قدرت اللہ شہاب کا انٹریو

570

طاہر مسعود: یعنی گلڈ ادیبوں کے غیر ادبی مفادات کے تحفظ کے لیے قائم ہوا تھا؟
قدرت اللہ شہاب: جی ہاں! جیسے صحافیوں کی انجمن ہوتی ہے یا جیسے ٹریڈ یونین۔
طاہر مسعود: آپ اکادمی ادبیات پاکستان کے سلسلے میں چند ایسی تجاویز پیش کرنا چاہیں گے جن سے مفید نتائج برآمد ہوں؟
قدرت اللہ شہاب: میرا خیال ہے کہ دنیا بھر کی اکیڈمیوں کا مطالعہ کرنے کے بعد ان ہی خطوط پر ایک ایسی اکیڈمی بنائی جانی چاہیے جو ہمارے ماحول اور مزاج سے ہم آہنگ ہو۔ اس اکیڈمی کا تعلق حکومت سے نہ ہو۔ گلڈ کا حکومت سے بس اتنا ہی تعلق تھا کہ ہم اس سے گرانٹ لیتے تھے۔ مجوزہ اکیڈمی کا درجہ اتنا بلند ہو کہ ہر ادیب کے لیے کہ وہ مرنے سے پہلے اس کا ممبر بن جائے، ایک اعزاز کی بات ہو جیسے فرانس کی اکیڈمی آف لیٹرز ہے کہ اس کے مخصوص ممبران ہوتے ہیں اور ایک کی جگہ خالی ہو جبھی دوسرا اس میں نامزد ہوتا ہے۔
طاہر مسعود: ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب نے پچھلے دنوں ایک مذاکرے میں کہا کہ گلڈ ادیبوں کو نقصان پہنچانے کا موجب بنا، ادیب جنہیں پتا نہیں تھا کہ شہرت حاصل کرنے، بیان دینے، پریس کانفرنس کرنے کی کیا اہمیت ہے، گلڈ نے انہیں اس راہ پر لگایا اور یہ کہ گلڈ تو ادیبوں کو ایوب خان کے جال میں پھانسنے کا ایک حربہ تھا۔ آپ کیا کہتے ہیں؟
قدرت اللہ شہاب: ایسی بات نہیں ہے، میں اس کا گواہ ہوں اور اپنی کتاب ’’شہاب نامہ‘‘ میں رائٹرز گلڈ پر پورا ایک باب لکھ رہا ہوں جس میں ان سارے الزامات کی وضاحت موجود ہو گی۔ مختصراً یوں سمجھیے کہ گلڈ کی مخالفت دو سطحوں پر تھی۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا تھا کہ گلڈ ایوب خان کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے وجود میں آیا ہے اور حکومت کے اندر بعض افسران کا تاثر تھا کہ یہ سرخوں کی پناگاہ ہے اور وہ کہتے بھی تھے کہ گلڈ تو فیض اور احمد ندیم قاسمی کے لیے بنا ہے۔ ’’نوائے وقت‘‘ گلڈ کا سخت مخالف تھا اور اس کے خلاف اکثر لکھتا رہتا تھا۔ اس سلسلے میں میری حکومت میں پیشی بھی ہوئی۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ یہ سب کیا ہے؟ میں نے کہا کہ یہ الزام غلط ہے کہ اس میں صرف بائیں بازو کے لوگ شامل ہیں۔ اس میں فیض اور قاسمی ہیں تو حفیظ جالندھری اور نسیم حجازی بھی ہیں۔
طاہر مسعود: بعد میں حکومت اور گلڈ کے درمیان اختلافات شدید ہوگئے تھے؟
قدرت اللہ شہاب: حکومت سے نہیں بلکہ چند لوگوں سے اختلافات ہوئے تھے۔
طاہر مسعود: یہ فرمائیے کہ آپ ذاتی طور پر زندگی میں ادب کو کس حد تک اہمیت دینے کے قائل ہیں؟ کیا آپ کے نزدیک ادب کوئی ایسی قابل قدر اور قیمتی جنس ہے کہ جس کے لیے دنیاوی آسائشوں کو تج دیا جائے؟
قدرت اللہ شہاب: اس کا انحصار ادیب کے رویے پر ہے کہ وہ ادب کو کس شدت سے اہمیت دیتا ہے۔ اگر وہ کل وقتی ادیب ہے تو ظاہر ہے ادب اس کا اوڑھنا بچھونا ہوگا۔ اگر اس کا پیشہ کچھ اور ہے تو ظاہر ہے، ادب اس کے لیے محض ایک مشغلہ ہوگا۔ اس کے لیے کوئی اصول متعین نہیں کیا جاسکتا۔
طاہر مسعود: لیکن ذاتی طور پر آپ کا رویہ اس ضمن میں کیا رہا ہے۔
قدرت اللہ شہاب: میں اسے whole time نہیں بنا سکا۔ میرا زیادہ وقت دوسرے دفتری کاموں میں گزرا لیکن اس عرصے میں مجھے جن چیزوں نے متاثر کیا ان کے بارے میں جتنا لکھنے کا موقع ملا، میں نے لکھا۔
طاہر مسعود: آپ کی دو حیثیتیں تھیں، ادیب کی اور افسر کی۔ آپ نے اپنے افسر ہونے کی حیثیت کو ادیب کی حیثیت پر مقدم جانا اور اسے زیادہ اہمیت دی جب کہ آپ میں ایک بڑے ادیب بننے کی صلاحیتیں موجود تھیں؟
قدرت اللہ شہاب: افسر ہونے کے تقاضے اتنے زیادہ تھے کہ حلال روٹی کمانے میں وقت زیادہ خرچ ہوجاتا تھا لہٰذا ادب کو میں اتنا وقت نہ دے سکا۔
طاہر مسعود: اس بارے میں سوچتے ہوئے کبھی آپ کو کوئی افسوس، ملال یا پچھتاوا محسوس ہوتا ہے؟
قدرت اللہ شہاب: کوئی نہیں۔ اصل میں مجھ میں ادب کی اتنی ہی صلاحیتیں تھیں جتنا میں نے لکھا۔ اگر میرے پاس زیادہ وقت ہوتا تو بھی اتنا ہی لکھتا۔
طاہر مسعود: آپ نے ادیب کے کل وقتی ادیب ہونے کی بات کی۔ یہ ہمارے ہاں کے ادیبوں کا بڑا اہم مسئلہ ہے کہ ایک طرف معاش کے مسائل ہیں تو دوسری طرف ادب کے مطالبات۔ ان دو چیزوں میں ان کے لیے توازن قائم رکھنا ایک پیچیدہ مسئلہ رہا ہے۔یعنی اگر وہ معاشی معاملات میں پوری طرح الجھیں تو ادب کا دامن چھوٹتا ہے اور ادب کی طرف پوری طرح متوجہ ہوں تو دنیاوی اعتبار سے ناکام آدمی کہلائیں۔ آپ کے خیال میں اس مسئلے کا کوئی حل ہے؟
قدرت اللہ شہاب: اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ادب کے سہارے ادیب زندگی نہیں گزار سکتا کیوں کہ کتابیں بکتی نہیں ہیں۔ یورپ میں ایک ادیب اچھی کتاب لکھ دے تو زندگی سنور جاتی ہے جب کہ یہاں ہزار گیارہ سو سے زیادہ کتابیں چھپتی نہیں ہیں اور سالہاسال کے بعد دوسرے ایڈیشن کی نوبت آتی ہے۔
طاہر مسعود: یہ تو مسائل اور اس کے اسباب ہوئے۔ اصل سوال یہ ہے کہ اس کا حل کیا ہے؟ کیا آپ چاہیں گے کہ حکومت ادیبوں کے ماہانہ وظائف مقرر کردے یا کوئی اور صورت ہو؟
قدرت اللہ شہاب: دیکھیے ہمارے ملک میں تعلیم عام نہیں ہے۔ پڑھنے والوں کی تعداد محدود ہے یا جو ہیں ان میں کتابیں خریدنے کی استطاعت کم ہے۔ میں نے اپنے زمانے میں کابینہ کے سامنے ایک تجویز رکھی تھی کہ سرکاری افسران اپنی تنخواہوں کا ایک حصہ کتابوں کی خریداری پر صرف کریں اور ان کتابوں کی فہرست حکومت کو فراہم کردیں اور حکومت ان کی تنخواہوں میں سے رقم منہا کرکے کتابیں خرید کر انہیں فراہم کردے لیکن میری اس تجویز کو پذیرائی حاصل نہ ہوئی۔ حکومت نے عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا اور افسران نے تو سخت برا منایا۔ میری ذاتی رائے میں جب تک ملک میں تعلیم کے تناسب میں اضافہ نہیں ہوگا۔ ادیبوں کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔
طاہر مسعود: آپ وفاقی سیکرٹری تعلیمات کے عہدے پر فائز رہے، اس حوالے سے آپ نے تعلیم کو عام کرنے کے سلسلے میں کوئی پالیسی مرتب کی یا اس ضمن میں کسی ایسی مرتب شدہ رپورٹ پر عملدرآمد کرایا؟
قدرت اللہ شہاب: جب میں ایجوکیشن سیکرٹری بنا تو مجھے ایک بنی بنائی پالیسی ورثے میں ملی جس پر مجھے عمل درآمد کرنا تھا۔ اس سلسلے میں اس زمانے کی حکومت کا رویہ قابل ذکر ہے۔ سرکاری سطح پر تعلیم کی اہمیت کے تو سبھی قائل تھے لیکن عملاً اس کے لیے کچھ کرنے پر کوئی تیار نہ تھا، مثلاً میں ایک واقعہ بتائوں۔ پنجاب کے کسی کالج میں طالب علموں میں جھگڑا ہوا۔ کالج بند کردیا گیا۔ ایوب خان نے مجھے گورنر مغربی پاکستان نواب کالا باغ کے پاس بھیجا کہ جا کر ان سے کہو کہ کالج کھولیں کیوں کہ کالج اگر نہ کھولا گیا تو لڑکوں کا سال ضائع ہوجائے گا۔ میں نے ان سے کہا کہ صدر صاحب پریشان ہیں کہ کالج کھلنے میں تاخیر ہوگئی ہے۔ نواب صاحب فرمانے لگے کہ اگر کالج بند ہے تو انہیں کیا تکلیف ہے؟ میں نے کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ لڑکوں کا ایک سال ضائع ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس سے کیا ہوگا؟ میں نے عرض کیا کہ جی اس سے بڑا نقصان ہوگا۔ وہ بولے، ’’اگر لڑکے ساری زندگی نہ پڑھیں تو کیا ہوگا۔ میرے تمہارے یا صدر صاحب کے باپ دادا کون سے ایم اے، بی اے تھے؟‘‘ اب اگر اس رویے کے لوگ گورنر ہوں تو آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ تعلیم کا کیا حال ہوگا؟ دوسری طرف مشرقی پاکستان میں عبدالمنعم خاں تھے۔ ان کے متعلق مشہور تھا کہ محب وطن ہیں اور قوم پرست بنگالی ہیں لیکن ان کے دور میں ٹیکسٹ بک بورڈ سے ایسی کتابیں منظور ہو کر تعلیمی اداروں میں پڑھائی جاتی رہیں، جن میں پاکستان اور دو قومی نظریے کے خلاف مواد موجود تھا۔ تاریخ کی ایک ایسی کتاب کورس میں شامل تھی جو ایک ہندو مصنف نے کلکتہ میں بیٹھ کر لکھی تھی اور وہ ڈھاکا میں چھپی تھی۔ ہم ڈیڑھ برس تک کوشش کرتے رہے کہ اس کتاب کو ہٹایا جائے، اسے مسترد کردیا جائے لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔ مشرقی پاکستان ٹوٹ گیا لیکن وہ کتاب نہیں ہٹی، چوں کہ تعلیم صوبائی حکومت کی ذمہ داری تھی اس لیے ہم براہِ راست پوچھ گچھ کرنے سے بھی معذور تھے۔
طاہر مسعود: آپ کے علم میں ہوگا کہ عوام بیورو کریسی سے کتنے بیزار ہیں۔ بیورو کریٹ طبقہ بھی عوام کو تحقیر آمیز نگاہوں سے دیکھتا ہے۔ آپ ایک حساس ادیب ہونے کے علاوہ ایک کامیاب بیورو کریٹ بھی ثابت ہوئے۔ لوگ یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ بحیثیت ایک سچے ادیب ہونے کے آپ نے اس ظالمانہ نظام کا حصہ بننا کیسے گوارا کرلیا؟
قدرت اللہ شہاب: میں اس نظام میں ساری عمر مس فٹ رہا۔ میں 1941ء میں انڈین سول سروس میں مقابلے کے ذریعے داخل ہوا۔ انگریزوں کا زمانہ تھا، چوں کہ جنگ چھڑی ہوئی تھی اس لیے تربیت کے لیے ہمیں انگلستان بھیجنے کے بجائے دیرہ دون میں رکھا گیا۔ تربیت کے بعد جو میری پہلی رپورٹ بھیجی گئی وہ یہ تھی کہ یہ شخص اس سروس کے لیے مکمل طور پر مس فٹ ہے اور ایک دو سال سے زیادہ اس کے لیے اس سروس میں ٹکنا ناممکن ہوگا۔
طاہر مسعود: اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ جتنے عرصے تک سول سروس میں رہے، اس عرصے کو آپ نے انتہائی ذہنی کرب کی حالت میں گزارا ہوگا؟
قدرت اللہ شہاب: ذہنی کرب کی حالت میں نہیں۔ I had my way جس کام کو میں ٹھیک سمجھتا تھا، اسے کرتا تھا، اوپر والے لوگ میرے اس رویے کو ناپسند کرتے تھے اس لیے میری ملازمت کا زمانہ نارمل نہیں گزرا۔ چار دفعہ میں نے استعفیٰ دیا۔
طاہر مسعود: یعنی کئی مرتبہ آپ نے اس نظام سے علیحدہ ہونا چاہا؟
قدرت اللہ شہاب: جی ہاں! میں نے کئی بار ایسا کرنا چاہا اور جب میں نے ملازمت چھوڑی، اس وقت بھی میری ریٹائرمنٹ کو آٹھ سال باقی تھے۔
طاہر مسعود: آپ کے ملازمت چھوڑنے کی کیا وجوہات تھیں؟
قدرت اللہ شہاب: میں نے یحییٰ خان کے دور حکومت میں استعفیٰ دیا۔ مجھے ان کے چہروں پر لکھا ہوا نظر آگیا تھا کہ یہ ملک توڑنے والے لوگ ہیں۔
طاہر مسعود: اختلاف کا آغاز کہاں سے ہوا؟
قدرت اللہ شہاب: (صدر) جنرل یحییٰ خان سے ایک میٹنگ میں جھگڑا ہوگیا تھا۔ انہوں نے 25 مارچ 1969ء میں مارشل لا لگایا تھا۔ اس وقت اسلام آباد کی وفاقی سول حکومت کا مارشل لا سے تعلق ختم ہوگیا تھا اور ہمیں بھی یہاں بیٹھے بیٹھے اطلاعات صرف اخبارات سے موصول ہوتی تھیں۔ 14 اپریل کو دس دن کے بعد یحییٰ خان کو خیال آیا کہ سول حکومت کا سیکرٹریٹ بھی تو ہے تو انہوں نے مختلف بڑے بڑے محکموں کے سربراہوں اور وفاقی سیکرٹریوں کا اجلاس طلب کرلیا۔ سرکٹ ہائوس میں ہم بھی پہنچے۔ یحییٰ خان دس کے بجائے گیارہ بجے آیا۔ وہ شراب پیے ہوئے تھے۔ اس نے آتے ہی ڈانٹ ڈپٹ شروع کردی کہ ایوب خان کے زوال کا سبب آپ ہی لوگ ہیں۔ سول سرونٹس نے اسے گمراہ کیا تھا۔ اسے صحیح مشورے سے محروم رکھا لیکن میں خوشامد کو پسند نہیں کروں گا۔ میں جی حضوری کو پسند نہیں کرتا۔ وہ آدھ گھنٹے تک سختی سے ڈانٹتا ڈپٹتا رہا۔ تقریر کے اختتام پر اس نے پوچھا… ’’کوئی سوال؟‘‘ اس پر ایک سینئر افسر اُٹھ کھڑے ہوئے اور ہاتھ باندھ کر کہنا شروع کیا کہ ملک میں جو آفت آئی تھی وہ ٹل گئی ہے اور آپ کی صورت میں فرشتہ رحمت آگیاہے۔
