سرراہ چلتے چلتے
یہ سفر خوب گزرا، اور جہاں اسے بیرونی طور پر ترکی کے حسین مناظرِ ارضی اور پُرلطف موسم کی دلکشی نے حسین بنادیا، وہیں بس کے اندر ملتان کی دو بچیوں سحرش اور عروسہ خان جو ’’ڈیلی پاکستان‘‘ ٹی وی چینل کی نمائندہ بھی تھیں اور شاید ملتان یونیورسٹی میں صحافت، جسے اب ’’ماس کمیونیکیشن‘‘ کہا جاتا ہے، کی طالبہ بھی تھیں، اور اسلام آباد کی ایک بچی کی شرارتوں، لطیفوں، قہقہوں اور جگتوں کے ساتھ گائیڈ مسٹر والکن کو مسلسل پنجابی ٹپّوں اور ماہیوں کا نشانہ بنائے رکھنے نے پُرلطف بنا رکھا تھا، وہیں ڈیرہ غازی خان یا مظفر گڑھ کے میڈیکل ڈاکٹر افتخار احمد صاحب کی حسین آواز کے جادو نے بھی دوآتشہ کررکھا تھا۔ افتخار صاحب کے پانچ بیٹے ہیں اور سب ہی ڈاکٹر، ماشاء اللہ۔ وہ اپنا پروفیشنل مائیک ساتھ لے کر آئے تھے۔ ان کی آواز میں بس کے اسپیکر/ ڈیک نے مزید سُر بھر دیے۔ سفر کے اگلے مرحلے میں شعر و شاعری کے ذریعے ہر شریکِ سفر نے بھی حصہ ڈالا۔ ایک بار سب نے مل کر اقرارالحسن کے ساتھ ’’جیوے جیوے پاکستان‘‘ اور دیگر ملّی نغمے گائے۔ مسٹر والکن ہمارے ترک پروفیشنل گائیڈ بس میں لگے نقشے کی مدد سے ترکی کی تاریخ و جغرافیہ سے آگاہ کرتے رہے، مگر شرکائے گانا نے کبھی بھی اس پر توجہ دی نہ دلچسپی کا مظاہرہ کیا، کیونکہ ’’ارطغرل‘‘، ’’یونس ایمرے‘‘ اور ان سے پہلے ’’میرا سلطان‘‘ نے مسٹر والکن سے کہیں زیادہ انہیں ترکی کے بارے میں معلومات پہنچا رکھی تھیں۔ اسی لیے اکثر خواتین و حضرات دورانِ سفر درختوں کے جھنڈ اور پہاڑی راستوں اور غاروں میں ان ڈراموں کے وہ SET ڈھونڈتے رہے، جہاں یہ ڈرامے فلمائے گئے۔
اسلام آباد سے لاہور آئیں تو مسافر بالعموم ’’چکری‘‘، ’’بھیرہ‘‘ یا ’’سکھیکھی‘‘ کی قیام و آرام گاہ پر ضرور ٹھیرتے ہیں۔ حوائجِ ضروریہ سے فراغت یا نماز وغیرہ کے ساتھ چائے کافی لے کر تازہ دم ہوتے ہیں۔ اسی طرح لاہور فیصل آباد کے سفر کے دوران جی ٹی روڈ پر مانانوالہ میں ’’سرِِراہ‘‘ نامی ریسٹورنٹ مسافروں کو متوجہ کرتا ہے۔ قونیہ کے اس چار گھنٹے کے سفر کے دوران پہاڑوں، بادلوں اور بارش کے سنگ سرد ہوائوں کے ماحول میں ’’ترکی بھیرہ‘‘ یعنی قیام و طعام کا ایک پوائنٹ ہمارا پہلا عارضی پڑائو تھا۔ غالباً نصف راستہ طے ہوچکا تھا، شدید سردی کا عالم اور تیز بارش سے سامنا ہوا۔ کپکپلاتے، بھیگتے اور گردوپیش کے خوبصورت مناظر کو نگاہوں میں سموتے عمارت کی جانب بڑھے۔ وہاں گرم کپڑوں کی اچھی بھلی مارکیٹ تھی۔ لاہور کے رانا اسلام صاحب نے ایک گرم جیکٹ تقریباً 600 لیرا میں خریدی اور پھر سارے سفر اسے اپنے جسم سے علیحدہ کیا، نہ ترکی جیکٹ کے نشے سے باہر نکلے۔ یہاں گرم کافی اور اسنیکس کی اچھی ورائٹی موجود تھی، ہم نے اس سے لطف اٹھایا۔ کچھ لوگوں نے ایک لیرا میں مساج مشینوں سے سفر کی تھکاوٹ دور کی۔ ڈرائیوروں نے فیول حاصل کیا۔ ہم نے سرد موسم میں باہر نکل کر کچھ تصاویر بناکر موبائل گیلری میں محفوظ کیں اور تقریباً پینتالیس منٹ قیام کے بعد تازہ دم ہوکر حضرت مولانا رومؒ کے شہر قونیہ کی جانب چل دیے۔ اب ہمارا مطمح نظر راستے کے مناظر نہیں تھے، بلکہ بارگاہِ مولانائے روم میں حاضری تھی، لہٰذا ہم اردگرد سے یکسر بے نیاز و بے خبر ہوکر مولانا روم کے بارے میں جاننے اور سوچنے لگے۔ شاعرِ مشرق علامہ اقبال اور دنیا کے صوفیہ، علماء و شعراء کے مرشدِ روحانی اور استاذِ علمی و فکری حضرت مولانا جلال الدین بلخی رومی علیہ الرحمہ!!
