ایک مریض کا چلنے میںبہت زیادہ سانس پھولتا تھا۔ وہ ابراہیم حیدری اسپتال کی امراضِ سینہ کی او پی ڈی میں آتا تھا۔
جب وہ ڈاکٹر کو بتاتا کہ اسے سانس کی تکلیف ہے تو بہت سے جونیئر ڈاکٹرز اسے دمہ کی دوا دیتے ‘ اس کے پاس موجود نسخوں کو دیکھ کر پتا چلا کہ اس مریض کے پھیپھڑے سکڑ گئے تھے۔ جب ہم سانس لیتے ہیں تو پھیپھڑوں میں ہوا داخل ہوتی ہے وہ پھیل جاتے ہیں۔ چلنے یا کام کرتے وقت آکسیجن کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اس لیے کام کرنے پر پھیپھڑے زیادہ پھیلتے ہیں تاکہ آکسیجن کی زیادہ ضرورت پوری ہو۔
لیکن اگر پھیپھڑے سکڑ جائیں‘ ان میں پھیلنے کی صلاحیت کم ہو جائے تو چلنے‘ نہانے‘ کام کرنے‘ باتھ روم جانے پر سانس پھول جاتی ہے۔
اس مریض کا نام رشید خان تھا‘ یہ ڈالمیا سیمنٹ فیکٹری کے سامنے والی سڑک پر موچی کا کام کرتا تھا۔ اگر لیبر کیمپ (اب میلنیم کہلاتا ہے) راشد منہاس شہید روڈ سے اسٹیڈیم کی طرف جائیں تو دائیں ہاتھ پر 40 سال پہلے پہاڑی پر سیمنٹ فیکٹری قائم تھی۔ سیمنٹ فیکٹری سے گرد کا طوفان اٹھتا تھا جو قریبی علاقوں کی فضا کو آلودہ رکھتا تھا۔ رشید صاحب کی موچی دکان تھی‘ یہ دن میں دس گھنٹے اسی آلودہ ماحول میں رہتے تھے جس کے باعث ان کے پھیپھڑے متاثر ہوگئے اور بالآخر تیس‘ چالیس سال بعد ان کے پھیپھڑوں کی پھیلنے کی صلاحیت کم ہو گئی اس لیے ان کا سانس پھولتا ہے۔ خون میں ان کی آکسیجن ناپی گئی جو 80 تھی۔ کام نہ کرنے اور آرام پر 88 تک ہوتی ہے۔ انہیں بتایا گیا کہ آپ آہستہ چلیں اور گھر پر آکسیجن رکھیں۔ باتھ روم جانے‘ نہانے سے پہلے اور بعد میں آکسیجن لیں۔
یہ مریض 2020ء میں آیا تھا۔ مریض کو جب بتایا گیا کہ تمہارے جسم میں آکسیجن کی کمی ہوجاتی ہے اس لیے تمہیں مستقل آکسیجن لینا ہے‘ آرام کی حالت میں نہیں لینا چلنے پھرنے اور کام کرنے پر لینا ہے۔
مریض نے کہا ڈاکٹر صاحب آکسیجن تو ICU کے مریض کو دیتے ہیں جو زیادہ بیمار ہوتا ہے‘ میں تو ٹھیک ہوں۔
اس کے بیٹے نے کہا کہ آکسیجن تو گھر پر کورونا کے مریض کو دیتے ہیں‘ آپ میرے ابو کو کورونا کا مریض بتا رہے ہو۔
میں نے اس سے کہا یہ تم سے کس نے کہہ دیا کہ گھر پر آکسیجن دینے کا مطلب ہے کہ بندہ کورونا کا مریض ہے۔ اس نے بتایا کہ اس کے آفس کے باس کو کورونا ہوا تھا‘ گھر پر آکسیجن دی جاتی تھی۔ ہم نے تو نہیں سنا کہ کورونا کے علاوہ بھی کسی کو گھر پر آکسیجن دی جاتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے ابا نے کبھی روزہ نہیں چھوڑا‘ آپ کے کہنے پر ہم نے آکسیجن باتھ روم سے آکر لگانا شروع کردی تو یہ تو روزہ بھی نہیں رکھ سکیں گے۔
رشید صاحب بولے ڈاکٹر صاحب خدا کا خوف کریں‘ لوگ بڑھاپے میں مشورہ دیتے ہیں کہ اللہ اللہ کرو‘ آپ روزہ بھی روک رہے ہیں۔
اہم بات ہمارے خاندان میں آج تک کسی نے آکسیجن نہیں لی۔ اگر آکسیجن لگ گئی تو لوگ کیا کہیں گے۔ ہر کوئی کورونا کامریض سمجھے گا۔ میری بیٹی کی عید کے بعد شادی ہے‘ سسرال والے کیا کہیں گے‘ کورونا والوں کے یہاں بارات لے کر جائیں۔