(جاری ہے)

نہیں کریں گے۔ اس نے پوچھا کہ کیا تمہیں ایسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں؟ میں نے کہا جی نہیں، میں سیکرٹری اطلاعات ہوں لیکن میری اطلاعات کا ذریعہ صرف اخبارات ہیں اور ان سے مجھے معلوم ہوا کہ مارشل لا میں صرف مکھیاں ماری جارہی ہیں اور نالیاں صاف ہورہی ہیں لیکن میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا پاکستانی افواج کا کام اب یہی رہ گیا ہے؟ میری اس بات پر میٹنگ درہم برہم ہوگئی۔ فوراً ہی چائے کا وقت آگیا۔ اس کے بعد میں واپس آگیا اور استعفیٰ بھجوادیا۔
طاہر مسعود: وہ آپ کی آخری میٹنگ تھی؟
قدرت اللہ شہاب: جی ہاں! جنرل یحییٰ خان کے ساتھ میری پہلی اور آخری میٹنگ تھی۔
طاہر مسعود: صدر ایوب خان کے زمانے کی بات ہے کہ قرۃ العین حیدر کا ناول ’’آگ کا دریا‘‘ شائع ہوا جس پر کافی ہنگامہ آرائی ہوئی پھر وہ ملک چھوڑ کر چلی گئی۔ آپ کے اس سے قریبی تعلقات تھے اور آپ حکومت کے ایک اہم عہدے پر فائز تھے۔ لہٰذا آپ کو اس واقعہ کے پورے پس منظر کا علم ہوگا۔ جمیل الدین عالی صاحب نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ وہ ایوب خان کے مارشل لا سے ناراض تھیں اور اسی وجہ سے انہوں نے ملک چھوڑ دیا۔
قدرت اللہ شہاب: وہ محکمہ اطلاعات کے فلم اینڈ پبلیکشنز میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر تھیں۔ مارشل لا لگا تو ایک دن وہ صبح صبح میرے گھر آئی اور کہنے لگی کہ ’’کیا اب ہمارے بھونکنے پر بھی پابندی ہے؟‘‘۔ میں نے کہا، ’’ہاں بالکل‘‘ وہ کہنے لگی کہ ’’ہم چائے خانوں میں بیٹھ کر جو باتیں کرتے ہیں اب وہ بھی نہیں کرسکتے‘‘۔ میں نے کہا، ’’ہاں بالکل تم لوگوں کو ایسی باتیں نہیں کرنی چاہئیں کیوں کہ پکڑے جانے کی صورت میں مشکلات پیدا ہوجائیں گی‘‘۔ اس واقعہ کے بعد جب گلڈ وغیرہ بنا تو وہ اس میں پیش پیش تھیں۔ پھر اس نے ’’آگ کا دریا‘‘ لکھا۔ اس کی اشاعت سے قبل وہ اس کا ضخیم مسودہ لے کر میرے پاس آئی اور کہا کہ ’’اسے پڑھ لو‘‘ میں نے کہا ’’یہ بہت بھاری ہے جب چھپ جائے گا تو میں پڑھ لوں گا‘‘۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ یہ ایسی کتاب ہوگی کہ جس کے چھپنے سے اتنا شور پڑے گا۔ میں نے تو اب تک وہ کتاب نہیں پڑھی۔
طاہر مسعود: کہا جاتا ہے کہ اس ناول کے خلاف فضا بنانے میں بیورو کریسی کا بھی ہاتھ تھا اور کچھ لوگ اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے؟
قدرت اللہ شہاب: جی ہاں! کچھ لوگ بیورو کریسی میں ایسے تھے جنہوں نے اس کے خلاف پروپیگنڈہ کیا اور یہ سب کچھ تنقید کے پردے میں ہوا کہ یہ پاکستان کے خلاف ہے، جذبہ حب الوطنی کے خلاف ہے۔ وغیرہ۔
طاہر مسعود: موجودہ ادبی صورت حال پر آپ کا تبصرہ؟
قدرت اللہ شہاب: ہمارے زمانے سے بہتر صورت حال ہے۔ میں نقاد تو نہیں ہوں کہ اس طرح سے اپنی بات آپ کو بتا سکوں لیکن جو ادب لکھا جارہا ہے، میں اسے پڑھ کر لطف اندوز ہوتا ہوں۔
طاہر مسعود: افسانے میں علامت نگاری اور تجریدیت کا رجحان اور ویہ درآیا ہے۔
قدرت اللہ شہاب: (بات کاٹ کر) جی ہاں شروع میں تو یہ رویہ عجیب لگتا تھا۔ سمجھ میں بھی نہیں آتا تھا، ہر چیز میں نیا تجربہ شامل ہوتا ہے اس لیے ابتدا میں اجنبیت محسوس ہوتی ہے، لیکن آہستہ آہستہ لوگ اس کے عادی ہوجاتے ہیں، لہٰذا علامتی افسانوں کے بھی لوگ عادی ہوگئے ہیں۔
طاہر مسعود: جو افسانے آپ لکھیں گے یا جو کچھ لکھ چکے ہیں، ان میں آپ نے ان رجحانات کے اثرات قبول کیے ہیں؟ (جاری ہے)
قدرت اللہ شہاب: یہ تو میں جب لکھوں گا تو آپ خود محسوس کرلیں گے۔ ویسے میں نئی چیزوں کو سیکھنے کے سلسلے میں خاصا بوڑھا ہوچکا ہوں۔
طاہر مسعود: آج کا ادیب جو کچھ لکھ رہا ہے وہ نئے رجحانات کے تحت لکھ رہا ہے، لیکن اس کی کیا وجہ ہے کہ آج کا قاری ان ہی چیزوں کو پڑھ رہا ہے جو پرانی نسل کی تخلیق کردہ ہیں یعنی وہ نسل جس میں منٹو سے لے کر آپ بھی شامل ہیں۔
قدرت اللہ شہاب: ہر دور کا ادب اپنے اندر ایک خاص اپیل رکھتا ہے۔ پرانا ادب آج کے لوگوں کو متاثر کرتا ہے۔ ممکن ہے آج کا ادب آنے والی نسلوں کو اپنی طرف راغب کرے۔
طاہر مسعود: اس صورت میں ادب لمحہ موجود میں اپنے اثرات کس طرح مرتب کرسکتا ہے؟
قدرت اللہ شہاب: حال کے لوگ نیا ادب بھی پڑھتے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ وہ منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے پچھلا ادب پڑھتے ہوں گے۔ اب زمانہ بہت آگے بڑھ گیا ہے۔ آپ جس پچھلی نسل کا حوالہ دے رہے ہیں اگر وہ آج ہوتی تو وہ صرف افسانے نہیں لکھتی بلکہ ٹی وی اور ریڈیو کے ڈرامے لکھتی۔ اخبارات میں اس کے کالم چھپتے۔ آج اظہار کے جتنے ذرائع ہیں، اتنے ذرائع پہلے نہیں تھے۔ (رک کر) مجھے علامتی افسانہ نگاروں سے کوئی شکوہ نہیں ہے، مجھے ان کے افسانے پسند آتے ہیں۔
طاہر مسعود: اس اعتبار سے آپ بزرگ ادیبوں میں سب سے منفرد نکلے یوں کہ بزرگ ادیبوں کی اکثریت علامتی افسانوں سے سخت نالاں ہے۔
قدرت اللہ شہاب: بچپن میں ہم اسکول اور کالج کے زمانے میں نظموں اور غزلوں کی معنویت پر گھنٹوں غور کیا کرتے تھے۔ اسی طرح پچھلے دنوں میں نے رشید امجد اور مظہرالاسلام کی کتابیں حاصل کیں اور ان پر غور کیا۔ ایک مرتبہ کے مطالعے پر تو وہ افسانے سمجھ میں نہیں آئے۔ دوسری بار… پھر آہستہ آہستہ سمجھ میں آنے لگے۔ اب میں مزے میں پڑھتا ہوں۔ اصل میں یہ نیا اظہار ہے۔ اب ہم یہ سمجھیں کہ اسٹائل اور آرٹ فارم وہی ہوگا جو ہمارے زمانے میں تھا تو یہ غلط ہوگا۔ زندگی میں ہر چیز بدل رہی ہے تو ادب میں بھی تبدیلیاں آئیں گی۔
طاہر مسعود: آپ نئے افسانے کے مستقبل سے پرامید ہیں؟