’’حضرتِ میولانا‘‘
ترکی میں فارسی النسل مولانا جلال الدین رومی کو ’حضرت میولانا‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ استنبول میں کئی علاقوں، ہوٹلوں اور دیگر عوامی مقامات کو ان کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ علم و ادب اور شعر و تصوف کی کتابوں میں انہیں ’مولانائے روم‘ بھی کہا گیا ہے۔ حضرت فارسی النسل تھے۔ 1207 عیسویں میں افغانستان کے شہر ’’بلخ‘‘ میں پیدا ہوئے، اسی نسبت سے ’’بلخی‘‘ بھی کہلائے۔ ان کی شخصیت پر بہاوالدین زکریا ملتانیؒ، خواجہ ابوالحسن خرقانیؒ، بایزید بسطامیؒ اور شمس تبریزیؒ کے فکری اثرات گہرے تھے۔ شمس تبریزیؒ کے ساتھ وابستگی کے کئی دلچسپ اور افسانوی واقعات بھی بیان کیے جاتے ہیں۔ ان سے مولانا نے خلوت میں چالیس دن تک خصوصی تعلیم و معرفت کا فیض حاصل کیا۔ ان کے انتقال پر آپ بہت دلگیر ہوئے اور بڑے درد انگیز شعر لکھے۔ حتیٰ کہ آپ کا دیوانِِ شعر جس میں بکثرت شمس تبریزی کا ذکر کیا گیا، ان ہی کے نام سے ’’دیوان شمس تبریزی‘‘ کے طور پر مشہور ہوگیا۔ ان کی تین تصانیف کا ذکر ملتا ہے۔ ایک تو یہی ’’دیوانِ شعر‘‘، دوسری ’’فیہ مافیہ‘‘ اور تیسری مشہور ترین ’’مثنوی‘‘ جو خود ان کی اصل وجۂ شہرت ہے۔ روایت ہے کہ انہوں نے تین ہزار پانچ سو غزلیں اور دو ہزار رباعیات لکھیں، جبکہ رزمیہ نظموں کا بھی بڑا ذخیرہ موجود ہے۔
سلجوقیوں کے سطان نے ان کی بصیرت و شہرتِ علمی سے متاثر ہوکر قونیہ بلوایا، جہاں تشریف لاکر مولانائے روم نے تیس برس طالبانِ علم و فیض کی تربیت کی۔ 66 سال کی عمر میں 1273ء میں ان کا انتقال ہوا۔ یہ قونیہ میں میں ہی مدفون ہوئے۔ ان کے پیروکاروں نے تصوف کا سلسلہ ’’جلالیہ‘‘ اور سلسلہ ’’مولویہ‘‘ قائم کیا، جس میں عارفانہ کلام، ذکر، مراقبہ اور صوفیانہ رقص کو خصوصی اعمال کا درجہ حاصل ہے۔ ان کے سلسلۂ باطنیہ کا ذکر معروف سیاح ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامے میں بھی کیا۔
مولانا رومؒ کو محبت کا پیامبر کہا گیا، جو ان کی شاعری اور رباعیات و مثنوی میں جھلکتی ہے۔ ان سے متاثر ہونے اور ان کی فکر کو اپنے شعر و فلسفہ میں سمونے والوں میں شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ، علامہ محمد اقبالؒ، قاضی نذرالاسلامؒ اور قاضی عبدالکریم سروشؒ کے نام نمایاں ہیں۔ جبکہ عالم اسلام کے دور حاضر کے مفکر، محقق و مبلغ و مصنف علامہ طاہر القادری کا نام بھی ان کے روحانی فیض یافتوں اور فکر کی ترویج کرنے والوں میں شامل کیا جاتا ہے۔ علامہ طاہرالقادری نے تو بعینہٖ قونیہ میں مولانائے روم کے مزارِ مبارک کی عمارتی تصویر سے ہوبہو مشابہہ لاہور میں اپنا مرکز تصوف قائم کر رکھا ہے۔
رومیؒ اقبالؒ کا فکر ساز
برصغیر ہی نہیں ایران، افغانستان، وسط ایشیائی ریاستوں اور ترکی کے علاوہ عالم عرب میں اقبالؒ ایک مفکر و مصلح کی حیثیت سے پہچانے جاتے اور ان کی فکر مشعلِ راہ کے طور پر اختیار کی جاتی ہے۔ عہدِ جدید کے اس عظیم فلسفی شاعر و مفکر کے فکری امام و رہنما قونیہ کی سرزمین میں علم و شعور کے سیکڑوں دیے جلانے والے یہی مولانا جلال الدین رومیؒ ہیں جنہیں وہ اپنا پیر سمجھتے ہیں۔ معرفتِ الٰہی کے باب میں وہ اپنا سر بارگاہِ رومی میں نگوں کرتے ہیں۔ انہوں نے لکھا: ’’پیر رومی خاک را اکسیر کرد‘‘۔ (پیر رومی نے خاک کو اکسیر بنادیا)۔ ازغبارم جلوہ ہا تعمیرکرد۔ (اور میری خاک سے کئی جلوے تعمیر کر دکھائے)
اقبالؒ موجودہ علوم، طرزِ تعلیم اور ان کے اثرات سے بہت پریشان رہے۔ ان کے اشعار میں ایک بڑا حصہ عہدِ جدید کے علوم و فنون کے اُن اثرات پر تشویش و اضطراب پر مشتمل ہے جو نوجوانانِ عصرِ حاضر کے فکر و عمل پر مرتب ہوکر انہیں اسلام کی حقیقی روح اور منزل سے دور کررہے ہیں۔ اپنے انہی خون کے آنسوئوں کا مداوا انہوں نے رومی کی تعلیمات و افکار میں تلاش کیا، جنہوں نے راہنمائی عطا کی کہ علومِ حاضرہ کا حصول ضروری ہے کہ قوم کے ارتقا کا سفر رُک نہ جائے۔ اہلِ اسلام اور مسلم امہ پر لازم ہے کہ سائنس اور اس کے نتیجے میں ہر زمانے کے مروج علم کو ہرگز ممنوع نہ سمجھا جائے، البتہ ترجیحِ فکر و عمل خدا اور اس کے دین اور محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ہی حاصل ہونی چاہیے، اور یہی ان کی تمام تر فکری و عملی سرگرمیوں کا مرکز و محور ہونی چاہیے۔ اس سانچے، زاویے اور پیمانے میں ڈھل کر حاصل ہونے والا کوئی بھی علم یقیناً نتیجہ خیز اور مثبت اثرات کا ہی حامل ہوگا۔ دوسری بات یہ کہ علم کے حصول کا مقصد تن آسانی اور جسمانی زیب و زینت کے لیے نہیں بلکہ دل کی دنیا کو آباد کرنے کے لیے ہونا چاہیے۔ علامہ اقبالؒ کی شاعری اور نسلِ نو کے نام ابدی اور سرمدی پیغام کا خلاصہ بھی یہی ہے۔
