ال احمد سرور کا انٹریو

264

میں یہ کہتا ہوں کہ نئے خوف سے آزاد ہونا چاہیے۔ اس ضمن میں اقبال کا قول یاد رکھنا چاہیے کہ علما کی ڈکٹیٹر شپ نہیں ہونی چاہیے۔ علما کی شرکت ہونی چاہیے‘ ان کا مشورہ ہونا چاہیے۔ میرا مطلب کہنے کا یہ ہے کہ ہمارا ذہن سہل پسند ہے اور ہم خانوں میں چیزوں کو بانٹتے ہیں اس وجہ سے اقبال کے لیکچرز کا اثر قریب قریب نہ ہونے کے برابر ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ جہاں ان کی شاعری اور پیغام کی اہمیت کو تسلیم کیا جارہا ہے‘ وہ خیالات جو انہوں نے پیش کیے ہیں‘ اس پر غور ہونا چاہیے۔ اقبال نے بہت پتے کی بات یہ کہی کہ اسلام میں جو حرکت کا تصور ہے اس کو نظرانداز کرنے کی وجہ سے پانچ سو سال سے اسلامی دنیا میں جمود طاری ہے۔
اگر ہم اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں پتا چلے گا کہ جب کبھی کوئی مسئلہ پیدا ہوا ہے تو اسلام کے باطن سے تحریکیں ابھری ہیں۔ اصلاحی تحریکیں بھی ابھری ہیں اور تجدید کی تحریکیں بھی۔ اسی طریقے سے ایسی تحریکیں بھی ابھری ہیں کہ پھر سے قرون اولیٰ کے اسلام کو پیش کیا گیا۔ ان تمام چیزوں کا مجموعی تصور یہ ہے کہ ہمیں نئے کو دیکھنے‘ سمجھنے اور اسے قبول کرنے میں پس و پیش نہیں کرنا چاہیے اس لیے کہ اب ماڈرینیٹی سے مفر نہیں ہے۔ قانون قدرت یہی ہے کہ زندگی اسی طریقے سے آگے بڑھے۔ مشیت ایزدی یہی ہے اب ہمیں اس میں اپنا راستہ بنانا ہے‘ اسی لیے میں صارفین کے خطرے کو اہمیت دیتا ہوں۔ مادہ پرستی‘ ہوس زر اور ہوس اقتدار کے خطرے سے آگاہی پر زور دیتا ہوں اور اسی لیے میں ادب کو بھی اہمیت دیتا ہوں کیوں کہ ادب کے ذریعے زندگی کی اچھی قدروں کا شعور عام کیا جاسکتا ہے اسی لیے میں حریت فکر کو بھی ضروری تصور کرتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ جس طرح اثبات کی آزادی حاصل ہے اسی طرح انکار کی آزادی بھی ملنی چاہیے۔ سماج میں Descent کی آزادی ہونی چاہیے لیکن Descent صرف Descent کی خاطر نہیں ہونی چاہیے۔ میں نے ایک دفعہ کہا تھا:
آج جب ہر بات پر ہاں کہنے والے ہیں بہت
یہ مرے انکار کی کافر روش بھی کم نہیں
میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ایک لبرل سماج کو فروغ دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔
طاہر مسعود: سائنس اور ٹیکنالوجی کی اہمیت پر آپ کا اصرار بجا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی اپنے ساتھ صرف مشینیں لے کر نہیں بلکہ اپنا نظام اقدار‘ نظام افکار بھی ساتھ لے کر آتی ہیں اور یہ نظام اقدار ہمارے مروجہ دینی و مذہبی نظام اقدار سے براہِ راست متصادم ہوتی ہیں۔ ان حالات میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ وہ کون سی صورت اختیار کی جائے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کو اس کے مادّی اقدار سے کاٹ دیں اور اسے اپنے دینی نظام اقدار سے وابستہ کر دیں؟