قدرت اللہ شہاب: بہت زیادہ! میرا خیال ہے کہ یہ ہمارے زمانے سے زیادہ ترقی کرے گا۔
طاہر مسعود: آپ بحیثیت افسانہ نگار تکنیک اور Content میں زیادہ اہمیت کسے دیتے ہیں؟
قدرت اللہ شہاب: دونوں چیزیں برابر ہیں۔ تکنیک کا مطلب ہے پتے بازی۔ اگر Contenet نہیں ہے تو تکنیک زیادہ کام نہیں دے گا۔
طاہر مسعود: آپ کا وہ افسانہ جو آپ کو سب سے زیادہ عزیز ہو؟
قدرت اللہ شہاب: مجھے اپنی دو ہی چیزیں پسند ہیں۔ ایک ’’ماں جی‘‘ اور دوسرا ’’یاخدا‘‘۔ یہ دونوں افسانے نہیں ہیں، یہ میرے مشاہدات ہیں جنہیں میں نے افسانوی رنگ میں لکھا ہے۔
طاہر مسعود: ’’ماں جی‘‘ کے کردار سے آپ کی ملاقات کہاں ہوئی؟
قدرت اللہ شہاب: یہ میری والدہ ہیں جن سے میں بے پناہ متاثر تھا۔ ’’یا خدا‘‘ کے کردار مجھے 48ء میں جا بجا ملے، میں نے ان سب کو ’’یاخدا‘‘ میں جمع کردیا۔ یہ میرا طویل افسانہ ہے جسے میں نے ایک ہی نشست میں لکھا۔
طاہر مسعود: اپنے معاصر ادیبوں میں کس ادیب نے آپ کو سب سے زیادہ متاثر کیا؟
قدرت اللہ شہاب: مجھے معاصر ادیبوں میں محمد خالد اختر کی کتاب ’’چاکی واڑہ میں وصال‘‘ نے متاثر کیا۔ میں نے اسے کئی دفعہ پڑھا۔
طاہر مسعود: جی ہاں فیض احمد فیض نے بھی اسے اردو کا بہترین ناول کہا ہے۔
قدرت اللہ شہاب: مجھے بھی یہ کتاب بہت اچھی لگی۔
طاہر مسعود: یہ ایک طنزیہ ناول ہے اور اسے پڑھتے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کسی انگریزی ناول کا ترجمہ پڑھ رہے ہوں۔
قدرت اللہ شہاب: جی ہاں اس کا اسٹائل عجیب ہے، اسے میں کئی دفعہ ابھی اور پڑھوں گا۔
طاہر مسعود: اسلام آباد کے ادیبوں میں ایک خبر گشت کررہی ہے اور کچھ ناپسندیدگی کے ساتھ کہ یہاں ایسے ادیبوں نے جو بیوروکریٹ بھی ہیں ’’سلسلہ‘‘ کے نام سے ایک انجمن قائم کی ہے۔ اس انجمن کے اجلاس باقاعدگی سے ہوتے ہیں اور اس میں شرکت مشروط طریقے سے ہوتی ہے۔ آپ بھی ان اجلاسوں میں جاتے رہے ہیں۔ کیا آپ اس کے متعلق بتانا پسند کریں گے؟
قدرت اللہ شہاب: ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ ممتاز مفتی بھی اس میں شریک ہوتے رہے ہیں۔ ادا جعفری جب یہاں تھیں تو انہوں نے اس کا آغاز کیا تھا۔

یہ ایک طرح سے ون ڈش پارٹی ہوتی ہے۔ اس میں مختار مسعود، مسعود مفتی، مختار زمن اور اسی طرح کے لوگ شریک ہوتے رہے ہیں۔ ادا جعفری اس کی سیکرٹری جنرل تھیں۔ ان کے جانے کے بعد نثار عزیز بٹ اس کی سیکرٹری مقرر ہوئی تھیں۔ وہ بھی چلی گئی تو آغا ناصر کی بیگم سیکرٹری بنی ہیں۔
طاہر مسعود: اس کی رکنیت اتنی محدود کیوں رکھی گئی ہے؟
قدرت اللہ شہاب: یہ دوستوں کی محفل ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ سارے دوست جمع ہو کر خوش گپیاں کریں اور بات زیادہ پھیلے بھی نہیں اور غلط فہمیاں بھی جنم نہ لیں۔
طاہر مسعود: ممتاز مفتی اور اشفاق احمد نے اپنی بعض تحریروں میں یہ تاثر دیا ہے کہ جیسے آپ پہنچے ہوئے بزرگ اور صوفی ہیں، ممتاز مفتی تو آپ کو اپنا پیر بھی کہتے ہیں۔ اس کی کیا حقیقت ہے؟
قدرت اللہ شہاب: (ہنستے ہوئے) یہ جرم میں نے نہیں کیا۔ ممتاز مفتی خاکے اڑانے میں ماہر ہیں، افسانہ نگار بھی بڑے ہیں، لہٰذا انہوں نے ’’لبیک‘‘ میں میرا خاکہ اڑایا ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ میں بچپن سے نماز کا پابند ہوں پھر اچھے عہدوں پر رہا ہوں۔ ممتاز مفتی صاحب نے غالباً دو چیزیں اکٹھی نہیں دیکھیں کہ صدر کا سیکرٹری بھی ہو اور وقت آئے تو نماز بھی پڑھے۔
طاہر مسعود: لیکن وہ آپ سے ایسے واقعات بھی منسوب کرتے ہیں جو صرف صوفیوں سے صادر ہوتے ہیں؟
قدرت اللہ شہاب: وہ صرف ان کی افسانہ نگاری ہے۔
طاہر مسعود: وہ ہتے ہیں کہ آپ کبھی مان کر نہیں دیں گے کیوں کہ صوفیوں میں انکسار بہت ہوتا ہے۔
قدرت اللہ شہاب: انہیں ’’لبیک‘‘ لکھنی تھی اور اس کے لیے انہیں ایک کھونٹی چاہیے تھی، سو انہیں مل گئی۔ آپ یہ تو مانتے ہیں نا کہ وہ بڑے افسانہ نگار ہیں۔
طاہر مسعود: جو واقعات انہوں نے آپ سے منسوب کیے ہیں وہ سارے کے سارے غلط ہیں؟
قدرت اللہ شہاب: انہوں نے واقعات تو کوئی ایسے خاص منسوب نہیں کیے ہیں۔ ویسے اگر کیے ہیں تو اس کے بارے میں وہی بتا سکتے ہیں۔
طاہر مسعود: مثلاً وہ بتارہے تھے کہ آپ صبح تین بجے اٹھ کر سارے اسلام آباد کا چکر لگاتے ہیں اور پھر مسجد میں نماز پڑھ کر گھر لوٹتے ہیں۔
قدرت اللہ شہاب: میں ایسی کوئی چوکی داری نہیں کرتا۔ واقعہ صرف یہ ہے کہ میں ریٹائرمنٹ کے بعد نماز عموماً مسجد میں پڑھتا ہوں۔ نماز پڑھنے کے بعد سیر کرتے ہوئے گھر لوٹ آتا ہوں۔
طاہر مسعود: آپ نے مفتی صاحب سے کبھی اس موضوع پر گفتگو نہیں کی؟
قدرت اللہ شہاب: میں نے ان سے کئی بار کہا لیکن وہ بہت ہٹ دھرم آدمی ہیں۔ انہیں ان کے موقف سے ہٹانا بہت مشکل ہے۔
طاہر مسعود: یہ بھی ہوتا ہے کہ جو لوگ پہنچے ہوئے ہوتے ہیں وہ اعتراض نہیں کرتے۔
قدرت اللہ شہاب: پہنچا ہوا کوئی نہیں ہوتا، سب ایسے ہی ہوتے ہیں۔
طاہر مسعود: آپ طویل عرصے تک حکومت کی شہ رگ کا حصہ بنے رہے۔ قوم کی تقدیر کے بننے اور بگڑنے کے فیصلے آپ کی آنکھوں کے سامنے ہوئے۔ بیورو کریسی کا آپ نے مشاہدہ کیا۔ آپ کے سینے میں ان گنت راز محفوظ ہوں گے۔ بے شمار بڑی شخصیتوں کی اصلیت سے آپ واقف ہوں گے تو کیا آپ اپنے ان مشاہدات اور تجربات کی بنیاد پر کوئی ناول یا کتاب لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس میں ان حقائق پر سے پردہ اٹھائیں؟