علامہ اقبالؒ مرشد رومیؒ کی نظر بلاخیز کے اسیر تھے۔ اُن کے ایک فارسی شعر کو اردو میں یوں ڈھالا:
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں
ترک بھی علامہؒ کے شیدائی تھے۔ رومیؒ کی فکر کے علَم بردار اور ترویج کرنے والے کی حیثیت سے انہوں نے علامہ اقبالؒ کو کبھی فراموش نہیں کیا۔ قونیہ میں مزارِ رومی کے وسیع و عریض کمپلیکس میں مرقدِ رومیؒ کے بالکل قریب علامہؒ کی علامتی قبر اسی محبت اور وارفتگی کی قوی دلیل ہے۔ افسوس کہ علم نہ ہونے کے باعث شدید خواہش، جستجو اور تمنا کے باوجود ہم اپنے سامنے موجود اس قبرِ اقبال تک نہ پہنچ سکے اور خراجِ محبت پیش کرنے سے محروم رہے، جس کا ہمیں سارے سفر میں شدید قلق رہا۔ اس میں اضافہ یہ جان کر ہوا کہ ہم اسی قبر کے اردگرد گھومتے رہے اور وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہونے کے باوجود ہماری دسترس سے باہر رہی۔
برسرِ قونیہ
ہم شدید سرد ماحول میں دوپہر ڈھلے ترکی کے بہ لحاظِ رقبہ سب سے بڑے صوبے کے دارالحکومت قونیہ پہنچے۔ یہاں کی کُل آبادی نو دس لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ خوبصورت اور جدید عمارتوں، وسیع سڑکوں اور حسین پہاڑی قطعوں کا یہ شہر کبھی “ICONIUM” (اکونیم) کے نام سے موسم تھا، جو کبھی سلجوقی حکمرانوں کا پایۂ سلطنت رہا اور کبھی صلیبی جنگوں کے دوران عیسائی حکمرانوں کے زیر تسلط۔ 1420ء میں عثمانیوں کے قبضے میں آیا۔ جہاں صلاح الدین ایوبی اور سلیم ثانی نے کئی مساجد تعمیر کرائیں۔ بتایا جاتا ہے کہ معروف صاحبِ تصوف ابن عربیؒ بھی سلجوقی گورنر کی دعوت پر ایک بار قونیہ تشریف لائے۔
شہر قونیہ کی خاص بات یہ بھی ہے کہ جنگ عظیم اول کے ہندوستانی فوجیوں کو جب ترک فوجیوں پر گولی چلانے کا حکم ملا تو انہوں نے انکار کردیا۔ ان فوجیوں نے ترک فوجیوں کے ساتھ مل کر مشترک جنگ لڑی۔ ان کے ہندوستانی شہداء کی بہت ساری قبریں بھی قونیہ کی بے شمار قبروں کا حصہ ہیں۔ عام دلچسپی کی ایک بات یہ بھی ہے کہ دنیا کے طویل ترین سائیکلنگ ٹریکس میں سے دوسرا بڑا ٹریک پانچ سو پچاس کلومیٹر طویل بھی اسی شہر قونیہ میں ہے، جبکہ پہلا امریکا کے شہر نیویارک میں موجود ہے۔
قونیہ کی سوغاتوں میں دو چیزیں مشہور ہیں۔ انہیں قونیہ کا تبرک بھی شمار کیا جاتا ہے۔ ایک قیمے والی روٹی جسے مقامی زبان میں ’’اتیلی اکمک‘‘ کہتے ہیں، اور دوسرا پتیسہ جسے ’’پشمانیے‘‘ کہتے ہیں۔ مگر ہم نے نہ تو روٹی کھائی نہ پتیسہ چکھا، نہ شہر دیکھا۔ ہماری منزل تو دنیا بھر کے زائرین کے دلوں کی دھڑکن اور روح و قلب و نظر کی جلا کا مرکز درگاہِ حضرت رومؒ تھی جہاں ہم جلد از جلد پہنچنا اور کسب فیض کے ساتھ کچھ روحانی جذب و کیف کے لمحے بسر کرنا چاہتے تھے، اور مزار مبارک اور تبرکات کی زیارت سے آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانا چاہتے تھے۔ احاطۂ مزار کے قریب ہی ایک روایتی قدیم ہوٹل میں پہلے جسمانی غذا کا انتظام کیا۔ پھر روحانی غذا کی طرف روانگی کا شیڈول طے تھا۔ سفر کی تھکان اتارنا بھی ضروری تھا۔ لذتِ کام ودہن کے بعد باہر نکلے تو دو ایک دکانوں پر سرسری مٹرگشت کی۔ ایک دکان پر مخصوص رومی درویشی صوفی ٹوپی نظر آئی، جسے بصد شوق پہن کر تصاویر بنوائیں اور خود کو رومیؒ کے پیروکاروں اور دریشوں میں شامل ہونے کا تصور کیا۔ یہ دلکش و یادگار تصویر میری اہلیہ محترمہ پروفیسر فاخرہ اعجاز نے بنائی۔ میری اکثر تصویریں اُن ہی کی فنی مہارت کا نشان ہیں۔
قونیہ سے سوگوت کی جانب:
