ترک قوم کے ہیرو ارطغرل غازی کا مزار:
ارطغرل غازیؒ کا مزار ایک وسیع احاطے میں پورے جاہ و جلال کے ساتھ موجود ہے۔ اس کے دروازے زائرین کے لیے بند ہیں۔ ایک کھڑکی سے اندر کے پُرجلال و جمال مناظر دیکھنے کا موقع مل سکتا ہے۔ اس مزار کے اندر حسبِ روایت ایک خوب صورت مرقد گہرے سبز رنگ کے سنہری کڑھائی سے سجے ہوئے کپڑے سے ڈھکی ہوئی ہے، جس کے اطراف میں ترکی کا قومی اور قائی قبیلے کا روایتی جھنڈا دیگر چھ پرچموں کے ساتھ موجود ہے، اور قبر کے پہلو میں گیارہ ڈبیوں میں محفوظ مگر کھلی ہوئی اور دکھائی دیتی ان گیارہ علاقوں کی مٹی ہے جو ارطغرل نے فتح کیے۔ قبر کے سرہانے ایک بڑی کلاہ سفید رنگ کی صاحبِ قبر کی عظمت کی دلیل کے طور پر موجود ہے۔ بہ قول نامور محقق پروفیسر ڈاکٹر خالد ظفراللہ دائودی، جنہوں نے ترکی کی یونیورسٹی سے علمِ حدیث میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی: ترکی میں صاحبِ مزار کی علمی وجاہت اور شخصی ثقاہت و وقعت کے مطابق دستار قبر کے سرہانے رکھی جاتی ہے۔
اس احاطے میں ارطغرل اور سلیمان اوّل کے امرائے مملکت، اعزہ و اقربا، شہزادوں، بیٹوں اور خواتین کی قبریں بھی موجود ہیں۔ ارطغرل غازی کے مزار کے بالکل باہر اس کی ملکہ حلیمہ سلطان اور والدہ کی قبریں بھی موجود ہیں، اور یہ سب اس مخصوص انداز اور طرزِ تعمیر کی حامل ہیں جن کا ذکر قونیہ کے مزارات کی تفصیل کے موقع پر ہوچکا۔ یہاں حلیمہ خاتون کے نام سے منسوب ایک مسجد بھی ہے جہاں مرد و خواتین کے لیے الگ الگ نماز پڑھنے کی سہولت موجود ہے۔ البتہ مسجد کے واش روم استعمال کرنے کے دو لیرا ادا کرنا پڑتے ہیں۔ ایسا اس سفر میں بورصا کی قدیم تاریخی نیلی مسجد کے غسل خانوں میں بھی دکھائی دیا۔ وہاں تو صاف لگتا تھا کہ شاید حکام کی نظروں سے بچتے ہوئے ایسا کیا گیا تھا۔ ہم پاکستانی یہاں متعلقہ شخص کو چکر دینے میں کامیاب ہوگئے۔ اس وسیع احاطے میں ارطغرل کے روحانی ا4ور فکری رہنما شیخ ایوب علی (Eoeb Ali) کا مزار بھی تھا۔
سوگوت کی ایک اور خاص بات قریب ہی KAI قبیلے کا ایک مکمل سیٹ موجود تھا جہاں ارطغرل ڈرامے کے مکمل کاسٹیومز، تلواریں، خنجر، ٹوپیاں، انگوٹھیاں اور دیگر جنگی ساز و سامان برائے استعمال و فروخت موجود تھا۔ ایک شخص مکمل شاہی لباس پہنے دعوتِ نظارہ دیتا پھر رہا تھا اور بلند آواز میں ارطغرل ڈرامے کا علامتی میوزک دل پر دستک دے رہا تھا۔ ہمارے شرکائے سفر خواتین اور نوجوانوں بلکہ بزرگوں نے بھی اپنے اپنے جثے کے مطابق لباس پہن کر، تلواریں سجا کر خود کو ارطغرل اور حلیمہ سلمان کے روپ میں بدلا اور تاریخ کے نہ سہی کیمرے کے صفحوں پر خود کو امر کرلیا۔ بیگم صاحبہ نے سیٹ پر کئی تصویریں بنوائیں اور میں نے اُدھار کی ایک قائی ٹوپی میں خود کو ارطغرل سے قریب کیا۔ جناب اقرارالحسن نے اپنے بیٹے ’’پہلاج‘‘ کے لیے اس کے سائز کا قائی لباس اور تلوار خریدی اور دیگر لوگوں نے بھی۔
