اسد: یار بڑی زبردست انگلش فلم ہے، ضرور دیکھنا۔
عزیر: ابھی تو ضروری اسائنمنٹ کی تیاری کررہا ہوں، ویسے رمضان میں خاصا وقت مل جاتا ہے۔ بارہ بجے انسٹی ٹیوٹ سے واپس آجاتا ہوں۔ ظہر کی نماز کے بعد بالکل فارغ ہوتا ہوں۔ اچھا ہے وقت آسانی سے گزر جائے گا۔ ایک دو اور فلموں کے نام بھی بتانا۔
…٭…
انعم: شکر ہے صائمہ مان گئی، پانچویں کمیٹی مجھے مل جائے گی۔ رمضان سے پہلے زکوٰۃ بھی ادا ہوجائے گی اور عید کی تیاری بھی ہوجائے گی۔
ریحان (شوہر): ایک تو مجھے تمہاری سمجھ نہیں آئی۔ مشکل سے بچوں کی پڑھائی اور دوسرے اخراجات پورے ہورہے ہیں، پھر رمضان میں افطاری، سحری کا خرچا بڑھ جاتا ہے، عید پر اپنے اور بچوں کے کپڑے، دوسری تیاری… مہمان وغیرہ بھی آجاتے ہیں۔ تمہیں ہر صورت میں زکوٰۃ ادا کرنی ضروری ہوتی ہے۔ دوسرے لوگ زکوٰۃ دیتے ہیں؟ تم پورا حساب کتاب کرکے ہر سال زکوٰۃ کے لیے پیسے جمع کرتی ہو۔
انعم: ریحان پلیز آپ ایسی باتیں مت کیا کریں، مجھے آپ کی بات سن کر بہت افسوس ہوتا ہے۔ دوسرے دیں یا نہ دیں، ہر ایک کو اپنے اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔ ہم زندگی کی آسائشوں کے لیے رقم جمع کرتے ہیں، اور اللہ نے ہم کو بہت سی نعمتیں دی ہیں۔ گاڑی ہے، گھر ہے، میرے پاس زیور ہے، بچے بہترین اسکول میں پڑھ رہے ہیں۔ یہ زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہے۔
…٭…
ثمینہ: (بڑے جوش سے) میری کمیٹی نکلتی ہے تو میں کچھ نہ کچھ زیور خرید لیتی ہوں۔
ساجدہ: پھر اس پر ہر سال زکوٰۃ بھی تو نکالنی ہوگی۔
ثمینہ: زکوٰۃ کیوں؟ وہ تو میں اپنے استعمال کے لیے لیتی ہوں۔ یہ دیکھو (اس نے اپنی کلائیوں میں پہنی دو طلائی چوڑیوں کی طرف اشارہ کیا)۔ روزمرہ کا زیور پہننے سے گھستا ہے، زکوٰۃ تو اس کی نکل گئی۔
ساجدہ کو اپنی دوست کی بات پر بڑا افسوس ہوا۔ اس نے کہا: ثمینہ تم نے وہ روایت سنی یا پڑھی ہے کہ ایک خاتون نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی تو آپؐ نے اس سے سوال کیا تھا کہ ”کیا تم نے اس زیور کی زکوٰۃ ادا کی ہے؟“ (حالانکہ اس عورت نے زیور پہنا ہوا تھا) خاتون نے کہا ’’نہیں…‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’کیا تم کو اس سے ڈر نہیں لگتا کہ اللہ تم کو آگ کے کنگن پہنائے۔‘‘ میری بہن ثمینہ! زکوٰۃ نہ دینے والوں کے لیے قرآن پاک میں بھی قیامت کے دن سخت اور درد ناک عذاب کی خبر سنائی گئی ہے۔
…٭…
صبیحہ: ارے بھئی ایسی کیا مصروفیت ہے، فون بھی ریسیو نہیں کررہی ہو!
