بشیر بدر
آنکھوں میں رہا دل میں اتر کر نہیں دیکھا
کشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا
بے وقت اگر جاؤں گا سب چونک پڑیں گے
اک عمر ہوئی دن میں کبھی گھر نہیں دیکھا
جس دن سے چلا ہوں مری منزل پہ نظر ہے
آنکھوں نے کبھی میل کا پتھر نہیں دیکھا
یہ پھول مجھے کوئی وراثت میں ملے ہیں
تم نے مرا کانٹوں بھرا بستر نہیں دیکھا
یاروں کی محبت کا یقیں کر لیا میں نے
پھولوں میں چھپایا ہوا خنجر نہیں دیکھا
محبوب کا گھر ہو کہ بزرگوں کی زمینیں
جو چھوڑ دیا پھر اسے مڑ کر نہیں دیکھا
خط ایسا لکھا ہے کہ نگینے سے جڑے ہیں
وہ ہاتھ کہ جس نے کوئی زیور نہیں دیکھا
پتھر مجھے کہتا ہے مرا چاہنے والا
میں موم ہوں اس نے مجھے چھو کر نہیں دیکھا
…٭…
جون ایلیا
عمر گزرے گی امتحان میں کیا
داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا
میری ہر بات بے اثر ہی رہی
نقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا
مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا
اپنی محرومیاں چھپاتے ہیں
ہم غریبوں کی آن بان میں کیا
خود کو جانا جدا زمانے سے
آ گیا تھا مرے گمان میں کیا
شام ہی سے دکان دید ہے بند
نہیں نقصان تک دکان میں کیا
اے مرے صبح و شام دل کی شفق
تو نہاتی ہے اب بھی بان میں کیا
بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا
خامشی کہہ رہی ہے کان میں کیا
آ رہا ہے مرے گمان میں کیا
دل کہ آتے ہیں جس کو دھیان بہت
خود بھی آتا ہے اپنے دھیان میں کیا
وہ ملے تو یہ پوچھنا ہے مجھے
اب بھی ہوں میں تری امان میں کیا
یوں جو تکتا ہے آسمان کو تو
کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا
ہے نسیم بہار گرد آلود
خاک اڑتی ہے اس مکان میں کیا
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا
…٭…
عنبرین حسیب عنبر
زمیں پہ انساں خدا بنا تھا وبا سے پہلے
وہ خود کو سب کچھ سمجھ رہا تھا وبا سے پہلے
پلک جھپکتے ہی سارا منظر بدل گیا ہے
یہاں تو میلہ لگا ہوا تھا وبا سے پہلے
تم آج ہاتھوں سے دوریاں ناپتے ہو سوچو
دلوں میں کس درجہ فاصلہ تھا وبا سے پہلے
عجیب سی دوڑ میں سب ایسے لگے ہوئے تھے
مکاں مکینوں کو ڈھونڈھتا تھا وبا سے پہلے
ہم آج خلوت میں اس زمانے کو رو رہے ہیں
وہ جس سے سب کو بہت گلہ تھا وبا سے پہلے
نہ جانے کیوں آ گیا دعا میں مری وہ بچہ
سڑک پہ جو پھول بیچتا تھا وبا سے پہلے
دعا کو اٹھے ہیں ہاتھ عنبرؔ تو دھیان آیا
یہ آسماں سرخ ہو چکا تھا وبا سے پہلے
…٭…
عقیل عباس جعفری
رہیے احباب سے کٹ کر کہ وبا کے دن ہیں
سانس بھی لیجیے ہٹ کر کہ وبا کے دن ہیں
وہ جنہیں خود سے بھی ملنے کی نہیں تھی فرصت
رہ گئے خود میں سمٹ کر کہ وبا کے دن ہیں
رونق بزم جہاں خود کو سمجھنے والے
آ گئے گھر کو پلٹ کر کہ وبا کے دن ہیں
کیا کسی اور سے اب حرف تسلی کہیے
روئیے خود سے لپٹ کر کہ وبا کے دن ہیں
ایک جھٹکے میں ہوئے شاہ و گدا زیر و زبر
رہ گئی دنیا الٹ کر کہ وبا کے دن ہیں