قدرت اللہ شہاب: ناول تو نہیں، میں ایک کتاب ’’شہاب نامہ‘‘ کے عنوان سے لکھ رہا ہوں۔ آپ اسی کو ناول سمجھیں۔ اس کے لکھنے کا واقعہ یہ ہے کہ جب ابن انشا بیمار ہو کر لندن گیا ہوا تھا میں بھی وہاں تھا۔ یہ اس کی وفات سے چند ہفتے قبل کا واقعہ ہے۔ ایک مرتبہ وہ اپنی زندگی کا حساب لگا رہا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ وہ اب زندہ نہیں بچے گا۔ مذاق مذاق میں کہنے لگا کہ ’’ہندو مذہب کی طرح اگر آوا گون کا سلسلہ ہو تو میں یہ چاہوں گا، میں وہ چاہوں گا‘‘۔ پھر مجھ سے پوچھا اگر تمہیں دوبارہ زندگی گزارنے کا موقع ملے تو تم کیا چاہو گے؟ میں نے کہا کہ ’’میں معمولی سی تبدیلیوں کے ساتھ دوبارہ یہی زندگہ گزارنا پسند کروں گا جو میں نے گزاری ہے‘‘۔ وہ بڑا حیران ہوا۔ میں نے جواب دیا کہ میں ساری زندگی سیلف میڈ رہا ہوں۔ میں نے اپنی محنت سے سول سروس جوائن کی اور کبھی کسی سے یہ نہیں کہا کہ مجھے فلاں پوسٹنگ چاہیے۔ مجھے ہمیشہ خود بہ خود ایسی پوسٹنگ ملتی رہی جو اہمیت کی حامل تھی۔ میرے دل میں کبھی خواہش بھی پیدا نہیں ہوئی۔ جب یحییٰ خان کے زمانے میں، میں مستعفی ہوا تو اپنی بیوی (جو اس وقت زندہ تھی) اور بچے، کے ساتھ لندن چلا گیا۔ یحییٰ خان نے میری پنشن بھی جاری نہیں کی تھی، میں وہاں پندرہ پونڈ فی ہفتہ کی آمدنی پر اپنے چھوٹے سے خاندان کے ساتھ گزارا کرتا رہا جو مجھے حکومت برطانیہ دیگر بے روزگاروں کی طرح ادا کرتی تھی لیکن میرے لیے کبھی کوئی فرق نہیں پڑا۔ ان حالات میں بھی مجھے کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلانا پڑا۔ نہ میں نے کبھی تنہائی محسوس کی اور نہ ہی فرسٹریٹڈ ہوا۔ ابن انشا میری باتیں کاغذ پر لکھتا رہا۔ آخر میں کہنے لگا کہ تم ان باتوں کو جمع کرکے کتاب لکھو۔ اس طرح میں نے ایک کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا جو ’’شہاب نامہ‘‘ کے نام سے شائع ہوگی۔
طاہر مسعود: کیا یہ آپ کی خودنوشت سوانح عمری ہوگی؟
قدرت اللہ شہاب: بچپن سے لے کر اب تک جو واقعات میں نے دیکھے ہیں ضروری نہیں کہ وہ واقعات سب کو متاثر کریں لیکن جنہوں نے مجھے متاثر کیا، میں انہیں لکھ رہا ہوں۔ اس کتاب کا تعلق تاریخ سے نہ ہوگا۔ یہ شاید ناول بھی نہ ہو، پتا نہیں، یہ سوانح عمری بن پائے گی نہیں۔ یہ ملی جلی تحریر ہوگی۔ اس کا ہر باب اپنی جگہ مکمل ہوگا اور سارے ابواب تسلسل میں بھی ہوں گے۔ اس کا ایک چوتھائی حصہ میں لکھ چکا ہوں۔ ایوب خان کے زوال کے ذکر سے آگے بھی مزید لکھنا ہے۔
طاہر مسعود: کیا آپ نوٹس کی مدد سے کتاب لکھ رہے ہیں یا صرف یادداشت کے سہارے؟
قدرت اللہ شہاب: میرے ذہن میں ہمیشہ سے یہ خیال رہا ہے کہ میں کبھی نہ کبھی ان واقعات کو لکھوں گا لہٰذا میں پابندی سے نوٹس لیتا رہا ہوں۔
طاہر مسعود: اب ذرا عمومی دلچسپی کے سولات۔ آپ ایوب خان کے نزدیک رہے ہیں۔ اس لیے آپ بہتر جانتے ہوں گے۔ کیا ایوب خان ایک ادب شناس حکمراں تھے۔ انہیں ادب وغیرہ سے دلچسپی تھی؟
قدرت اللہ شہاب: بالکل نہیں۔ وہ ادب کے معاملے میں بالکل کورا تھا۔ ایک واقعہ سناتا ہوں اس سے اندازہ ہوجائے گا۔ اس زمانے میں گلڈ کے تحت ’’اداس نسلیں‘‘ والے عبداللہ حسین، احمد ندیم قاسمی اور جعفر طاہر کو ایوارڈ دیے گئے تھے۔ جعفر طاہر فوج میں نان کمیشنڈ افسر تھے۔ تقسیم ایوارڈ کے موقع پر جعفر طاہر ایوارڈ وصول کرنے وردی میں ملبوس ہو کر آئے تھے۔ ایوب خان کو ایوارڈ تقسیم کرنا تھا۔ جب انہوں نے جعفر طاہر کو وردی میں ملبوس دیکھا تو سب سے پہلے ان کی طرف آئے اور گرم جوشی سے ہاتھ ملایا اور پوچھتے رہے کہ کہاں کے رہنے والے ہو وغیرہ۔ میں بھی قریب کھڑا تھا۔ ایوب خان مجھے دیکھ کر مونچھوں پر تائو دے کر کہنے لگے۔ ’’دیکھا فوج میں بھی کتنے پڑھے لکھے اور لائق فائق لوگ ہیں‘‘۔ جعفر طاہر نے یہ سن کر دھیمے سے کہا، ’’جی حضور! مگر صرف نان کمیشنڈ رینک تک‘‘۔ ایوب خان نے یہ بات سن لی مگر کچھ کہا نہیں۔ اسی طرح ایک واقعہ اور ہے۔ بابائے اردو کو انجمن ترقی اردو سے ایک سازش کے تحت نکال دیا گیا۔ یہ بڑی گڑ بڑ سی بات تھی۔ میں نے ایوب خان کو بتایا کہ صاحب بابائے اردو کے ساتھ زیادتی ہوگئی ہے، آپ انہیں وقت دیں۔ ایوب خان بڑا حیران ہوا۔ کہنے لگا ’’یہ بابائے اردو کیا ہوتا ہے؟ یہ آدمی ہے، کتاب ہے یا کیا ہے؟‘‘ ’’جی آدمی ہے‘‘۔ خیر وقت دیا گیا۔ ایوب خان سے بابائے اردو کی ملاقات ہوئی اور مسئلہ حل ہوا۔ مارشل لا کے ہم نے دو ہی فائدے اٹھائے ایک تو کاپی رائٹ ایکٹ بنوایا اور دوسرا ڈاکٹر عبدالحق کو انجمن کا دوبارہ صدر بنوایا۔ ایوب خان بابائے اردو سے ملاقات کے دوران ’’بابا، بابا‘‘ کہتے رہے اور یہ بالکل بھول گئے کہ ان کا اردو سے بھی واسطہ ہے یا نہیں۔
طاہر مسعود: ممکن ہے ایوب خان کا ادب سے تعلق ہوتا تو ملک کے مسائل کو سنجیدگی سے محسوس کرتے؟
قدرت اللہ شہاب: (ہنستے ہوئے) شاید اُمید تو رکھنی چاہیے، ویسے گلڈ کو جتنی بھی کامیابی ہوئی اس میں ایوب خان کی حمایت کا عمل دخل تھا۔
طاہر مسعود: حکومت کے اندر گلڈ کے جتنے مخالفین تھے، ان میں الطاف گوہر صاحب کا بھی نام لیا جاتا ہے۔ سنا ہے انہوں نے گلڈ کی طرز پر ایک اور انجمن قائم کرنے کی کوشش کی تھی اور اس چپقلش کے نتیجے میں گلڈ کو کافی نقصان پہنچا تھا۔ اس کی تفصیلات کیا ہیں؟
قدرت اللہ شہاب: میں یہاں نہیں تھا۔ ہالینڈ چلا گیا تھا، البتہ اس چکر میں جمیل الدین عالی کو خاصا نقصان پہنچا بلکہ انہیں نوکری سے بھی ہاتھ دھونا پڑا تھا۔
طاہر مسعود: اس معاملے کا آپ کو علم تو ہوگا؟
قدرت اللہ شہاب: میں نے جاننے کی کوشش نہیں کی۔ گلڈ کی مخالفت ادیبوں، افسروں، فوجی جنرلوں اور بعض اخباروں میں تھی۔ اب اسے کیا کہا جائے۔
طاہر مسعود: گلڈ پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ اس نے بعض اہم کتابوں کو ایوارڈ سے محروم رکھا۔