شہناز: یار کیا کروں، افطار بنانے میں آدھا دن گزر جاتا ہے، بس جیسے تیسے فرض نماز ہی پڑھ پاتی ہوں۔
صبیحہ: اتنا اہتمام کرنے کی کیا ضرورت ہے کہ پورا دن افطار اور سحری کی تیاری میں ہی نکل جائے! ایک آدھ ڈش بنا لیا کرو اور کچھ چیزیں جو فریز کرسکتی ہو، رمضان سے پہلے تیار کرلیا کرو۔ اس طرح تمہیں عبادت کے لیے خاصا وقت مل جائے گا۔ رمضان تو سال میں ایک مرتبہ ہی آتا ہے، اس کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے، اسے اس طرح ضائع تو نہ کیا کرو۔
…٭…
یہ چند جھلکیاں ہیں جو میں نے آس پاس دیکھیں اور آپ سے شیئر کیں۔ رمضان المبارک، جس کی اہمیت و فضیلت قرآن و احادیث سے واضح ہے، جس میں نہ صرف فرض و نفلی عبادات، بلکہ ہر نیکی کا درجہ افضل ہے۔ رمضان کو کس طرح گزاریں اس روایت سے واضح ہے: حضرت سلمانؓ کہتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے شعبان کی آخری تاریخ میں ہم لوگوں کو وعظ فرمایا کہ تمہارے اوپر ایک مہینہ آرہا ہے جو بہت بڑا مہینہ ہے، بہت مبارک مہینہ ہے، اس میں ایک رات ہے (شبِ قدر) ہے جو ہزاروں مہینوں سے بڑھ کر ہے۔ اللہ نے اس (رمضان) کے روزے کو فرض فرمایا ہے، اس میں رات کے قیام (یعنی تراویح) کو ثواب کی چیز بنایا ہے۔ جو شخص اس مہینے میں کسی نیکی کے ساتھ اللہ کا قرب حاصل کرتا ہے ایسا ہے جیسے کہ غیر رمضان میں فرض ادا کیا، اور جو شخص اس مہینے میں کسی فرض کو ادا کرے وہ ایسا ہے جیسے غیر رمضان میں ستّر فرض ادا کرے۔ یہ مہینہ
(باقی صفحہ نمبر 10)
صبر کا ہے، صبر کا بدلہ جنت ہے، اور یہ مہینہ لوگوں کے ساتھ غم خواری کرنے کا ہے۔ اس مہینے میں لوگوں کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ جو شخص کسی روزہ دار کا روزہ افطار کروائے اُس کے لیے گناہوں کے معاف ہونے اور گناہوں سے خلاصی کا سبب ہوگا، روزے دار کے ثواب کی مانند اس کو ثواب ہوگا مگر اس روزہ دار کے ثواب سے کچھ کم نہ ہوگا۔
صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے ہر شخص تو یہ وسعت نہیں رکھتا کہ روزہ دار کو افطار کرائے۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ (پیٹ بھر کر کھلانے پر موقوف نہیں) یہ ثواب تو اللہ تعالیٰ اس پر بھی مرحمت فرمائے گا کہ ایک کھجور سے کوئی افطار کرا دے، یا ایک گھونٹ لسی دے دے۔ یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس کا اوّل حصہ اللہ کی رحمت ہے، درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ آگ سے آزادی ہے۔
جو شخص اس مہینے میں ہلکا کردے اپنے غلام (یا خادم) کے بوجھ کو، حق تعالیٰ مغفرت فرماتے ہیں اور آگ سے آزاد فرماتے ہیں۔ چار چیزوں کی اس میں کثرت رکھا کرو جن میں سے دو چیزیں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہیں اور دو چیزیں ایسی ہیں کہ جن کے بغیر تمہارے لیے کوئی چارہ نہیں۔ پہلی دو چیزیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کرلو وہ کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت ہے، اور دوسری دو چیزیں یہ ہیں کہ جنت کی طلب کرو اور آگ سے پناہ مانگو۔ جو شخص کسی روزہ دار کو پانی پلائے حق تعالیٰ قیامت کے دن میرے حوض سے اس کو ایسا پانی پلائیں گے جس کے بعد جنت میں داخل ہونے تک پیاس نہیں لگے گی۔ (سبحان اللہ)
…٭…
یہ روایت جب میں نے پڑھی تو نہ صرف رمضان کی فضیلت و اہمیت واضح ہوگئی، بلکہ میرے نبیؐ نے اس ماہِ مبارک کو گزارنے کا طریقہ بھی واضح کردیا کہ کون کون سے اعمال کرنے ہیں۔ حقوق اللہ بلکہ حقوق العباد کی ادائیگی پر بھی زور دیا، خصوصاً اپنے ماتحتوں کے ساتھ برتائو کو بیان فرمایا۔ ہر نیکی کے اجر و ثواب کے درجے بیان کیے۔ مجھے محسوس ہوا کہ رمضان المبارک کو گزارنے اور اس مہینے کے اعمال کے بارے میں آپ نے پورا لائحہ عمل بیان کیا ہے۔ وہ لوگ جو رمضان المبارک کی بابرکت گھڑیوں سے اپنے آپ کو محروم رکھتے ہیں بڑے بدنصیب ہیں۔ صحابہ کرامؓ اس ماہِ مبارک میں اور تمام مواقع پر نیکی کے ہر کام کے لیے اپنے ساتھیوں سے ’’ریس‘‘ کرتے تھے اور حرص کرتے (نیکی کے کاموں میں ریس اور حرص جائز ہے).
