آج سے سینکڑوں برس پہلے عرب کے ایک قبیلے طے میں حاتم نامی شخص پیدا ہوا۔ وہ اتنا سخی تھا کہ اس کی سخاوت کے قصے دنیا بھر میں مشہور ہوئے۔ اس کے دروازے پر جو شخص بھی آیا اپنی ضرورت پوری کرکے گیا۔ کہتے ہیں اسے اپنے ایک گھوڑے سے بہت پیار تھا۔ گھوڑا بھی اپنے مالک کا وفادار تھا۔ ایک روز آدھی رات کے قریب اس کے گھر میں چند مہمان آگئے۔ اتفاق کی بات کہ اس وقت حاتم کے پاس اپنے مہمانوں کی دعوت کے لیے کچھ نہیں تھا اور رات کے وقت اس کا انتظام بھی بہت مشکل تھا۔ حاتم طائی نے اپنا پسندیدہ گھوڑا ذبح کرکے مہمانوں کی دعوت کر ڈالی اور مہمان نوازی کی لاج رکھ لی۔
ایک دفعہ اس نے عرب کے سرداروں کی دعوت دی۔ اس روز چالیس اونٹ ذبح کیے گئے۔ دعوت ختم ہوئی، سردار آپس میں اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگے۔ گفتگو حاتم طائی کی سخاوت کے مطلق ہونے لگی۔ ایک سردار نے کہا۔ ’’حاتم جیسا فراخ دل آج تک پیدا نہیں ہوا اور نہ ہوگا‘‘۔ ’’کیوں نہ یہ سوال حاتم سے کیا جائے‘‘ دوسرے سردار نے کہا۔
چنانچہ حاتم سے پوچھا گیا کہ کیا اس نے اپنے آپ سے زیادہ سخی اور عظیم انسان دیکھا سنا تھا۔ حاتم کافی دیر تک سر جھکا کر سوچتا رہا اور پھر مسکرا کر بولا ’’بہت زیادہ مال و دولت لٹانے کا نام سخاوت نہیں، میرے نزدیک سخی اور عظیم انسان وہ ہے جو اپنے بڑے سے بڑے فائدے کے لیے کسی کا چھوٹے سے چھوٹا احسان بھی قبول نہ کرے۔ میں نے اپنی زندگی میں ایک ایسا شخص دیکھا جس کا دل میرے دل سے بہت بڑا تھا‘‘۔
’’وہ ضرور کسی ملک کا بادشاہ ہوگا جس کے پاس بہت بڑا خزانہ ہوگا‘‘ سرداروں نے بیک آواز کہا۔ ’’نہیں دوستو! ایسی کوئی بات نہیں‘‘ حاتم طائی نے جواب دیا۔ ’’وہ تو ایک غریب لکڑہارا تھا‘‘۔ تمام سرداروں نے حیرت سے اپنے میزبان کو دیکھا تو حاتم نے کہا کہ ایک روز میں نے سارے شہر کی دعوت کی، مہمانوں کو کھلانے پلانے کے بعد میں جنگل کی طرف نکل گیا۔ وہاں میں نے ایک بوڑھے شخص کو دیکھا۔ اس نے اپنے سر پر لکڑیوں کا بھاری گٹھڑا اُٹھا رکھا تھا، جس کے بوجھ سے اس کی کمر دہری ہورہی تھی۔ اس کے پھٹے پرانے کپڑے پسینے میں بھیگے ہوئے تھے۔ میں نے ترس کھا کر اس کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا اور کہا ’’باباجی! میں آپ سے چند باتیں کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ یہ کہہ کر میں نے اس کے سر سے بوجھ اُتارنے کے لیے اپنے ہاتھ بڑھائے، تو وہ فوراً پیچھے ہٹ گیا۔ پھر اس نے اپنا بوجھ زمین پر رکھا اور کہنے لگا ’’انسان کو اپنا بوجھ خود سنبھالنا چاہیے، لوگوں کے کاندھوں پہ سوار ہو کر تو صرف قبر کی طرف جایا جاتا ہے‘‘۔
’’مگر باباجی! آپ اس عمر میں اتنی محنت کیوں کررہے ہیں؟‘‘
’’تو پھر مجھے کیا کرنا چاہیے؟‘‘ اس غیرت مند لکڑ ہارے نے مسکرا کر پوچھا۔
’’آپ کے شہر میں حاتم طائی رہتا ہے۔ وہ سینکڑوں انسانوں کو ہر روز کھانا کھلاتا ہے۔ آپ اس کے دروازے پر کیوں نہیں جاتے!‘‘ یہ سن کر لکڑ ہارے نے گھور کر مجھے دیکھا اور بڑی بے نیازی سے کہا ’’حاتم کے دو ہاتھ ہیں، خدا نے مجھے بھی دو ہاتھ عطا فرمائے ہیں۔ کتنے شرم کی بات ہے کہ میں اس کی کمائی ہوئی روٹی کھائوں۔ کسی کا احسان اُٹھانے سے بہتر ہے کہ میں بے جان لکڑیوں کا گٹھا سر پر اٹھالوں‘‘۔ سب سردار حیران ہو کر حاتم کو دیکھنے لگے تو حاتم نے کہا ’’وہ غریب انسان مجھ سے بڑے دل کا مالک تھا‘‘۔
سبق:دوسروں پر بھروسہ کرنے کے بجائے اپنے ہاتھ سے رزق کمانا باعث عزت ہے۔