اکادمی ادبیات کراچی کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر قادر بخش سومرو اپنے دفتر میں ہر بدھ کو مذاکرہ اور مشاعرے کا اہتمام کرتے ہیں اس مرتبہ انہوں نے راقم الحروف ڈاکٹر نثار کو بھی مدعو کیا۔ میں 11 بجے ان کے دفتر پہنچ گیا جہاں پہلے سے کچھ شعرائے کرام اور سامعین موجود تھے۔ قادر بخش سومرو نے مشاعرے کے آغاز کا اعلان کیا اور مجھے مشاعرے کا صدر بنا دیا۔ پروگرام کے مہمان خصوصی ابرار بختیار‘ اعظم ملک اور عالیہ سومرو تھیں۔ قادر بخش سومرو نے نظامت کے ساتھ ساتھ مذاکرے کے موضوع ’’سرسید احمد خان‘‘ کے بارے میں کہا کہ مسلمانوں کی خوش حالی اور آزادی کے لیے سرسید احمد خان کی خدمات سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ انہوں نے مسلم علی گڑھ کالج کی ذریعے مسلمانانِ ہند کو انگریزی‘ اردو‘ فارسی اور عربی کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا ان کی کوششیں بارآور ثابت ہوئیں اور پاکستان قائم ہوا۔ راقم الحروف نے کہا کہ سرسید احمد خان کو 1857ء کی جنگ آزادی کے سبب مسلمانوں کی زبوں حالی پر بہت دکھ تھا انہوں نے جنگ آزادی کے اسباب پر ایک رسالہ ’’اسبابِ بغاوت ہند‘‘ جاری کیا اور مسلمانان ہند کے لیے 27 مئی 1875ء کو علی گڑھ میں محمڈن اورینٹل اسکول قائم کیا جو آگے چل کر علی گڑھ یونیورسٹی میں تبدیل ہوا۔ سرسید احمد خان کے اس اقدام سے مسلمانوں کو تقویت ملی اور انہوں نے زندگی کے مختلف شعبوں میں کامیابیاں حاصل کیں۔ عالیہ سومرو نے کہا کہ سرسید احمد خان نے کہا تھا کہ اگر ہم تعلیمی میدان میں ترقی کریں گے تو ہم آگے بڑھ سکیں گے۔ جہالت انسانیت کی دشمن ہی ہمیں چاہیے کہ ہم تعلیم حاصل کریں۔ سرسید نے علم و آگہی کے چراغ روشن کیے۔ اعظم ملک نے کہا کہ سرسید احمد خان ایک عظیم انسان تھے انہوں نے مسلمانوں میں تعلیم کی اہمیت اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ علی گڑھ یونیورسٹی کی شکل میں ایک پلیٹ فارم دیا کہ جہاں مسلمان اپنی قابلیت کو بڑھا سکتے تھے انہوں نے نہایت ہمت و استقلال کے ساتھ مسلمانوں کی خدمت کی۔ ابرار بختیار نے کہا کہ سرسید احمد خان نے انگلستان میں 17 مہینے قیام کیا انہوں نے برطانوی معاشرے میں رہ کر یہ نتیجہ نکالا کہ انگلستان کی برتری صرف اس لیے قائم ہے کہ وہاں جملہ علوم و فنون ملکی زبان میں پڑھائے جاتے ہیں انہوں نے اپنے ہندوستانی دوستوں سے کہا کہ ہندوستان کی ترقی بھی یہاں کی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے میں مضمر ہے اور یہ بات کوہ ہمالیہ پر بڑے بڑے حروف میں لکھ دی جائے‘ سرسید احمد کی تحریک سے ہندوستان میں آزادی کا آغاز ہوا۔ اقبال سہوانی نے کہا کہ مولوی نذیر احمد نے سرسید احمد خان کی تعریف میں کئی نظمیں کہی ہیں۔ وہ سرسید کے فلسفۂ تعلیم و محبت کے قائل تھے جس کی بدولت ہند کے مسلمانوں میں تعلیمی اور معاشرتی انقلاب آیا ہمیں چاہیے کہ ہم اس عظیم رہنما کے اصولوں پر عمل کریں۔ اس مذاکرے کے بعد مشاعرہ ہواجس میں صاحب صدر‘ مہمانان خصوصی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ وحید محسن‘ بشیر نازش‘ علی اوسط جعفری‘ افضل ہزاروی‘ محمد رفیق مغل‘ سیدہ ذرنین‘ نظر فاطمی‘ اقبال سہوانی‘ عبدالستار رستمانی‘ ذوالفقار جسکانی‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ دلشاد احمد دہلوی نے اپنا اپنا کلام نذرِ سامعین کیا۔ اس مشاعرے میں اردو‘ سندھی‘ پنجابی‘ سرائیکی زبانوں میں بھی کلام پڑھا گیا۔