قدرت اللہ شہاب: اس میں تو ہمیشہ جھگڑا رہے گا۔ یہ تو ججوں کی صوابدید پر ہے۔ اس معاملے میں دو گروپ ہمیشہ رہیں گے۔
طاہر مسعود: لیکن ’’آگ کا دریا‘‘ تو بڑی کتاب تھی؟
قدرت اللہ شہاب: جی ہاں۔ ’’آگ کا دریا‘‘ اور ’’علی پور کا ایلی‘‘ بڑی کتابیں تھیں، انہیں ایوارڈ نہیں ملا لیکن یہ گلڈ کی خوبی تھی کہ وہ کسی جج پر پریشر ڈالنے سے گریز کرتا تھا۔ پھر شاید احمد دہلوی اور وقار عظیم جیسے منصفین بھی تھے جو کسی پریشر کو قبول نہ کرتے۔
طاہر مسعود: آپ کے خیال میں گلڈ کا قیام ادیبوں کے حق میں مفید رہا؟
قدرت اللہ شہاب: گلڈ نے ادیبوں کو بعض ٹھوس فائدے پہنچائے۔ انعام وغیرہ تقسیم ہوئے۔ کسی ادیب کی بیماری یا وفات کی صورت میں مدد کی گئی۔ یہ سب گلڈ کے زمانے میں شروع ہوا۔ گلڈ کا سب سے بڑا کارنامہ ساری زبانوں کے ادیبوں میں بھائی چارے کا ماحول پیدا کرنا ہے۔ گلڈ سے ادیبوں کی عزت نفس میں بھی اضافہ ہوا۔
طاہر مسعود: آپ اس بارے میں کس طرح سوچتے ہیں کہ ملک میں طویل عرصے تک مارشل لا رہا۔ لوگوں کو اظہار رائے کی آزادی حاصل نہیں رہی۔ بنیادی حقوق معطل ہوتے رہے۔ آدھا ملک الگ ہوگیا۔ ان حالات میں ہمارے ادیبوں نے جو ادب تخلیق کیا اس میں مذکورہ قومی مسائل کی جھلک بے حد کم نظر آتی ہے۔ اس تناظر میں کوئی بڑا ناول یا افسانہ نہیں لکھا گیا۔ اسے آپ ادیبوں کی بے حسی کہیں گے یا بے توجہی، یا اس کا کیا تجزیہ کریں گے؟
قدرت اللہ شہاب: اسے بے حسی تو نہیں کہہ سکتے کیوں کہ ادیب بے حس تو ہوتے نہیں ہیں، بس توجہ اس طرف نہیں گئی۔ اس کے علاوہ کوئی وجہ ہو تو مجھے معلوم نہیں۔ تقسیم ہند پر تو لکھا گیا ہے لیکن مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر کوئی بڑی چیز سامنے نہیں آئی جس کا مجھے بے حد افسوس ہے۔ غالباً اس کی سیاسی وجوہات ہوں گی کہ اس واقعہ کے بعد ایسے حالات پیش آئے جس میں ایسی چیز کا لکھنا یا چھاپنا ممکن نہ ہوگا۔ اصل میں یہ مارشل لا جو ہوتا ہے یہ لکھنے والے کے ذہنوں پر بندش لگا دیتا ہے۔ ہزار کہیں کہ کوئی پابندی نہیں ہے لیکن یہ ازخود ہوجاتی ہے، مثلاً ایوب خان کے زمانے میں انہیں کنونشن میں بلایا گیا۔ بحیثیت سیکرٹری کے میرا فرض تھا کہ انہیں بتائوں کہ اس کنونشن میں کیا تقریر کرنی ہے۔ لیکن میں نے ان سے بہانہ کردیا کہ وہاں آپ کو کوئی تقریر وغیرہ نہیں کرنی ہے۔ اصل میں، میں یہ سنا چاہتا تھا کہ ان کی ادیبوں کے بارے میں اصل رائے کیا ہے؟ ظاہر ہے میں بتادیتا تو وہ وہاں میری لکھی ہوئی تقریر پڑھتے۔ اس لیے نہ صرف میں نے ان سے جھوٹ بول دیا بلکہ چھپے ہوئے پروگرام میں بھی ان کی تقریر کا ذکر غائب تھا۔ ایوب خان کنونشن کے آخری سیشن میں آئے۔ کنونشن کٹرک ہال میں ہورہا تھا۔ انہیں صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنے ہوئے تین مہینے ہوئے تھے۔ اس عرصے میں انہیں ہر محفل میں صدر محفل بنے کی عادت پڑ چکی تھی۔ اس سے ہٹ کر کسی محفل میں شرکت کا تصور ان کے ذہن میں موجود نہیں تھا۔ لہٰذا وہ جوں ہی ہال میں داخل ہوئے، لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے اسٹیج کی طرف اوپر بیٹھنے کے لیے بڑھے۔ خیر انہیں بڑی مشکل سے میں نے روکا۔ قرۃ العین حیدر نے ان کے کوٹ کا کنارا کھینچا۔ عالی نے راستہ آگے سے روکا، یوں انہیں ہم لوگ گھیر گھار کر اگلی صف میں لے کر آئے اور سامعین کے ساتھ بٹھادیا۔ ڈاکٹر عبدالحق صاحب کو بحیثیت صدر کے اسٹیج پر جگہ دی گئی۔ میرے لیے مشکل یہ پیش آئی کہ عالی صاحب اسٹیج سیکرٹری تھے۔ میں گلڈ کا سیکرٹری جنرل منتخب ہوچکا تھا اور اسٹیج پر ڈاکٹر صاحب کے بائیں جانب بیٹھا ہوا تھا۔ میں بڑا ایمبریسڈ تھا کہ میرا باس نیچے بیٹھا ہوا ہے اور میں اسٹیج پر چڑھا بیٹھا ہوں۔ خیر ڈاکٹر جاوید اقبال، ڈاکٹر سجاد حیدر وائس چانسلر راج شاہی یونیورسٹی وغیرہ نے مقالے پڑھے۔ صدر ایوب سنتے رہے۔ پھر ڈاکٹر عبدالحق نے صدر ایوب کو دعوت دی کہ اب آپ آکر کچھ فرمائیں۔ ایوب خان نے نیچے سے مجھے گھورا۔ میں بھلا کیا کرتا، خاموشی سے بیٹھا رہا بلکہ میں نے ایک مقالہ ’’ادیب اور آزادیٔ اظہار رائے‘‘ کے موضوع پر پڑھا اور اس میں نہایت سختی سے کہا کہ جو حکمراں یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ادیبوں کے جسموں کو قید کرکے ان کے خیالات کو بھی قید کرلیتے ہیں، وہ دراصل احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ میں نے جان بوجھ کر مقالہ انگریزی میں پڑھا تا کہ صدر ایوب سمجھ جائیں۔ خیر ڈاکٹر عبدالحق کی دعوت پر صدر ایوب اُٹھ کر آئے اور فی البدیہہ تقریر کی۔ وہ ایک اچھی تقریر تھی۔ انہوں نے ادیبوں کے خلاف تقریر نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ مارشل لا کا زمانہ ہے لیکن آپ ملک کو نقصان پہنچائے بغیر اپنا تخلیقی کام جاری رکھیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ چار ہفتے کے بعد مارشل لا ہیڈ کوارٹر سے ان کے پاس مسودوں کے لیے ریگولیشن آیا کہ جو کتاب چھپے، اسے چھپنے سے پہلے ایک سرکاری سنسر کمیٹی منظوری دے، لیکن صدر ایوب نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کردیا۔ انہوں نے کہا کہ میں ادیبوں سے وعدہ کر آیا ہوں لہٰذا ان کے زمانے میں کتابوں پر پابندی نہیں لگی۔ وہ مسودہ میرے پاس آیا اور ہدایت کے مطابق مجھے اس پر نوٹ لکھنا چاہیے تھا لیکن میں نے صرف یہ دیکھنے کے لیے کہ صدر صاحب نے کنونشن میں ادیبوں سے جو وعدہ کیا ہے وہ انہیں یاد ہے یا نہیں، اس مسودے پر کوئی نوٹ درج نہیں کیا لیکن انہوں نے خود ہی اسے مسترد کردیا۔
طاہر مسعود: کہا جاتا ہے کہ عبداللہ حسین کے ناول ’’اداس نسلیں‘‘ کو ایوارڈ دینے کے بعد ایوب خان بعد میں بہت ناراض ہوئے تھے کیوں کہ انہیں بتایا گیا تھا کہ ناول میں فور لیٹرز استعمال ہوئے ہیں۔
