مزید برآں عرب کے ہر حصے میں شیوخ‘ اشراف اور بڑے بڑے تاجروںکے پاس رومی‘ یونانی اور ایرانی لونڈیوں اور غلاموں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ ایران و روم کی لڑائیوں میں دونوں طرف کے جو جنگی قیدی غلام بنائے جاتے تھے‘ ان میں سے زائد از ضرورت تعداد کو کھلے بازار میں فروخت کر دیا جاتا تھا اور عرب اس مال کی بڑی منڈیوں میں سے ایک تھا۔ ان غلاموں میں اچھے خاصے پڑھے لکھے مہذب لوگ بھی ہوتے تھے اور صنعت پیشہ اور تجارت پیشہ لوگ بھی۔ عرب کے شیوخ اور تجار ان سے بہت کام لیتے تھی۔ مکہ‘ طائف‘ یثرب اور دوسرے مرکزوں میں ان کی ایک بڑی تعداد موجود تھی اور یہ کاریگروں کی حیثیت سے یا تجارتی کارکنوں کی حیثیت سے اپنے آقائوں کی قیمتی خدمات بجا لاتے تھے۔ آخر یہ کس طرح ممکن تھا کہ اپنے ان مددگاروں کے ذریعے سے کسی عرب تاجر کے کان میں کبھی یہ بات نہ پڑی ہو کہ گردوپیش کی دنیا میں مالی و کاروباری معاملات کے کیا طریقے رائج ہیں۔
اس کے ساتھ عرب کی معاشی تاریخ کاایک اور پہلو بھی نگاہ میں رہنا چاہیے۔ عرب کسی زمانے میں نہ تو خوراک کے معاملے میں خود کفیل رہا ہے اور نہ وہاں ایسی صنعتوں کو فروغ نصیب ہوا ہے جن سے تمام ضروریات کے سامان ملک ہی میں فراہم ہو جاتے ہوں۔ اس ملک میں ہمیشہ اشیائے خوردنی بھی باہر سے درآمد ہوتی رہی ہیں اور ہر طرح کی مصنوعات بھی‘ حتیٰ کہ پہننے کے کپڑے تک زیادہ تر باہر ہی سے آتے رہے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب کے عہد میں یہ درآمدی تجارت زیادہ تر دو گروہوں کے ہاتھ میں تھی۔ ایک قریش اور ثقیف دوسرے یہود لیکن یہ لوگ مال درآمد کرکے صرف تھوک فروشی ہی کرتے تھے۔ اندرونِ ملک کی چھوٹی چھوٹی بستیوں اورقبائلی ٹھکانوں میں خردہ فروشی کرنا ان کا کام نہ تھا‘ نہ ہو سکتا تھا اور نہ قبائل اس بات کو بھی کبھی گوارا کر سکتے تھے کہ سارے تجارتی فائدے یہی لوگ لوٹ لے جائیں اور ان کے اپنے آدمیوں کو اس اجارہ داری میں گھسنے کا کسی طرف سے راستہ نہ ملے۔ اس لیے تھوک فروش کی حیثیت سے یہ لوگ اندرون ملک کے خردہ فروش تاجروں کے ہاتھ لاکھوں روپے کا مال فروخت کرتےتھے اور اس کا ایک معتدبہ حصہ ادھار فروخت ہوتا تھا۔ شاید دنیا میں تھوک فروش اور خوردہ فروش کے درمیان کبھی اور کہیں خالص نقد لین دین کا طریقہ رائج نہیں رہا ہے اس لین دین میں ادھار بالکل ناگزیر ہے جس سے کبھی مفر نہ تھا۔ اگر یہ دعویٰ کیا جائے کہ صرف عرب ہی میں اس وقت یہ لین دین بالکل نقدا نقد کی شرط پر ہوتا تھا اور قرض کا اس میں کوئی دخل نہ تھا تو عقلاً بھی یہ قابل قبول نہیں ہے‘ اور تاریخی طور پر بھی یہ غلط ہے۔