ان کی باتیں سن کر ماہر امراض سینہ اور استاد محترم ڈاکٹر عبدالمجید میمن کے الفاظ یاد آگئے۔ ڈاکٹر صاحب امریکا میں امراض سینہ کے سب سے بڑے سینٹر Clarado میں کام کر چکے ہیں‘ آغا خان یونیورسٹی اسپتال کراچی میں امراض سینہ کے وارڈ میں تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے 20 سال پہلے بتایا تھا کہ دنیا میں سانس کے مریضوں کے لیے بہت آسانیاں ہو گئی ہیں۔ سگریٹ سے متاثرہ ایسے افراد جن کی نالیاں بہت متاثر ہوں اور ان کے پھیپھڑے مستقل متاثر ہوگئے ہوں‘ ان کے پھیپھڑوں میں آکسیجن جذب کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے اس لیے ایسے افراد بیٹھے ہوں‘ لیٹے ہو تو ان کی آکسیجن خون میں پہنچتی رہتی ہے۔
چلنے پھرنے اور کام کے دوران جسم کو آکسیجن کی ضرورت بڑھ جاتی ہے جو متاثرہ پھیپھڑے کمزور ہونے کی وجہ سے جذب نہیں کر پاتے جس سے سانس پھولتی ہے۔ ایسے مریضوں کو کام کرنے‘ چلنے اور نہانے کے دوران مستقل آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں ایسے سلینڈر موجود ہیں جو چلنے پھرنے‘ گاڑی میں اور کام کرتے ہوئے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ اس طرح پھیپھڑوں کے کمزور ہونے کے باوجود مریض سانس پھولنے کی تکلیف سے بچ کر زندگی آسانی سے گزار رہے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالمجید میمن صاحب نے بتایا کہ مغرب کی بیماریاں الگ ہیں‘ ہمارے یہاں سانس پھولنے کی وجہ وہ بیماریاں بھی ہیں لیکن بڑی وجہ فیکٹری میں کام کرنے پر پھیپھڑے متاثر ہونے اور انفکشن ٹی بی کے نتیجے میں پھیپھڑے کمزور ہونے کی وجوہات زیادہ ہیں۔
الخدمت فریدہ یعقوب اسپتال میں سینے کی OPD میں بہت سے ایسے مریض دیکھے جو سانس پھولنے کی شکایت کے ساتھ آئے تھے۔ ان کی تفصیلات معلوم کرنے پر پتا چلا کہ ان میں سے اکثریت اسٹیل مل میں بلاسٹ فرنینس کے قریب یا دیگر بھٹیوں میں کام کرتے تھے یا اس ماحول میں رہتے تھے۔ ان میں سے اکثر کے پھیپھڑے شدید متاثر تھے۔ ان مریضوں میں سے سب کا کہنا یہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب ہمیں سانس کا مسئلہ اب ہوا ہے جب ہم اسٹیل مل میں اتنی خطرناک جگہ کام کر رہے تھے جہاں دھولِ تھی‘ گرد و غبار بہت زیادہ درجہ حرات اس وقت تو ہمیں کچھ نہیں ہوا۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ سب اس وقت کی آلودہ فضا میں کام کرنے سے ہوا ہے۔
کورنگی الخدمت اسپتال میں فیکٹری میں کام کرنے والے بہت سے مریض بھی سانس پھولنے کی شکایت کے ساتھ آتے رہتے ہیں جن میں سے اکثر کیمیکل صفائی کا کام کرتے رہے ہیں۔ مستقل کیمیکل کا کام کرنے سے پھیپھڑوں کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ ان میں سے چند افراد کو آکسیجن کا علاج تجویز کیا گیا۔
الخدمت ناظم آباد میں بڑا بورڈ اور دیگر ماربل کا کام والے علاقوں سے بہت سے مریض پھیپھڑوں کی تکلیف کے ساتھ آتے ہیں۔ کام کرنے والوں میں سے کئی افراد کو آکسیجن کا علاج تجویز کیا گیا۔ ماربل کٹنگ کی Dustنے ان کے پھیپھڑوں کو کمزور کردیا تھا۔