سوگوت میں ایک لمبا وقفہ گزارنے کے بعد ہم قونیہ سے بورصا کے درمیان 520 کلومیٹر اور سات گھنٹے کے سفر کے دوسرے مرحلے کے لیے روانہ ہوئے۔ ’’بورصا‘‘ جہاں رات ہمیں قیام کرنا تھا اور اگلی صبح شہر کی دو بڑی مسجد، کلاک ٹاور، اور سمندر کے کنارے استنبول کے منظر سے لطف اندوز ہونا تھا۔
سوگوت سے نکلنے سے پہلے یہ تازہ ترین خبر بھی سماعت فرمائیں کہ ہم ’’سوگوت‘‘ میں نومبر 2020ء میں موجود تھے اور اُن دنوں اس مزار کے قرب و جوار میں ننانوے ٹن سونا مدفون تھا جس کی مالیت چھ ارب ڈالر سے زائد ہے، اور یہ ہمارے وہاں سے واپس آنے کے بعد دریافت ہوا اور حکومتِ ترکی نے دسمبر 2020ء میں اس کی دریافت کا سرکاری اعلان کیا۔ ہمیں امید واثق ہے کہ یہ ہماری ’’برکتوں‘‘ کا نتیجہ تھا۔ ترک قوم کو اس کی معیشت کے استحکام کی یہ منزل مبارک ہو۔ بزرگوں کے محض روحانی فیض ہی نہیں، مادّی فیوض و برکات کی تلاش کا سلسلہ بھی جاری رہنا چاہیے۔ ہمارے ملک میں تو ’’نذرانوں‘‘ کے ڈبوں سے ماہانہ کروڑوں روپے کے نقد مادّی فیوض و برکاتِ بزرگان سے کون ناواقف ہے! افسوس یہ ہے کہ ہمارے ملک میں یہ بھاری رقوم کسی قومی و ملکی مفاد میں استعمال ہوتی نظر نہیں آتیں۔ اگر انہیں درست استعمال کرلیا جائے تو قوم معاشی الجھنوں اور بیرونی قرضوں سے بآسانی نجات پالے۔
نمازِ جمعہ:
سوگوت اور بورصا کے سفر کے دوران ایک خوب صورت قصبے کی مسجد میں نمازِ جمعہ کے لیے رکے۔ مسجد مناسب حد تک بڑی اور ترک مساجد کے مخصوص طرزِ تعمیر کی حامل تھی۔ ترکی کی تقریباً تمام قدیم و جدید مساجد ایک ہی انداز کی ہیں۔ گولائی مائل پہلودار ایک گنبد اور پتلے لمبے دو مینار اور ان پر سبز رنگ، جب کہ اس کی نوکیلی چوٹی گولڈن یا سلور۔ جدید مساجد کے رنگ تازہ و چمک دار اور قدیم مساجد کے مدھم رنگ۔ جس مسجد کے میناروں کے رنگ جس قدر مدھم، اسی قدر وہ قدیم۔ جس دیہی مسجد میں ہم نے نماز پڑھی وہ زمین سے خاصی بلندی پر تھی، جب کہ نیچے ایک وسیع قطعۂ ارضی مسجد کے ساتھ منسلک تھا، مگر نہ وہاں فرش، نہ گھاس۔ کچھ لوگ وہاں بھی جائے نماز بچھائے بیٹھے تھے۔ شاید کورونا سے بچنے کے لیے۔ مسجد کے نچلے حصے میں خواتین کی جائے نماز تھی، مگر شاید وہاں سوائے ہمارے قافلے کی چند خواتین کے، قصبے کی کوئی خاتون نہیں تھی۔ پوری مسجد میں نمازیوں کی اندازاً تعداد پچاس کے لگ بھگ ہوگی۔ اس مسجد میں اور تقریباً ہر مسجد میں ترکی کا سرخ پرچم ضرور آویزاں تھا۔ پاکستان میں محراب میں خطبہ کا منبر رکھا جاتا ہے، جب کہ ترکی کی ہر مسجد میں دائیں جانب دس بارہ قدم اوپر چڑھ کر منبر پر بنی ہوئی چھتری تلے امام صاحب نمازیوں کی طرف رُخ کرکے خطبہ ارشاد فرماتے ہیں۔ ہاتھ میں پکڑے ہوئے کاغذات سے لگتا ہے کہ یہ سرکاری خطبہ ہے جو پڑھا جارہا ہے۔ یہ بھی اندازہ ہوا کہ تمام ائمہ و خطباء اور مؤذنین حکومت کے ملازم ہیں اور کسی فرقے، مسلک کا نہ کوئی قبضہ ہے، نہ خصوصی و امتیازی پہچان اور نہ مساجد میں اس کا اظہار۔
امام صاحب نے لکڑی کے بنے ہوئے ایک کم اونچائی والے چوبی پٹرے پر، جو محراب میں رکھا ہوا تھا اور اس پر جائے نماز موجود تھی، کھڑے ہوکر یعنی تمام نمازیوں اور عمومی صفوں سے اونچا ہوکر جماعت کروائی اور جماعت سے پہلے تمام نمازیوں کو ماسک لگانے پر مجبور کیا، اور اُس وقت تک نماز شروع نہ کی جب تک سب لوگوں نے ماسک نہ پہن لیے۔ ایک اور قابلِ ذکر بات یہ ہوئی کہ عربی خطبہ کے دوران آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ اور فرشتوں کے درود بھیجنے اور اہلِ ایمان کو اس کے حکم کی آیت کے بعد مسجد میں موجود تمام نمازیوں نے بآوازِ بلند درود شریف پڑھا، جب کہ ہمارے یہاں برصغیر اور پاکستان میں دورانِ خطب خاموش رہنے کی تلقین کی جاتی ہے اور اگر درود پڑھا بھی جاتا ہے تو دل میں۔ نماز کے بعد کچھ دیر مسجد میں بیٹھے رہنا بھی ترکوں کا معمول ہے۔
ترکی کے سارے سفر کے دوران ہمیں گداگر کہیں نظر نہ آئے سوائے اس مسجد کے باہر۔ یہاں ایک بچہ رومال پھیلائے پاکستانی بھکاریوں کی طرح نمازیوں سے بھیک اکٹھی کرنے میں مصروف تھا۔ کسی پاکستانی ’’حاتم طائی‘‘ نے پاکستانی پچاس روپے کے نوٹ کے ذریعے احسانِ عظیم کر رکھا تھا۔ آگے چلے تو ایک بوڑھی خاتون فارسی ملی ترکی میں طالبِ خیرات ہوئی۔ ہم نے اسے حسب توفیق ’’لیرا‘‘ پیش کرکے دعائیں سمیٹیں جس میں اس بڑھیا نے پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے اچھے اور ممنونیت بھرے جذبات کا اظہار کیا۔ اس کا یہ ردعمل یقیناً پاکستان سے محبت کا عکاس بھی ہوگا، مگر ہمیں اس میں ’’لیرا‘‘ کا دخل زیادہ محسوس ہوا۔ بورصا کی گرینڈ مسجد کے باہر ایک بچے نے جوتے پالش کروانے پر اصرار کیا، ہم نے اسے چند لیرا پیش کیے تو اس نے بڑی خودداری سے انکار کردیا۔
ترکی کی مساجد میں مخصوص جگہ:
ترکی کی بڑی مساجد گرینڈ مسجد بورصا اور ایا صوفیہ استنبول میں ایک خاص بات یہ نظر آئی کہ ان میں کم و بیش چالیس افراد کے لیے مرکزی محراب کے سامنے دو ایک صفیں چھوڑ کر ایک ڈیڑھ فٹ لکڑی کی جالی کے ذریعے جگہ مخصوص کی گئی تھی۔ حتماً یہ معلوم نہ ہوسکا کہ یہ جگہ اعیانِ سلطنت کے لیے ہے یا قدیم حکمرانوں کے لیے، یا پھر امرا و رئوسائے قوم کے لیے۔