اب میں تنقیحات کو لیتا ہوں۔ یہ امر کہ قدیم زمانے میں قرض صرف ذاتی و شخصی ضرورتوں ہی کے لیے نہیں لیا جاتاتھا بلکہ تجارتی‘ صنعتی اور زراعتی اغراض کے لیے بھی اس کا عام رواج تھا اور حکومتیں بھی اپنی ریاستی اغراض کے لیے قرض لیتی تھیں‘ تاریخ سے بالکل ثابت ہے اور یہ دعویٰ کرنے کے لیے کوئی بنیاد نہیں ہے کہ پرانی دنیا میں قرض کا لین صرف شخصی حاجتوں کے لیے ہوتا تھا۔ اسی طرح یہ بھی ثابت ہے کہ قرض پر اصل سے زائد ایک طے شدہ مقدارِمال لینے کا طریقہ‘ شخصی اور کاروباری معاملات کے درمیان کسی قسم کا امتیاز کیے بغیر ہر قسم کے قرضوں کی صورت میں رائج تھا۔
انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا (1946ء) کے مضمون Banks میں بیان کیا گیا ہے کہ بابل اور مصر کے مندر صرف عبادت گاہ ہی نہ تھے بلکہ بینک بھی تھے۔ بابل کے آثار قدیمہ میں جو گلی تختیاں (Clay Tablets) ملی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ زمیندار فصل سے پہلے اپنی زرعی ضروریات کے لیے مندروں سے قرضے لیتے تھے اور فصل کاٹنے کے بعد مع سود یہ قرض ادا کرتے تھے۔ یہ ساہوکاری نظام دو ہزار برس قبل مسیح میں پایا جاتا تھا۔ چھٹی صدی قبل مسیح کے لگ بھگ زمانے میں پرائیویٹ بینک بھی بابل کے (Lgibi Bank) کا وجود ملتا ہے جو زمین داروں کو زرعی اغراض کے لیے قرض دیتا تھا۔ نیز یہ بینک لوگوں کے ڈپازٹ اپنے پاس رکھ کر ان پر سود ادا بھی ادا تھا۔ یاد رہے کہ یہ وہی زمانہ تھا جب شمالی حجاز کا شہر تیما بابل کی سلطنت کا گرمائی دارالسلطنت تھا۔
وِل ڈورانٹ اپنی کتاب A Story of Civilisation میں بابل کے متعلق لکھتا ہے:
’’ملک میں ازروئے قانون 20 فیصدی نقد روپے کے قرضوں پر اور 33 فیصدی سالانہ اجناس کی صورت میں قرضوں پر سود مقرر تھا۔ بعض طاقتور خاندان نسلاً بعد نسل ساہوکارے کا کام کرتے اور صنعت پیشہ لوگوں کو سود پر قرضے دیتے تھے۔ ان کے علاوہ مندروں کے پروبت فصلوں کی تیاری کے لیے زمینداروں کو قرض دیا کرتے تھے۔‘‘
اس سلسلے میں آگے چل کر یہی مصنف لکھتا ہے:
’’ایک وبا کی طرح پھیلی ہوئی سود خواری وہ قیمت تھی جو ہماری صنعت کی طرح بابل کی صنعت بھی ایک پیچیدہ نظام قرض کے ذریعے سے سیراب ہونے کے بدلہ میں ادا کر رہی تھی۔ بابل کا تمدن اصلاً ایک تجارتی تمدن تھا۔ جتنی دستاویز بھی اس کے آثار سے اس زمانہ میں برآمد ہوئی ہیں وہ زیادہ تر کاروباری نوعیت کی ہیں۔ فروخت‘ قرضے‘ ٹھیکے‘ شراکت‘ دلالی‘ مبادلہ‘ اقرار نامے‘ تمسکات اور اسی طرح کے دوسرے امور۔‘‘
سیریا کی حالت بھی اس سی مختلف نہ تھی‘ ساتویں صدی قبل مسیح میں سینا کریب کے زمانے کا حال بیان کرتے ہوئے دل ڈورانٹ لکھتا ہے:
’’صنعت اور تجارت کو ایک حد تک نجی کاروبار کرنے والے ساہوکار سرمایہ فراہم کرکے دیتے اور ان قرضوں پر 25 فیصدی سالانہ سود وصول کرتے تھے۔‘‘
یونان کے متعلق انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مضمون میں بیان کیا گیا ہے کہ چوتھی صدی قبل مسیح سے وہاں بینک کاری کے باقاعدہ نظام کا ثبوت ملتا ہے۔ اس نظام میں ایک قسم کے بینک وہ تھے جو لوگوں کے مال بطور امانت اپنے پاس رکھتے تھے اور اس پر سود دیتے تھے۔