ناظم آباد میں ایک مریض کھانسی اور پنڈلی کے درد کے ساتھ آئے۔ تفصیل پوچھنے پر معلوم ہوا کہ کھانسی تو ہفتہ سے ہو رہی ہے لیکن پائوں کا درد کئی ماہ سے ہے۔ ان کے بارے میں تفصیل معلوم کی تو پتا چلا کہ یہ سنار کا کام کرتے تھے۔ ایک بڑے کاروبار کے مالک ہیں‘ کئی سنار کی دکانیں ہیں‘ ان کا ایکسرے اور معائنہ کیا۔ پتا چلا ان کے پھیپھڑے شدید متاثر ہیں۔ تفصیل پر پتا چلا کہ گندھک‘ نمک اور شورے کا تیزاب سونے کو صاف کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ مزدور یہ کام کرتے تھے یہ بھی اکثر بھٹی میں مزدوروں کے پاس چلے جاتے تھے۔ ان میں رات کو آکسیجن کی کمی کی علامات تھیں ان سے کہا بیوی کو لے کر آئیں۔ ان کے بیٹے ساتھ آئے تھے۔ انہوں نے کہا امی سے لڑائی چل رہی ہے وہ نہیں نہیں آئیں گی۔ ان سے کہا کہ بیوی کو بلائیں ان سے پوچھنا ہے کہ آپ رات کو پائوں تو نہیں چلاتے۔ انہوں نے کہا بیوی نے کئی مرتبہ شکایت کی تھی کہ تمہاری لاتیں چلانے اور کروٹ لینے سے میں تنگ آگئی ہوں۔ میں نے اس کو معمولی بات سمجھا۔ وہ علیحدہ کمرے میں سوتی ہے۔ بیوی سے فون پر بات کرائی۔ اس نے بتایا کہ یہ سوتے میں لاتیں چلاتے ہیں۔ میری ٹانگوں میں مسلسل درد رہتا ہے‘ شرم کے مارے میں کسی کو بتا بھی نہیں سکتی اس لیے اب علیحدہ کمرے میں سوتی ہوں۔ ان کی ٹانگوں میں جو درد ہے وہ بھی بیڈ سے ٹانگیں ٹکرانے پر جو چوٹ لگتی ہے اس وجہ سے ہے۔ یہ پنڈلی کے ڈاکٹر کے پاس گئے‘ وہ درد کی دوا دیتا ہے۔ ہمارے کمرے علیحدہ کرنے سے بیٹی پر برے اثرات پڑے ہیں۔ وہ کہتی ہے اماں ابا آپ کیوں لڑتے ہیں۔ بیوی نے پوچھا ڈاکٹر صاحب آپ نے کیسے پہچانا کہ یہ ٹانگیں چلاتے ہیں۔ آپ تو سینے کے ڈاکٹر ہیں؟ اگر یہ ٹانگیں چلانے کا مسئلہ حل ہو جائے تو ہمارے تعلقات بھی اچھے ہو جائیں گے۔ بچوں پر جو منفی اثرات پڑ رہے ہیں وہ بھی ختم ہو جائیں گے۔
انہیں بتایا کہ دماغ میں جب رات کو آکسیجن کی کمی ہوتی ہے تو فرد کے دماغ میں بے چینی ہوتی ہے۔ ٹانگیں کیوں کہ دل سے سب دور ہوتی ہیں اس لیے خون کی آکسیجن سب سے کم پیر تک پہنچتی ہے۔ فرد ٹانگیں چلاتا ہے۔ اس مریض کو دوائیں دی گئیں۔ آکسیجن رات کے لیے کچھ عرصے تک دی گئی۔ تیزاب کے کام سے دور کیا گیا۔ سانس بہتر ہوگئی‘ ٹانگوںکا درد میاں بیوی دونوں کا شوہر کے سانس کے علاج سے ٹھیک ہو گیا۔ نہ شوہر ٹانگیں چلاتا تھا نہ بیوی کو چوٹ لگتی تھی۔ آپس کے تعلقات اچھے ہوگئے تو گھر کا ماحول اچھا ہو گیا۔ آکسیجن کی کمی کی وجہ سے شوہر رات کو سو نہیں سکتا تھا۔ نتیجتاً گھر میں بھی غصہ کرتا اور کاروبار میں گاہک سے لڑ جاتا۔ آکسیجن کا مسئلہ حل ہوا تو نیند بھی آنے لگی اور مزاج کی سختی اور غصہ ختم ہوگیا‘ گھر اور کاروبار میں بہتری آگئی۔
آکسیجن کی کمی دماغ کو مفلوج کر دیتی ہے۔ عارضی کمی ہو جیسے چلنے پھرنے پر‘ کام کرنے پر یا مستقل کمی ہو جیسے سانس کے مرض COPD میں شدید دمہ یا خون کی کمی پھیپھڑوں کی شدید بیماری میں فرد کی نفسیاتی کیفیت متاثر ہوتی ہے۔ سانس پھولنا تو عام طور پر لوگ جانتے ہیں لیکن آکسیجن کی کمی کے مریض کے غصہ‘ پریشانی‘ چڑچڑے پن کا اکثر معلوم نہیں ہوتا۔ خون کی کمی بھی آکسیجن کی کمی کی بڑی وجہ ہے۔ خواتین میں میں اکثر خون کی کمی ہوتی ہے اور جس کے ذاتی زندگی میں سانس پھولنا‘ گھر کے کام پر اور گھریلو زندگی میں گھر کا ماحول متاثر ہوتا ہے۔