قدرت اللہ شہاب: ایوب نہیں، بلکہ کالا باغ سخت ناراض ہوا تھا۔ ایوب خان نے ایوارڈ دے دیا۔ اس نے ناول پڑھا بھی نہیں تھا۔ کالا باغ نے بھی نہیں پڑھا تھا۔ اس زمانے میں ون یونٹ تھا۔ پولیس اور ہوم ڈیپارٹمنٹ کے محکموں نے اس ناول کو ضبط کرنے اور اس پر فحاشی کے الزام میں مقدمہ چلانے کا پروگرام بنایا ہوا تھا۔ ہمیں بھی اس کا علم نہیں تھا لیکن جب اس ناول کو ایوارڈ ملنے کی خبر اخبارات میں شائع ہوئی تو مجھے نواب کالا باغ کا ٹیلی فون آیا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ یہ کس ناول کو ایوارڈ دلا دیا۔ ہم تو اس پر مقدمہ چلانے والے تھے۔ یہ کتاب نہیں کنجر خانہ ہے، بالکل واہیات ہے۔ اب صدر ایوب نے اسے ایوارڈ دے دیا۔ ہم اس پر کیسے مقدمہ چلائیں۔ اس نے بڑا شور شرابا مچانے کے بعد صدر ایوب کو خط لکھا کہ آپ کے لوگ اس معاملے میں ہم سے مشورہ نہیں کرتے جس کی وجہ سے اس طرح کی باتیں ہو جاتی ہیں۔ اس نے وہ خط میرے خلاف لکھا تھا لیکن ایوب خان نے نظر انداز کردیا۔ اس نے مجھ سے بھی پوچھ گچھ نہیں کی۔
طاہر مسعود: اس نوعیت کے کچھ اور واقعات جو آپ کو یاد ہوں؟
قدرت اللہ شہاب: میں نے اپنی کتاب ’’شہاب نامہ‘‘ میں کرید کرید کر ساری باتیں جمع کیں اور لکھ دی ہیں۔ اس میں ایک باب ’’رائٹرز گلڈ‘‘ پر بھی ہے۔ اس باب کو لکھتے وقت میں نے ان انٹرویو کو بھی سامنے رکھا ہے جو آپ نے کچھ عرصہ قبل مختلف ادیبوں سے کیے تھے۔
طاہر مسعود: یہ کتاب ہمیں اگلے سال پڑھنے کو ملے گی؟
قدرت اللہ شہاب: ان شاء اللہ اگر مجھ سے آسانی سے ختم ہوگئی۔
طاہر مسعود: آپ کا شاید انگریزی میں بھی کوئی کتاب لکھنے کا ارادہ تھا؟
قدرت اللہ شہاب: جی ہاں ارادہ تھا، لیکن میں ’’شہاب نامہ‘‘ میں زیادہ مصروف ہوگیا۔ انگریزی میں کہانی وغیرہ لکھنے کا ارادہ تو نہیں تھا۔ اس کتاب میں، میں ایک کیس اسٹڈی کرنا چاہتا تھا۔ پاکستان میں یکے بعد دیگرے انسٹی ٹیوشنز فیل ہوتی رہی ہیں۔ میں ان کے اسباب کا سراغ لگانا چاہتا تھا۔ Causes of Failure of Institutions in Pakistan اس موضوع پر میں سنجیدگی سے کتاب لکھنا چاہتا تھا۔ اس پر ریسرچ اور تجزیے کی بڑی سخت ضرورت ہوگی۔ دیکھیے یہ منصوبہ پورا بھی ہوگا یا نہیں۔
طاہر مسعود: آپ کا شمار کبھی ترقی پسندوں میں نہیں ہوا لیکن آپ کو ان کے قریبی مشاہدے کا موقع ملا ہے ان دنوں آپ حکومت میں بھی تھے اور گلڈ کے سیکرٹری بھی۔ ترقی پسند نہایت سرگرم عمل تھے۔ گو ترقی پسند تحریک تنازعات کا شکار ہوچکی تھی۔
قدرت اللہ شہاب: نہ صرف یہ کہ میرا شمار ترقی پسندوں میں نہیں ہوتا تھا بلکہ 48-49ء میں ’’یاخدا‘‘ چھپی تھی تو ترقی پسند انجمن نے (جو پاکستان میں تھی) اس کی مخالفت کی تھی اور اس کے خلاف بارہ بارہ صفحات کے تنقیدی مضامین ’’ادب لطیف‘‘ وغیرہ میں چھپوائے تھے اور فیصلہ کیا تھا کہ اس شخص کی کوئی چیز ان کے رسائل میں شائع نہیں ہوگی لیکن جب گلڈ بنا تو وہ اس میں خوشی خوشی شامل ہوگئے۔
طاہر مسعود: انجمن ترقی پسند مصنفین پر پابندی لگنے کے پس منظر سے آپ واقف ہیں؟ پابندی کن حالات میں لگی؟
قدرت اللہ شہاب: ترقی پسند تحریک سے میرا واسطہ ہی نہیں رہا بلکہ جب انہوں نے ’’یاخدا‘‘ پر لعن طعن کی تو میرا دل ان کی طرف سے سرد ہوگیا۔ میں نے کبھی ان کی طرف سنجیدگی سے دیکھا تک نہیں۔
طاہر مسعود: فیض احمد فیض صاحب بہت اچھے بہت بڑے شاعر ہیں۔ آدمی بھی نفیس طبیعت کے ہیں لیکن ان کی روس سے اس درجے سیاسی وابستگی ہے کہ وہ ان مظالم کی جانب سے آنکھیں بند کرلیتے ہیں جو روس چھوٹے ممالک پر ڈھارہا ہے۔ وہ فلسطین پر تو نظمیں لکھتے ہیں لیکن ان کے پڑوسی ملک افغانستان میں روسی جارحیت کے نتیجے میں جو ظلم ہورہا ہے اس پر وہ مہر بہ لب ہیں آپ اس رویے کو کیا نام دیں گے؟
قدرت اللہ شہاب: فیض صاحب سے میرے مودبانہ تعلقات ہیں۔ ان کی وجہ سے اس کا جواب دیتے ہوئے ایمبرسمنٹ سی محسوس کررہا ہوں لیکن میں فیض صاحب سے قطع نظر کرتے ہوئے اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
طاہر مسعود: یعنی ظلم جہاں بھی ہو، اس کے خلاف ادیب کو صدائے احتجاج بلند کرنا چاہیے۔
قدرت اللہ شہاب: ایک دفعہ جب میں رائٹرز گلڈ کا سیکرٹری تھا، روسی رائٹرز یونین کے اجلاس میں شرکت کا دعوت نامہ ملا۔ میں نے یہ شرط عاید کی تھی کہ آپ کے ایجنڈے میں کئی ممالک کا ذکر ہے لیکن جموں و کشمیر کے مسئلے کا ذکر ہی نہیں ہے۔ اگر آپ ایجنڈے میں اسے شامل کریں تو میں آئوں گا ورنہ نہیں۔ انہوں نے مجھے جواب ہی نہیں دیا۔ سخت ناراض ہوئے۔ میں نے انہیں یہ بھی لکھا کہ دنیا میں آزادی کی جتنی تحریکیں جو آپ کو پسند ہیں، وہاں تو آپ مدد کرتے ہیں اور یہاں پر ویٹو کردیتے ہیں۔
طاہر مسعود: ہمارے عام ترقی پسندوں کا رویہ یہ ہے کہ جو ادیب روس کی مخالفت کرے وہ اسے امریکا کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔
قدرت اللہ شہاب: میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔ جب گلڈ کا دستور بنا تو دستور میں کسی بھی غیر ملک سے مالی امداد نہ لینے کی شرط رکھی گئی۔ امریکی سفارت خانے کو شاید یہ گمان تھا کہ ان کی مدد کے بغیر پاکستان میں کوئی ادارہ نہیں چل سکتا۔ اس لیے گلڈ کے متعلق بھی انہیں توقع تھی کہ ہم بہت جلد اس سلسلے میں ان کے آگے ہاتھ پھیلائیں گے لیکن جب ہم ان کے پاس نہیں گئے تو انہیں شبہ ہوا کہ شاید ہمیں روس سے پیسے ملتے ہیں اور ہم روس کی جھولی میں ہیں جب کہ روسی سمجھتے تھے کہ ہم امریکا کی جھولی میں ہیں، حالاں کہ ہم تو صرف پاکستان کی جھولی میں کل بھی تھے اسی میں آج بھی ہیں۔