ول ڈورانٹ لکھتا ہے کہ پانچویں صدی قبل مسیح ڈلفی کا اپالو مندر تمام یونانی دنیا کا بین الاقوامی بینک تھا۔ اس سے اشخاص کو بھی اور ریاستوں کو بھی معتدل شرح سود پر قرضے حاصل ہوتے تھے۔ اسی طرح پرائیویٹ صراف 30 فیصد تک شرح سود پر تاجروں کو قرضے دیتے تھے۔ یونانیوں نے یہ طریقے مشرق قرب (بابل و مصر اور شام) سے سیکھے اور بعد میں روم نے ان طریقوں کو یونان سے سیکھا۔ پانچویں صدی کے آخر میں بعض بڑے بڑے پرائیویٹ بینک یونان میں قائم ہو چکے تھے انہی کے ذریعے سے ایتھنز کی تجارت پھیلنی شروع ہوئی۔ اس کے بعد روم کا دور آتا ہے۔ ول ڈورانٹ لکھتا ہے کہ:
’’دوسری صدی قبل مسیح میں روم کی بینک کاری پورے عروج پر تھی ساہوکار لوگوں کے ڈپازٹ رکھتے تھے اور ان پر سو دا دا کرتے تھے۔ قرض لیتے بھی تھے اور دیتے بھی تھے۔ کاروبار میں اپنا روپیہ بھی لگاتے تھے اور دوسروں کا بھی لگواتے تھے۔ پہلی صدی عیسوی میں رومی سلطنت کے ہر حصے میں بینک قائم ہو چکے تھے۔ بینک کاری کے دوسرے کاموں کے ساتھ یہ لوگ کے ڈپازٹ رکھ کر سود دیتے اور آگے اور روپیہ قرض دے کر سود وصول کرتے تھے۔ یہ کاروبار زیادہ تر یونانیوں اور شامیوں کے ہاتھ میں تھا۔ گال (Gall) میں تو شامی اور ساہوکار دونوں ہم معنی لفظ ہو گئے تھے۔ اس زمانے میں سرکاری خزانہ بھی زمینداروں کو فصل کی کفالت پر سودی قرضے دیتا تھا۔ آگسٹس کے زمانہ میں شرح سود 4 فیصد تک گر گئی تھی۔ اس کی مرنے کے بعد شرح 6 فیصدی تک اور قسطنطین کے زمانہ میں 12 فیصد تک چڑھ گئی۔
اس پہلی صدی عیسوی کے متعلق بیرن اپنی کتاب A Religions and Social History of Jews میں بیان کرتا ہے کہ اسکندریہ کے یہودی بینکرز الیگزینڈر ڈیمسٹریوس نے یہودیہ کے بادشاہ اگریپا اوّل کو دو لاکھ درہم (تقریباً 30 ہزار ڈالر) قرض دیے تھے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بالکل قریب کے زمانے میں قیصر روم جسٹینین نے (جس کی وفات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے صرف پانچ برس قبل ہوئی تھی) تمام بیزنطینی سلطنت میں ازروئے قانون زمینداروں اور کاشت کاروں کے قرضوں پر 4 فیصدی‘ شخصی قرضوں پر 6 فیصدی‘ تجارتی اور صنعتی قرضوں پر 8 فیصدی اور بحری تجارت کی قرضوں پر 12 فیصدی شرح سود مقرر کی تھی۔ یہ قانون جسٹینین کے بعد بھی ایک مدت تک بیزنطینی سلطنت میں رائج رہا۔ یہ بات فراموش نہ کرنی چاہیے کہ جس بیزطینی سلطنت میں سود کا یہ قانون رائج تھا اس کی سرحدیں شمالی حجاز سے ملی ہوئی تھیں۔ شام‘ فلسطین اور مصر کے تمام علاقے اس کے زیر نگین تھے۔ قریش کی تاجر ان علاقوں کی منڈیوں میںپیہم آمد و رفت رکھتے تھے اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم بچپن سے آغازِ نبوت تک مسلسل تجارتی قافلوں کے ساتھ ان منڈیوں میں جاتے رہتے تھے۔ آخر یہ بات کیسے فرض کی جا سکتی ہے کہ قریش کے ان تاجروں کو اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان بازاروں میں کاروبار کرتے ہوئے کبھی یہ پتا نہ چلا کہ بیزنطینی سلطنت میں تجارت‘ صنعت اور زراعت کی اغراض کے لیے بھی قرض کے لین دین کا رواج ہے اور اس پر ازروئے قانون سود کی شرحیں مقرر ہیں۔