باغات کا شہر بورصا:
عثمانی خلفاء، مجاہدوں اور غازیوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہم 6 نومبر کی شب بورصا پہنچے اور گولڈ میجسٹی ہوٹل میں ٹھیرے۔ ترکی کا چوتھا بڑا شہر اور شمال مغربی صوبے ’’بورصا‘‘ کا دارالخلافہ ’’اولوداغ‘‘ نامی پہاڑ کے درمیان میں ایک انتہائی برفانی مقام، جہاں کی تفریح گاہیں، کیبل کار، بوٹافیکلی گارڈن اور کئی زرخیز میدان سیاحوں کی کشش کا باعث ہیں۔ بارہ تیرہ لاکھ آبادی کے اس شہر کو YESIL BORSA یعنی ’’سبز بورصا‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں کا ایک چھوٹا سا کلاک ٹاور بھی مشہور اور قابل دید سمجھا جاتا ہے۔ اگر ترک فیصل آباد کا گھنٹہ گھر اور اس کے اردگرد آٹھ بازاروں کی چہل پہل دیکھ لیں تو اس کلاک ٹاور کو ممکن ہے کوئی اور نام دے دیں۔ یہ کلاک ٹاور فیصل آباد کے کلاک ٹاور کے سیاسی استعارے ’’گھنٹہ گھر‘‘ کا مصداق ہرگز نہیں۔ یہ شہر جہاں اپنی شدید برف باری کے حوالے سے معروف ہے، وہیں اس کی برفانی تفریح گاہیں دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ یہ شہر دنیا کے مختلف ممالک کے بیس شہروں کا ’’جڑواں‘‘ قرار دیا گیا ہے جن میں سے ایک پاکستان کا شہر ’’ملتان‘‘ بھی ہے۔ نہ جانے ان دونوں میں کیا مماثلت ہے جس کی بنا پر اسے ’’جڑواں‘‘ قرار دیا گیا! بورصا میں برف ختم نہیں ہوتی اور ملتان میں گرمیوں میں پانی ٹھنڈا کرنے کے لیے برف ملتی نہیں۔ بورصا 1326ء میں سلطنتِ عثمانیہ کا دارالحکومت بھی رہا۔
بورصا شہر کا باعثِ دید:
’’بورصا‘‘ شہر میں ہم نے ایک تو ’’کلاک ٹاور‘‘ دیکھا، دوسرا ترکی کا سب سے بڑا سلک بازار Kzakhan… اور یہ دونوں سرِراہ دیکھنے کو ملے جب ہم ’’بورصا‘‘ میں اپنی اصل منزل ’’عثمان غازی‘‘ اور اس کے بیٹے ’’اورحان غازی‘‘ کے مزارات کی زیارت اور بلندیٔ درجات کی دعا اور ان کی جرأت، بہادری اور اسلام دوستی کو سلام کرنے پہنچے۔ پاکستان سے ترکی کے طویل سفر کا یہی مقصود و مدعا تھا ہمارا۔
عثمان غازی اور ان کے بیٹے اورحان غازی کی پہلو بہ پہلو مگر الگ الگ قبور ’’بورصا‘‘ کی اصل یادگار اور پہچان ہیں۔ دنیا بھر کے سیاح بڑی عقیدت، احترام اور اشتیاق سے ایک خوب صورت اور وسیع باغ اور شہر کے مرکزی مقام پر موجود ان زعمائے امت کو سلام پیش کرتے اور ان کی جرأت، ہمت اور شجاعت کی داستانوں سے آگاہ ہوتے اور بلندیٔ درجات کی دعا کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ چند قبریں اور بھی موجود ہیں۔ یہاں باہر دو پہرے دار مخصوص قائی لباس میں موجود ہمہ وقت چوکس و ہوشیار کھڑے رہتے ہیں۔ یہاں بھی اپنے نظام الاوقات کے مطابق مخصوص فوجی انداز میں گارڈ کی تبدیلی عمل میں لائی جاتی ہے۔ ایک خاص بات یہ کہ مزار میں ایک مخصوص چبوترے پر چوبیس گھنٹے تلاوت قرآنِ مجید کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یہاں کی جانے والی تلاوت ارطغرل غازی کے مزار میں بھی گونجتی سنائی دی۔ یہ منظر کچھ اور مزاراتِ مقدسہ میں بھی دکھائی دیا۔
بورصا کی مسجد آیا صوفیہ:
بورصا میں ایک گرینڈ مسجد، جسے ترکی میں ’’اولو جامع‘‘ (ULU CAMI) کہتے ہیں۔ اولین عثمانی طرز کی شاہ کار یہ مسجد طویل عرصے تک مکہ کی ’’المسجد الحرام‘‘ کے بعد دنیا کی بڑی مسجد شمار کی جاتی رہی۔ اسے سلطان بایذید نے 1399ء میں جنگ نکلوپولس میں فتح کی یادگار کے طور پر تعمیر کیا۔ یہ بلاشبہ ایک خوب صورت، مضبوط، مخصوص طرز تعمیر کا شاہکار ہے۔ اسے بورصا کی ’’آیا صوفیہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی دوسری اور بڑی پہچان اور شہرت اپنے وقت کے عظیم کیلی گرافرز کے 192 شہرہ آفاق اور بے مثل و منفرد خطاطی کے شہ پارے ہیں جو اس مسجد کی دیواروں پر جا بجا نصب ہیں جن میں الاسماء الحسنیٰ اور اسمائے رسولؐ تقریباً سب ہی مختلف انداز، خط اور سائز میں لکھے گئے ہیں۔ روایت ہے کہ اس مسجد میں ایک ایسا متبرک مقام بھی ہے جہاں حضرت خضر علیہ السلام نے نماز ادا کی تھی۔ ہم نے بھی اس جگہ دو نوافل ادا کیے اور بارگاہِ ایزدی میں دعائوں کا شرف حاصل کیا۔
(جاری ہے)
کعبہ کا دروازہ اور حجرِاسود کا ٹکڑا:
یہ بھی روایت ہے کہ اس مسجد میں کعبہ مشرفہ کا پانچ سو سالہ قدیم دروازہ بھی موجود ہے جو سلیم اوّل نے تحفتاً پیش کیا اور کعبہ مقدسہ میں نصب حجرِاسود کا ایک ٹکڑا بھی موجود ہے جو کعبہ سے چوری ہونے والے حجراسود کا ایک ٹکڑا ہے۔ افسوس کہ ہم ان دونوں تبرکات کی زیارت نہ کرسکے۔ اس مسجد کے بیس گنبد اور دو طویل مینار بھی اس کی پہچان ہین۔ ہمیں اپنے سفرِ ترکی مں دیکھی جانے والی مساجد مین سے یہ واحد مسجد نظر آئی جس میں ’’چندہ بکس‘‘ بھی موجود تھا۔ اپنا حصہ ڈالنے کی سعادت بھی ہمارا مقدر ٹھہری۔
گرین مسجد:
ایک اور خوب صورت اور بڑی مسجد شہر کی بلند ترین پہاڑی پر واقع ہے‘ جسے سلطان مہمت نے 1419ء میں تعمیر کیا۔ یہ مسجد سبز رنگ کی دل کش ٹائلز اور خوب صورت کیلی گرافی سے مزین ہے۔ تقریباً ہر بری مسجد کے باہر وسیع احاطے میں سبزہ‘ پھول اور درخت نظر آئے اور باہر شاپنگ مالز۔ یہاں سرکاری امامو مؤذن سے مختصر ملاقات ہوئی۔ عربی کے چند جملوں میں مختصر تبادلۂ خیال ہی ہو سکا‘ مؤذن صاحب کورونا کے خطرات کے کچھ زیادہ ہی شکار تھے اور محتاط بھی۔ اس مسجد کے باہر بہت اونچی جگہ پر ایک اور خوب صورت‘ پُر شکوہ مقبرہ تھا‘ جہاں کسی بڑے عالم دین اور دیگر افراد کی قبریں موجود تھیں۔ ہم ان کی شناخت نہ جان سکے کہ سیڑھیاں چڑھ کر بے حال ہو چکے تھے‘ بہرحال دعا کی اور تصویر بنائی۔
