پروفیسر انوار احمد زئی ہمہ جہت شخصیت تھے۔ وہ محقق‘ نقاد‘ ادیب اور ماہر تعلیم ہونے کے ساتھ ساتھ افسانہ نگار اور سفر نامہ نگار بھی تھے۔ وہ 18 ستمبر 1944ء کو پیدا ہوئے‘ ان کی تاریخ وفات 31 مئی 2020ء ہے۔ انہوں نے بھرپور زندگی گزاری۔ وہ حیدرآباد سے کراچی منتقل ہوئے اور ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر‘ ایسٹ کراچی تعینات ہوئے۔ ایک تقریب میں میری ان سے ملاقات ہوئی (جہاں میں اپنی سب ڈویژن لانڈھی کورنگی (میل) کراچی کی نمائندگی کر رہا تھا) اور میں ان کے انتقال کے تک ان کی Good Book میں رہا۔ انہوں نے دوران ملازمت میری ہر ممکن مدد کی‘ وہ میرے محسن تھے اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ اس تمہید کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ میں گزشتہ ہفتے آرٹس کونسل کراچی کے زیر اہتمام انوار احمد زئی کی ساتویں کتاب ’’بادل جزیرے‘‘ کی تعارفی تقریب میں حاضر ہوا جس میں پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم صدر تھے‘ محمود شام‘ احمد شاہ‘ شفیق الرحمن پراچہ‘ مہتاب اکبر راشدی‘ رضوان صدیقی‘ مسرور احمد زئی اور عزیز احمد زئی مقررین میں شامل تھے۔ شکیل خان نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ ندیم ظفر نے تلاوت کلام مجید کی سعادت حاصل کی۔ صائمہ ارشد نے نعت رسولؐ پیش کی۔ عزیز احمد زئی نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ یہ میرے والد کا تصرف ہے کہ وہ خوش حال زندگی گزار رہے ہیں۔ میں انوار احمد زئی جیسی بڑی شخصیت کے کاندھوں پر کھڑا ہوں۔ میں آرٹس کونسل کراچی کی انتظامیہ کا ممنون و شکر گزر ہوں کہ جنہوں نے آج کی تقریب سجائی۔ آج کی محفل میں آنے والوں کی اکثریت ان لوگوں پر مشتمل ہے کہ جن پر انوارزئی کے احسانات ہیں یا انوار احمد زئی نے ان سے فیض پایا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کتاب کی طباعت و اشاعت کا سہرا مسرور احمد زئی کے سر ہے کہ جنہوں نے کمالِ ہنرمندی سے اس کتاب کو ترتیب دیا ہے۔
ڈاکٹر مسرور احمد زئی نے کہا کہ وہ اپنے بڑے بھائی پروفیسر انوار احمد زئی کے نقشِ قدم پر گامزن ہیں جنہوں نے زندگی کے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دیے‘ وہ جس ادارے میں گئے اس ادارے کی عزت و توقیر میں اضافہ کیا ان کا پہلا افسانوی مجموعہ 1961 میں شائع ہوا۔ بادل جزیرے ان کا آخری تحفہ ہے یہ کتاب خاکہ نگاری کی تاریخ میں ایک سنگ میل ثابت ہوگی۔ میں اس کتاب کا کام اپنے بھائی کی زندگی میں ہی مکمل کر چکا تھا لیکن اس کی اشاعت جنوری 2021ء میں ممکن ہوئی۔ اس کتاب میں 33 شخصیات کے خاکے ہیں اور آخری خاکہ انوار بھائی کی بیوی پروفیسر نسیم نکہت سیما کا ہے شاید اسی سبب یہ کتاب تاخیر سے شائع ہوئی اس کتاب میں خاکوں کے پُر ناموں پر غالب سے استفادہ کیا گیا ہے اس کتاب کا سائز عام کتابوںسے ذرا بڑا رکھا گیا ہے تاکہ انفرادیت قائم رہے۔ امید ہے کہ یہ کتاب قارئین کے لیے مفید ہوگی۔ احمد شاہ نے کہا کہ انوار احمد میرے دوست تھے‘ وہ ایک قد آور شخصیت تھے۔ انہوں نے لوگوں کو آگے بڑھایا۔ مسرور احمد نے یہ کتاب شائع کرکے ان کے کام کو آگے بڑھایا ہے۔ رضوان صدیقی نے کہا کہ انوار زئی کی ہر تحریر مضبوط جملوں اور تازہ کاری سے مرصع ہے انہوں نے اس کتاب کی ہر سطر میں اپنی علمی قابلیت کے جوہر دکھائے ہیں‘ وہ قلم برداشتہ لکھنے کے ماہر تھے اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ مہتاب راشدی نے کہا کہ انوار زئی کے خاکوں کی خاصیت یہ ہے کہ ان میں کہیں بھی غلو نہیں ہے۔ ان خاکوں میں انوار زئی نے اپنی زندگی کے تجربات رقم کیے وہ اس دنیا میں نہیں رہے تاہم ان کا نام زندہ رہے گا۔ شفیق الرحمن پراچہ نے کہا کہ یہ کتاب تعلیم‘ فن اور ثقافت کی آئینہ دار ہے۔ انوار زئی محبتوں کے سفیر تھے‘ ان کی کتابیں اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔ محمود شام نے کہا کہ انوار زئی دینی و دنیاوی علوم پر دسترس رکھتے تھے۔ وہ کثیر المطالعہ انسان تھے۔ ’’بادل جزیرے‘‘ کی اشاعت سے خاکوں کی دنیا میں قابل قدر توسیع ہو رہی ہے۔ ان خاکوں میں پاکستان کی تاریخ نظر آتی ہے۔ پروفیسرڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی نے کہا کہ انوار زئی کی تخلیقی صلاحیتوں کا ہر شخص معترف ہے۔ ضیا الدین یونیورسٹی کراچی نے انوار زئی کی خدمات سے فائدہ اٹھایا اور بہت ترقی کی ان کی وفات ہمارے لیے ایک عظیم سانحہ ہے۔