دیہی سندھ اور کراچی میں سگ گزیدگی کے واقعات میں ہوشربا اضافہ
شہر کے ایک بڑے ہسپتال کی باوقار لیڈی ڈاکٹر اپنے صاف ستھرے کمرے میں سگ گزیدگی کا شکار بچے کی ویڈیو اپنے لیپ ٹاپ پر دکھا رہی تھیں، اُن کے سامنے بیٹھا ہوا بچہ درد کی شدت سے کراہ رہا تھا، اسے رہ رہ کر ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔ درد میں کمی ہوتی تو وہ قدرے پُرسکون دِکھتا، اور درد بڑھنے کی صورت میں پورے جسم کی حسیات سمٹ کر اس کے چہرے پر مرکوز ہوجاتیں۔ انتہائی خوبصورت گول مٹول سا یہ بچہ شہر کے پوش علاقے کے سب سے بڑے اسکول سسٹم کا طالب علم تھا۔ وہ ٹھیر ٹھیر کر بتارہا تھا کہ اُسے کتے نے کس طرح کاٹا اور پھر مختلف ہسپتالوں میں اُس کا کیسے کیسے علاج ہوا، اور جب زخم مندمل نہیں ہوا اور تکلیف کی شدت ناقابلِ برداشت ہوئی تو کس طرح وہ یہاں تک پہنچا۔ وہ بڑا ہی پُرعزم بچہ تھا، زخم کی سخت تکلیف کے باوجود وہ اسکول نہ جا سکنے پر بے حد افسردہ تھا، اس کی خواہش تھی کہ ڈاکٹر اس کے زخم پر کوئی ایسا پھایا رکھ دے جس کے بعد وہ اسکول آنے اور جانے میں کوئی رکاوٹ محسوس نہ کرے۔ اُس نے لیڈی ڈاکٹر کو اپنا ای میل ایڈریس بتاتے ہوئے کہا ’’یہ ویڈیو مجھے بھی ای میل کردیجیے گا‘‘۔ اور تھوڑے توقف کے بعد میں نے ہچکچاتے ہوئے جب ڈاکٹر نسیم صلاح الدین سے اُس بچے کی بابت سوال کیا تو انہوں نے لیپ ٹاپ کی اسکرین کو نیچے کرتے ہوئے افسردہ لہجے میں بتایا کہ شام میں یہ بچہ مرگیا۔ میرے منہ سے اچانک نکلا ’’آہ…‘‘ اور دل بیٹھ سا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، ایسے کئی بچے ہماری آنکھوں کے سامنے دم توڑچکے ہیں اور ہم کچھ نہیں کرپارہے ہیں۔ ان کے لہجے میں افسردگی سے زیادہ بے بسی نمایاں تھی۔
ایک خطرناک اور دل دہلادینے والی موت ریبیز کے شکار کی منتظر رہتی ہے۔ ریبیز کے مریض تڑپ تڑپ کر اپنے پیاروں کے سامنے مرجاتے ہیں، اور یہ دل دہلانے والا منظر ہر روز ہماری بے بسی اور حکمرانوں کی بے حسی کے افق پر طلوع ہوتا ہے۔ یہ ایک دکھ بھری داستان ہے جب ماں، باپ اپنے بچے کو تڑپتا دیکھتے ہیں اور کچھ کرنے کی سکت اپنے اندر نہیں پاتے، یہ دکھ اور سوا ہوجاتا ہے جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ لاعلاج ہے۔ اس میں لاعلمی اورغفلت بھی شامل ہے اور ریاستی عدم توجہی بھی، کہ موت کے یہ ہرکارے ہمارے گلی، محلوں، چوراہوں پر دن رات گشت کرتے دکھائی دیتے ہیں اور ہم کچھ نہیں کرسکتے۔
کتے کے کاٹنے کے واقعات میں اضافہ