(4نومبر1983ء)
ایک ضروری وضاحت
مکرمی طاہر مسعود صاحب سلام علیک و رحمتہ اللہ برکاتہ،
11 نومبر 1983ء کے ’’جسارت‘‘ میں قدرت اللہ شہاب صاحب نے اپنے کارناموں کے ضمن میں یہ فرمایا ہے کہ مارشل لا کے ہم نے دو ہی فائدے اٹھائے، ایک تو کاپی رائٹ ایکٹ بنوایا، دوسرے ڈاکٹر عبدالحق کو دوبارہ صدر بنوایا اور اس کی وضاحت یوں فرمائی ہے کہ ’’بابائے اردو کو انجمن اردو سے ایک سازش کے تحت نکال دیا گیا۔ یہ بڑی گڑبڑی کی بات تھی‘‘۔ میں نے ایوب خان کو بتایا کہ ’’بابائے اردو کے ساتھ زیادتی ہوگئی ہے۔ آپ انہیں وقت دیں‘‘۔ ایوب خان بہت حیران ہوا، کہنے لگا، بابائے اردو کیا ہوتا ہے؟ یہ آدمی ہے، کتاب ہے، یا کیا ہے؟ میں نے کہا، جی آدمی ہے۔ خیر وقت دیا گیا۔ ایوب خان سے بابائے اردو کی ملاقات ہوئی اور مسئلہ حل ہوا۔
جناب طاہر مسعود صاحب! میں یہ سمجھ رہا تھا کہ یہ انٹرویو جو آپ شائع کررہے ہیں اس میں ساری باتیں حقائق پر مبنی ہوں گی لیکن متذکرہ بالا بیان سن کر مجھے بڑی حیرت ہوئی۔ آپ کو دریافت فرمانا چاہیے تھا کہ مولوی صاحب کو انجمن کی صدارت سے کب نکالا گیا تھا اور ان کی جگہ کس کو صدر بنایا گیا تھا۔
ظاہر ہے بالکل بے بنیاد بات ہے۔ مولوی صاحب ایک دن کے لیے بھی انجمن کی صدارت سے الگ نہیں ہوئے۔ ہاں یہ سچ ہے کہ مولوی صاحب کو قدرت اللہ شہاب صاحب نے صدر ایوب سے ملوایا مگر مولوی صاحب کو اس کی بڑی قیمت دینی پڑی، وہ یہ کہ انہیں صدر ایوب کی حکومت، ان کی بنیادی جمہوریت سب کی تعریف کرنی پڑی اور اخبارات میں بیان دینے پڑے، جس سازش کا ذکر قدرت اللہ شہاب صاحب نے فرمایا ہے وہ صرف اتنی تھی کہ مولوی صاحب کو ایک غلط شخص کے پنجے سے چھڑایا جائے اور انجمن کا کتب خانہ محفوظ ہوجائے۔ یہ داستان طویل ہے۔ اردو کی تاریخ میں مناسب مقام پر اس کا ذکر ضرور آئے گا۔
نیاز مند آفتاب حسن
معتمد (سائنٹفک سوسائٹی پاکستان)
نصر اللہ خاں کا مکتوب
قدرت اللہ شہاب صاحب کے انٹرویو کے بارے میں میجر آفتاب حسن کا مراسلہ جو روزنامہ ’’جسارت‘‘ میں چھپا تھا، میری نظر سے گزرا۔ چوں کہ میں ایک عینی شاہد کی حیثیت رکھتا ہوں اور مولوی عبدالحق صاحب سے ایک مدت کی نیاز مندی رہی ہے اس لیے چند باتیں ریکارڈ کی درستی کے لیے عرض کرتا ہوں:
قدرت اللہ شہاب صاحب نے یہ جو فرمایا کہ ایوب خان ذاتی طور پر مولوی صاحب سے واقف نہیں تھے تو یہ بات بے بنیاد ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے مولوی صاحب کو ایل ایل ڈی کی ڈگری دی تھی تو، ایوب خان، والنٹیروں میں شامل تھے اور انہوں نے مولوی صاحب کا استقبال کیا تھا (یہ بات خود ایوب خان نے مولوی صاحب کو بتائی تھی اور مولوی ساحب نے مجھے بتائی تھی)۔ پاکستان کے قیام کے بعد بھی مولوی صاحب اور ایوب خان میں مراسم رہے اور جب مولوی صاحب نے اردو کالج بنایا تو اس کی پرنسپل شپ کے لیے میجر آفتاب حسن صاحب کو منتخب کیا، چوں کہ میجر صاحب فوج میں ملازم تھے اور وہ ازخود ملازمت چھوڑ نہیں سکتے تھے۔ لہٰذا مولوی صاحب نے ایوب خان کو خط لکھ کر انہیں فوج سے ریلیز کرایا تھا۔
میجر صاحب نے اپنے مراسلے میں یہ لکھا ہے کہ مولوی صاحب کو انجمن کی صدارت سے کبھی علیحدہ نہیں کیا گیا تو یہ میجر صاحب نے صحیح کہا ہے۔ عہدئہ صدارت بے شک مولوی صاحب کے پاس رہا لیکن اختیارات صدارت کے ان سے چھین لیے گئے تھے۔ ان کی لائبریری مقفل کردی گئی تھی اور اس سے وہ استفادہ نہیں کرسکتے تھے۔ میں اس زمانے میں ان سے بارہا ملتا رہا ہوں اور انہیں ہمیشہ افسردہ پایا۔ آخر مجبور ہو کر ایک دن انہوں نے صدر ایوب کو ایک خط لکھا جس میں اپنے خلاف بعض لوگوں کی ریشہ دوانیوں کا ذکر تھا۔ چناں چہ اس پر صدر ایوب نے نومبر 1959ء میں مارشل لا کا ضابطہ نمبر 21 نافذ کیا جس کے تحت انجمن ترقی اردو اور اردو کالج کی مجلس نظمابرخواست کردی گئی اور ایک انتظامیہ کمیٹی بنائی گئی جس کے صدر مولوی عبدالحق تھے۔ مولوی صاحب نے صدر ایوب کو جو مراسلہ لکھا تھا وہ اس زمانے کے اخبارات میں شائع ہوچکا ہے۔ میرے پیش نظر رسالہ ’’قومی زبان‘‘ کا شمارہ بابت 16 اکتوبر تا نومبر 59ء ہے۔ اس میں یہ مراسلہ موجود ہے جس سے میرے بیان کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔ اس مراسلے کے چند جملے یہ ہیں:
’’میری لائبریری جس میں نایاب اور قیمتی کتابیں ہیں، مقفل کرکے سیل کردی گئی اور مجھے وہاں جانے کی ممانعت کردی گئی ہے، اس سے ریسرچ کا وہ تمام کام رُک گیا جسے میں نے اپنی زندگی میں ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ انجمن کے حالات خراب سے خراب تر ہوتے چلے جارہے ہیں، اگر انہیں برقرار رہنے دیا گیا تو انجمن جیسی کوئی چیز باقی نہ رہے گی‘‘۔
میجر صاحب کی اردو کالج سے علیحدگی مذکورہ مارشل لا آرڈر کے تحت عمل میں آئی تھی کیوں کہ وہ مولوی صاحب کے مخالف گروہ کے سربراہ تھے اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ میجر صاحب نے یہ تو تسلیم کیا کہ مولوی صاحب کے خلاف سازش ہوئی تھی کہ مولوی صاحب کو ایک غلط آدمی کے پنجے سے چھڑالیا جائے۔ ہمیں اس کیس سے کسی محترم سازشی یا سازشیوں کے ٹولے پر خدانخواستہ کوئی اعتراض نہیں ہے۔ سازشیں نیک نیتی سے بھی ہوتی ہیں۔ ممکن ہے ایک بھولے بھالے شخص کو کسی غلط آدمی سے چھڑانے کی غرض سے یہ سازشیں کی گئی ہوں لیکن نتیجہ اس سازش کا یہ نکلا کہ مذکورہ شخص ایک غلط ہاتھ سے نکل کر بہت سارے غلط ہاتھوں میں پڑ گیا اور آخر میں اسے بہ حالت مجبوری صدر ایوب خان کی دہائی دے کر ان کے ہاتھوں سے بھی چھٹکارا حاصل کرنا پڑا اور اس میں شبہ نہیں کہ شہاب صاحب نے مولوی صاحب کو چھٹکارا دلانے میں بڑی مدد کی۔

حصہ