عین زمانۂ نبوت میں روم اور ایران کے درمیان وہ زبردست لڑائی ہو رہی تھی جس کا ذکر قرآن مجید کی سورۂ روم میں کیا گیا ہے۔ اس لڑائی میںجب ہرقل نے خسرو پرویز کے مقابلے پر ہجومی جنگ کا آغاز کیا‘ اس وقت اپنی جنگی ضروریات کے لیے اسے کلیسائوں کی جمع شدہ دولت سود پر قرض لینی پڑی تھی۔ اب کیسے باور کیا جاسکتا ہے کہ جس عظیم الشان لڑائی نے عراق سے مصر تک عرب کے سارے بالائی حصے کو تہ و بالا کرکے رکھ دیا تھا‘ جس میں ایران کی زبردست فتوحات کے ہر طرف چرچے ہو رہے تھے اورجس میں سلطنت روم کے گرتے ہوئے قصر کو بچانے کے بعد اب قیصر نے یکایک خسرو کے مقابلے پر وہ حیرت انگیز پیش قدمی کی تھی جو ساسانی دارالسطلنت‘ مدائن کی تباہی پر جا کر ختم ہوئی‘ اس لڑائی کا یہ واقعہ عرب کے لوگوں سے بالکل پوشیدہ رہ گیا ہوگا کہ قیصر نے اپنی اس پیش قدمی کے لیے سرمایہ کلیسائوں سے سود پر حاصل کیا ہے؟ مجوسیوں سے عیسائیت کو بچانے اور بیت المقدس ہی کو نہیں مقدس صلیب کو بھی مشرکین کے قبضے سے نکالنے کے لیے جنگ کی جائے اور کلیسا کے پادری اس کارِخیر کے لیے سود پر قرض دیں‘ یہ عجیب و غریب واقعہ آخر ان لوگوں کے علم میں آنے سے کیسے بچ سکتا تھا جن کی نگاہیں دنیا کی ان دو عظیم ترین سلطنتوں کےجنگ کے نتیجے پر لگی ہوئی تھیں‘ خصوصاً قریش اس سے کیسے ناواقف ہو سکتے تھے جب کہ سورۂ روم کے نازل ہونے پر اسی جنگ روم و ایران کے معاملے میں حضرت ابوبکر صدیقؓ اور سردارانِ قریش کے درمیان باقاعدہ شرط لگ چکی تھی؟
یہاں تک جو کچھ میں نے عرض کیا ہے اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اہل عرب کے نہایت قریب تعلقات مشرقِ اوسط کی معاشی و تمدنی اور سیاسی زندگی کے ساتھ قدیم ترین زمانے سے وابستہ رہے ہیں اور اس خطۂ زمین میں ڈھائی ہزار سال سے تجارتی‘ صنعتی‘ زراعتی اور ریاستی اغراض کے لیے قرض کے لین دین اور اس پر سود وصول کرنے کا رواج رہا ہے اور اہل عرب کا اس رواجِ عام سے بے خبر اور غیر متاثر رہنا قطعاً قابل تصور نہیں ہے۔
اب خود عرب کے مالی معاملات کو دیکھیے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں تھے‘ میں پہلے یہ بتا چکا ہوں کہ عرب کی ضروریات کے لیے غلہ اور شراب زیادہ تر یہودی درآمد کرتے تھے اور باقی دوسرا سامان زیادہ تر مکہ اور طائف کے تاجر بیرونی علاقوں سے لاتے تھے۔ (جاری ہے)
