سود

یہ الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ ربوٰ کا یہ حکم قرض کے معاملے سے متعلق ہے اور قرض میں اصل سے زائد جو کچھ طلب کیا جائے وہ الربوٰ ہے جسے چھوڑ دینے کا حکم دیا گیا ہے اس کے علاوہ قرآن یہ کہہ کر بھی ربوٰ کا مفہوم واضح کرتا ہے ’’اللہ نے بیع کو حلال اور ربوٰ کو حرام کیا ہے۔‘‘ ان الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ربوٰ میں راس المال قرض دے کر جو کچھ اس سے زیادہ لیا جاتا ہے وہ اس منافع سے مختلف ہے جو بیع کے معاملے میں لاگت سے زائد حاصل ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ربوٰ مال کی وہ زیادتی ہے جو بیع کے طریقے سے نہ ہو۔ اسی بنا پر محدثین‘ فقہا اور مفسرین کا پورا اتفاق ہے کہ قرآن میں وہ ربوٰ عام کیا گیا ہے جو قرض کے معاملے میں اصل سے زائد طلب کیا جائے۔
جیسا کہ پہلے سوال کے جواب میں تاریخ سے ثابت کیا جا چکا ہے‘ نزولِ قرآن کے وقت یہ امر عرب میںپوری طرح معلوم و معروف تھا کہ قرض کا معاملہ صرف شخصی حاجات ہی کے لیے نہیں ہوتا بلکہ کاروباری اور قومی اغراض کے لیے بھی ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود قرآن میں ربوٰ کی حرمت کا حکم صرف شخصی حاجات کے قرضوں کے لیے مخصوص ہے اور نفع آور اغراض کی لیے جو قرض دیا جائے اس پر سود لگانا حلال ہے۔ فقہا اسلام بھی پہلی صدی ہجری سے آج تک اس اصول پر متفق رہے ہیں کہ ’’ہر قرض جس کے ساتھ نفع حاصل کیا جائے ربا ہے۔‘‘ قریب کے زمانہ سے پہلے فقہا کی اس متفقہ رائے سے اختلاف کی کوئی ایک مثال بھی تاریخ فقہ سے نکال کر پیش نہیں کی جاسکتی۔
تیسرا سوال:
ربا اور ربح میں فرق یہ ہے کہ ربا قرض پر مال دے کر اصل سے زائد وصول کرنے کا نام ہے اور اس کے برعکس رَبح سے مراد بیع میں لاگت سے زائد قیمت فروخت حاصل کرنا ہے۔ اس کے مقابلے میں خسارہ کا لفظ بولا جاتا ہے جب کہ لاگت سے کم پر کسی شخص کا مال فروخت ہو۔ لسان العرب میں ربح کے معنی لکھے ہیں۔ ’’تجارت میں افزونی کو ربح اور رَبَح کہتے ہیں۔ عرب کہتے ہیں ربحت تجارتہ جب کہ تجارت کرنے والا نفع کمائے اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں فہمار ربحت تجارتھم۔‘‘
مفردات امام راغب میں ہے ’’ربح وہ زیادتی ہے جو خریدوفروخت کے معاملے میں حاصل ہو۔‘‘
قرآن مجید خود بھی ربوٰ اور تجارتی منافع کا فرق بیان کرتا ہے۔ کفارِ عرب حرمتِ سود کے خلاف جو اعتراض پیش کرتے تھے وہ یہ تھا بیع میں اصل لاگت سے زائد جو قیمت فروخت وصول کی جاتی ہے وہ بھی تو آخر اسی طرح ہے جس طرح قرض کے معاملے میں اصل راس المال سے زائد ایک رقم لی جاتی ہے۔ قرآن نے اس کے جواب میں صاف کہا کہ ’’اللہ نے بیع کو حلال کیا اور ربا کو حرام کیا ہے۔‘‘ یعنی دولت میں اضافہ خوب صورت بیع اور چیز ہے اور بصورتِ قرض اور چیز ایک کو خدا نے حلال کیا ہے اور دوسرے کو حرام۔ کوئی شخص منافع چاہتا ہو تو اس کے لیے یہ دروازہ کھلا ہے کہ خود بیع کا کاروبار کرے یا کسی دوسرے کے ساتھ اس میں شریک ہو جائے۔ لیکن قرض دے کر منافع طلب کرنے کا دروازہ بند ہے۔
