ہارون رشید مسلمانوں کا ایک بہت بڑا بادشاہ گزرا ہے۔ اس کے بیٹے کا نام مامون تھا۔ مامون کی پرورش بڑے لاڈ پیار سے ہوئی تھی۔ ایک تو شہزادہ، دوسرے حد سے زیادہ لاڈ پیار۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مامون بہت شریر ہو گیا… شاہی محل کے تمام نوکر چاکر اس کی شرارت سے عاجز تھے۔ بڑے بڑوں کو پیٹ دیتا۔ سب خاموشی سے اس کی مار پیٹ برداشت کر لیتے۔ جس سے وہ اور زیادہ بگڑ گیا۔ کسی کی پروا نہیں کرتا تھا۔ ڈر تو اسے چھو نہیں گیا تھا۔ جب دیکھوں توڑ پھوڑ میں مصروف۔
مامون جب ذرا بڑا ہوا تو اس کی تعلیم کے لیے ایک استاد رکھ دیئےگئے۔ استاد پڑھانے کے لیے شاہی محل گئے۔ مامون کو آواز دی،مگر وہ کھیل میں مصروف تھا، استاد کی آواز پر باہر نہ نکلا، ملازموں سے بلوایا مگر مامون نے پروا نہ کی۔ ملازموں نے آکر شکایت کی کہ وہ کسی کی نہیں سنتا ہم لوگوں کو مارپیٹ دیا کرتا ہے۔ کیا کریں خاموشی سے برداشت کر لیتے ہیں۔
استاد مامون کی بد دماغی سمجھ گئے۔ کسی طرح اس کو باہر بلایا۔ جب وہ آگیا تو اسے ساتھ بیدگن کر رسید کئے۔ مامون بلبلا اٹھا۔ آج تک اس نے کسی کی مار برداشت نہیں کی تھی۔ مگر استاد کے ادب سے اف بھی نہیں کی۔ آنسو بہا کر چپ ہو گیا۔
اتنے میں ادھر سے وزیر آنکلا، مامون ادب سے چپکا بیٹھا پڑھتا رہا۔ جب وزیر چلا گیا تو استاد نے کہا:
’’مامون! تم نے وزیر سے مار کی شکایت نہیں کی؟‘‘
مامون نے کہا: ’’اچھے استاد! آپ نے مجھے میری بھلائی کے لیے مارا تھا۔ میں کسی سے شکایت کیوں کرتا۔ وزیر تو بھلا وزیر ہیں۔ خود میرے والد بزرگوار جو بادشاہ ہیں۔ اگر وہ تشریف لاتے، یا مجھ سے پوچھتے تو بھی میں شکایت نہ کرتا۔‘‘
nn