میں یہ بھی عرض کر چکا ہوں کہ قریش اور ثقیف اور یہود کا سارا کاروبار تھوک فروشی کی حد تک تھا۔ اندرون ملک میں خوردہ فروشی دوسرے لوگ کرتے تھے اور وہ ان تھوک فروشوں سے مال خرید کر لے جایا کرتے تھے۔ میں یہ بھی بتا چکا ہوں کہ تھوک فروشوں اور خوردہ فروشوں کے درمیان بالکل نقدانقد کی شرط پر کاروبارِ دنیا کبھی نہیں رہا ہے اور عرب میں بھی نہیں تھا۔ اس کے بعد ذراان روایات کو ملاحظہ فرمایئے جو آیت ربوٰ کی تفسیر میں عہدِ رسالت سے قریب زمانے کے مفسرین سے منقول ہوئی ہیں۔ صحاک ذورامابقی من الربوٰ کی تفسیر کرتے ہوئے کہتے ہیں (ترجمہ) ’’یہ وہ سود تھا جس کے ساتھ جاہلیت میں لوگ خریدوفروخت کرتے تھے۔‘‘
قتادہ کہتے ہیں ’’اہل جاہلیت کا ربا یہ تھا کہ ایک شخص دوسرے شخص کے ہاتھ مال فروخت کرتا اور قیمت ادا کرنے کے لیے ایک مدت طے ہو جاتی۔ اب اگر وہ مدت پوری ہو گئی اور خریدار کے پاس اتنا مال نہ ہوا کہ قیمت ادا کرے تو بیچنے والا اس پر زائد رقم عائد کر دیتا اور مہلت بڑھا دیتا۔‘‘
سدی کہتے ہیں ’’آیت وذرواہا مقی من الربا عباس بن عبدالمطلب اور بنی المغیرہ کے ایک شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ یہ دونوں جاہلیت کے زمانے میں شریک تھے اور انہوں نے ثقیف کے بنی عمرو میں لوگوں کو سودی قرض پر مال دے رکھے تھے۔ جب اسلام آیا تو ان دونوں کا بڑا سرمایہ سود میں لگا ہوا تھا۔‘‘
یہ سب روایات خوردہ فروشوں کے ہاتھ ادھار پر مال فروخت کرنے اور اس پر سود لگانے کی خبر دیتی ہیں اور یہ بھی بتاتی ہیں کہ اس تجارتی سود کے لیے بھی الربا کی اصطلاح ہی استعمال ہوتی تھی‘ کوئی دوسرا لفظ ایسانہ تھا جو تجارتی قرضوں کے سود پر بولا جاتا ہو جو خالص شخصی حاجات کے لیے حاصل کیے جاتے تھے۔
پھر بخاری میں سات مقامات پر اور نسائی میں ایک مقام پر صحیح سندوںکے ساتھ یہ روایت نقل ہوئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ’’بنی اسرائیل میں سے ایک شخص نے دوسرے شخص سے تجارت کے لیے ایک ہزار دینار قرض لیے اور کہا کہ میرے اور تیرے درمیان اللہ گواہ اور اللہ ہی کفیل ہے۔ پھر وہ بحری سفر پر چلا گیا۔وہاںجب وہ اپنے کاروبار سے فارغ ہوا تو واپسی کے لیے اسے کوئی جہاز نہ ملا اور وہ مدت پوری ہوگئی جس کی قرارداد کرکے اس نے قرض لیا تھا۔ آخر اس نے یہ کیا کہ ایک لکڑی کے اندر سوراخ کرکے ایک ہزار دینار اس میں رکھ دیے اور قرض خواہ کے نام ایک خط بھی لکھ کر ساتھ رکھا اور سوراخ بند کرکے لکڑی سمندر میں چھوڑ دی اور اللہ سے دعا کی کہ میں نے تجھی کو گواہ اور کفیل بنا کر یہ رقم اس سے شخص سے قرض لی تھی اب تو ہی اسے اس تک پہنچا دے۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ قرض خواہ ایک روز اپنے ملک میں سمندر کے کنارے کھڑا تھا۔ یکایک لکڑی کا ایک لٹھا اس کے سامنے آکر رکا اس نے لکڑی کو اٹھا کر دیکھا تو قرض دار کا خط بھی اسے ملا اور ایک ہزار دینا بھی مل گئے۔ بعد میں جب یہ شخص اپنے وطن واپس پہنچا تو ایک ہزار دینار لے کر اپنا قرض ادا کرنے کے لیے دان کے پاس گیا مگر اس نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیا کہ مجھے میری رقم مل گئی ہے۔