آل احمد سرور: میرا خیال ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا نظام اقدار ہمارے دینی نظام اقدار سے متصادم نہیں۔ دیکھیے! مذہب کے تین پہلو ہیں‘ ایک ہے عقیدہ۔ اسلام میں عقیدہ ہے کہ خدا نے یہ کائنات پیدا کی ہے۔ قرآن میں خدا کو سارے عالم کا رب کہا گیا ہے‘ اسے صرف مسلمانوں کا رب نہیں کہا گیا ہے۔ ہمارا فرض یہ ہے کہ اس خدائی کو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت اور انﷺ کی سیرت کی مدد سے سمجھیں۔ اقبال نے بڑے پتے کی بات کہی تھی کہ ختم نبوت کا جو عقیدہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اب وحی کی ضرورت نہیں ہے‘ اب انسان آزاد ہے کہ اپنی فکر کی مدد سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کی روشنی میں اپنی سیرت کی تشکیل کرے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ جب آپ سائنس اور ٹیکنالوجی کو دیکھتے ہیں تو وہ محض ایک عمل نہیں ہے بلکہ یہ ایک ذہنیت کا نام ہے۔ عقیدے کے سلسلے میں سائنس کی جو کیفیت انیسویں صدی میں تھی‘ اس میں اور آج کی سائنس میں بہت بنیادی فرق ہے۔ پہلے کی سائنس میں ایک رعونت تھی اور وہ کہتی تھی کہ یہ چیز صحیح ہے اور یہ چیز غلط ہے۔ اب وہ کہتی ہے کہ ہمارا دائرۂ کار ہے‘ ہم اسی دائرے میں رہتے ہوئے حقائق سے علم حاصل کرتے رہیں‘ لیکن جو چیز ہمارے دائرۂ کار سے باہر ہے۔ اس کے بارے میں ہمارا حکم کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اس اعتبار سے سائنس اور روحانیت کا ملاپ آج کے دور میں ممکن ہے۔ مذہب کی دوسری چیز عبادات ہیں۔ اسلام کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ اس نے ترکِ دنیا کی تعلیم نہیں دی بلکہ یہ کہا کہ دنیا میں رہ کر صرف دنیا کے اسیر نہ ہو‘ دنیا میں جو عمل ہو وہ اس لیے ہو کہ آخرت سنور جائے اقبال کی نظم ’’روح ارضی‘‘ میں کہا گیا ہے کہ آدم کا دنیا میں آنا سزا نہیں ہے بلکہ یہ ایک نئی زندگی کا پیغام ہے۔ وہ جو عقل سے پہلے کی معصومیت تھی‘ وہ بہشت کی تھی‘ اب علم کادور ہے اس کے ساتھ مسائل اور الجھنیں بھی ہیں‘ امتحان بھی ہوگا‘ کش مکش بھی ہوگی‘ لیکن بہکیں گے بھی‘ اس طرح یہ دنیا اور اسی عمل کی جزا و سزا کا نام ہے۔ عبادات ہمارے عقیدے کے استحکام کے لیے ہیں۔ دوسرے اس کے اجتماعی فوائد بھی ہیں۔ مذہب کا تیسرا پہلو معاملات کا ہے۔ میرے خیال میں مذہب کا وہ حقیقی تصور نہیں ہے جس میں عقیدے اور عبادات کا معاملہ تو ہے لیکن معاملات کا تصور سرے سے غائب ہے۔ میںمذہبیات کے سلسلے میں عالم ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا لیکن میں جتنا کچھ علم اس بارے میں رکھتا ہوں اس کی بنا پر میں کہنے پر مجبور ہوں کہ معاملات کے سلسلے میں آخر یہ کیا بات ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ نماز پڑھیے‘ روزہ رکھیے‘ حج کیجیے لیکن رشوت بھی لیجے‘ اپنے سماج کے حقوق غصب کیجیے‘ اپنی جنت تو پکی کیجیے لیکن سماج کو جہنم بنا دیجیے۔ یہ مذہب کا حقیق تصور نہیں ہے۔ آپ قرون اولیٰ کا دور دیکھیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ارشادات دیکھیے۔ آپ کو معاملات کی اور بھی روشن مثالیں مل جائیں گی۔ میں علما کی نیت پر حملہ نہیں کرتا‘ لیکن انہیں ہمیشہ یہ خطرہ محسوس ہوا کہ اگر اجتہاد کی اجازت دیں گے فتنوں کا دروازہ کھل جائے گا۔ میں یہ عرض کرتا ہوں کہ ان مسائل پر سوچنے کا حق تو ہر شخص کو حاصل ہے لیکن فیصلے کے سلسلے میں اظہار رائے کا حق علما دانش ور‘ معلمین‘ منتخب نمائندے سب کو ہونا چاہیے۔ علما کے پاس بہت کچھ ہے لیکن ان کے پاس جدید ذہن نہیں ہے۔ جدید مسائل کا ادراک اور علم نہیں ہے۔ ہر معاملے میں علما کا مشورہ حاصل ہونا چاہیے لیکن ان کی آمریت کو میں تسلیم نہیں کرتا۔ میں نے ایک بار کہا بھی تھا کہ ہماری قدیم درس گاہیں ہیں ان کی بڑی اہمیت ہے لیکن ان کا ذہن ایک خاص دائرے کے اندر محدود ہوتا ہے۔ ان کے اندر حریت فکر کی کمی ہوتی ہے‘ اسی طرح یہ جدید علوم کے ماہرین میں بھی ایک کمی ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ قدیم علوم کوئی معنی نہیں رکھتے اور وہ فرسودہ ہو گئے ہیں۔ یہ بالکل غلط بات ہے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ کراچی یونیورسٹی یا کہیں اور کچھ فارغ التحصیل طلبہ جو مختلف علوم کے ماہرین ہوں‘ جدید علوم کے ماہرین کو قدیم علوم سے آراستہ ہونا چاہیے۔ اگر آپ کو اپنی تہذیبی بنیادوں کا علم نہیں ہے‘ اپنے مذہب کا علم نہیں ہے تو آپ جدید دور کی قیادت کا صحیح فریضہ انجام نہیں دے سکیں گے۔ آپ کی قیادت یک طرفہ ہوگی۔
طاہر مسعود: جب ہم جدیدیت یا ماڈرینیٹی کی بات کرتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم مغرب کی فکری رہنمائی کو قبول کر رہے ہیں یا یہ کہ ہم مشرقی تہذیب کو کسی نہ کسی طور مغربی تہذیب سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اب یہاں سے مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مغربی اور مشرقی تہذیبوں میں کسی نوع کا امتزاج یا ہم آہنگی ممکن ہے؟ جب کہ ان دونوں کی تہذیبی بنیادیں نہ صرف مختلف اور متضاد ہیں بلکہ باہم متصادم بھی ہیں؟