سوگوت‘ سوغوط دونوں طرح اس کا نام لکھا جاتا ہے۔ ترکی میں Sogut ترکی طرزِ تحریر کئی اعتبار سے منفرد بھی ہے اور مشکل بھی۔ بظاہر انگریزی یا فرانسیسی طرز تحریرمگر اس میں اوپر‘ نیچے نقطوں اور مدّ ( ٓ) کے ذریعے مختلف مفاہیم پیدا کیے جاتے ہیں۔ ہم تو کچھ نہ سمجھ سکے‘ البتہ یہ ضرور جان لیا کہ کبھی ترکی رسم الخط عربی و فارسی کے اندازِ تحریر کا تابع تھا۔ تقریباً سو سال پہلے کمال اتاترک کے انقلاِ قومیت نے اس خط کو ایک نئی شناخت دی اور آفرین ہے ترک قوم پر کہ ان کا سارا تمدنی‘ معاشرتی اور قومی کاروبارِ حیات دیگر زبانوں سے بے اعتناعی اور ترکی زبان کے ہمہ جہت اختیار و نفاذ کے گرد گھومتا ہے۔ ان کی ہر پراڈکٹ پر خواہ وہ بسکت ہو‘ چاکلیٹ کا ڈبہ یا جوس کا پیکت۔ شاہراہوں کے علامتی نشان ہوں یا دکانوں کے سائن بورڈز ہر جگہ ترکی غالب بلکہ حاوی ہے۔ کہیں کہیں بہت دبے دبے انداز میں انگریزی کے الفاظ بھی دکھائی دیتے ہیں جیسے استنبول ائرپورٹ کے داخلی و خارجی راستوں پر اِکا دکا انگریزی الفاظ‘ ترکش ائر لائن‘ ہوٹلز یا مینو کارڈز۔ ترکی ہی ترکی۔ انہیں ’’بے زبانی‘‘ کا کچھ ذکر آگے چل کر آئے گا۔
سوگوت کی واحد پہچان:
سوگوت ترکی کے ’’مرمرہ‘‘ ریجن کے صوبہ ’’بلیجک‘‘ کا ایک ضلع ہے جو شمال مغرب میں واقع ہے۔ آبادی کے لحاظ سے انتہائی کم‘ مگر اہمیت کے اعتبار سے سارے ترکی کے مقامات پر فائق۔ یہاں سلطنتِ عثمانیہ کے بانیٔ عثمان اوّل کے والد ارطغرل غازی کا مدن ہے۔ اسی شہر کو عثمان سلطنت کا پہلا دارالخلافہ قرار دیا جاتا ہے۔ ارطغرل غازی کو ترکی کا بڑا ہیرو سمجھا جاتا ہے اور وہ زعیمِ ملت جس نے رومی اقتدار و تسلط کے بعد ترکی تاریخ اور تہذیب کو نئی شناخت دی اور تاریخ کا پہیہ پلٹ کر عثمانیوں کے زیر اثر کر دکھایا‘ انقلاب کے اسی سفر میں ترکی قوم اسلام سے مربوط ہوئی کہ مرکزِ خلافت اسلامی سے اس کے سیاسی‘ ثقافتی‘ تمدنی‘ تہذیبی اور فکری روابط مستحکم ہوئے اور بالآخر خلافتِ عثمانیہ کی صورت امت کی وحدت و سرپرستی کا نشان بنی۔
ترک قوم کے ہیرو۔ ارطغرل غازی کا مزار:
ارطغرل غازیؒ کا مزر ایک وسیع احاطے میں پورے جاہ و جلال کے ساتھ موجود ہے۔ اس کے دروازے زائرین کے لیے بند ہیں۔ ایک کھڑکی سے انر کے پُر جلال و جمال مناظر دیکھنے کا موقع مل سکتا ہے۔ اس مزار کے اندر حسبِ روایت ایک خوب صورت مرقد گہرے سبز رنگ کے سنہری کڑھائی سے سجے ہوئے کپڑے سے ڈکھی ہوئی ہے جس کے اطراف میں ترکی کا قومی اور کاٹی قبیلے کا روایتی جھنڈا دیگر چھ پرچموں کے ساتھ موجود ہے اور قبر کے پہلو میں گیارہ ڈبیوں میں محفوظ مگر کھلی ہوئی اور دکھائی دیتی ان گیارہ علاقوں کی مٹی ہے جو ارطغرل نے فتح کیے۔ قبر کے سرہانے ایک بڑی کلاہ سفید رنگ کی صاحبِ قبر کی عظمت کی دلیل کے طور پر موجود ہے۔ بہ قول نامور محقق پروفیسر ڈاکٹر خالد ظفراللہ دائودی‘ جنہوں نے ترکی کی یونیورسٹی سے علمِ حدیث میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی‘ ترکی میں صاحبِ مزار کی علمی وجاہت اور شخصی ثقاہت ووقعت کے مطابق دستار قبر کے سرہانے رکھی جاتی ہے۔
اس احاطے میں ارطغرل اور سلیمان اوّل کے امرائے مملکت‘ اعزا و اقربا‘ شہزادوں‘ بیٹوں اور خواتین کی قبریں بھی موجود ہیں۔ ارطغرل غازی کے مزار کے بالکل باہر اس کی ملکہ حلیمہ سلطان اور والدہ کی قبریں بھی موجود ہیں اور یہ سب اس مخصوص انداز اور طرزِ تعمیر کی حامل ہیں جن کا ذکر قونیہ کے مزارات کی تفصیل کے موقع پر ہو چکا۔ یہاں حلیمہ خاتون کے نام سے منسوب ایک مسجد بھی موجود ہے جہاں مرد و خواتین کے لیے الگ الگ نماز پڑھنے کی سہولت موجود ہے البتہ مسجد کے واش روم استعمال کرنے کے دو لیرا ادا کرنا پڑتے ہیں‘ ایسا اس سفر میں بورما کی قدیم تاریخی نیلی مسجد کے غسل خانوں میں بھی دکھائی دیا۔ وہاں تو صاف لگتا تھا کہ شاید حکام کی نظروں سے بچتے ہوئے ایسا کیا گیا تھا۔ ہم پاکستانی یہاں متعلقہ شخص کو چکر دینے میں کامیاب ہو گئے۔ اس وسیع احاطے میں ارطغرل کی روحانی اور فکری رہنما شیخ ایوب علی (Eoeb Ali) کا مزار بھی تھا۔
سوگوت کی ایک اور خاص بات قریب ہی KAI قبیلہ کا ایک مکمل سیٹ موجود تھا جہاں ارطغرل ڈراما کے مکمل کاسٹیومز‘ تلواریں‘ خنجر‘ ٹوپیاں‘ انگوٹھیاں اور دیگر جنگی ساز و سامان برائے استعمال و فروخت موجود تھا۔ ایک شخص مکمل شاہی لباس پہنے دعوتِ نظارہ دیتا پھر رہا تھا اور بلند آواز میں ارطغرل ڈرامے کا علامتی میوزک دل پر دستک دے رہا تھا۔ ہمارے شرکائے سفر خواتین اور نوجوانوں بلکہ بزرگوں نے بھی اپنے اپنے جثے کے مطابق لباس پہن کر‘ تلواریں سجا کر خود کو ارطغرل اور حلیمہ سلمان کے روپ میں بدلا اور تاریخ کا نہ سہی کیمرے کے صفحوں پر خود کو امر کر لیا۔ بیگم صاحبہ نے سیٹ پر کئی تصویریں بنوائیں اور میں نے اُدھار کی ایک کائی ٹوپی میں خود کو ارطغرل سے قریب کیا۔ جناب اقرارالحسن نے اپنے بیٹے ’’پہلاج‘‘ کے لیے اس کے سائز کا کائی لباس اور تلوار خریدے اور دیگر لوگوں نے بھی۔