یہ روایت اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ تجارت کے لیے قرض لینے کا تخیل اس وقت عربوں میں غیر معروف نہ تھا۔
ابن ماجہ اور نسائی میں روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ حنین کے موقع پر عبداللہ بن ربیعہ مخزومی سے 30 یا 40 ہزار درہم قرض لیے تھے اور جنگ سے واپسی پر قرض آپؐ نے ادا فرمایا۔ یہ ریاستی اغراض کے لیے قرض کی صریح مثال ہے۔
ایک دوست نے دو اور واقعات کی طرف بھی مجھے توجہ دلائی ہے جس کے لیے میں ان کا شکر گزار ہوں۔ پہلا واقعہ ہندبنست عتبہ کا ہے کہ اس نے حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے بیت المال کا چار ہزارروپیہ (غالباً درہم) تجارت کے لیے قرض حاصل کیا تھا۔
دوسرا واقعہ بھی حضرت عمرؓ ہی کے عہد کا ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری (بصرہ کے گورنر) نے بیت المال کا روپیہ حضرت عمرؓ کے دو صاحبزادوں عبداللہ اورعبیداللہ کو تجارت کے لیے قرض دیا۔ مگر بعد میں حضرت عمرؓ نے اس قرض کو قابلِ اعتراض قرار دے کر اصل کے علاوہ پورے منافع کا بھی صاحبزادوں سے مطالبہ کیا اور آخر کار لوگوں کے مشورے سے اس کو قرض کے بجائے قراض (مضاربت) قرار دے کر آدھا منافع وصول کیا۔
یہ دونوں مثالیں زمانہ جاہلیت سے بہت قریب کے دور کی ہیں۔ عرب میں 9 ہجری تک سودی کاروباری چلتا رہا۔ یہ واقعات اس کی آخری بندش سے صرف دس بارہ سال بعد کے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اتنی قلیل مدت میں تصورات نہیں بدل جاتے ہیں اس لیے ان واقعات سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ قرض پر سرمایہ لے کر تجارت کرنے کا تصور عہد جاہلیت میں بھی موجود تھا۔
رہی یہ بات کہ اسلامی عہد کے مؤرخین اور محدثین و مفسرین نے شخصی حاجات اور تجارت و کاروباری قرضوں کا واضح طور پر الگ الگ کیوں ذکر نہ کیا‘ تو اس کا ظاہر سبب یہ ہے کہ ان کے ہاں قرض‘ خواہ جس غرض کے لیے بھی ہوں‘ قرض ہی سمجھا جاتا تھا اوراس پر سود کی حیثیت بھی ان کی نگاہ میں یکساں تھی۔ انہوں نے نہ اس تصریح کی کوئی خاص ضرورت محسوس کی کہ بھوکے مرتے ہوئے لوگ پیٹ بھرنے کے لیے قرض لیتے تھے اور نہ خاص طور پر اس بات کو تفصیل سے بیان کرنا ضروری سمجھا کہ کاروبار کے لیے لوگ قرض لیا کرتے تھے۔ ان امور کی تفصیلات خال خال ہی کہیں ملتی ہیں جن سے صحیح صورت حال سمجھنے کے لیے عرب کے حالات کو اس وقت کی دنیا کے مجموعی حالات میں رکھ کر دیکھنا ناگزیر ہے۔ مختلف قرضوں کے درمیان ان کی اغراض کے لحاظ سے فرق و امتیازکرکے ایک مقصد کے قرض پر سود کو جائز اور دوسرے مقصد کے قرض پر اس کو ناجائز ٹھہرانے کا تخیل غالباًچودھویں صدی عیسوی سے پہلے دنیا میں پایا جاتا تھا۔ اس وقت تک یہودیت‘ مسیحیت اور اسلام کے تمام اہل دین اور اسی طرح اخلاقیات کے ائمہ بھی اس بات پر مفق تھے کہ ہر قسم کے قرضوں پر سود ناجائز ہے۔ (جاری ہے۔)