یہ پارک بھی گیا

310

…کراچی میں زمینوں پر قبضے کی تاریخ نئی نہیں

کراچی میں زمینوں پر قبضے کی تاریخ نئی نہیں… کبھی کچی آبادیوں کے نام پر، تو کبھی تھلّوں اور بھینسوں کے باڑوں کی صورت ہمیشہ یہاں لینڈ مافیا سرگرم رہا ہے۔ لیکن ماضی میں جب جب کراچی کے میدانوں، محلوں اور سروس روڈ کے کنارے قبضے کیے گئے اُس وقت کی حکومتوں نے ان قبضہ گروپوں سے نہ صرف یہ قبضے ختم کروائے بلکہ واگزار کی گئی سرکاری زمینوں پر کھیلوں کے میدان اور پارک بناکر انہیں محفوظ بھی کیا۔ پھر رفتہ رفتہ حالات بدلنے لگے اور سرکاری اداروں میں سیاسی مداخلت بڑھنے لگی، سیاسی رشوت کے طور پر اداروں میں نااہل اور کرپٹ افراد تعینات کیے جانے لگے، یوں محکمے ریاست سے زیادہ سیاسی جماعتوں کے وفادار بن گئے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ماضیِ قریب میں یہ سارا کام نہ صرف سرکاری سرپرستی میں کیا جاتا رہا بلکہ قبضہ کی گئی زمینوں کو قانونی حیثیت دینے کے لیے قوانین بھی بنائے جاتے رہے، جس کے نتیجے میں اس مافیا کے حوصلے بلند ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ تھوڑے ہی عرصے کی خاموشی کے بعد یہ مافیا ایک مرتبہ پھر نئے جوش و ولولے کے ساتھ سرگرم دکھائی دینے لگا ہے۔ اِس مرتبہ قبضہ مافیا کی جانب سے شروع کی جانے والی کارروائیاں رفاہی پلاٹوں اور کھیل کے میدانوں تک محدود نہیں، بلکہ شہر کی مصروف ترین شاہراہوں اور برساتی نالوں کے ساتھ سروس روڈ کے لیے مختص کی گئی زمینوں تک آن پہنچی ہیں جو ”نیا پاکستان“ بنانے والوں کے لیے بڑا چیلنج ہے۔ آپ کراچی کے مختلف علاقوں کا سروے کرکے دیکھ لیجیے، تازہ دم قبضہ مافیا کی جانب سے سرکاری زمینوں پر شروع کی جانے والی تعمیرات دُور سے ہی دکھائی دیں گی۔ ایسا ہی ایک علاقہ لانڈھی نمبر 5 سیکٹر36/D ہے جہاں برساتی نالے کے ساتھ تاحدِّ نگاہ ناجائز طور پر درجنوں مکانات تعمیر کیے جاچکے ہیں، جبکہ اسی علاقے میں واقع پارک پر قبضہ کرنے کی بھی مکمل تیاری کرلی گئی ہے۔ علاقہ مکینوں کے مطابق ایک زمانہ تھا جب یہاں بھینسوں کا باڑہ ہوا کرتا تھا، اُس وقت بلدیہ عظمیٰ کراچی نے شہر بھر کے تمام باڑے رہائشی علاقوں سے باہر قائم کرنے کا پروگرام بنایا جس کے نتیجے میں یہاں پر موجود بھینسوں کا باڑہ بھی بلال کالونی کورنگی منتقل کردیا گیا۔ بھینسوں کا باڑہ ختم ہونے کے بعد یہ پلاٹ خاصے عرصے تک خالی رہا اور سٹی ناظم نعمت اللہ خان مرحوم کے دور میں اُس وقت کے یوسی ناظم کی کاوشوں کے نتیجے میں یہاں ایک خوبصورت پارک تعمیر کردیا گیا جو علاقہ مکینوں کے لیے بہترین تحفہ تھا۔ ظاہر ہے کل تک جہاں خاک اڑتی تھی وہاں سرسبز و شاداب پودوں پر مہکتے پھولوں کا کھلنا کسی نعمت سے کم نہ تھا۔ علاقہ مکین عدنان کے بقول ”نعمت اللہ خان مرحوم کے دور تک یہ پارک ایک مثالی پارک تھا جہاں شام ڈھلے محلے کے اکثر لوگ آتے اور ٹھنڈی ہواؤں سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ صبح کے اوقات میں خواتین اور بچوں کی خاصی بڑی تعداد یہاں کا رخ کیا کرتی۔ عدنان نے بتایا کہ ”مالی نہ ہونے کے باعث پارک کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ پودوں کو پانی دینے کی ذمہ داری نوجوانوں کے سپرد تھی۔ خیر، وقت گزرتا گیا اور کراچی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے نتائج کے مطابق مصطفیٰ کمال سٹی ناظم منتخب ہوگئے۔ اُن کے زمانے میں نعمت اللہ خان مرحوم کی جانب سے شروع کیے جانے والے بڑے منصوبوں پر تو کام جاری رہا لیکن علاقائی سطح پر چلنے والے چھوٹے منصوبے کھٹائی میں پڑ گئے، اور وہ دور شروع ہوا جب سرکاری زمینوں پر قبضہ کرنے اور تعمیر شدہ سرکاری عمارتوں اور پارکوں کو شادی ہال بنانے کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا جانے لگا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ سب کچھ سٹی ناظم مصطفیٰ کمال کے احکامات کے تحت ہوا، میں تو اس وقت قبضہ مافیا کی جانب سے کی جانے والی کارروائیوں کی نشان دہی کررہا ہوں۔ خیر یہ کام اتنی تیزی سے کیا گیا کہ چند ماہ کے مختصر عرصے میں ہی شہر کراچی کی بیشتر سرکاری عمارتیں اور پارک شادی ہالز کا منظر پیش کرنے لگے۔ جب شہر کا ہر دوسرا پارک شادی ہال میں تبدیل کیا جارہا تھا ایسے میں 36/D لانڈھی ڈبل روڈ سے متصل یہ پارک بھلا کیسے محفوظ رہ سکتا تھا! پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا، اقتدار اور طاقت کے نشے میں بدمست چند نوجوانوں نے اسے بھی میرج لان کا نام دے کر اپنی ملکیت بنالیا، اور یوں عوام کی سہولت کے لیے بنائے جانے والے پارک میں شہنائیاں گونجنے لگیں۔ لیکن کب تک… ہاں کب تک ایسا ہونا تھا؟ بالآخر وہ وقت آگیا جب کراچی والوں کی صدائیں سن کر عدالتِ عظمیٰ نے صوبائی اور شہری حکومتوں کی سرزنش کرتے ہوئے قبضہ مافیا سے زمینیں واگزار کرانے اور شہر کو اصل شکل میں بحال کرنے کے احکامات جاری کردیے۔ عدالت نے اس مقصد کے لیے شہر بھر کے فٹ پاتھوں سے تعمیرات ختم کرانے، رفاہی اداروں کے دسترخوان یا شیڈز فوری ختم کرانے، کھیل کے میدانوں، پارکوں کے ساتھ ساتھ برساتی نالوں پر کی گئی ناجائز تعمیرات ختم کرنے کی ہدایات جاری کیں، جس پر نہ چاہتے ہوئے بھی عمل کرنا پڑا۔ ظاہر ہے جس انتظامیہ کی چھتر چھایا میں زمینوں پر قبضے کیے گئے ہوں وہ انتظامیہ کس طرح غیر جانب داری کا مظاہرہ کرسکتی تھی! لیکن مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق عدلیہ کے احکامات پر عمل تو کرنا ہی تھا، اس لیے کراچی لینڈ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے ناجائز تعمیرات، سرکاری عمارتوں اور پارکوں میں بنائے جانے والے شادی ہالز کے خلاف آپریشن شروع کردیا گیا جس کے نتیجے میں ہمارے محلے کا پارک بھی آزاد ہوگیا۔ کہتے ہیں بنانے والے کم اور بگاڑنے والے زیادہ ہوتے ہیں، اور پھر جس کے منہ کو حرام لگ جائے اُسے حلال کی روزی میں مزا نہیں آتا، ایسے لوگوں کی سوچ ہمیشہ منفی ہوا کرتی ہے۔ بس اسی سوچ کے مطابق لانڈھی ٹاؤن انتظامیہ کی ملی بھگت سے قبضہ مافیا اب اس پارک کی جگہ پر مکانات کی تعمیر کا ارادہ رکھتا ہے، بلکہ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تمام انتظامات بھی کرلیے گئے ہیں، یعنی جلد ہی اس سرکاری زمین کو اونے پونے فروخت کرکے اپنی جیبیں بھرنے کی مکمل تیاری کرلی گئی ہے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ اب یہ پارک بھی گیا۔ اس صورتِ حال میں عوام جائیں تو جائیں کہاں! ان حالات میں معزز عدلیہ اور اربابِ اختیار سے یہی فریاد کی جاسکتی ہے کہ خدارا لانڈھی نمبر پانچ سیکٹر 36/D کے اس پارک کی زمین سمیت کراچی بھر کی سرکاری زمینوں کو قبضہ مافیا سے بچانے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔“
عدنان کی باتیں سن کر اور کراچی میں ایک مرتبہ پھر سر اٹھاتے لینڈ مافیا کی کارروائیوں کو دیکھ کر صاف ظاہر ہوتا ہے کہ لینڈ مافیا تازہ دم ہوکر ایک مرتبہ پھر کراچی کے میدانوں اور رفاہی پلاٹوں پر اپنے پنجے گاڑنے میں مصروف ہے۔ شہر کراچی میں ایک مرتبہ پھر جس طرح لینڈ مافیا سرگرم ہوا ہے حالات بتا رہے ہیں کہ یہ سلسلہ مزید آگے ہی بڑھے گا، اور یہ گروہ پھر سے قوت پکڑ لیں گے۔ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ کراچی میں قانون کی عمل داری نہ ہونے کے برابر ہے، انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ لینڈ مافیا کی جانب سے سرکاری زمینوں پر قبضے کے خلاف سپریم کورٹ کے حکم پر کیا جانے والا آپریشن بھی کراچی انتظامیہ کی نااہلی کے باعث ناکام ہوتا دکھائی دے رہا ہے، جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ لینڈ مافیا کے پیچھے نہ صرف طاقتور لوگ ہیں بلکہ ایسے پردہ نشین بھی ہیں جن پر ہاتھ ڈالنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ اگر کراچی کی زمینوں کو قبضہ مافیا سے واقعتاً محفوظ بنانا ہے تو اس کے لیے سنجیدگی کے ساتھ نہ صرف سخت قوانین بنانے ہوں گے بلکہ ان پر عمل درآمد بھی کروانا ہوگا۔ کمپیوٹرائزڈ نظام کے تحت تمام سرکاری زمینوں کا ریکارڈ محفوظ کرنا ہوگا، اور سب سے بڑھ کر قبضہ مافیا کی پکڑ، سزا اور زمین کی واپسی کا فوری نظام وضع کرنا ہوگا۔ میرے نزدیک ایسے ہی اقدامات سے جرائم پیشہ گروہوں اور قبضہ مافیا کی یقینی حوصلہ شکنی ہوسکتی ہے، وگرنہ صرف دعا ہی کی جاسکتی ہے۔

حصہ