کتے کے کاٹنے کے واقعات میں پورے ملک میں اضافہ ہوا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ یہ مرض پاکستان میں نظر انداز کیا جانے والا مرض ہے، باوجود اس کے کہ ملک میں کتے کے کاٹنے کے واقعات عروج پر ہیں۔ عدالتِ عالیہ سندھ کا سکھر بینچ کئی مہینوں سے اس حوالے سے کیس کی سماعت کررہا ہے۔ جسٹس آفتاب احمد اور جسٹس محمود خان پر مشتمل دو رکنی بینچ نے اس سے قبل کہا تھا کہ سندھ میں روزانہ کی بنیاد پر آوارہ کتوں کے کاٹنے کے واقعات ہورہے ہیں تاہم حکومت روک تھام کے لیے کوئی اقدام نہیں کررہی۔ عدالت نے شروع میں علاقے کے میونسپل افسر کو اس بات کا ذمہ دار ٹھیرایا تھا۔ دو اراکینِ سندھ اسمبلی کو معطل کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔
کتے کے کاٹنے سے ہونے والی بیماری ریبیز (Rabies) دنیا کی دسویں بڑی بیماری ہے، جس میں شرح اموات سب سے زیادہ ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق پاکستان سمیت دنیا بھر میں تقریباً ساٹھ ہزار افراد ’’ریبیز‘‘سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کے ریبیز کنٹرول پروگرام کے مطابق پاکستان ریبیز سے ہونے والی اموات کے لحاظ سے تیسرا بڑا ملک ہے، اور ہر سال ملک میں ریبیز کی وجہ سے دو ہزار سے زائد اموات ہوتی ہیں۔
ہمارے یہاں خاص طور پر کتے، بلی، لومڑی،گیدڑ جیسے جانوروں کے کاٹنے سے ہر سال ایک اندازے کے مطابق 8 ہزار افراد ہلاک ہوتے ہیں، اور اس کے تدارک کے لیے سالانہ 10 لاکھ حفاظتی ویکسین کی ضرورت ہے۔ہمارے یہاں مردم شماری مشکل سے ہوتی ہے، وہ بھی متنازع بن جاتی ہے تو کتا شماری کیا ہوگی؟ سندھ حکومت کے محکمہ صحت کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق رواں برس ہی کتے کے کاٹنے کے پانچ ہزار سے زائد کیس رپورٹ ہوچکے ہیں جس میں سے انڈس ہسپتال میں ایک ہزار 641، جناح ہسپتال میں 2 ہزار 195، اور سول ہسپتال میں 2 ہزار کے قریب کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔ گزشتہ سال2020ء میں کتے کے کاٹنے کے 2 لاکھ 5 ہزار 319 کیسز اور 16 اموات رپورٹ ہوئی تھیں، جبکہ سال 2019ء میں 2 لاکھ 35 ہزار واقعات رپورٹ ہوئے اور ریبیز کے باعث 25 افراد جاں بحق ہوئے۔ انڈس ہسپتال کے منیجر ریبیز پری وینشن کلینک ڈاکٹر محمدآفتاب گوہر کے مطابق کتے کے کاٹنے کے روزانہ تیس سے چالیس مریض ہمارے یہاں آتے ہیں۔ ان میں کچھ گھوڑے، بلی ودیگر جانوروں کے کاٹنے کے مریض بھی ہوتے ہیں۔ پچھلے سال ہم نے 7485مریض دیکھے ہیں، ہر سال یہ تعدا بڑھتی جارہی ہے۔ اگر مریض کی وقت پر ٹریٹمنٹ ہوجائے تو ریبیز سے بچ جاتے ہیں۔یہ وہ تعداد ہے جو ہسپتالوں تک پہنچ پاتی ہے، کئی ایسے ہیں جو ہسپتال نہیں آپاتے، کیوں کہ خیال یہ ہوتا ہے کہ ہر کتے کو ریبیز نہیں ہوتا، یا گھر پر ہی متاثرہ شخص کی موت ہوجاتی ہے۔