آئی برڈ ویو:
ایک اور پہاڑی پر ایک خوب صورت منظر بھی ہمارا حاصلِ سفر تھا‘ ایک وسیع‘ خوب صورت احاطہ جو چند سال پہلے 2010ء میں تعمیر کیا گیا‘ جہاں سے استنبول کے مشاقانِ دید کو ’’بورصا‘‘ سے استنبول کا طائرانہ نظارہ کرایا جاتا ہے۔ جنگلے کے ساتھ کھڑے ہو کر نظر جھکائیں تو بورصا کا خوب صورت شہر اور نظر دوڑائیں تو دور سمندر پار استنبول کے دل فریب مناظر۔ بلاشبہ ہمارا اشتیاق بھی دو چند ہوگیا اور استنبول کی جانب کھنچنے لگے۔
استنبول کے مسافر:
ایک آنکھ سے ’’بورصا‘‘ شہر اور دوسری سے ’’استنبول‘‘ شہر دیکھنے کے بعد استنبول کا اشتیاق فزوں تر تھا۔ مگر ابھی استنبول کے وصل میں دو منزلیں حائل تھیں ایک ’’منیرہ‘‘ اور دوسرا 600 سال پرانا گائوں Cumalikiziki۔
’’منیرہ‘‘ ایک جدید شاپنگ مال ہے جہاں سے ہمیں ’’ٹرکش ڈیلائٹس‘‘ اور دیگر اشیا کی خریداری کی ترغیب دی گئی تھی‘ یہاں مختلف اقسام کی روایتی اور غیر روایتی مٹھائیاں جو ترکی کی مشہور و مقبول سوغات ہیں‘ ہمیں دو سوئٹس زیادہ پسند آئیں ایک مختلف ذائقوں‘ رنگت ار فلیورز کی جیلی نما مٹھائی اور دوسری مختلف پھلوں کو خشک کرکے محفوظ کی گئی۔ عربین ڈیلائٹس جنہیں ترکی ذائقہ اور انداز دیا گیا تھا‘ بھی موجود تھیں اور بے شمار اقسام۔ یہ مٹھائیاں خاصی مہنگی تھیں۔ ان کے علاوہ زعفران کی اقسام‘مختلف جڑی بوٹیاں‘ مختلف امراض کے لیے۔ کافی کے ثابت دانے اور تازہ پسنی ہوئی کافی‘ کاسمیٹکس کا سامان‘ سوونیئرز‘ خوشبوئیات وغیرہ سب کچھ موجود تھا۔ پیکنگ پرکشش اور محفوظ مگر زون میں شامل۔ ایک خاص چیز وہاںمختلف قسم کے ’’صابن‘‘ تھے۔ ترکی صابن خاصے اچھی کوالٹی اور اقسام کے دنیا بھر میں مقبول ہیں۔ پیک شدہ اور پیکنگ کے بغیر۔ ہمیں ان کے فضائل کا علم نہ تھا اور نہ ہی ضرورت البتہ بس میں بیٹھنے کے بعد معلوم ہوا کہ گائیڈ مسٹر والکن نے ’’ڈونکی سوپ‘‘ کی خاصی مقدار خریدی جو آئلی اسکن کے لیے مفید ہے۔ پاکستانیوں نے ڈونکی سوپ جو گدھی کے دودھ سے بنایا جاتا ہے‘ کے حوالے سے مسٹر والکن کو خوب زِچ کیا۔
