ہتھکنڈے اس چنگاری کو دبانے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ کشمیر میں اس وقت 7 لاکھ بھارتی قابض فوج موجود ہے اور پورا علاقہ دنیا کی ایک بڑی جیل کا منظر پیش کررہا ہے۔ انٹرنیشنل میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے مقبوضہ وادی میں داخلے پر مکمل پابندی ہے، اور دنیا کی نام نہاد بڑی جمہوریت وہاں ظلم اور استحصال کی وہ بدترین مثالیں قائم کررہی ہے جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ مودی حکومت کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لیے ایک سازشی منصوبے پر عمل پیرا ہے، اور وہاں ہزاروں ہندو انتہا پسندوں کو آباد کیا جارہا ہے۔ یہ وہی منصوبہ ہے جو اسرائیل نے فلسطین میں اپنا رکھا ہے۔ سراج الحق نے کشمیر میں ہونے والے مظالم پر خاموشی اختیار کرنے پر عالمی برادری اور اقوام متحدہ کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے اس امر پر بھی دکھ کا اظہار کیا کہ پاکستانی حکمران بھی بھارتی سازش کو بے نقاب کرنے اور کشمیریوں کی دکھ کی اس نہایت سخت گھڑی میں مدد کرنے میں مکمل ناکام ہوگئے ہیں۔ گلگت بلتستان کو الگ صوبہ بنانے کا فیصلہ اور کشمیر کاز پر خاموشی سے پاکستانی عوام میں یہ تاثر مضبوط ہوتا جارہا ہے کہ اسلام آباد اور نئی دہلی کسی خفیہ معاہدے کے تحت کشمیر کا سودا کرچکے ہیں۔ سراج الحق نے حکمرانوں کو خبردار کیا کہ پاکستان اور کشمیر کے غیور عوام کبھی بھی ایسی سازشوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور یہ خطہ ضرور ایک روز پاکستان کا حصہ بنے گا۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کشمیریوں کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتی ہے اور ان کی جدوجہد میں ان کے شانہ بشانہ ہے۔
جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے رہنما مولانا غلام نبی نوشہری نے اشرف صحرائی کی شہادت کو تحریک آزادی کشمیر کا بڑا نقصان قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ صحرائی کی پوری زندگی کشمیر کی آزادی کے لیے جدوجہد میں گزری ہے۔ کشمیری عوام ان کی خدمات کو یاد رکھیں گے۔ حزب المجاہدین کے سربراہ اور متحدہ جہاد کونسل کے چیئرمین سید صلاح الدین نے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ اشرف صحرائی نے پوری زندگی غلبہ اسلام اور تحریک آزادی کے لیے وقف کی ہوئی تھی، زندگی کا بیشتر حصہ مشکلات اور جیلوں میں گزارا لیکن اپنے نظریات پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا۔ سابق حریت رہنما عبدالغنی لون کے بیٹے اور پیپلز کانفرنس کے سربراہ سجاد غنی لون نے اشرف صحرائی کی بھارتی قید میں موت کو ’کشمیری سیاست کی ستم ظریفی‘ قرار دیا۔
(باقی صفحہ 10پر)
انھوں نے یکے بعد دیگرے اپنی ٹویٹس میں لکھا ”ایک لمبا سیاسی کیرئیر اختتام کو پہنچا۔ وہ جماعت اسلامی کے نظریہ ساز تھے۔ جب میں 19 سال کا تھا تو اچانک اُن سے سامنا ہوا۔ انھوں نے مجھے کہا کہ اپنے والد (عبدالغنی لون) سے کہنا کتنے شیریں ہیں لب تیرے، گالیاں کھا کر بے مزہ نہ ہوئے“۔ سجاد لون نے جو اب ہند نواز سیاست میں سرگرم ہیں، مزید لکھا: ”یہ کشمیری سیاست کی ستم ظریفی ہے کہ اعلیٰ پائے کے سیاست دان تنازعے کی بھینٹ چڑھتے ہیں۔ ایک نہایت دیانت دار سیاست دان دہائیوں تک جیل میں رہا“۔ پاکستان کی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے بھی اشرف صحرائی کی وفات پر ٹویٹ میں لکھا کہ ”انڈین فاشزم کشمیریوں کو خاموش نہیں کرسکتا“۔ ترجمان دفترخارجہ نے کہا ہے کہ حکومتِ پاکستان اور عوام کو حریت رہنما اشرف صحرائی کی بھارتی حراست میں موت پر شدید افسوس ہے۔ ترجمان کے مطابق اشرف صحرائی کو گزشتہ سال کالے بھارتی قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا تھا، اشرف صحرائی طبیعت کی خرابی اور کورونا صورت حال کے باوجود بھارتی جیل میں قید رہے۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ بھارت کا کشمیریوں کی جدوجہد کو دہشت گردی کا رنگ دینا اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے، کورونا کی ابتر صورت حال کے باعث بھارتی جیلوں میں کشمیریوں کی صحت سے متعلق تشویش ہے۔ ترجمان دفترخارجہ کے مطابق بھارتی جیلوں میں قیدیوں کا رش ہے، جیلوں میں کورونا کے خلاف احتیاطی تدابیر کا کوئی بندوبست نہیں، اطلاعات کے مطابق بھارتی جیلوں میں موجودکچھ کشمیری رہنما پہلے ہی کورونا کا شکار ہوچکے۔
عمران خان نے سوشل میڈیا سائٹ ٹویٹر پر جاری ایک بیان میں کہا کہ بھارتی فوج کی غیر قانونی قید میں اشرف صحرائی کی اچانک موت نے غمزدہ کردیا ہے۔انہوں نے لکھا کہ”کشمیریوں پر بھارت کا ظلم عالمی برادری کے اجتماعی ضمیر پر ایک دھبہ ہے“۔عمران خان نے یہ بھی لکھا کہ ”ہم یو این او کی قراردادوں کے مطابق حقِ خود ارادیت کے لیے کشمیریوں کی حمایت جاری رکھیں گے۔“
دیکھنے والی آنکھوں نے دیکھا کہ جب محمد اشرف صحرائی کا جسدِ خاکی قبر میں اتارا جا رہا تھا تو پاکستان سے محبت کے نعرے لگ رہے تھے۔ یہ کشمیری ہر سال 14 اگست کا دن پورے جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ اس جذبے سے مقبوضہ کشمیر کے شہروں، دیہات اور ہر مقام پر سبز ہلالی پرچم لہراتے ہیں اور پاکستان کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا جاتا ہے، اور 15 اگست کو ہندوستان کے یوم آزادی پر پورے مقبوضہ کشمیر میں سیاہ پرچم لہرائے جاتے ہیں، یوم سیاہ منایا جاتا ہے اور بھارت کو پیغام دیا جاتا ہے کہ ہم تم سے نفرت کرتے ہیں اور ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔ لیکن اس پس منظر میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم ان کشمیریوں کی محبت کا قرض اتار سکتے ہیں جنہوں نے بے پناہ مظالم کے باوجود تحریک آزادی کو تیز دم کیا؟ اور ہر شہادت تازہ ایندھن اور گرم خون مہیا کررہی ہے، اور تحریک آزادیِ کشمیر کمزور ہونے کے بجائے مضبوط ہورہی ہے۔ جب ایک نوجوان بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید ہوتا ہے تو کئی نوجوان اسلحہ تھام کر انتقام لینے کے لیے میدان میں آجاتے ہیں۔ دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کہیں ہم کشمیریوں کو دھوکا تو نہیں دے رہے؟ بھارت کے حوالے سے ہماری ہر پالیسی میں ڈر اور خوف کیوں نظر آتا ہے؟ ہماری فوجی و عسکری قیادت کیوں سب کچھ بھلا کر بھارت سے دوستی کے لیے تڑپ رہی ہے؟ کیا کشمیر اور کشمیریوں کی قربانی کو بھلا کر پاکستان کی سلامتی کو ممکن بنایا جاسکتا ہے؟
ذرا سوچیے۔

حصہ