آل احمد سرور: پہلی بات تو یہ کہ مشرق و مغرب ایک دوسرے سے اتنے متصادم نہیں ہیں۔ یہاں بھی میں اقبال کی مدد حاصل کرنا چاہتا ہوں‘ ان کے لیکچرز میں واضح طور پر یہ بات کہی گئی ہے کہ اسپین اور سسلی میں اور وسطی یورپ میں جو مسلمان سائنس دانوں کا کارنامہ تھا‘ مغربی تہذیب اس کا ایک ارتقائی سلسلہ ہے۔ ان معنوں میں اگر آپ دیکھیے تو مغرب کی فکر صرف مغرب کی اپنی نہیں ہے‘ وہ توسیع ہے اس فکر کی جو مسلمانوں نے دی تھی‘ اس زمانے میں جب وہ علم و دانش کے علم بردار تھے اور اس سے خوف نہیں کھاتے تھے۔ مغرب کے معنی صرف یہ نہیں ہیں کہ ہم اپنی چیز کو چھوڑ کر ان کی چیز کو اختیار کر رہے ہیں۔ بالآخر دیکھیے تو قدیم زمانے کی فکر کی رہنمائی ایشیا اور افریقہ کر رہے تھے۔ پھر قانون قدرت کے مطابق انسانی فکر کی رہنمائی مغرب کے ذمے آگئی۔ ایشیا اور افریقہ میں آزادی کے بعد بیداری آئی ہے۔ اپنے باطن میں جھانک کر وہ توانائی پیدا کر رہے ہیں۔ یہ بات بالکل قرین قیاس ہے کہ مستقبل میں عالمی فکر کی رہنمائی ایشیا و افریقہ کریں اس لیے میں کہتا ہوں کہ ہمیں مغرب کو سمجھنا چاہیے اور اسے ایک حد تک اپنانا بھی چاہیے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں اس مغرب کی ذہنی غلامی کا قائل ہوں‘ اس لیے میں ماڈرنائزیشن اور ایسٹرانائزیشن کی بات بہ یک وقت کرتا ہوں۔ جدید کاری کا عمل ایک عالمی عمل ہے اس سے مفر ممکن نہیں‘ لیکن ضروری نہیں کہ جدید کاری کا عمل جس طرح مغرب میں ہوا ہے‘ اسی طرح مشرق میں بھی ہو۔ معاملہ یہ نہیں ہے کہ ہم مغرب کے طور طریقوں کو بجنسہ اختیار کریں بلکہ مغربی خیالات کو لے کر اپنے طور پر ڈھالیں یعنی Adopt کرنے کے بجائے Adapt کریں جیسا کہ ایک حد تک جاپان نے کیا ہے۔ اس نے اپنی تہذیب کو باقی رکھا ہے۔ وہ جو آپ کہہ رہے تھے کہ مشرقی اور مغربی تہذیب کا امتزاج کیسے ممکن ہے؟ اس کا جواب ہمیں جاپان کی مثال میں مل جاتا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی برکتوں سے فائدہ اٹھانا ضروری ہے۔ اگر ہم اپنے اوپر اعتماد کریں تو عالمی معیاروں کو اپنے ماحول اور اپنی تاریخ اور شعور کے مطابق ڈھال سکتے ہیں جو صرف مغرب کی تقلید کے ذیل میں نہیں آئے گا۔
طاہر مسعود: اب کچھ گفتگو ادبی مسائل و موضوعات پر۔ آپ کے خیال میں کیا ادب کے ذریعے لوگوں میں سماجی آگہی پیدا کی جاسکتی ہے؟
آل احمد سرور: جب ادیب ادب پیدا کرے اور کہے کہ میں ادب کے ذریعے لوگوں میں سماجی پیدا کروں گا تو یہ طریقہ ادب کا نہیں ہے۔ ظُاہر ہے ادیب جو ادب پیدا کرتا ہے وہ ایک انفرادی کوشش ہوتی ہے۔ ادیب سماج کا فرد ہے۔ وہ اس کی قدروں میںسے کچھ تسلیم کرتا ہے اور بعض سے بغاوت کرتا ہے۔ ظاہر بات ہے ادیب مروجہ اقدار سے آگے ہوتا ہے اور زندگی کی نئی معنویت کو تلاش کرتا ہے۔ وہ ادب کے ذریعے اس طریقے سے سماجی آگہی پیدا نہیں کرتا کہ مشین میں اکنی ڈالی اور ٹکٹ نکل آیا۔ وہ شعور کی تربیت کرتا ہے اور اپنے سماج سے ہم آہنگ رہتا ہے۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہمارا اس سے کیا واسطہ کہ سماج میں کیا ہو رہا ہے؟ لیکن اس کا جو کارنامہ ہے وہ انفرادی کارنامہ ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ خلوت اور جلوت میں تناسب پیدا کرے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ترگنیف جب لکھتا تھا تو اس کے کمرے کے دریچے کھلے ہوتے تھے اور اس کے پیروںکے پاس انگیٹھی جلتی رہتی تھی۔ کھڑکی کھلی رکھنا باہر کی دنیا سے رابطہ برقرار رکھنے کی علامت ہے اور انگیٹھی کی آگ تخلیقی حرارت کی۔ خلوت اور جلوت کے تناسب سے میری مراد ہے کہ ادیب کو خلوت کی ضرورت ہے تاکہ وہ محض ایک بھیڑ کا فرد نہ ہو بلکہ اس کی جو تخلیقی سرگرمیاں ہیں اسے اپنے تجربے کی روشنی میں جاری رکھے اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ براہِ راست اظہار کا دور اب نہیں رہا۔ ہاں کبھی کبھی اس کی ضرورت پڑتی ہے۔ بالواسطہ طویل نغموں میں کبھی بیان کا سا انداز آجاتا ہے جیسے اقبال کی ایک نظم میں ہے کہ:
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
یہ بیانیہ شاعری ہے۔ آج کے دور میں جو ادبی اظہار ہے وہ تمام ادبی ذرائع سے کام لے گا اور ان میں علامات کا استعمال بھی شامل ہے۔
طاہر مسعود: فی زمانہ جب کہ معاشرے کو تبدیل کرنے کا کام سیاسی اقتدار کے بغیر ممکن نہیں رہا‘ کیا ادب کے ذریعے سماج کو بدلنے اور سماج پر اثر انداز ہونے کے امکانات باقی ہیں؟
آل احمد سرور: عام طور پر سمجھا یہی جاتا ہے کہ جب سیاسی اقتدار آجائے گا تو معاشرے کو تبدیل کرنے کا عمل خود بہ خود مکمل ہو جائے گا‘ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نئے سماج کو جو آپ تعمیر کریںگے تو کیا آپ ایڈہاک کام لیں گے یا آپ کے پاس اس کے لیے پہلے سے منصوبہ ہونا چاہیے۔ آپ کو سماج کی تعمیر کے لیے باقاعدہ ایک لائحہ عمل کے تحت کام کرنا ہوگا کہ کیا چیزیں دور رس ہیں اور کن چیزوں کے نتائج فوری طور پر برآمد ہوں گے۔ ہو سکتا ہے کہ جب آپ کے پاس اقتدار آجائے تو اس اقتدار کو باقی رکھنے کے لیے اتنی قوت صرف کرنی پڑ جائے کہ اس بات سے آپ کو دل چسپی ہی نہ ہو کہ نیا سماج تعمیر ہو رہا ہے یا نہیں۔ اس لیے اب میں ایک بات کہتا ہوں کہ ادب کا معاملہ اتنا سیدھا سادا نہیں ہے۔ ادب کوئی تلوار نہیں ہے جس کے ذریعے آپ انقلاب لے آئیں۔ ادب شخصیت‘ ذہنی میلان اور فضا پیدا کرتا ہے اور ادب کے ذریعے جو ذہن پیدا ہوتا ہے اس میں تبدیلی کی خواہش ہوتی ہے اس لیے میں دانش وری کو اہمیت دیتا ہوں۔ اچھا دانش وہی ہے جو مسائل پر غور کرنے کے بعد عمل کی راہ سجھائے۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اصل طاقت عوام کے پاس ہوتی ہے اور اسی لیے جمہوری ادارے وجود میں آتے ہیں۔ ادیب کا کام قیصر المیعاد نہیں ہوتا ‘کثیر المیعاد ہوتا ہے۔ ادیب ذہنوں کی تشکیل کرتا ہے۔ وہ صالح قدروں کو تازہ کرتا ہے۔ وہ قدریں جو بالآخر دنیا کو روشن کرتی ہیں۔ انقلاب لانا صرف ادیبوں کا فریضہ نہیں ہے۔ یہ ایک مشترکہ جدوجہد کے ذریعے ہی آسکتا ہے۔
اختتام

حصہ