ریبیز کیا ہے؟
ڈاکٹر نسیم صلاح الدین امریکی ریاست مشی گن میں گیارہ سال کامیابی کے ساتھ اپنا کلینک چلانے کے بعد پاکستان واپس لوٹی ہیں اور ریبیز پر ایک مشن کی طرح کام کرنا شروع کیا ہے۔ آپ انڈس ہسپتال میں انفیکشس ڈیزیز کی کنسلٹنٹ اور ہیڈ آف دی ڈپارٹمنٹ آف انفیکشس ڈیزیز ہیں۔ اس وقت ڈبلیو ایچ او کے ایکسپرٹ پینل آف ریبیز کی ممبر بھی ہیں۔میں نے جب ڈاکٹر نسیم صلاح الدین سے اس خطرناک اور خوفناک بیماری کی تفصیلات جاننے کے لیے سوال کیا کہ یہ ریبیز کیا ہے؟ تو انہوں نے بتایا ’’ریبیز ایک وائرس کے ذریعے پیدا ہوتا ہے، بہت ہی باریک جراثیم جو صرف الیکٹران مائیکرو اسکوپ سے نظر آتا ہے، باؤلاپن کہلایا جانے والا یہ مرض باؤلے (پاگل) کتے کے کاٹنے سے انسان میں پھیلنے والی ایک وائرل بیماری ہے جو دماغ کی سوجن کا سبب بنتی ہے۔ جب کوئی متاثرہ جانور کسی دوسرے جانور یا انسان کو کھرونچتا یا کاٹتا ہے تب بھی ریبیز منتقل ہوسکتا ہے۔ متاثرہ جانور کے لعاب سے بھی ریبیز منتقل ہوسکتا ہے، اور باؤلے کتے کے لعاب کے اندر یہ خطرناک جراثیم بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ نارمل کتا اگر کاٹ لے توکچھ بھی نہیں ہوتا، ہاں جلد میں یا جہاں کتے نے کاٹا ہے وہاں کوئی اور انفیکشن ہوسکتا ہے۔ اگر یہ کتا واقعی پاگل ہو یا بائولا ہو، اور اس کے لعاب کے اندر یہ جراثیم بھرے ہوئے ہوں اور وہ انسان کے اندر اگر منتقل ہوجائیں تو یہ جراثیم وہیں زخم کے مقام پر دوگنے ہونا شروع ہوجاتے ہیں، لگ بھگ چار سے چھ ہفتے کے اندر یہ دماغ کی طرف چلتے ہیں اور پھر وہاں سے علامات شروع ہوتی ہیں جس میں سردرد، بخار، جلن، بے چینی، ذہنی انتشار اور ہوش کھونا شامل ہیں۔ مریض بعض اوقات بہکی بہکی باتیں کرتا ہے اور کبھی نہیں بھی کرتا۔ اس وائرس کی وجہ سے کھانا پینا نگلنے کی نالی اکڑ جاتی ہے اور مریض پانی سے گھبرانے لگتا ہے۔ اس علامت کو ہائیڈرو فوبیا کہتے ہیں، یعنی پانی سے اسے خوف آتا ہے۔ اور کتے میں بھی یہی علامات ہوتی ہیں۔ کتا، انسان یا جو بھی جانور ہو جس میں ریبیز کے جراثیم ہوں اس کی علامات اور عادات یکساں ہوتی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ مریض کھا پی بھی نہیں سکتا، اورجب یہ علامات پوری طرح ظاہر ہوجائیں تو مریض چار سے سات دن کے اندر مربھی جاتا ہے۔ کتے کو اگر ریبیز ہے تو وہ بھی آٹھ سے دس دن کے اندر مر جاتا ہے۔ اگر کتے کے کاٹنے کے چوبیس سے اڑتالیس گھنٹے کے اندر صحیح معنوں میں علاج شروع کیا تو مریض کو ریبیز نہیں ہوگا۔ لیکن اگر صحیح طریقے سے علاج نہیں کیا اور علامات شروع ہوگئیں جیسے بخار، سر کا درد، گھبراہٹ، بے چینی، پانی نگلنے میں تکلیف وغیرہ… تو یہ سو فیصد علامات ہیں ریبیز کی… اور ریبیز موت ہے۔