سوگوت میں ایک لمبا وقفہ گزارنے کے بعد ہم قونیہ سے بورصا کے درمیان 520 کلو میٹر اور سات گھنٹے کے سفر کے دوسرے مرحلے کے لیے روانہ ہوئے۔ ’’بورصا‘‘ جہاں رات ہم نی قیام کرنا تھا اور اگلی صبح شہر کی دو بڑی مسجد ’’کلاک ٹاور‘ دور سمندر کے کنارے استنبول کے منظر سے لطف اندوز ہونا تھا۔
سوگوت سے نکلنے سے پہلے یہ تازہ ترین خبر بھی سماعت فرمائیں کہ ہم ’’سوگوت‘‘ میں نومبر 2020ء میں موجود تھے اور اُن دنوں اس مزار کے قرب و جوار میں ننانوے ٹن سونا مدفون تھا جس کی مالیت چھ ارب ڈالر سے زائد ہے اور یہ ہامرے وہاں سے واپس آنے کے بعد دریافت ہوا اور حکومتِ ترکی نے دسمبر 2020 میں اس کی دریافت کا سرکاری اعلان کیا۔ ہمیں امید واثق ہے کہ یہ ہماری ’’برکتوں‘‘ کا نتیجہ تھا‘ ترک قوم کو اس کی معیشت کے استحکام کی یہ منزل مبارک ہو۔ بزرگوں کا محض روحانی فیض ہی نہیں‘ مادّی فیوض و برکات کی تلاش کا سلسلہ بھی جاری رہنا چاہیے۔ ہمارے ملک میں تو ’’نذرانوں‘‘ کے ڈبوں سے ماہانہ کروڑوں روپے کے نقد مادّی فیوض و برکاتِ بزرگان سے کون ناواقف ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ہمارے ملک میں یہ بھاری رقوم کسی قومی و ملکی مفاد میں استعمال ہوتی نظر نہیں آتیں۔ اگر انہیں درست استعمال کر لیا جائے تو قوم معاشی الجھنوں اور بیرونی قرضوں سے با آسانی نجات پالے۔
نمازِ جمعہ:
سوگوت اور بورصا کی سفر کے دوران ایک خوب صورت قصبے کی مسجد میں نمازِ جمعہ کے لیے رکے۔ مسجد مناسب حد تک بڑی اور ترک مساجد کے مخصوص طرزِ تعمیر کی حامل تھی۔ ترکی کی تقریباً تمام قدیم و جدید مساجد ایک ہی انداز کی ہیں۔ گولائی مائل پہلودار ایک گنبد اور پتلے لمبے دو مینار اور ان پر سبز رنگ جب کہ اس کی نوکیلی چوٹی گولڈن یا سلور۔ جدید مساجد کے رنگ تازہ و چمک دار اور قدیم مساجد کے مدہم رنگ۔ جس مسجد کے میناروںکے رنگ جس قدر مدہم‘ اسی قدر وہ قدیم۔ جس دیہی مسجد میں ہم نے نماز پڑھی وہ زمین سے خاصی بلندی پر تھی جب کہ نیچے ایک وسیع قطعۂ ارضی مسجد کے ساتھ منسلک تھا مگر نہ وہاں فرش‘ نہ گھاس۔ کچھ لوگ وہاں بھی جائے نماز بچھائے بیٹھے تھے۔ شاید کورونا سے بچتے ہوئے۔ مسجد کے نچلے حصے میں خواتین کی جائے نماز تھی‘ مگر شائد وہاں سوائے ہمارے قافلے کی چند خواتین کے‘ قصبے کی کوئی خاتون نہیں تھی۔ پوری مسجد میں نمازیوں کی اندازاً تعداس پچاس کے لگ بھگ ہوگی۔ مسجد میں اور تقریباً ہر مسجد میں ترکی کا سرخ پرچم ضرور آویزاں تھا۔ پاکستان میں محراب میں خطبہ کا منبر رکھا جارتا ہے جب کہ ترکی کی ہر مسجد میں دائیں جانب دس بارہ قدم اوپر چڑھ کر منبر پر بنی ہوئی چھتری تلے امام صاحب نمازیوں کی طرف رُخ کرکے خطبہ ارشاد فرماتے ہیں۔ ہاتھ میں پکڑے ہوئے کاغذات سے لگتا ہے کہ یہ سرکاری خطبہ ہے جو پڑھا جارہا ہے۔ یہ بھی اندازہ ہوا کہ تمام ائمہ و خطباء اور مؤذنین حکومت کے ملازم ہیں اور کسی فرقے‘ مسلک کا نہ کوئی قبضہ ہے نہ خصوصیو امتیازی پہچان اور نہ مساجد میں اس کا اظہار۔
امام صاحب نے لکڑی کے بنے ہوئے ایک کم اونچائی والے چوبی پٹڑے پر‘ جو محراب میں رکھا ہوا تھا اور اس پر جائے نماز موجود تھی‘ کھڑے ہو کر یعنی تمام نمازیوں اور عمومی صفوں سے اونچا ہو کر جماعت کروائی اور جامعت سے پہلے تمام نمازیوں کو ماسک لگانے پر مجبور کیا اور اس وقت تک نماز نہ شروع کی جب تک سب لوگوں نے ماسک نہ پہن لیے۔ ایک اور قابلِ ذکر بات یہ ہوئی کہ عربی خطبہ کے دوران آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ اور فرشتوں کے درود بھیجنے اور اہل ایمان کو اس کے حکم کے کی آیت کے بعد مسجد میں موجود تمام نمازیوں نے باآواز بلند درود شریف پڑھا جب کہ ہمارے یہاں برصغیر اور پاکستان میں دورانخطب خاموش رہنے کی تلقین کی جاتی ہے اور اگر درود پڑھا بھی جاتا ہے تو دل میں۔ نماز کے بعد کچھ دیر مسجد میں بیٹھے رہنا بھی ترکوں کا معمول ہے۔