جیسا کہ حضرت عبادہؓ کہتے ہیں: ایک مرتبہ آپؐ نے رمضان المبارک کے قریب ارشاد فرمایا کہ رمضان کا مہینہ آگیا ہے جو بڑی برکتوں والا ہے، حق تعالیٰ اس میں تمہاری طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اپنی رحمتِ خاص نازل فرماتے ہیں، خطائوں کو معاف فرماتے ہیں، تمہارے ’’تنافس‘‘ کو دیکھتے ہیں اور ملائکہ سے فخر کرتے ہیں۔ پس اللہ کو اپنی نیکی دکھلائو۔ بدنصیب ہے وہ شخص جو اس مہینے میں اللہ کی رحمت سے محروِم رہا۔
نوٹ: ’’تنافس‘‘ اسے کہتے ہیں کہ دوسرے کی ’’حرص‘‘ میں کام کیا جائے، اور اس مقابلے پر دوسرے سے بڑھ چڑھ کر کام کیا جائے جس میں دکھاوا اور نمود و نمائش کی نیت نہ ہو۔)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعینؓ عام دنوں میں بھی نیکیوں کے حصول میں سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے، اور اس ماہِ مبارک جس کی فضیلت بے انتہا ہے، اس میں ان کی حرص کی کیا بات تھی۔ جیب میں چند دینار ہوتے جو اپنے خرچ کے لیے بھی ناکافی ہوتے، لیکن راہِ خدا میں خرچ کردیتے کہ مزید نیکیوں کی برسات ہو (سبحان اللہ)۔ ہمیں بھی نیکیوں کے حصول کے لیے اس طرح حرص کرنی چاہیے۔
اس ماہِ مبارک کے شب و روز میں ایک دعا ضرور قبول ہوتی ہے، لہٰذا دعا کو معمول بنالیں، اپنی اور دوسروں کی دنیا و آخرت کی بھلائی کے لیے خصوصی دعائوں کا اہتمام ضرور رکھیں۔ کچھ روایات میں افطار کی دعا کی قبولیت کے بارے میں بھی فرمایا گیا ہے۔ لوگ افطار میں کھانے پینے میں اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ دعا کی یہ اہم گھڑی گزر جاتی ہے۔ اس وقت کو دعا کے لیے قیمتی سمجھ کر رب العزت سے گڑگڑا کر مانگیں۔ میرا رب تو ویسے ہی ہر ماہ میں ہر گھڑی میں ہم گناہ گاروں کی سنتا ہے، اپنی بے شمار نعمتوں سے نوازتا ہے، پھر وہ اس ماہِ مبارک میں ہمیں کیسے محروم کرے گا! اگر کوئی دعا مصلحتاً قبول نہیں ہوتی اس گھڑی، تو اس کا صلہ ہمیں آخرت میں ملے گا۔ میرا اللہ بڑا ’’حیا‘‘ والا ہے، وہ کیسے ہماری دعائوں کو رد کر سکتا ہے! وہ ہمیں اپنی نعمتوں سے، اپنی رحمتوں سے کیسے دور کرسکتا ہے! غرض کہ اس ماہِ مبارکہ کی برکتوں اور رحمتوں سے اپنا دامن بھر لیں۔ رب العالمین کی بارگاہ میں جتنا بھی ممکن ہو سربسجود ہوں، تسبیح و دعا کو معمول بنا لیں، چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بھی نہ چھوڑیں، اللہ کے بندوں کو خلوصِ دل سے آسانیاں دینے کی کوشش کریں، ماتحتوں اور ضرورت مندوں کو دینے سے اپنے ہاتھ کو مت روکیں۔
اس ماہِ مبارک میں صرف نیک اعمال سے ہی اپنا دامن نہ بھریں بلکہ اپنی ذات کو ہر برائی اور گناہ سے بھی بچائیں۔ یہ بھی بڑی نیکی ہے۔ جیسا کہ میں نے مضمون کے شروع میں مثال دی ہے لوگ اپنا وقت گزارنے کے لیے اس قسم کی سرگرمیوں میں خود کو مصروف رکھتے ہیں، یہ سراسر اپنی ذات پر ظلم ہے۔ معاشرے میں اپنے آس پاس نظر دوڑائیں تو بہت سی برائیاں ماہِ رمضان میں روزہ دار بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ ذخیرہ اندوزی کرکے رمضان المبارک میں مال زائد قیمتوں پر فروخت کرتے ہیں، ناقص مال کو صحیح مال کے ساتھ اس طرح ملا کر فروخت کیا جاتا ہے کہ خریدار کو معلوم نہ ہوسکے۔ رشوت، دھوکے بازی… یہ تمام برائیاں اس ماہِ مبارکہ میں بھی نظر آتی ہیں۔
برائیوں سے اپنا دامن بچانا سب سے بڑی نیکی ہے۔ اکثر غیر ممالک میں کچھ ایسے غیر مسلموں کو بھی میں نے دیکھا جو رمضان کے احترام کی وجہ سے دن میں سرِعام لوگوں کے سامنے کھانے پینے سے گریز کرتے ہیں۔ جب کہ ہم الحمدللہ مسلمان ہیں، ہمارے درمیان قرآن و سنت کے واضح احکامات ہیں، ان کے مطابق اپنی ذات کو ڈھال لیں تو دنیا و آخرت سنور جائے گی۔اللہ ہم سب کو رمضان کی مبارک گھڑیوں میں رحمتیں و برکتیں سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمین یارب العالمین۔
nn