چوتھا سوال:
ربا کی تعریف یہ ہے کہ ’’قرض کے معاملے میں اصل سے زائد جو کچھ بطور شرط معاملہ وصول کیا جائے وہ ربوٰ ہے۔‘‘ اس تعریف میں اس سوال کا قطعاً کوئی دخل نہیں ہے کہ یہ ربا قرض دینے والے نے طلب کیا یا قرض لینے والے نے ازخود پیش کیا۔ یہ سوال ربوٰ کی قانونی تعریف میں غیر مؤثر ہے اور قرآن سے یا کسی صحیح حدیث سے اس امر کا کوئی اشارہ تک نہیں نکلتا کہ اگر سود لینے والے کی طرف سے پیش کیا جائے تو اس سے اس کے سود ہونے اورحرام ہونے میں کوئی فرق واقع ہوگا۔ علاوہ بریں کوئی صاحبِ عقل دنیا میں ایسا موجود نہیںہے جو نہ کبھی پایا گیا ہے جسے اگر سود کے بغیر قرض مل سکتا ہو تب بھی وہ سود ادا کرنے کی شرط اپنے طور پر پیش کرے۔ قرض لینے والے کی طرف سے یہ شرط تو اسی صورت میں پیش ہو سکتی ہے جب کہ کہیں سے اس کو بلا سود قرض ملنے کی امید نہ ہو۔ اس لیے سود کی تعریف میں اس کو غیر مؤثر ہونا ہی چاہیے۔ مزید برآں بینکوں کی طرف سے قدیم زمانہ میں بھی اور آج بھی امانت رکھے ہوئے روپے پر سود اس لیے پیش کیا جاتا تھا اور کیا جاتا ہے کہ اس لالچ سے لوگ اپنی جمع شدہ دولت ان کے حوالے کریں اور پھر وہ کم شرح سود پر لی ہوئی دولت کو آگے زیادہ شرح سود پر قرض دے کر اس سے فائدہ اٹھائیں۔ اس طرح کی پیش کش اگر سود دینے والے کی طرف سے ہوتی ہے تو حرمتِ سود کے مسئلے میں اس کے قابلِ لحاظ ہونے کی آخر کیا معقول وجہ ہے۔ امانتوں پر جو سود دیا جاتا ہے اس کی نوعیت دراصل یہ ہے کہ وہ اس سود کا ایک حصہ ہے جو انہی امانتوں کو شخصی‘ کاروباری اور ریاستی قرضوں کی شکل میں دے کر وصول کیا جاتاہے۔ یہ تو اسی طرح کا حصہ ہے جیسے کوئی شخص نقب زنی کے آلات کسی سے لے اور کچھ چوری کا مال اسے حاصل ہوا اس کاایک حصہ اس شخص کو بھی دے دے جس نے اسے یہ آلات فراہم کر دیے تھے۔ یہ حصہ اس دلیل سے جائز نہیں ہو سکتا کہ حصہ دینے والے نے بہ خوشی اسے دیا ہے۔ لینے والے نے جبر سے نہیں لیا ہے۔
پانچواں سوال:
بیع سَلَّم دراصل پیشگی سودے کی ایک صورت ہے‘ یعنی ایک شخص دوسرے شخص سے آج ایک چیز خرید کر اس کی قیمت ادا کر دیتا ہے اور ایک وقت مقرر کر دیتا ہے کہ بائع وہ چیز اس وقت خاص پر اسے دے گا۔ مثلاً میں ایک شخص سے کپڑے کے سو تھان آج خریدتا ہوں اور ان کی قیمت ادا کر دیتا ہوں اس شرط کے ساتھ کہ یہ تھان میں چار مہینے کے بعد اس سے لوں گا۔اس سودے میں چار باتیں ضروری ہیں ایک یہ کہ مال کی قیمت سودا طے ہونے کے وقت ہی ادا کر دی جائے۔ دوسرے یہ کہ مال کی صفت (Quality) واضح طور پر متعین ہو تاکہ بائع اور مشتری کے درمیان اس کی صفت کے بارے میں کوئی چیز مبہم نہ رہے جو وجہ نزاع بن سکے۔ تیسرے یہ کہ مال کی مقدار بھی وزن یا ناپ یا تعداد وغیرہ کے لحاظ سے ٹھیک ٹھیک معین ہو۔ اور چوتھے یہ کہ مال خریدار کے حوالے کرنے کا وقت معین ہو اور اس میں بھی کوئی ابہام نہ ہو کہ وہ نزاع کا سبب بنے اس سودے سے میں جو پیشگی قیمت دی جاتی ہے اس کی نوعیت ہرگز قرض کی نہیں ہے بلکہ وہ ویسی ہی قیمت ہے جیسی دست بہ دست لین دین میں خریدار ایک چیز کی قیمت ادا کرتا ہے۔ فقہ میں اس کا نام بھی ثمن ہے نہ کہ قرض۔ وقت معین پرمال کی عدم تحویل یا کسی اور سبب سے اگر بیع فسخ ہو جائے تو مشتری کو صرف اصل قیمت واپس دی جاتی ہے۔ کسی شئے زائد کا وہ حق دار نہیں ہوتا۔ اس میں اور عام بیع میں اس کے سوا کوئی فرق نہیں ہے کہ عام بیع میں مشتری بائع سے اپنی خریدی ہوئی چیز دست بہ دست لے لیتا ہے اور بیع سلم میں وہ اس کا قبضہ لینے کے لیے آئندہ کی ایک تاریخ مقرر کر دیتا ہے۔ اس معاملے کو قرض اور سود کے مسئلے سے غلط ملط کرنے کی کوئی معقول وجہ میں نہیں سمجھ سکا۔
سوال میں بھینس کی جو مثال بیان کی گئی ہے وہ بیع سلم کی نہیں بلکہ شر کت کی شکل ہے‘ یعنی بھینس ایک شخص کی اور اس پر کام دوسرا شخص کرے اور دودھ دونوں کے درمیان تقسیم ہو جائے۔
چھٹا سوال:
ہم جنس اشیاء کے دست بہ دست تبادلے میں تفاضل کو حرام کر دینے کا مقصد جیسا کہ ابن قیم اور دوسرے لوگوں نے بیان کیا ہے‘ اور اصل سدِباب ذریعہ ہے۔ یعنی اصل حرام تو ربوالفسئیہ (قرض کا سود) ہے‘ لیکن زیادہ ستانی کی ذہنیت‘ قلع قمع کرنے کے لیے ہم جنس اشیا کی دست بہ دست تبادلہ میں بھی تفاضُل کو ممنوع قرر دے دیا گیا ہے۔ یہ امر ظاہر ہے کہ ہم جنس کی اشیا مثلا چاول کا تبادلہ چاول سے صرف اس صورت میں کیا جاتا ہے جب کہ اس کی ایک قسم بڑھیا ہو اور دوسری گھٹیا۔شارع کا منشا یہ ہے کہ بڑھیا قسم کے ایک سیر چاول کا تبادلہ گھٹیا قسم کے مثلاً سوا سیر چاول سے نہ کیا جائے‘ خواہ ان دونوں کی بازاری قیمت کا فرق اتنا ہی ہو۔ بلکہ ایک شخص اپنے چاول مثلاً روپے کے عوض فروخت کر دے اوردوسرے چاول روپے کے عوض ہی خرید لے۔ براہِ راست چاول کا چاول سے تفاضل کے ساتھ مبادلہ کرنے میں اس ذہنیت کو غذا ملتی ہے جو سود خوری کی اصل جڑ ہے اور شارع اسی کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ فقہا کے درمیان سود کے مسئلے میں جتنے بھی اختلافات ہوئے ہیں وہ صرف ربوٰالفضل کے معاملے میں ہیں کیوں کہ اس کی حرمت کے احکام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر زمانہ میںدیے تھے اور آپؐ کی حیاتِ طیبہ میں معاملات پر ان احکام کے انطباق کی شکلیں پوری طرح واضح نہ ہو سکی تھیں‘ لیکن جہاںتک ربوالنسیئہ (قرض کے معاملے میں اصل سے زائد لینے)کا تعلق ہے‘ اس کی حرمت اور اس کے احکام میں فقہا کے درمیان پورا اتفاق ہے۔ یہ ایک صاف مسئلہ ہے جس میں کوئی الجھن نہیںہے۔
ساتواں سوال:
تجارت میں طرفین کی رضا مندی ضرور لازم ہے‘ لیکن یہ نہ تجارت کے حلال ہونے کی علّت ہے نہ اس کا عدم سود کے حرام ہونے کی علّت۔ قرآن میں کہیں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ سود اس لیے حرام کیا جاتا ہے کہ دینے والا اسے بادلِ نخواستہ مجبوراً دیتا ہے۔ اگرچہ دنیا میں کوئی سود بھی برضا و رغبت نہیں دیا جاتا اور بلا سود قرض ملنے کا امکان ہو تو کوئی شخص قرض پر سود نہ دے‘ لیکن اس چیز کی حرمت کے مسئلے میں رضا مندی اور نارضا مندی کا سوال بالکل غیر متعلق ہے کیوں کہ قرآن مطلقاً اس قرض کو حرام قرار دیتا ہے جس میں راس المال سے زائد ادا کرنے کی شرط شامل ہو‘ قطع نظر اس سے کہ یہ شرط تراضی طرفین سے طے ہوئی ہو یا کسی اور طرح۔
رہی یہ بحث کہ سودی قرض کی حرمت میں اصل علّت ظلم ہے اور جس قرض پر سود وصول کرنے میں ظلم نہ ہو وہ حلال ہونا چاہیے‘ اس کے متعلق میں یہ عرض کروں گا کہ قران نے اس امر کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی ہے کہ آپ اس کے الفاظ سے صرف ’’ظلم‘‘ کا علّتِ حرمت ہونا نکال لیں اور پھر اس لفظ ظلم کا مفہوم خود جس طرح چاہیں مشخص کریں۔ قرآن جس گہ یہ علّتِ حرمت بیان کرتا ہی اسی جگہ وہ خود ہی ظلم کا مطلب بھی واضح کر دیتا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:
ترجمہ: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے اللہ سے ڈرو اور چھوڑ دو وہ سود جو لوگوںکے ذمہ باقی رہ گیا ہے اگر تم مومن ہو… اور اگر تم توبہ کر لو تو تمہیں اپنے راس المال لینے کا حق ہے۔ نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔‘‘
یہ دو ظلموں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک وہ جو دائن مدیون پر کرتا ہے‘ دوسرا وہ جو مدیون دائن پر کرتا ہے۔ مدیون کا وائن پر ظلم جیسا کہ آیت کے سیاق و سباق سے صاف ظاہر ہوتا ہے‘ یہ کہ اس کا دیا ہوا اصل راس المال بھی مدیون واپس نہ کرے۔ بالکل اسی طرح مدیون پردائن کا ظلم‘ جو اس آیت کے سیاق و سباق سے بین طور پر ظاہر ہورہا ہے‘ یہ ہے کہ وہ اصل راس المال سے زائد اس سے طلب کرے۔ اس طرح قرآن یہاںاس ظلم کے معنی خود متعین کر دیتا ہے جو قرض کے معاملے میںدائن و مدیون ایک دوسرے پر کرتے ہیں۔ اس معنی کے لحاظ سے انصاف یہ ہے کہ دائن مدیون سے صرف راس المال واپس لے‘ اور ظلم یہ کہ وہ راس المال سے زیادہ وصول کرے۔ (جاری ہے)
قرآن کا سیاق و سباق اپنے مفہوم میں اس قدر واضح ہے کہ ابن عباس اور ابن زید سے لے کر پچھلی صدی کے شو کافی اور آلوسی تک تمام مفسرین نے اس کا یہی مطلب لیا ہے۔ اس پوری مدت میں کوئی ایک مفسر بھی ایسا نہیں پایا جاتا جس نے قرآن سے صرف ظلم کا لفظ حرمتِ ربوٰ کی علّت کے طور پر نکال لیا ہو اور پھر ظلم کے معنی باہر کہیں سے لینے کی کوشش کی ہو۔ یہ بات اصولاً بالکل غلط ہے کہ ایک عبارت کے اپنے سیاق و سباق سے اس کے کسی لفظ کا جو مفہوم ظاہر ہوتا ہو‘ اسے نظر انداز کرکے ہم اپنی طرف سے کوئی معنی اس کے اندر داخل کریں