ترکی کے سارے سفر کے دوران ہمیں گداگر کہیں نظر نہ آئے سوائے اس مسجد کے باہر۔ یہاں ایک بچہ رومال پھیلائے پاکستانی بھکاریوں کی طرح نمازیوں سے بھیک اکٹھا کرنے میں مصروف تھا۔ کسی پاکستانی ’’حاتم طائی‘‘ نے پاکستانی پچاس روپے کے نوٹ کے ذریعے احسانِ عظیم کر رکھا تھا۔ آگے چلے تو ایک بوڑھی خاتون فارسی ملی ترکی میں طالبِ خیرات ہوئی۔ ہم نے اسے حسب توفیق ’’لیرا‘‘ پیش کرکے دعائیں سمیٹیں جس مین اس بڑھیا نے پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے اچھے اور ممنونیت بھرے جذبات کا اظہار کیا۔ اس کا یہ ردعمل یقینا پاکستان سے محبت کا عکاس بھی ہوگا مگر ہمین اس میں ’’لیرا‘‘ کے بڑے اور خاتون کے خلافِ توقع نوٹ کا دخل محسوس ہوا۔ بورصا کی گرینڈ مسجد کے باہر ایک بچے نے جوتے پالش کروانے پر اصرار کیا‘ ہم نے اسے چند لیرا پیش کیے تو اس نے بڑی خودداری سے انکار کر دیا۔
ترکی مساجد میں مخصوص جگہ:
ترکی کی بڑی مساجد گرینڈ مسجد بورصا اور ایاصوفیہ۔ استنبول میں ایک خاص بات یہ نظر آئی کہ اس میں کم و بیش چاپس افراد کے لیے مرکزی محراب کے سامنے دو ایک صفیں چھوڑ کر ایک ڈیڑھ فٹ لکڑی کی جالی کے ذریعے جگہ مخصوص کی گئی تھی۔ حتماً یہ معلوم نہ ہو سکا کہ یہ جگہ اعیانِ سلطنت کے لیے ہے یا قدیم حکمرانوں کے لیے یا پھر امرا و روسائے قوم کے لیے۔
باغات کا شہر بورصا:
عثمانی خلفاء‘ مجاہدوں اور غازیوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہم 6 نومبر کی شب بورصا پہنچے اور گولڈ میجسٹی ہوٹل میں ٹھہرے۔ ترکی کا چوتھا بڑا شہر اور شمال مغربی صوبے ’’بورصا‘‘ کا دارالخلافہ ’’اولوداغ‘‘ نامی پہاڑ کے درمیان میں ایک انتہائی برفانی مقام جہاں کی تفریحی گاہیں‘ کیبل کار‘ بوٹافیکلی گارڈن اور کئی زرخیز میدان سیاحوں کی کشش کا باعث ہیں۔ بارہ‘ تیرہ لاکھ آبادی کے اس شہر کو YESIL BORSA یعنی ’’سبز بورسہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں کا ایک چھوٹا سا کلاک ٹاور بھی مشہور اور قابل دید سمجھا جاتا ہے۔ اگر ترک فیصل آباد کا گھنٹہ گھر اور اس کے اردگرد آٹھ بازاروں کی چہل پہل دیکھ لیں تو اس کلاک ٹاور کو ممکن ہے کوئی اور نام دے دیں۔ یہ کلاک ٹاور فیصل آباد کے کلاک ٹاور کے سیاسی استعارے ’’گھنٹہ گھر‘‘ کا مصداق ہرگز نہیں۔ یہ شہر جہاں اپنی شدید برف باری کے حوالے سے معروف ہے وہیں اس کی برفانی تفریحی گاہیں دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ یہ شہر دنیا کے مختلف ممالک کے بیس شہرون کا ’’جڑواں‘‘ قرار دیا گیا ہے جن میں سے ایک پاکستان کا شہر ’’ملتان‘‘ بھی ہے۔ نہجانے ان دونوں میں کیا مماثلت ہے جس کی بنا پر اسے ’’جڑواں‘‘قرار دیا گیا۔ بورصا میں برف ختم نہیں ہوتی اور ملتان میں گرمیوں میں پانی ٹھنڈا کرنے کے لیے برف ملتی نہیں۔ پھر پڑھتا معتدل آب و ہوا‘ سرسبز و پُر بہار ’’بورصا‘‘ کہاں اور ملتان کے گرد گور کہاں۔ یہ شہر 1326ء میں سلطنتِ عثمانیہ کا دارالحکومت بھی رہا۔
بورصا: عثمان غازی‘ الجزائری اور امام خمینی:
بورصا شہر کو سلطنت عثمانیہ غازی نے اپنی زندگی میں فتح کرنے کا خواب دکھا‘ مگر بوجوہ یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا اس کے بیٹے ’’اورحان غازی‘‘ نے اپنے باپ کے خواب کو تعبیر آشنا بنایا اس کی تاریخی اہمیت میں اضافہ الجزائر کے حریت پسند رہنما عبدالقادر الجزائری کے اس شہر میں 1852 تا 1855 تین سالہ قیام نے کیا اور اسے مزید معتبر و وقیع بنایا۔ عصرِ حاضر کے عظیم اسلامی ایرانی انقلاب کے سرخیل امام خمینی کے قیام نے جنہوں نے اپنی پہلی جلا وطنی کے دور میں 1963 میں ’’بورصا‘‘ کو اپنے قیام کے لیے منتخب کیا۔ اگرچہ بورصا میں ان دونوں حریت پسند راہنمائوں کی آمد اور قیام کا کوئی نشان نہ ملا سوائے تاریخی صفحات کے۔
بورصا شہر کا باعثِ دید:
’’بورصا‘‘ شہر میں ہم نے ایک تو ’’کلاک ٹاور‘‘ دیکھا‘ دوسرا ترکی کا سب سے بڑا سلک بازار Kzakhan اور یہ دونوں سرِراہ دیکھنے کو ملے جب ہم ’’بورصا‘‘ میں اپنی اصل منزل ’’عثمان غازی‘‘ اور اس کے بیٹے ’’اورحان غازی‘‘ کے مزارات کی زیارت اور بلندیٔ درجات کی دعا اور ان کی جرأت‘ بہادری اور اسلام دوستی کو سلام کرنے پہنچے۔ پاکستان سے ترکی کے طویل سفر کا یہی مقصود و مدعا تھا ہمارا۔
جرأتوں کے امین عثمان و روحانی غازی:
عثمان غازی کے بانی عثمان غازی اور ان کے بیٹے اورحان غازی کی پہلو بہ پہلو مگر الگ الگ قبور ’’بورصا‘‘ کی اصل یادگار اور پہچان ہیں۔ دنیا بھر کے سیاح بڑی عقیدت‘ احترام اور اشتیاق سے ایک خوب صورت اور وسیع باغ اور شہر کے مرکزی مقام پر موجود ان زعمائے امت کو سلام پیش کرتے اور ان کی جرأت‘ ہمت اور شجاعت کی داستانوں سے آگاہ ہوتے اور بلندیٔ درجات کی دعا کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ چند قبریں اور بھی موجود ہیں۔ یہاں باہر دو پہرے دار مخصوص کائی لباس میں موجود ہمہ وقت چوکس و ہوشیار کھڑے رہتے ہیں۔ یہاں بھی اپنے نظام الاوقات کے مطابق مخصوص فوجی انداز میں گارڈ کی تبدیلی عمل میں لائی جاتی ہے۔ ایک خاص بات یہ کہ مزار میں ایک مخصوص چبوترے پر چوبیس گھنٹے تلاوت قرآنِ مجید کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یہاں کی جانے والی تلاوت ارطغرل غازی کے مزر بھی گونجتی سنائی دی۔ یہ منظر کچھ اور مزاراتِ مقدسہ میں بھی دکھائی دیا۔
بورصا کی سمجد آیا صوفیہ:
بورصا میں ایک گرینڈ مسجد‘ جسے ترکی میں ’’اولو جامع‘‘ (ULU CAMI) کہتے ہیں۔ اولین عثمانی طرز کی شاہ کار مسجد طویل عرصے تک مکہ کی ’’المسجد الحرام‘‘ کے بعد دنیا کی بڑی مسجد شمار کی جاتی رہی۔ ایسے سلطان بایذیر بلورم نے 1399ء میں جنگ نکلوپولیس میں فتح کی یادگار کے طور پر تعمیر کیا۔ بلاشبہ ایک خوب صورت‘ مضبوط‘ مخصوص طرز تعمیر کا شاہکار ہے۔ اسے بورصا کی ’’آیا صوفیہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی دوسری اور بڑی پہچان اور وہ شہرت اپنے وقت کے عظیم کیلی گرافرز کے 192 شہرہ آفاق اور بے مثل و منفرد خطاطی کے شہ پارے ہیں جو اس مسجد کی دیواروں پر جا بجا نصب ہیں جن میں الاسماء الحسنی اور اسمائے رسولؐ تقریباً سب ہی مختلف انداز‘ خط اور سائز میں لکھے گئے ہیں۔ روایت ہے کہ اس مسجد میںایک ایسا متبرک مقام بھی ہے جہاں حصرت خضر علیہ السلام نے نماز ادا کی تھی۔ ہم نے بھیاس جگہ دو نوافل ادا کیے اور بارگاہِ ایزدی مین دعائوں کا شرف حاصل کیا۔
کعبہ کا دروازہ اور حجرِاسود کا ٹکڑا:
یہ بھی روایت ہے کہ اس مسجد میں کعبہ مشرفہ کا پانچ سو سالہ قدیم دروازہ بھی موجود ہے جو سلیم اوّل نے تحفتاً پیش کیا اور کعبہ مقدسہ میں نصب حجرِاسود کا ایک ٹکڑا بھی موجود ہے جو کعبہ سے چوری ہونے والے حجراسود کا ایک ٹکڑا ہے۔ افسوس کہ ہم ان دونوں تبرکات کی زیارت نہ کرسکے۔ اس مسجد کے بیس گنبد اور دو طویل مینار بھی اس کی پہچان ہین۔ ہمیں اپنے سفرِ ترکی مں دیکھی جانے والی مساجد مین سے یہ واحد مسجد نظر آئی جس میں ’’چندہ بکس‘‘ بھی موجود تھا۔ اپنا حصہ ڈالنے کی سعادت بھی ہمارا مقدر ٹھہری۔
گرین مسجد:
ایک اور خوب صورت اور بڑی مسجد شہر کی بلند ترین پہاڑی پر واقع ہے‘ جسے سلطان مہمت نے 1419ء میں تعمیر کیا۔ یہ مسجد سبز رنگ کی دل کش ٹائلز اور خوب صورت کیلی گرافی سے مزین ہے۔ تقریباً ہر بری مسجد کے باہر وسیع احاطے میں سبزہ‘ پھول اور درخت نظر آئے اور باہر شاپنگ مالز۔ یہاں سرکاری امامو مؤذن سے مختصر ملاقات ہوئی۔ عربی کے چند جملوں میں مختصر تبادلۂ خیال ہی ہو سکا‘ مؤذن صاحب کورونا کے خطرات کے کچھ زیادہ ہی شکار تھے اور محتاط بھی۔ اس مسجد کے باہر بہت اونچی جگہ پر ایک اور خوب صورت‘ پُر شکوہ مقبرہ تھا‘ جہاں کسی بڑے عالم دین اور دیگر افراد کی قبریں موجود تھیں۔ ہم ان کی شناخت نہ جان سکے کہ سیڑھیاں چڑھ کر بے حال ہو چکے تھے‘ بہرحال دعا کی اور تصویر بنائی۔
آئی برڈ ویو:
ایک اور پہاڑی پر ایک خوب صورت منظر بھی ہمارا حاصلِ سفر تھا‘ ایک وسیع‘ خوب صورت احاطہ جو چند سال پہلے 2010ء میں تعمیر کیا گیا‘ جہاں سے استنبول کے مشاقانِ دید کو ’’بورصا‘‘ سے استنبول کا طائرانہ نظارہ کرایا جاتا ہے۔ جنگلے کے ساتھ کھڑے ہو کر نظر جھکائیں تو بورصا کا خوب صورت شہر اور نظر دوڑائیں تو دور سمندر پار استنبول کے دل فریب مناظر۔ بلاشبہ ہمارا اشتیاق بھی دو چند ہوگیا اور استنبول کی جانب کھنچنے لگے۔
استنبول کے مسافر:
ایک آنکھ سے ’’بورصا‘‘ شہر اور دوسری سے ’’استنبول‘‘ شہر دیکھنے کے بعد استنبول کا اشتیاق فزوں تر تھا۔ مگر ابھی استنبول کے وصل میں دو منزلیں حائل تھیں ایک ’’منیرہ‘‘ اور دوسرا 600 سال پرانا گائوں Cumalikiziki۔