کیسے معلوم ہو کہ کتا پاگل ہے؟
اب سوال یہ ہے کہ ہمیں کیسے پتا چلے گا کہ کاٹنے والا یہ کتا عام کتا ہے یا بائولا(پاگل) کہ جس کا کاٹنا خطرناک ہے؟ کہتے ہیں نارمل کتا جب تک آپ اُسے نہ چھیڑیں وہ نہیںکاٹے گا۔ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ بچے کتوں کو چھیڑتے ہیں۔ کتے کی دم کھینچ لی، پتھر مار دیا، اس کو ڈرا دیا تو وہ پریشان ہوکر کاٹتا ہے۔ کتیا عام طور پر اپنے بچے کو بچانے کے لیے ڈر کر کاٹ لیتی ہے۔ لیکن بائولا کتا بلاوجہ کاٹنے لگتا ہے، اور اس میں بھی دو صورتِ حال ہوسکتی ہیں، کہ ایک بالکل نڈھال، بے حال پڑا ہوا ہے اور خوامخوا کاٹنے لگتا ہے۔ یا تو وہ کتا بھاگ دوڑ کرنے لگتا ہے، ہر چیز پر لپک جاتا ہے، لکڑی کو چبانے لگتا ہے، لوہے کو چبانے لگتا ہے، پتھر کو چبانے لگتا ہے، اور کوشش کرتا ہے کہ ہر چیز کو کاٹے۔ اسی طرح اگر کوئی انسان یا جانور آگیا تو اس کے پیچھے بھی دوڑتا ہے اور کاٹنے کی کوشش کرتا ہے۔
کتا کاٹ لے تو فوری طور پرکیا کریں؟
کتے کے کاٹنے پر عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ گھر والے گھر کے ٹوٹکے استعمال کرلیتے ہیں۔ زخم میں نمک ڈال دیتے ہیں، مرچ ڈال دیتے ہیں، ہلدی ڈال دیتے ہیں، ٹنکچر آئڈن لگادیا جاتا ہے۔ عجیب عجیب چیزیں کرتے ہیں۔ ڈاکٹر نسیم صلاح الدین سختی سے منع کرتے ہوئے کہتی ہیں: ’’یہ حرکت نہ کریں۔ کتے کے کاٹنے پرگھریلو ٹوٹکے استعمال نہ کریں، بلکہ زخم کو پانی اور صابن سے اچھی طرح رگڑ کر دھو لیں، کہ اس طرح جراثیم ناکارہ ہوجاتے ہیں۔ دوسرا سڑک کی گندگی اور دیگر جراثیم لگے ہوں وہ بھی دھل جاتے ہیں، اور پھر اس کو جراثیم کُش دوا (antiseptic) سے اچھی طرح دھوکر ہلکا سا کپڑا رکھ کر قریبی اُس ہسپتال میں لے جائیں جہاں پر اس کا علاج دستیاب ہے۔ تاہم ہر ہسپتال میں اس کا علاج نہیں ہے۔
ہسپتال میں کس قسم کی ٹریٹمنٹ ہوتی ہے؟
ڈاکٹر آفتاب گوہر کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے تو کتے کے کاٹے کا شکار فرد کا زخم ہم صاف کردیتے ہیں۔ پھر اسے بٹھاکر سوالات پوچھتے ہیں کہ وہ کتا کس قسم کا تھا؟ گھر کا پالتو کتا تھا؟ نارمل کتا تھا؟ کھاتا پیتا تھا؟ گھر سے باہر تو نہیں نکلا؟ اس کو کسی اور کتے نے تو نہیں کاٹا؟ کتے کو پہلے بھی ویکسین لگی ہے یا نہیں لگی ہے؟ اگر نارمل کتا تھا اور کسی غیر کے گھر آنے پر اُس نے اسے پریشانی میں کاٹ لیا تو ہمیں پتا ہے کہ وہ کتا پاگل نہیں تھا، اور ہم اس فرد کا صرف زخم صاف کرکے کہیںگے کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے، فکر نہ کریں، یہ کتا نارمل ہے اور آپ کو ویکسین کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ایک بچے کو کتے نے کاٹ لیا اس کے چھیڑنے پر، پتھر مارنے پر، اور اس کے والدین کہتے ہیں کہ کتا وہیں بیٹھا ہے تو ہم کہیں گے کہ کتا نارمل ہے۔ لیکن اگر بچہ گھبراہٹ میں یا ویسے ہی ٹھیک طرح سے نہیں بتاتا تو ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ کتا نارمل ہے، اور ہم اس بچے کی ٹریٹمنٹ کریں گے اور ویکسی نیشن ہوگی۔ لیکن جو کتا بلاوجہ لوگوں کو کاٹ رہا ہے اور بہت لوگوں کو کاٹ رہا ہے تو وہ یقیناً پاگل ہے۔ اس بات کا بھی خیال رکھیے کہ کاٹنے والے کتے کو جان سے نہ مارا جائے اور اس کی نگرانی کی جائے۔ اگر وہ ریبیز زدہ ہوگا تو اس کی ساری خصوصیات سامنے آجائیںگی۔
کتے کے علاوہ دیگر جانوروں سے ریبیز پھیلنے کا خدشہ؟
ماہرین کے مطابق اگر ایک پاگل کتا کسی گائے، بھینس، بلی، بکرے وغیرہ کو کاٹ لے تو وہ بھی پاگل ہوسکتے ہیں۔ دیہاتوں میں یہ عام بات ہے کہ اگر کوئی پاگل کتا گھوم رہا ہے، اُس نے انسانوں کو بھی کاٹا، گائے کو بھی کاٹا تو یقیناً اُس کے کاٹے کا شکار انسان یا جانور کو بھی ریبیز ہوسکتا ہے۔ لیکن اس میں ایک بات اہم ہے کہ لوگ اکثر خدشے کا شکار ہوتے ہیں کہ متاثرہ جانور کا ہم نے دودھ پی لیا ہے تو ریبیز کا خطرہ ہے۔ جب کہ دودھ پینے سے کچھ نہیں ہوتا، ہاں اگر وہ جانور اس بیماری کی حالت میں کسی اور کو کاٹے تو ریبیز کا امکان زیادہ ہے۔
کتے کے کاٹے کا علاج اور انجکشن
ماضی میں کتے کے کاٹے کا مشہور علاج 14 انجکشن تھے جو پیٹ میں لگتے تھے۔ ڈاکٹرگوہر کا کہنا ہے کہ اب پوری دنیا میں کہیں نہیں لگتے ’’2015ء سے اس کو ختم کردیا گیا ہے، یہ این آئی ایچ اسلام آباد میں مینوفیکچر ہوتا تھا، اس کے بڑے نقصانات ہوتے تھے۔ اول تو آپ کو روزانہ اس سینٹر میں پیٹ میں انجکشن لگوانے کے لیے جانا پڑتا تھا۔ ظاہر ہے ایک آدمی نہیں جاتا، اُس کے ساتھ دو اور بھی جاتے۔ تو اس طرح کبھی ناغہ بھی ہوجاتا ہے۔ دوسرا اس کے سائیڈ افیکٹس بہت ہیں۔ یہ پہلے پوری دنیا میں چل رہا تھا، اب ختم ہوگیا ہے۔ اب نئی گائیڈ لائن کے مطابق بازو میں صرف تین ٹیکوں کا کورس ہوتا ہے۔ پہلے، تیسرے اورساتویں دن لگتا ہے۔ صرف ایک ہفتے کے اندر ویکسین کا کورس مکمل ہوجاتا ہے اور گہرے زخم کی صورت میں پہلے دن ہی ریبیز امیونو گلوبیلین زخم کے اندر ایک مرتبہ لگایا جاتا ہے۔ نئی گائید لائن کے مطابق کمرشل ہسپتال میں چار ٹیکے لگتے ہیں، پہلے پانچ لگتے تھے۔ یہ ٹیکے پہلے دن، تیسرے دن، ساتویں دن اور چودھویں دن بازو میں ہی لگائے جاتے ہیں۔ کوالٹی ایک جیسی ہوتی ہے، افادیت دونوں کی ایک ہے۔ دونوں ڈبلیو ایچ او سے منظور شدہ ہیں۔ ڈاکٹر آفتاب گوہر کے مطابق کبھی کبھی اس ویکسین کی کمی ہوجاتی ہے، کیونکہ یہ امپورٹ ہوتی ہے، بلکہ انڈس ہسپتال میں تو ہمیشہ ہوتی ہے۔ جے پی ایم سی اور این آئی سی ایچ میں آرام سے مل جاتی ہے۔ بعض ہسپتالوں میں دستیاب نہیں ہوتی۔ اس کی وجوہات ان کا عملہ ہی بتا سکتا ہے۔ اس وقت کراچی یا پاکستان میں ریبیز ویکسین کی کمی نہیں ہے۔
کتوں کی نسل روکنے کا ریبیز فری پروگرام
ماضی میں بلدیاتی ادارے آوارہ کتوں کو تلف کرنے کی مہم چلاتے تھے، لیکن پھر ایک غیر سرکاری تنظیم نے اس کے خلاف عدالت سے رجوع کیا۔ اس تنظیم کا کہنا تھا کہ کتوں کو زہر دے کر مارنے کے بجائے ان کی نس بندی کی جائے، جس کے بعد کراچی میں انڈس ہسپتال میں اس حوالے سے ایک منصوبے پر عمل درآمد جاری ہے۔ اس سلسلے میں ریبیز سے محفوظ رہنے کے لیے کتوں کی نسل کُشی کا طریقہ سوچا گیا اور آوارہ کتوں کی آبادی کی روک تھام کے لیے ویکسی نیشن اور بانجھ بنانے کے لیے دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ریبیز فری پروگرام شروع کیا گیا۔ اس حوالے سے ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ آپ انسان کا تو علاج کررہے ہیں لیکن اس کی جو بنیادی وجہ ہے اس کی طرف توجہ کریں۔ اس کو کہتے ہیں ون ہیلتھ اپروچ۔ بہت ساری بیماریوں میں اس اصطلاح پر عمل ہوتا ہے۔ ڈاکٹرنسیم بتاتی ہیں کہ ریبیز کے حوالے سے ون ہیلتھ یہ ہوگا: (1) انسان، (2) کتا۔ کتے کے لیے ہم کیا کرسکتے ہیں؟ کتے میں ریبیز کے پھیلائو سے بچائو کے لیے ہم کیا کرسکتے ہیں؟ ویکسی نیٹ کرسکتے ہیں کہ کتے کو پکڑ کر ہم ٹیکہ لگائیں، اس طرح اس کتے کو ریبیز نہیں ہوگی۔ لیکن یہ جو آوارہ کتے گھوم رہے ہیں ان کے بارے میں کیا کریں؟ تو اس کے لیے ہم نے کتوں کی نس بندی شروع کی۔ اسے کہتے ہیں Animal birth control، یعنی بہت سارے کتوں کو ویکسی نیٹ کریں اور آپریشن کے ذریعے ان کی نس بندی کی جائے، تو اس پروگرام پر پچھلے دو سال سے ہم لگے ہوئے ہیں۔ اس پر ہم نے بہت ریسرچ کی ہے، اس حوالے سے انڈس ہسپتال کی ایک مستند ٹیم اس پروجیکٹ Rabies Free karachi پر کام کررہی ہے۔ اس میں ڈاکٹر آفتاب (ساتھ بیٹھے تھے) اور دیگر ماہرین اور ڈاکٹرز شامل ہیں۔میں نے ڈبلیو ایچ او کے نمائندوں سے بات کی، انہوں نے پچاس ہزار ڈوز ویکسین کے فری دیے، کتے پکڑنے کے لیے سائوتھ افریقہ سے تجربہ کار ٹرینر بھیجے۔ ہم نے ابراہیم حیدری کو منتخب کیا کیونکہ سب سے زیادہ کتے کے کاٹے کے مریض وہاں سے آتے ہیں۔ وہاں کے لوگوں کو ٹریننگ دی۔ سائوتھ افریقہ سے آئے ٹرینر نے پندرہ دن کی انہیں ٹریننگ دی، کہ یوں کتا پکڑتے ہیں ہمیں جالیاں بنانی پڑیں، کیچنگ نیٹ اور وہ اوزار جن کے ذریعے کتوں کو پکڑا جاسکے، اور کیسے کتے کو ویکسین لگائی جائے اور کیسے پتا چلے گا کہ کتے کو ویکسین لگی ہے، کیونکہ کتے کو تو ہم چھوڑ دیں گے۔ تو اس کے لیے کتے پر پینٹ لگا دیتے تاکہ دور سے پہچانا جائے کہ ہاں اس کتے کی ویکسی نیشن ہوگئی ہے۔ پھر محلہ محلہ تقسیم کرکے اچھی طرح کام کیا۔ یہ تو صرف ویکسی نیشن کا کام ہے، اس کے علاوہ نس بندی کا کام تو روڈ پر نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے وہاں کے لوگوں سے بات کی، تو علاقے کے لوگوں نے ایک جگہ کا تعین کیا کہ یہاں پر آپ کام شروع کریں۔ ہم نے ایک کنٹینر میں آپریشن تھیٹر بناکر جانوروں کے ڈاکٹروں اور ماہرین کو لے کر ڈاکٹروں کی ٹریننگ کروائی جن میں اندرون سندھ سے آئے ہوئے ڈاکٹر بھی شامل تھے۔ ٹنڈو جام ویٹرنری یونیورسٹی کے فریش بیج کو ٹریننگ دی اور ایک سال کے اندر پندرہ ہزار کتوں کو ویکسی نیٹ کیا، جبکہ 1500کتوں کی نس بندی کی، اور آج اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ابراہیم حیدری میں پاگل کتے کے کاٹنے کے واقعات ایک سال میں نہیں ہوئے اور دوسرا کتوں کی افزائش نسل میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر آفتاب گوہر کا کہنا ہے کہ پائیلٹ پروجیکٹ کامیاب ہوچکا ہے جس کے بعد اس کو بڑھا کر ریبیز فری پاکستان پروگرام میں شامل کرلیا گیا ہے۔ اس میں پہلے مرحلے میں کراچی میں کتوں اور جانوروں کو ویکسین کرنا ہے۔
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ کتوں کی نس بندی کا پروگرام کامیاب نہیں ہے اورکتوں کو مار دینا چاہیے۔ یہ پروگرام اسی صورت میں کامیاب ہوسکتا ہے جب جنگی بنیادوں پر اس پر کام کیا جائے۔ یہ کچھ لوگوں کی اچھی کوشش تو ہے لیکن اس کے لیے ہمارے یہاں نہ تو وسائل موجود ہیں اور نہ ہی آئیڈیل صورت حال اور انفرا اسٹرکچر موجود ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ کتوں کی نسل کچرا کنڈیوں پر پروان چڑھتی ہے، کچرے کے ڈھیر ان کا مسکن ہوتے ہیں، وہیں سے انہیں کھانا پینا ملتا ہے۔ اگر گلی محلوں اور شہر و گائوں میں کچرا صاف ہو تو کتوں کی افزائش اس سے بھی رک سکتی ہے۔
کتے اس وقت پورے ملک میں مرکزی اہمیت اختیار کرچکے ہیں۔ عدالتِ عالیہ سندھ نے بھی اس کا نوٹس لیا ہے اور میڈیا کی خبروں پر بھی یہ کتے چھائے ہوئے ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ موت کے ان ہرکاروں سے ریاست لوگوں کو بچانے میں کامیاب ہوتی ہے، یا وہ روزانہ درجنوں کی تعداد میں عبرتناک موت کا شکار ہوتے رہیں گے۔