اس دال کے سلسلے میں یہ دعویٰ جو کیا گیا ہے کہ کمرشل انٹرسٹ میں کسی پارٹی پر بھی ظلم نہیں ہوتا‘ یہ بھی ہمیں تسلیم نہیں ہے۔ کیا یہ ظلم کچھ کم ہے کہ ایک شخص قرض پر سرمایہ دے کر تو ایک خاص منافع کی ضمانت حاصل کر لے مگر جو لوگ کاروبار کو پروان چڑھانے کے لیے وقت‘ محنت اور ذہانت صرف کریں ان کے لیے سرے سے کسی منافع کی کوئی ضمانت نہ ہو بلکہ نقصان ہونے کی صورت میں بھی وہ دائن کو اصل مع سود دینے کے ذمہ دار ہیں؟ تمام خطرہ (Risk) محنت اور کام کرنے والے فریق کے حصے میں‘ اور خالص منافع روپیہ دینے والے فریق کے حصہ میں‘ یہ آخر انصاف کیسے ہو سکتا ہے۔ اس لیے سود بہرحال ظلم ہے‘ خواہ وہ شخصی حاجات کے قرضوں میں ہو یا کاروباری اغراض کے قرضوں میں۔ انصاف چاہتاہے کہ اگر آپ قرض دیتے ہیں تو صرف اپنا راس المال واپس ملنے کی ضمانت حاصل ہو اور اگر آپ کاروبار میں روپیہ لگانا چاہتے ہیں تو پھر شریک کی حیثیت سے روپیہ لگائیں۔
آٹھواں سوال:
اس سوال کا تفصیلی جواب میں اپنی کتاب ’’سود ‘‘ میں دے چکا ہوں۔ یہاں مختصر جواب عرض کرتا ہوں۔
(الف): صنعتی اداروں کے معمولی حصے بالکل جائز ہیں بشرطیکہ ان کا کاروبار بجائے خود حرام نوعیت کا نہ ہو۔
(ب): ترجیحی حصص‘ جن میں ایک خاص منافع کی ضمانت ہو‘ سود کی تعریف میں آتے ہیں اور ناجائز ہیں۔
(ج) : بینکوں کے فکسڈ ڈپارٹمنٹ کے متعلق دو صورتیں اختیار کیا جاسکتی ہیں جو لوگ صرف اپنے روپے کی حفاظت چاہتے ہوں اور اپنا روپیہ کسی کاروبار میں لگانے کے خواہش مند نہ ہوں‘ ان کے روپے کو بینک ’’امانت‘‘ رکھنے کے بجائے ’’قرض‘‘لیں اسے کاروبار میںلگا کر منافع حاصل کریں اور ان کا راس المال مدت مقررہ پر ادا کر دینے کی ضمانت دیں۔
اور جو لوگ اپنے روپے کو بینک کی معرفت کاروبار میں لگوانا چاہیں‘ ان کا روپیہ ’’امانت‘‘ رکھنے کے بجائے بینک ان سے ایک عام شراکت نامہ طے کے‘ ایسے تمام اموال کو مختلف قسم کے تجارتی‘ صنعتی‘ زراعتی یا دوسرے کاموں میں‘ جو بینک کے دائرۂ عمل میں آتے ہوں‘ لگائے اور مجموعی کاروبار سے جو منافع حاصل ہو‘ اسے ایک طے شدہ نسبت کے ساتھ ان لوگوں میں اسی طرح تقسیم کر دے جس طرح خود بینک کے حصہ داروں میں منافع تقسیم ہوتا ہے۔
(د): بینکوں سے لیٹر آف کریڈٹ کھولنے کی مختلف صورتیں ہیں جن کی شرعی پوزیشن جداگانہ ہے۔ جہاں بینک کو محض ایک اعتماد نامہ دینا ہو کہ یہ شخص بھروسے کے قابل ہے‘ وہاں بینک جائز طور پر صرف اپنے دفتری اخراجات کی فیس لے سکتا ہے اور جہاں بینک دوسرے فریق کو رقم ادا کرنے کی ذمہ داری لے وہاں اسے سود نہیں لگانا چاہیے۔ اس کے بجائے مختلف جائز طریقے اختیار کیے جاسکتے ہیں مثلاً بینکوں کے کرنٹ اکائونٹ میں کاروباری لوگوں کی جو رقمیں رہتی ہیں ان پر کوئی سود نہ دیا جائے بلکہ حساب کتاب رکھنے کی اجرت لی جائے اور ان رقموں کو قلیل المیعاد قرضوں کی صورت میں کاروباری لوگوںکوبلاسود دیا جائے۔ ایسے قرض داروں سے بینک اس رقم کا سود تو نہ لیں البتہ وہ اپنے دفتری اخراجات کی فیس ان سے لے سکتے ہیں۔