سب کو معلوم ہے تعبیر تو یکساں ہوگی
خواب ہی دیکھ لیں ہٹ کر کہ وبا کے دن ہیں
ایک کمرے میں سمٹ آئی ہے ساری دنیا
رہ گئے خانوں میں بٹ کر کہ وبا کے دن ہیں
یہ مرا رنگ تغزل تو نہیں ہے لیکن
اک غزل لکھی ہے ہٹ کر کہ وبا کے دن ہیں
سعید احمد اختر
ہے قحط نہ طوفاں نہ کوئی خوف وبا کا
اس دیس پہ سایہ ہے کسی اور بلا کا
ہر شام سسکتی ہوئی فریاد کی وادی
ہر صبح سلگتا ہوا صحرا ہے صدا کا
اپنا تو نہیں تھا میں کبھی اور غموں نے
مارا مجھے ایسا رہا تیرا نہ خدا کا
پھیلے ہوئے ہر سمت جہاں حرص و ہوس ہوں
پھولے گا پھلے گا وہاں کیا پیڑ وفا کا
ہاتھوں کی لکیریں تجھے کیا سمت دکھائیں
سن وقت کی آواز کو رخ دیکھ ہوا کا
لقمان و مسیحا نے بھی کوشش تو بہت کی
ہوتا ہے اثر اس پہ دعا کا نہ دوا کا
اس بار جو نغمہ تری یادوں سے اٹھا ہے
مشکل ہے کہ پابند ہو الفاظ و صدا کا
اتنی ترے انصاف کی دیکھی ہیں مثالیں
لگتا ہی نہیں ملک ترا ملک خدا کا
سمجھا تھا وہ اندر کہیں پیوست ہے مجھ میں
دیکھا تو مرے ہاتھ میں آنچل تھا صبا کا
…٭…
نہ جانے باہر بھی کتنے آسیب منتظر ہوں
ابھی میں اندر کے آدمی سے ڈرا ہوا ہوں
آنس معین
…٭…
گاہے گاہے کی ملاقات ہی اچھی ہے امیرؔ
قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا
امیر مینائی
…٭…
کیسے کہہ دوں کہ ملاقات نہیں ہوتی ہے
روز ملتے ہیں مگر بات نہیں ہوتی ہے
شکیل بدایونی
nn
آفاق صدیقی
کیا زمیں کیا آسماں کچھ بھی نہیں
ہم نہ ہوں تو یہ جہاں کچھ بھی نہیں
دیدہ و دل کی رفاقت کے بغیر
فصل گل ہو یا خزاں کچھ بھی نہیں
پتھروں میں ہم بھی پتھر ہو گئے
اب غم سود و زیاں کچھ بھی نہیں
کیا قیامت ہے کہ اپنے دیس میں
اعتبار جسم و جاں کچھ بھی نہیں
کیسے کیسے سر کشیدہ لوگ تھے
جن کا اب نام و نشاں کچھ بھی نہیں
ایک احساس محبت کے سوا
حاصل عمر رواں کچھ بھی نہیں
کوئی موضوع سخن ہی جب نہ ہو
صرف انداز بیاں کچھ بھی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عابد ادیب
سفر میں ایسے کئی مرحلے بھی آتے ہیں
ہر ایک موڑ پہ کچھ لوگ چھوٹ جاتے ہیں
یہ جان کر بھی کہ پتھر ہر ایک ہاتھ میں ہے
جیالے لوگ ہیں شیشوں کے گھر بناتے ہیں
جو رہنے والے ہیں لوگ ان کو گھر نہیں دیتے
جو رہنے والا نہیں اس کے گھر بناتے ہیں
جنہیں یہ فکر نہیں سر رہے رہے نہ رہے
وہ سچ ہی کہتے ہیں جب بولنے پہ آتے ہیں
کبھی جو بات کہی تھی ترے تعلق سے
اب اس کے بھی کئی مطلب نکالے جاتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نظم
خدا جانتا ہے
عادل اسیر دہلوی
خدا کی یہ باتیں خدا جانتا ہے
نکلتا ہے مشرق سے کس طرح سورج
فلک پر چمکتا ہے یہ چاند کیوں کر
کہاں سے سمندر میں آتے ہیں طوفاں
اجالا ہے کیسا یہ شمس و قمر پر
خدا کی یہ باتیں خدا جانتا ہے
بہاروں کا گل کو پتا کس طرح ہے
ادا غنچوں کو یہ چٹکنے کی کیوں دی
کہاں سے ہے آیا خزاں کا یہ موسم
گھٹا کو یہ خوبی برسنے کی کیوں دی
خدا کی یہ باتیں خدا جانتا ہے
……………………..