آکسیجن کی کمی کا علاج وجہ دور کرنے سے ہو جاتا ہے جو معالج بتائے گا۔ لیکن پھیپھڑے کی بیماری کے بہت سے مریضوں کو رات کو کام زیادہ کرنے‘ باتھ روم جانے پر آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر وہ آکسیجن ضرورت پڑنے پر لے لیں تو زندگی پرسکون گزرے گی‘ جسمانی طور پر بھی اور نفسیاتی طور پر بھی۔
پروفیسر ڈاکٹر سہیل اختر صاحب سینئر ماہر امراض سینہ ہیں۔ وہ اپنے ایک مریض کو سمجھا رہے تھے کہ آکسیجن کو پھیپھڑوں کا چشمہ سمجھو۔ اگر نظر کمزور ہوتی ہے تو چشمہ لگاتے ہیں اس سے واضح نظر آتا ہے۔ اسی طرح کام کرنے‘ سونے‘ باتھ روم جانے پر جب ڈاکٹر کے نسخہ کے مطابق آکسیجن ناک میں لگاتے ہیں تو سانس تیز ہوتا ہے اس طرح آکسیجن لگانے کو آپ پھیپھڑوں کا چشمہ سمجھ لیں جو نام پر (Nusal) یا ماسک کے ذریعے دی جاتی ہے۔
جس طرح چشمہ لگانے میں کوئی عجیب بات نہیں اسی طرح ضرورت پڑنے پر ڈاکٹر کے نسخہ کے مطابق آکسیجن لگانا بھی عجیب بات نہیں۔
آکسیجن آسان ترین نسخہ ہے‘ انجکشن لگانے پر درد ہوتا ہے‘ گولی کھانی پڑتی ہے‘ آکسیجن لینا بہت آسان ہے۔ مریض کا سوال روزہ میں آکسیجن سے متعلق ہم نے علما کے پینل حضرت مولانا ابراہیم حنیف صاحب‘ ڈاکٹر جمیل صاحب‘ مولانا عطا الرحمن شاہ صاحب سے رائے لی۔ انہوں نے بتایا ڈاکٹر صاحب آپ خود ہی بتا رہے ہیں کہ ہم ایک گھنٹہ میں 1000 مرتبہ سانس میں آکسیجن لیتے ہیں اگر اضافی آکسیجن لے لیں تو اس سے روزہ پر اثر نہیں پڑتا۔ اللہ تعالیٰ نے روزہ میں کھانے پینے سے منع فرمایا ہے سانس لینے‘ سانس کی نالی کے حوالے سے منع نہیں فرمایا اس لیے آکسیجن‘ سانس کا انہیلر یا نیبولائز روزہ میں لے سکتے ہیں۔ نیبولائزر ایسے ہی ہے جیسے ہم بارش میں سانس لے رہے ہیں 100 فیصد Humdity ہوتی ہے۔
اب کورونا میں آکسیجن کی بات تو وہ پھیپھڑوں کے متاثر ہونے‘ خون کے متاثر ہونے کی وجہ سے آکسیجن کی کمی کی وجہ سے لینی پڑتی ہے جس کو جو کورونا کے جانے کے بعد بھی ایک دو ماہ ضرورت پڑ سکتی ہے۔
مریضوں کی سہولت کے لیے بہت سی جگہ آکسیجن سلینڈر دستیاب نہیں۔ کسی کو ضرورت ہو تو ہمارے چند احباب نے آکسیجن سلینڈر گھر پہنچانے کا بھی انتظام کیا ہوا ہے۔ کوئی بھی مریض مشورے اور رہنمائی کے لیے رابطہ کر سکتا ہے۔ واٹس ایپ نمبر 0321-9744707
اللہ کے نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا ’’جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی شفا دیتا ہے۔‘‘
آکسیجن بھی اللہ تعالیٰ نے بنائی جو ہوا میں موجود ہے۔ زیادہ آکسیجن بنانے کا طریقہ رب نے بتایا۔ اب اس رب کی بنائی ہوئی آکسیجن کو کمی ہونے پر دینا رب کی نعمتوں کا مہیا کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی آسان علاج کی سہولیات سے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہیے۔