(ھ) حکومت خود‘ یا اپنی زیر اثر جتنے ادارے بھی قائم کرے ان سے سود کے عنصر کو خارج ہونا چاہیے۔ اس کے بجائے دوسرے طریقے تھوڑی توجہ اور قوتِ اجتہاد سے کام لے کر نکالے جاسکتے ہیں جو جائز بھی ہوں اور نفع بخش بھی۔ اس طرح کے تمام اداروں کے بارے میں کوئی ایک جامع گفتگو چند الفاظ میں یہاں نہیں کی جاسکتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پہلے حرام چیزکو حرام مان لیا جائے۔ پھر اس سے بچنے کا ارادہ ہو۔ اس کے بعد ہر کارپوریشن کے لیے ایک ایسی کمیٹی بنائی جائے جو اس کارپوریشن کے تمام کاموں کو نگاہ میں رکھ کر یہ دیکھے کہ اس کے مختلف کام کہاں کہاں حرام طریقوں سے ملوث ہوتے ہیں اور ان کا بدل کیا ہے جو اسلامی احکام کی رُو سے جائز بھی ہو اور قابلِ عمل اور نفع بخش بھی اوّلیں چیز ہماری اس ذہنیت کی تبدیلی ہے کہ اہلِ مغرب کے جن پٹے ہوئے راستوں پر چلنے کے ہم پہلے سے عادی چلے آرہے ہیں انہی پر ہم آنکھیں بند کرکے چلتے رہنا چاہتے ہیں اور سارازور اس بات پر صرف کر ڈالتے ہیں کہ کسی طرح انہی راستوں کو ہمارے لیے جائز کر دیا جائے۔ ہماری سہولت پسندی ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ہم کچھ دماغ سوزی اور کچھ محنت کرکے کوئی نیا راستہ نکالیں۔ تقلید جامد کی بیماری بدقسمتی سے ساری قوم کو لگی ہوئی ہے۔ نہ جبہ پوش اس سے شفا پاتے ہیں نہ سوٹ پوش۔
(و): گورنمنٹ کے قرضے جہاں تک اپنے ملک سے حاصل کیے جائیں‘ ان پر سود نہ دیا جائے۔ اس کے بجائے حکومت اپنی ایسے منصوبوں کو جن میں قرض کا روپیہ لگایا جاتا ہے‘ کاروباری اصول پر منظم کرے اور ان سے جو نفع حاصل ہو اس سے ایک طے شدہ تناسب کے ساتھ ان لوگوںکو حصہ دیتی رہے جن کا روپیہ وہ استعمال کرتی ہے۔ پھر جب وہ مدت ختم ہو جائے جس کے لیے ان سے روپیہ مانگا گیا تھا اور ان لوگوںکا راس المال واپس کردیا جائے تو آپ سے آپ منافع میں ان کی حصہ داری بھی ختم ہو جائے گی۔ اس صورت میں درحقیقت کوئی بہت بڑا تگیر کرنا نہیں ہوگا۔ متعین شرح سود پر جو قرض لیے جاتے ہیں ان کو تبدیل کرکے بس متناسب منافع پر حصہ داری کی صورت دینی ہوگی۔
غیر ملکوں سے جو قرض لیے جاتے ہیں ان کا مسئلہ اچھا خاصا پیچیدہ ہے جب تک پوری تفصیل کے ساتھ ایسے تمام قرضوں کا جائزہ نہ لیا جائے‘ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان کی نوعیتیں کیا کیا ہیں اور ان کے معاملے میں حرمت سے بچنے کے لیے کس حد تک کیا کچھ کہا جاسکتا ہے۔ البتہ اصولی طور پر جو بات میں کہہ سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہمیں پہلے اپنی تمام توجہ اندرون ملک سے سود کو ختم کرنے پر کرنی چاہیے اور بیرون ملک میں جہاں سودی لین دین سے بچائو کی کوئی صورت نہ ہو وہاں اس وقت تک اس آفت کو برداشت کرنا چاہیے جب تک اس سے بچنے کی صورتیں نہ نکل آئیں۔ ہم اپنے اختیار کی حد تک خدا کے سامنے جواب دہ ہیں۔ اس حد تک اگر ہم گناہ سے بچیں تو مجبوری کے معاملے میں ہم معافی کی امید رکھ سکتے ہیں۔ (ترجمان القرآن: مئی و جون 1960ء)

حصہ