ایچ ای سی ،جامعات کی خودمختاری کے لئے بڑا خطرہ

620

ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر طارق بنوری کو 26مارچ2021کو کیبنٹ ڈویشن کے حکم نامے کے تحت برطرف کردیا گیا ۔ کیونکہ قانون کے تحت چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن کو آئینی تحفظ حاصل ہے لہذا ان کو ان کی مدت 4سال سے قبل نہیں ہٹایا جاسکتا لہٰذا اس لیے صدر مملکت کو آرڈینینس جاری کرنا پڑا۔ ڈاکٹر طارق بنوری پر بھاری تنخواہوں پر مشیروں کی تعیناتی جو کہ میرٹ اور شفافیت کو بالائے طاق رکھ کر کی گئی کے الزامات عائد کیے گئے۔ ڈاکٹر طارق بنوری کو سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے مئی 2018میں چیئر مین HECتعینات کیا تھا اور ان کی مدت مئی 2022میں پوری ہونی تھی۔ ڈاکٹر طارق بنوری نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور 30مارچ 2021کو سندھ ہائی کورٹ نے طارق بنوری کی برطرفی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ان کو بحیثیت چیئر مین کام جاری رکھنے کا حکم دیا۔ سندھ ہائی کورٹ میں طارق بنوری کی پیروی حیدر وحید ایڈوکیٹ نے کی۔ اپنی برطرفی کے بعد ڈاکٹر طارق بنوری نے مختلف فورمز پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت اعلیٰ تعلیمی کمیشن کی خودمختاری ختم کرکے جامعات کی زمینوں پر قبضہ کروانا چاہتی ہے یا پھر ان کا استعمال غیر تعلیمی مقاصد کے لیے کروانا چاہتی ہے۔ موجودہ حکومت کے خلاف چیئرمین HECکی یہ چارج شیٹ بڑی اہمیت کی حامل ہے یعنی کچھ نہ کچھ تو ہے کہ جس کی پردہ داری ہے دوسری جانب انہوں نے ڈاکٹر عطاء الرحمن کو بھی اس سازش کا حصہ قرار دیتے ہوئے آڑے ہاتھوں لیا ادھر ڈاکٹر عطاء الرحمن نے بھی HECکی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگادیئے۔ لگتا تو یہ ہے کہ یہ افراد کا مسئلہ بن گیا ہے جبکہ اس کو اصولوں پر طے کرنے کے لیے اسٹیک ہولڈرز ، اساتذہ ، طلباء اور ماہرین تعلیم کو شامل ہی نہیں کیا جارہا۔ ڈاکٹر عطاء الرحمن خود چیئرمین HECرہ چکے ہیں۔ اور موجودہ چیئرمین ڈاکٹر طارق بنوری جو کہ 2001میں بوسٹن گروپ سے وابستہ تھے اور ڈاکٹر عطاء الرحمن جو کہ پرویز مشرف کے دور میں وزیر تھے یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن کو ختم کرواکے HECکے قیام کے بنیادی وکلاء میں سے تھے ۔ HECکے قیام کے 19سال کے بعد جو سوالات HECکے حوالے سے ان دونوں حضرات کی جانب سے اٹھائے جارہے ہیں یہ اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ HECاپنے قیام کے مقاصد پورا کرنے میں 19سال کے بعد بھی ناکام رہاہے لیکن اس ناکامی کا اعتراف کرنے کے بجائے HECکی ناکامی کا ملبہ فرد پر ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔HECنے جہاں پر جامعات کی خود مختاری کو سلب کرکے ان کو ایک اسکول بنادیا ہے اس کا نتیجہ اب پالیسی کی صورت میں سامنے آرہا ہے کہ موجودہ صدارتی آرڈیننس کے تحت HECکی خود مختاری کو بھی ختم کردیا گیا اور دلچسپ ترین صورت حال یہ ہے کہ چیئرمین HECکی حیثیت محض ربر اسٹمپ کی سی ہوگئی ہے۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد HECکو وفاق میں رکھنے کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 270-AAکے تحت معیار مقرر کرنے کا اختیار وفاقی حکومت کا ہے لہٗذاHECکو اعلیٰ تعلیم کے معیار مقرر کرنے کا اختیار دیا جائے۔ اس کے تحت وفاقی HECکو برقرار رکھا گیا اور صوبوں کو اپنی آئینی ترامیم کرکے جامعات کو اپنے کنٹرول میں لینا تھا۔ حکومت سندھ نے سندھ یونیو رسٹی ترمیمی بل 2018پیش کیا کہ جس میں وفاق کے اختیارات صوبوں کو منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ جامعات کی خود مختاری کو بھی سلب کرلیا گیا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ جامعات کے فورمز پر کہ جہاں فیصلے ہونے میں منتخب سے زیادہ غیر منتخب افراد جو کہ براہ راست وزیر اعلیٰ کے مقرر کردہ ہوں کے تحت ان فورمز کا کنٹرول براہ راست حکومت سندھ کو دے دیا گیا اس ہی طرح ڈائریکٹر فنانس ، ناظم امتحانات ، رجسٹرار جیسے اہم عہدوں پر بھی تقرری کا جامعات کا اختیار ختم کرکے ان عہدوں پر تقرریوں کو براہ راست حکومت سندھ کے تحت کردیا گیا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ سندھ ہائر ایجوکیشن کے سربراہ ڈاکٹر عاصم حسین ہیں جو کہ خود ایک نجی جامعہ کے مالک ہیں۔کسی بھی فرد کا HECسندھ کا سربراہ مقرر ہونا خود مفادات کا تصادم ہے جو کہ نظر بھی آرہا ہے ۔ اس ہی طرح سندھ سے وفاقی HECمیں بھیجے جانے والے اراکین کا تعلق بھی نجی جامعات سے ہے تو وہ کسی طرح جامعات کی خود مختاری کو برداشت کرسکتے ہیں۔ اس تمام تر صورت حال میں یہ بات واضح ہے کہ 19سال کا یہ سفر محض دائروں کا سفر ہے کہ جس میں مسافت تو بہت ہے لیکن راستہ نہیںکٹا۔ HECکی ناکامی دراصل اس پالیسی کی ناکامی ہے جو کہ بیرونی ایجنڈے کے ذریعے پاکستان پر مسلط کی گئی۔ اہداف سے ماورا اور قومی ضروریات سے انحراف کرکے اعلیٰ تعلیم کی پالیسیوں کی تشکیل ایک مکمل ناکامی کی داستان ہے ۔ HEC نے پاکستان کے زمینی حقائق کے برخلاف جو پالیسیاں مسلط کیں ان کے ذریعے پاکستان میں محض نجی جامعات و تعلیمی اداروں کو فروغ دیا گیا۔ نجی شعبہ نے تعلیم کو نہ صرف کاروبار بنادیا بلکہ اعلیٰ تعلیم کے کلچر کو بھی برباد کردیا۔ HECکی ناکامی کے بعد اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کو اس کی پوری روح کے ساتھ نافذ کرنے کے لیے جو کہ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کی ہے ۔ وفاقی HECاور صوبائی HECکو ختم کیا جائے ۔ اعلیٰ تعلیم کے معیار مقرر کرنے کے لیے سرکاری جامعات کے وائس چانسلرز ۔ پاکستان میڈیکل کمیشن ۔ پاکستان انجینئرنگ کونسل ، فارمیسی کونسل،، پاکستان سائنس فاؤنڈیشن و دیگر پروفیشنل اداروں کو ملا کر ایک باڈی تشکیل دی جائے جو کہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے لیے معیار مقرر کرے۔ جامعات کو مکمل مالی و انتظامی خود مختاری دی جائے۔ وزارت مالیات میں ایک الگ سیکشن جامعات کی گرانٹس کے لیے قائم کیا جائے کہ جہاں سے جامعات براہ راست اپنی گرانٹس حاصل کرسکیں۔ پاکستان کے اعلیٰ نظام تعلیم پر HECکی تباہی کے اثرات کا جائزہ لینے اور قومی ضروریات اور زمینی حقائق کے تحت اعلیٰ تعلیم کی پالیسی بنانے کے لیے فوری طور ماہرین تعلیم، اساتذہ اور طلباء پر مشتمل کمیشن /کمیٹی قائم کی جائے جو کہ ایک سال کے عرصے کے اندر اپنی سفارشات کو حتمی شکل دے اور حکومت منظوری کے بعد اس کا نفاذ کرے۔ اس کے ذریعے ہی پاکستان کے اعلیٰ تعلیم کے نظام کو بچایا جاسکتاہے۔ ورنہ اس نظام کے بگاڑ کے اثرات نسلوں تک منتقل ہوتے رہیں گے۔

حصہ