’’منیرہ‘‘ نے ہمارے تیس ہزار روپے خرچ کروا دیے۔ جو ہم نے لیرا اور ڈالرز میں ادا کیے۔ یورو کی کرنسی ڈالر سے زیادہ مقبول ہے اور سیاحوںکو مشورہ دیا جاتا ہے کہ آتے ہوئے ’’یورو‘‘ ساتھ لائیں کہ اس کا اچھا ریٹ ’’لیرا‘‘ میں مل جاتا ہے اور واپس جاتے ہوئے لیرے ساتھ لائیں‘ جو پاکستان میں منافع بخش قیمت میں فروخت ہوسکیں گے۔ ’’منیرہ‘‘ والوں سے ہم ’’ترکی نمی دانم‘‘ اور وہ انگریزی سے الرجک ہونے کے باعث کوئی بارگینگ نہ کرسکے اور نہ مانگی قیمت ادا کرنے پر مجبور رہے۔ ’’ظالموں‘‘ نے رسید بھی نہ تھی کہ استنبول میں موازانہ کرکے اپنے ’’لٹنے‘‘ کا جائزہ لے سکتے۔اچھا ہی ہوا‘ ہم لٹے تو سہی‘ مگر اس کے ’’بوجھ‘‘ اور ’’درد‘‘ سے پاک ہی رہے۔
600 سال پرانا گائوں:
راستے کی دوسری ’’منزل‘‘ چودھویں صدی عیسوی میں قائم کیا جانے والا چھ سو سال پرانا گائوں تھا۔ برسرِ شارہ ایک اونچی پہاڑی پر قائم اور گلیاں‘ مکانات اور دیگر اماکن اپنی اصل حالت میں موجود عالمی ادارے یونیسکو کے ورلڈ ہیرٹیج (آثارِ قدیمہ) میں شامل ہے جس کے گھروں میں تیار ہونے والا پاستا‘ خشک مٹھائیاں اور تازہ پھل جو مقامی باغات اور فارمز سے حاصل کیے جاتے ہیں‘ بہت مقبول ہیں۔
صاف‘ سرسبز و شاداب‘ پھل دار درختوں سے بھرا ہوا یہ گائوں جدت و قدامت کا حسین امتزاج تھا۔ ہم سے اونچائی پر تو نہ چڑھا گیا‘ مگر جو دیکھا اور سنا اس گائوں کو خاصے کی چیز سمجھا۔ گائوں کے شروع میں قدیم انداز کا بازار‘ چھوٹی کھوکھے نما مگر ترتیب سے بنائی گئی دکانیں اور ان میں قدیم روایات و ثقافت کی عکاس چیزیں‘ سوونیئر اور یادگاری کے لیے برائے فروخت موجود تھیں۔ ترکی کے قدیم روایتی لباس کھلی گھیرے والی شلواریں اور رنگ برنگی روایتی کھلی قمیضمیں اور سروں پر مخصوص انداز سے اسکارف لپیٹے بوڑھی خوارتین ان دکانوں پر بہت معمولی قیمت پر یہ چیزیں بیچتی نظر آئیں۔ گائوں میں جدید دکانیں بھی نظر آئیں۔ آنے والے گاڑیوں پر سوار ہو کر آتے‘ گاڑی کا چکر لگاتے اور قدامت کے انداز میں جدت کو تلاش کرتے‘ مناظر و ماحول سے لطف اٹھاتے۔ راستے میں مختلف مقامی پھلوں سے پانی ملے جوس بیچنے والے بھی بجابجا نظر آئے۔ اونچائی کی بیزاری اور رکاوٹ نیہمیں نہ کچھ خریدنے دیا نہ جوس سے لطف اٹھانے دیا۔
جانبِ منزل:
بورصا کے اندر اور باہر خاصا وقت گزر گیا‘ منتظمین نے اعلان کر رکھا تھا کہ ہم ’’بورصا‘‘ سے اپنی بسوں سمیت بحری جہاز کے ذریعے شام ڈھلے استنبول کا سفر کریں گے۔ یقینا ایک یادگار اور خوش گوار انوکھا سفر ہوتا۔ مگر ہم بورصا اور ’’منیرہ‘‘ کے ایسے اسیر ہوئے کہ استنبول کی جانب زمین راستے کا انتخاب کرنا پڑا جویقینا طویل بھی تھا اور قدرے بور بھی۔
رات کے اندھیروں میں استنبول پہنچے‘ بس اس کی روشنیوں میں اس کی جدت اور قدامت کے ساتھ حسنِ تمام کی جھلک ہی دیکھ سکے۔ رات کا کھانا مقامی ریستوران میں کھایا اور ہوٹل Clarion Golden Norn میں جا ٹھہرے‘ جو اجک اونچی پہاڑی پر تھا‘ مگر اس کے فضائل و اردگرد کے سحر سے اگلی صبح باخبر ہوئے۔
(جار ی ہے)