شکیل بدایونی
اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا
جانے کیوں آج ترے نام پہ رونا آیا
یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی ہے
آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا
کبھی تقدیر کا ماتم کبھی دنیا کا گلہ
منزل عشق میں ہر گام پہ رونا آیا
مجھ پہ ہی ختم ہوا سلسلۂ نوحہ گری
اس قدر گردش ایام پہ رونا آیا
جب ہوا ذکر زمانے میں محبت کا شکیلؔ
مجھ کو اپنے دل ناکام پہ رونا آیا
۔۔۔۔
عاجز ہنگن گھاٹی
زخموں کے دہن بھر دے خنجر کے نشاں لے جا
بے سمت صداؤں کی رفعت کا گماں لے جا
احساس بصیرت میں عبرت کا سماں لے جا
اجڑی ہوئی بستی سے بنیاد مکاں لے جا
شہروں کی فضاؤں میں لاشوں کا تعفن ہے
جنگل کی ہوا آ جا جسموں کا دھواں لے جا
ہے اور ابھی باقی تاریک سفر شب کا
اگنے دے نیا سورج پھر چاہے جہاں لے جا
جلتی ہوئی راتوں کا بجھتا ہوا منظر ہوں
گھر آ کے کبھی عاجزؔ مجھ سے یہ سماں لے جا
بھیڑ تنہائیوں کا میلا ہے
آدمی آدمی اکیلا ہے
صبا اکبرآبادی
٭٭٭
جانے والے سے ملاقات نہ ہونے پائی
دل کی دل میں ہی رہی بات نہ ہونے پائی
شکیل بدایونی
٭٭٭
مل رہی ہو بڑے تپاک کے ساتھ
مجھ کو یکسر بھلا چکی ہو کیا
جون ایلیا
٭٭٭
فرازؔ ترک تعلق تو خیر کیا ہوگا
یہی بہت ہے کہ کم کم ملا کرو اس سے
احمد فراز
٭٭٭
نقشہ اٹھا کے کوئی نیا شہر ڈھونڈیئے
اس شہر میں تو سب سے ملاقات ہو گئی
ندا فاضلی
٭٭٭
آج تو مل کے بھی جیسے نہ ملے ہوں تجھ سے
چونک اٹھتے تھے کبھی تیری ملاقات سے ہم
جاں نثاراختر
٭٭٭
٭٭٭
اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں
فیضان محبت عام سہی عرفان محبت عام نہیں
محمد خالد
٭٭٭
جگر مراد آبادی
اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں
فیضان محبت عام سہی عرفان محبت عام نہیں
یہ تو نے کہا کیا اے ناداں فیاضی قدرت عام نہیں
تو فکر و نظر تو پیدا کر کیا چیز ہے جو انعام نہیں
یارب یہ مقام عشق ہے کیا گو دیدہ و دل ناکام نہیں
تسکین ہے اور تسکین نہیں آرام ہے اور آرام نہیں
کیوں مست شراب عیش و طرب تکلیف توجہ فرمائیں
آواز شکست دل ہی تو ہے آواز شکست جام نہیں
آنا ہے جو بزم جاناں میں پندار خودی کو توڑ کے آ
اے ہوش و خرد کے دیوانے یاں ہوش و خرد کا کام نہیں
زاہد نے کچھ اس انداز سے پی ساقی کی نگاہیں پڑنے لگیں
مے کش یہی اب تک سمجھے تھے شائستہ دور جام نہیں
عشق اور گوارا خود کر لے بے شرط شکست فاش اپنی
دل کی بھی کچھ ان کے سازش ہے تنہا یہ نظر کا کام نہیں
سب جس کو اسیری کہتے ہیں وہ تو ہے امیری ہی لیکن
وہ کون سی آزادی ہے یہاں جو آپ خود اپنا دام نہیں
٭٭٭