’’منیرہ‘‘ ایک جدید شاپنگ مال ہے جہاں سے ہمیں ’’ٹرکش ڈیلائٹس‘‘ اور دیگر اشیا کی خریداری کی ترغیب دی گئی تھی‘ یہاں مختلف اقسام کی روایتی اور غیر روایتی مٹھائیاں جو ترکی کی مشہور و مقبول سوغات ہیں‘ ہمیں دو سوئٹس زیادہ پسند آئیں ایک مختلف ذائقوں‘ رنگت ار فلیورز کی جیلی نما مٹھائی اور دوسری مختلف پھلوں کو خشک کرکے محفوظ کی گئی۔ عربین ڈیلائٹس جنہیں ترکی ذائقہ اور انداز دیا گیا تھا‘ بھی موجود تھیں اور بے شمار اقسام۔ یہ مٹھائیاں خاصی مہنگی تھیں۔ ان کے علاوہ زعفران کی اقسام‘مختلف جڑی بوٹیاں‘ مختلف امراض کے لیے۔ کافی کے ثابت دانے اور تازہ پسنی ہوئی کافی‘ کاسمیٹکس کا سامان‘ سوونیئرز‘ خوشبوئیات وغیرہ سب کچھ موجود تھا۔ پیکنگ پرکشش اور محفوظ مگر زون میں شامل۔ ایک خاص چیز وہاںمختلف قسم کے ’’صابن‘‘ تھے۔ ترکی صابن خاصے اچھی کوالٹی اور اقسام کے دنیا بھر میں مقبول ہیں۔ پیک شدہ اور پیکنگ کے بغیر۔ ہمیں ان کے فضائل کا علم نہ تھا اور نہ ہی ضرورت البتہ بس میں بیٹھنے کے بعد معلوم ہوا کہ گائیڈ مسٹر والکن نے ’’ڈونکی سوپ‘‘ کی خاصی مقدار خریدی جو آئلی اسکن کے لیے مفید ہے۔ پاکستانیوں نے ڈونکی سوپ جو گدھی کے دودھ سے بنایا جاتا ہے‘ کے حوالے سے مسٹر والکن کو خوب زِچ کیا۔
’’منیرہ‘‘ نے ہمارے تیس ہزار روپے خرچ کروا دیے۔ جو ہم نے لیرا اور ڈالرز میں ادا کیے۔ یورو کی کرنسی ڈالر سے زیادہ مقبول ہے اور سیاحوںکو مشورہ دیا جاتا ہے کہ آتے ہوئے ’’یورو‘‘ ساتھ لائیں کہ اس کا اچھا ریٹ ’’لیرا‘‘ میں مل جاتا ہے اور واپس جاتے ہوئے لیرے ساتھ لائیں‘ جو پاکستان میں منافع بخش قیمت میں فروخت ہوسکیں گے۔ ’’منیرہ‘‘ والوں سے ہم ’’ترکی نمی دانم‘‘ اور وہ انگریزی سے الرجک ہونے کے باعث کوئی بارگینگ نہ کرسکے اور نہ مانگی قیمت ادا کرنے پر مجبور رہے۔ ’’ظالموں‘‘ نے رسید بھی نہ تھی کہ استنبول میں موازانہ کرکے اپنے ’’لٹنے‘‘ کا جائزہ لے سکتے۔اچھا ہی ہوا‘ ہم لٹے تو سہی‘ مگر اس کے ’’بوجھ‘‘ اور ’’درد‘‘ سے پاک ہی رہے۔
600 سال پرانا گائوں:
راستے کی دوسری ’’منزل‘‘ چودھویں صدی عیسوی میں قائم کیا جانے والا چھ سو سال پرانا گائوں تھا۔ برسرِ شارہ ایک اونچی پہاڑی پر قائم اور گلیاں‘ مکانات اور دیگر اماکن اپنی اصل حالت میں موجود عالمی ادارے یونیسکو کے ورلڈ ہیرٹیج (آثارِ قدیمہ) میں شامل ہے جس کے گھروں میں تیار ہونے والا پاستا‘ خشک مٹھائیاں اور تازہ پھل جو مقامی باغات اور فارمز سے حاصل کیے جاتے ہیں‘ بہت مقبول ہیں۔
صاف‘ سرسبز و شاداب‘ پھل دار درختوں سے بھرا ہوا یہ گائوں جدت و قدامت کا حسین امتزاج تھا۔ ہم سے اونچائی پر تو نہ چڑھا گیا‘ مگر جو دیکھا اور سنا اس گائوں کو خاصے کی چیز سمجھا۔ گائوں کے شروع میں قدیم انداز کا بازار‘ چھوٹی کھوکھے نما مگر ترتیب سے بنائی گئی دکانیں اور ان میں قدیم روایات و ثقافت کی عکاس چیزیں‘ سوونیئر اور یادگاری کے لیے برائے فروخت موجود تھیں۔ ترکی کے قدیم روایتی لباس کھلی گھیرے والی شلواریں اور رنگ برنگی روایتی کھلی قمیضمیں اور سروں پر مخصوص انداز سے اسکارف لپیٹے بوڑھی خوارتین ان دکانوں پر بہت معمولی قیمت پر یہ چیزیں بیچتی نظر آئیں۔ گائوں میں جدید دکانیں بھی نظر آئیں۔ آنے والے گاڑیوں پر سوار ہو کر آتے‘ گاڑی کا چکر لگاتے اور قدامت کے انداز میں جدت کو تلاش کرتے‘ مناظر و ماحول سے لطف اٹھاتے۔ راستے میں مختلف مقامی پھلوں سے پانی ملے جوس بیچنے والے بھی بجابجا نظر آئے۔ اونچائی کی بیزاری اور رکاوٹ نیہمیں نہ کچھ خریدنے دیا نہ جوس سے لطف اٹھانے دیا۔
جانبِ منزل:
بورصا کے اندر اور باہر خاصا وقت گزر گیا‘ منتظمین نے اعلان کر رکھا تھا کہ ہم ’’بورصا‘‘ سے اپنی بسوں سمیت بحری جہاز کے ذریعے شام ڈھلے استنبول کا سفر کریں گے۔ یقینا ایک یادگار اور خوش گوار انوکھا سفر ہوتا۔ مگر ہم بورصا اور ’’منیرہ‘‘ کے ایسے اسیر ہوئے کہ استنبول کی جانب زمین راستے کا انتخاب کرنا پڑا جویقینا طویل بھی تھا اور قدرے بور بھی۔
رات کے اندھیروں میں استنبول پہنچے‘ بس اس کی روشنیوں میں اس کی جدت اور قدامت کے ساتھ حسنِ تمام کی جھلک ہی دیکھ سکے۔ رات کا کھانا مقامی ریستوران میں کھایا اور ہوٹل Clarion Golden Norn میں جا ٹھہرے‘ جو اجک اونچی پہاڑی پر تھا‘ مگر اس کے فضائل و اردگرد کے سحر سے اگلی صبح باخبر ہوئے۔ (جار ی ہے)